الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: انبیاء علیہم السلام کے بیان میں
The Book of The Stories of The Prophets
19. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {لَقَدْ كَانَ فِي يُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ آيَاتٌ لِلسَّائِلِينَ} :
19. باب: (یوسف علیہ السلام کا بیان) اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ”بیشک یوسف اور ان کے بھائیوں کے واقعات میں پوچھنے والوں کیلئے قدرت کی بہت سی نشانیاں ہیں“۔
(19) Chapter. The Statement of Allah: “Verily, in Yasuf (Joseph) and his brethren there were Ayat (proofs, evidences, verses, lessons, signs, revelation, etc.) for those who ask." (V.12:7)
حدیث نمبر: 3388
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن سلام، اخبرنا ابن فضيل، حدثنا حصين، عن شقيق، عن مسروق، قال: سالت ام رومان وهي ام عائشة عما قيل فيها ما قيل قالت: بينما انا مع عائشة جالستان إذ ولجت علينا امراة من الانصار وهي تقول: فعل الله بفلان وفعل، قالت: فقلت لم؟ قالت: إنه نما ذكر الحديث، فقالت عائشة: اي حديث فاخبرتها، قالت: فسمعه ابو بكر ورسول الله صلى الله عليه وسلم، قالت: نعم فخرت مغشيا عليها فما افاقت إلا وعليها حمى بنافض فجاء النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: ما لهذه، قلت: حمى اخذتها من اجل حديث تحدث به فقعدت، فقالت: والله لئن حلفت لا تصدقوني ولئن اعتذرت لا تعذروني فمثلي ومثلكم كمثل يعقوب وبنيه فالله المستعان على ما تصفون، فانصرف النبي صلى الله عليه وسلم فانزل الله ما انزل فاخبرها، فقالت: بحمد الله لا بحمد احد".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَامٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: سَأَلْتُ أُمَّ رُومَانَ وَهِيَ أُمُّ عَائِشَةَ عَمَّا قِيلَ فِيهَا مَا قِيلَ قَالَتْ: بَيْنَمَا أَنَا مَعَ عَائِشَةَ جَالِسَتَانِ إِذْ وَلَجَتْ عَلَيْنَا امْرَأَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ وَهِيَ تَقُولُ: فَعَلَ اللَّهُ بِفُلَانٍ وَفَعَلَ، قَالَتْ: فَقُلْتُ لِمَ؟ قَالَتْ: إِنَّهُ نَمَا ذِكْرَ الْحَدِيثِ، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: أَيُّ حَدِيثٍ فَأَخْبَرَتْهَا، قَالَتْ: فَسَمِعَهُ أَبُو بَكْرٍ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: نَعَمْ فَخَرَّتْ مَغْشِيًّا عَلَيْهَا فَمَا أَفَاقَتْ إِلَّا وَعَلَيْهَا حُمَّى بِنَافِضٍ فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَا لِهَذِهِ، قُلْتُ: حُمَّى أَخَذَتْهَا مِنْ أَجْلِ حَدِيثٍ تُحُدِّثَ بِهِ فَقَعَدَتْ، فَقَالَتْ: وَاللَّهِ لَئِنْ حَلَفْتُ لَا تُصَدِّقُونِي وَلَئِنْ اعْتَذَرْتُ لَا تَعْذِرُونِي فَمَثَلِي وَمَثَلُكُمْ كَمَثَلِ يَعْقُوبَ وَبَنِيهِ فَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ، فَانْصَرَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ مَا أَنْزَلَ فَأَخْبَرَهَا، فَقَالَتْ: بِحَمْدِ اللَّهِ لَا بِحَمْدِ أَحَدٍ".
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو محمد بن فضیل نے خبر دی ‘ کہا ہم سے حصین نے بیان کیا ‘ ان سے سفیان نے ‘ ان سے مسروق نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی والدہ ام رومان رضی اللہ عنہا سے عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں جو بہتان تراشا گیا تھا اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی کہ ایک انصاریہ عورت ہمارے یہاں آئی اور کہا کہ اللہ فلاں (مسطح بن اثاثہ) کو تباہ کر دے اور وہ اسے تباہ کر بھی چکا انہوں نے بیان کیا کہ میں نے کہا آپ یہ کیا کہہ رہی ہیں انہوں نے بتایا کہ اسی نے تو یہ جھوٹ مشہور کیا ہے۔ پھر انصاریہ عورت نے (عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت کا سارا) واقعہ بیان کیا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے (اپنی والدہ سے) پوچھا کہ کون سا واقعہ؟ تو ان کی والدہ نے انہیں واقعہ کی تفصیل بتائی۔ عائشہ نے پوچھا کہ کیا یہ قصہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی معلوم ہو گیا ہے؟ ان کی والدہ نے بتایا کہ ہاں۔ یہ سنتے ہی عائشہ رضی اللہ عنہا بیہوش ہو کر گر پڑیں اور جب ہوش آیا تو جاڑے کے ساتھ بخار چڑھا ہوا تھا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور دریافت فرمایا کہ انہیں کیا ہوا؟ میں نے کہا کہ ایک بات ان سے ایسی کہی گئی تھی اور اسی کے صدمے سے ان کو بخار آ گیا ہے۔ پھر عائشہ رضی اللہ عنہا اٹھ کر بیٹھ گئیں اور کہا اللہ کی قسم! اگر میں قسم کھاؤں جب بھی آپ لوگ میری بات نہیں مان سکتے اور اگر کوئی عذر بیان کروں تو اسے بھی تسلیم نہیں کر سکتے۔ بس میری اور آپ لوگوں کی مثال یعقوب علیہ السلام اور ان کے بیٹوں کی سی ہے (کہ انہوں نے اپنے بیٹوں کی من گھڑت کہانی سن کر فرمایا تھا کہ) جو کچھ تم کہہ رہے ہو میں اس پر اللہ ہی کی مدد چاہتا ہوں۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لے گئے اور اللہ تعالیٰ کو جو کچھ منظور تھا وہ نازل فرمایا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی خبر عائشہ رضی اللہ عنہا کو دی تو انہوں نے کہا کہ اس کے لیے میں صرف اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کسی اور کا نہیں۔

Narrated Masruq: I asked Um Ruman, `Aisha's mother about the accusation forged against `Aisha. She said, "While I was sitting with `Aisha, an Ansari woman came to us and said, 'Let Allah condemn such-and-such person.' I asked her, 'Why do you say so?' She replied, 'For he has spread the (slanderous) story.' `Aisha said, 'What story?' The woman then told her the story. `Aisha asked, 'Have Abu Bakr and Allah's Apostle heard about it ?' She said, 'Yes.' `Aisha fell down senseless (on hearing that), and when she came to her senses, she got fever and shaking of the body. The Prophet came and asked, 'What is wrong with her?' I said, 'She has got fever because of a story which has been rumored.' `Aisha got up and said, 'By Allah! Even if I took an oath, you would not believe me, and if I put forward an excuse, You would not excuse me. My example and your example is just like that example of Jacob and his sons. Against that which you assert, it is Allah (Alone) Whose Help can be sought.' (12.18) The Prophet left and then Allah revealed the Verses (concerning the matter), and on that `Aisha said, 'Thanks to Allah (only) and not to anybody else."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 4, Book 55, Number 602


   صحيح البخاري4143زينب بنت عبد دهمانبينا أنا قاعدة أنا وعائشة إذ ولجت امرأة من الأنصار فقالت فعل الله بفلان وفعل فقالت أم رومان وما ذاك قالت ابني فيمن حدث الحديث قالت وما ذاك قالت كذا وكذا قالت عائشة سمع رسول الله قالت نعم قالت وأبو بكر قالت نعم فخرت مغشيا علي
   صحيح البخاري3388زينب بنت عبد دهمانبحمد الله لا بحمد أحد
   صحيح البخاري4691زينب بنت عبد دهمانلعل في حديث تحدث

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3388  
´بیشک یوسف اور ان کے بھائیوں کے واقعات میں پوچھنے والوں کیلئے قدرت کی بہت سی نشانیاں ہیں`
«. . .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَامٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: سَأَلْتُ أُمَّ رُومَانَ وَهِيَ أُمُّ عَائِشَةَ عَمَّا قِيلَ فِيهَا مَا قِيلَ قَالَتْ: بَيْنَمَا أَنَا مَعَ عَائِشَةَ جَالِسَتَانِ إِذْ وَلَجَتْ عَلَيْنَا امْرَأَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ وَهِيَ تَقُولُ: فَعَلَ اللَّهُ بِفُلَانٍ وَفَعَلَ، قَالَتْ: فَقُلْتُ لِمَ؟ . . .»
. . .ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو محمد بن فضیل نے خبر دی ‘ کہا ہم سے حصین نے بیان کیا ‘ ان سے سفیان نے ‘ ان سے مسروق نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی والدہ ام رومان رضی اللہ عنہا سے عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں جو بہتان تراشا گیا تھا اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی کہ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ: 3388]

باب اور حدیث میں مناسبت
صحیح بخاری کا باب: «بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {لَقَدْ كَانَ فِي يُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ آيَاتٌ لِلسَّائِلِينَ}
ترجمۃ الباب میں امام عالی مقام امام بخاری رحمہ اللہ نے یوسف علیہ السلام کا ذکر فرمایا اور تحت الباب میں جس حدیث کا ذکر فرمایا ہے، اس میں واضح طور پر یوسف علیہ السلام کا ذکر نہیں ہے، بلکہ اشارۃً ان کا ذکر ہے، علامہ عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ:
«حديث ام رومان اورده هنا القول عائشة فيه: فمثلي ومثلك كمثل يعقوب وبنيه، فان يوسف داخل فيهم .»
یعنی امام رومان رضی اللہ عنہا کی حدیث کا باب سے تعلق عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس قول میں ہے کہ میری اور آپ کی مثال یعقوب علیہ السلام اور ان کے بیٹوں کی سی ہے، پس ان کے بیٹوں میں یوسف علیہ السلام داخل ہیں۔
مزید اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کے دوسرے طرق کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں، جس میں امی عائشہ رضی اللہ عنہا کے الفاظ کچھ اس طرح کے ہیں، مجھے یعقوب علیہ السلام کا نام یاد نہیں آیا تو میں نے یوسف علیہ السلام کے والد کہہ دیا۔
لہٰذا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔
فائدہ:۔
خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے ایک اشکال مذکورہ حدیث کی سند پر لگایا ہے، کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے «مسروق عن ام رومان» کہ واسطے سے جو حدیث الافک روایت کی ہے، اس کو مسروق نے ام رومان رضی اللہ عنہا سے نہیں سنا، کیوں کہ ام رومان رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دورمیں انتقال فرما گئی تھیں، اور اس وقت مسروق چھ سال کے تھے، اس لئے مسروق کی روایت ام رومان رضی اللہ عنہا سے کس طرح درست ہو سکتی ہے؟ پس یہ علت روایت میں موجود ہے،
خطیب صاحب کے الفاظ یہ ہیں کہ:
«وخفيت هذه العلة على البخاري رحمه الله .»
پس یہ علت اس میں موجود ہے، جو امام بخاری رحمہ اللہ پر مخفی رہی۔
اس تنقید کہ ہم پیالہ کئی متاخرین کی جماعت بنی، لیکن اگر تحقیقی نگاہ سے دیکھا جائے تو خطیب بغدادی رحمہ اللہ کا موقف کمزور ہے، بلکہ صحیح بات ان سے مخفی رہی، نہ کہ امام بخاری رحمہ اللہ پر۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ، امام بخاری رحمہ اللہ کی تحقیق کے قائل تھے، بلکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے خطیب رحمہ اللہ کا واضح طور پر رد فرمایا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:
جس روایت سے ام رومان کا ۶ ھ میں انتقال ثابت کیا جاتا ہے، اس میں ایک سیئی الحفظ راوی زید بن جدعان ہے، چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے تاریخ الصغیر اور تاریخ الاوسط میں اس کی نقل کردہ روایت کو ضعیف قرار دیا ہے اور «فيه نظر» فرما کر اس کا رد فرما دیا۔
مزید حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے محدث ابراہیم حربی رحمہ اللہ کا قول بھی نقل فرمایا ہے تاکہ مسروق اور ام رومان رضی اللہ عنہا کے انقطاع کا خدشہ دور ہو جائے اور ان کی لقاء و سماع ثابت ہو جائے۔
«وقد جزم ابراهيم الحربي الحافظ باٴن مسروقآ انما سمع من ام رومان فى خلافة عمر رضي الله عنه»
یقیناًً ابراہیم حربی نے جزم کے ساتھ ثابت فرمایا ہے کہ مسروق نے ام رومان سے خلافت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں سماعت فرمایا ہے۔
لہٰذا امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ کا بھی یہاں بآسانی رد ہوتا ہے کیونکہ آپ بھی خطیب بغدادی رحمہ اللہ کے ہم پیالہ تھے، اس مسئلے میں امام ابونعیم الاصفھانی رحمہ اللہ نے فرمایا: جو یہ کہتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں وہ انتقال کر گئی تھیں، تو اسے وہم ہو گیا ہے۔
«عاشت ام رومان بعد نبي صلى الله عليه وسلم دهرا»
یعنی ام رومان رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کئی سال زندہ رہیں۔
ان اقتباسات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ، ام رومان رضی اللہ عنہا کا سماع امام مسروق رحمہ اللہ سے ثابت ہے، لہٰذا خطیب بغدادی رحمہ اللہ کا اعتراض کالعدم ٹھرا، مزید تفصیل کے لئے مراجعت کیجئے: [التوضيح لشرح الجامع الصحيح لابن الملقن: 19 / 38۔ 439]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 27   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3388  
3388. حضرت مسروق سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی والدہ ماجدہ حضرت اُم رومان رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے صدیقہ کائنات پر لگائے گئے بہتان کے متعلق پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ میں ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہمراہ بیٹھی ہوئی تھی کہ ایک انصاری عورت آئی اور کہنے لگی: اللہ تعالیٰ فلاں کو تباہ کرے اور وہ تباہ ہو بھی چکا۔ میں نے کہا: کیوں؟ انھوں نےبتایا کہ اسی نے تو یہ(جھوٹی)بات مشہور کی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پوچھا: کون سی بات؟ پھر اس نے تمام واقعہ بیان کیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پوچھا: کیا وہ واقعہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور رسول اللہ ﷺ کو بھی معلوم ہو گیا ہے؟ ان کی والدہ نے بتایا کہ ہاں۔ یہ سنتے ہی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بے ہوش ہو کر گر پڑیں۔ جب ہوش آیا تو سردی اور کپکپی کے ساتھ بخار چڑھا ہوا تھا۔ نبی ﷺ تشریف لائے تو فرمایا: انھیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3388]
حدیث حاشیہ:
حضرت یوسف اور ان کے بھائیوں کے ذکر سے ترجمہ باب نکلتا ہے اور شاید امام بخاری ؒنے اس حدیث کے دوسرے طریق کی طرف بھی اشارہ کیا ہو جس میں یوں ہے کہ حضرت عائشہ ؒنے دوران گفتگو یوں کہا کہ مجھ کو حضرت یعقوب ؑ کا نام یاد نہ آیا تو میں نے یوسف ؑ کا باپ کہہ دیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 3388   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3388  
3388. حضرت مسروق سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے اُم المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی والدہ ماجدہ حضرت اُم رومان رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے صدیقہ کائنات پر لگائے گئے بہتان کے متعلق پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ میں ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہمراہ بیٹھی ہوئی تھی کہ ایک انصاری عورت آئی اور کہنے لگی: اللہ تعالیٰ فلاں کو تباہ کرے اور وہ تباہ ہو بھی چکا۔ میں نے کہا: کیوں؟ انھوں نےبتایا کہ اسی نے تو یہ(جھوٹی)بات مشہور کی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پوچھا: کون سی بات؟ پھر اس نے تمام واقعہ بیان کیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پوچھا: کیا وہ واقعہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور رسول اللہ ﷺ کو بھی معلوم ہو گیا ہے؟ ان کی والدہ نے بتایا کہ ہاں۔ یہ سنتے ہی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بے ہوش ہو کر گر پڑیں۔ جب ہوش آیا تو سردی اور کپکپی کے ساتھ بخار چڑھا ہوا تھا۔ نبی ﷺ تشریف لائے تو فرمایا: انھیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:3388]
حدیث حاشیہ:

اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسروق کا اُم رومان رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سماع ثابت ہے چنانچہ ایک روایت میں ہےکہ مجھ سے اُم رومان رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بیان کیا۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4691)
اس لیے یہ کہنا کہ مسروق کا سماع رومان رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ثابت نہیں محل نظر ہے۔

اس حدیث میں برادران یوسف کا ذکر ہے۔
اس لیے امام بخاری ؒ نے اسے یہاں ذکر کیا ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے آپ نے اس حدیث کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کیا ہو جس میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا:
مجھے دوران گفتگو میں حضرت یعقوب ؑ کا نام یاد نہ آیا تو میں نے یوسف کا باپ کہہ دیا۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4141)
حضرت یعقوب ؑ کے سامنے جب برادران یوسف نے جعلی خون سے آلودہ قمیص پیش کی اور کہا:
یوسف کو بھیڑیے نے لقمہ بنا لیا ہے تو انھوں نے اپنے بیٹوں کو کچھ نہ کہا اور نہ انھیں کوئی طعن و ملامت ہی کی۔
کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ کوئی غلط حرکت کر بیٹھیں صرف اتنا ہی کہا:
میری فریاد تو اللہ ہی سے ہے اور میں اسی سے مدد چاہتا ہوں۔
امی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے بھی اللہ ہی سے فریاد کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی براءت میں قرآن مجید کی اٹھارہ آیات نازل فرمائیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 3388   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.