الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
The Book of As-Salat (The Prayer)
1. بَابُ كَيْفَ فُرِضَتِ الصَّلاَةُ فِي الإِسْرَاءِ:
1. باب: اس بارے میں کہ شب معراج میں نماز کس طرح فرض ہوئی؟
(1) Chapter. How As-Salat (the prayer) was prescribed on the night of Al-Isra (miraculous night journey) of the Prophet ﷺ to Jerusalem (and then to the heavens).
حدیث نمبر: Q349
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقال ابن عباس: حدثني ابو سفيان في حديث هرقل، فقال: يامرنا يعني النبي صلى الله عليه وسلم بالصلاة والصدق والعفاف.وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: حَدَّثَنِي أَبُو سُفْيَانَ فِي حَدِيثِ هِرَقْلَ، فَقَالَ: يَأْمُرُنَا يَعْنِي النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالصَّلَاةِ وَالصِّدْقِ وَالْعَفَافِ.
‏‏‏‏ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ہم سے ابوسفیان بن حرب نے بیان کیا حدیث ہرقل کے سلسلہ میں کہا کہ وہ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے، سچائی اختیار کرنے اور حرام سے بچے رہنے کا حکم دیتے ہیں۔

حدیث نمبر: 349
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا يحيى بن بكير، قال: حدثنا الليث، عن يونس، عن ابن شهاب، عن انس بن مالك، قال: كان ابو ذر يحدث، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" فرج عن سقف بيتي وانا بمكة، فنزل جبريل صلى الله عليه وسلم ففرج صدري، ثم غسله بماء زمزم، ثم جاء بطست من ذهب ممتلئ حكمة وإيمانا، فافرغه في صدري، ثم اطبقه، ثم اخذ بيدي فعرج بي إلى السماء الدنيا، فلما جئت إلى السماء الدنيا، قال جبريل لخازن السماء: افتح، قال: من هذا؟ قال: هذا جبريل، قال: هل معك احد؟ قال: نعم، معي محمد صلى الله عليه وسلم، فقال: ارسل إليه؟ قال: نعم، فلما فتح علونا السماء الدنيا، فإذا رجل قاعد على يمينه اسودة وعلى يساره اسودة، إذا نظر قبل يمينه ضحك وإذا نظر قبل يساره بكى، فقال: مرحبا بالنبي الصالح والابن الصالح، قلت لجبريل: من هذا؟ قال: هذا آدم، وهذه الاسودة عن يمينه وشماله نسم بنيه، فاهل اليمين منهم اهل الجنة والاسودة التي عن شماله اهل النار؟ فإذا نظر عن يمينه ضحك، وإذا نظر قبل شماله بكى حتى عرج بي إلى السماء الثانية، فقال لخازنها: افتح، فقال له خازنها مثل ما قال الاول، ففتح، قال انس: فذكر انه وجد في السموات آدم، وإدريس، وموسى، وعيسى، وإبراهيم صلوات الله عليهم، ولم يثبت كيف منازلهم، غير انه ذكر انه وجد آدم في السماء الدنيا، وإبراهيم في السماء السادسة، قال انس: فلما مر جبريل بالنبي صلى الله عليه وسلم بإدريس، قال: مرحبا بالنبي الصالح والاخ الصالح، فقلت: من هذا؟ قال: هذا إدريس، ثم مررت بموسى، فقال: مرحبا بالنبي الصالح والاخ الصالح، قلت: من هذا؟ قال: هذا موسى، ثم مررت بعيسى، فقال: مرحبا بالاخ الصالح والنبي الصالح، قلت: من هذا؟ قال: هذا عيسى، ثم مررت بإبراهيم، فقال: مرحبا بالنبي الصالح والابن الصالح، قلت: من هذا؟ قال هذا إبراهيم عليه وسلم، قال ابن شهاب: فاخبرني ابن حزم، انابن عباس، وابا حبة الانصاري كانا يقولان: قال النبي صلى الله عليه وسلم: ثم عرج بي حتى ظهرت لمستوى اسمع فيه صريف الاقلام، قال ابن حزم، وانس بن مالك: قال النبي صلى الله عليه وسلم: ففرض الله على امتي خمسين صلاة، فرجعت بذلك حتى مررت على موسى، فقال: ما فرض الله لك على امتك؟ قلت: فرض خمسين صلاة، قال: فارجع إلى ربك، فإن امتك لا تطيق ذلك، فراجعت فوضع شطرها، فرجعت إلى موسى، قلت: وضع شطرها، فقال: راجع ربك، فإن امتك لا تطيق، فراجعت: فوضع شطرها، فرجعت إليه، فقال: ارجع إلى ربك فإن امتك لا تطيق ذلك، فراجعته، فقال: هي خمس وهي خمسون لا يبدل القول لدي، فرجعت إلى موسى، فقال: راجع ربك، فقلت: استحييت من ربي، ثم انطلق بي حتى انتهى بي إلى سدرة المنتهى، وغشيها الوان لا ادري ما هي، ثم ادخلت الجنة فإذا فيها حبايل اللؤلؤ وإذا ترابها المسك".(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كَانَ أَبُو ذَرٍّ يُحَدِّثُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" فُرِجَ عَنْ سَقْفِ بَيْتِي وَأَنَا بِمَكَّةَ، فَنَزَلَ جِبْرِيلُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَفَرَجَ صَدْرِي، ثُمَّ غَسَلَهُ بِمَاءِ زَمْزَمَ، ثُمَّ جَاءَ بِطَسْتٍ مِنْ ذَهَبٍ مُمْتَلِئٍ حِكْمَةً وَإِيمَانًا، فَأَفْرَغَهُ فِي صَدْرِي، ثُمَّ أَطْبَقَهُ، ثُمَّ أَخَذَ بِيَدِي فَعَرَجَ بِي إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، فَلَمَّا جِئْتُ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا، قَالَ جِبْرِيلُ لِخَازِنِ السَّمَاءِ: افْتَحْ، قَالَ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: هَذَا جِبْرِيلُ، قَالَ: هَلْ مَعَكَ أَحَدٌ؟ قَالَ: نَعَمْ، مَعِي مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أُرْسِلَ إِلَيْهِ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَلَمَّا فَتَحَ عَلَوْنَا السَّمَاءَ الدُّنْيَا، فَإِذَا رَجُلٌ قَاعِدٌ عَلَى يَمِينِهِ أَسْوِدَةٌ وَعَلَى يَسَارِهِ أَسْوِدَةٌ، إِذَا نَظَرَ قِبَلَ يَمِينِهِ ضَحِكَ وَإِذَا نَظَرَ قِبَلَ يَسَارِهِ بَكَى، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالِابْنِ الصَّالِحِ، قُلْتُ لِجِبْرِيلَ: مَنْ هَذَا؟ قَال: هَذَا آدَمُ، وَهَذِهِ الْأَسْوِدَةُ عَنْ يَمِينِهِ وَشِمَالِهِ نَسَمُ بَنِيهِ، فَأَهْلُ الْيَمِينِ مِنْهُمْ أَهْلُ الْجَنَّةِ وَالْأَسْوِدَةُ الَّتِي عَنْ شِمَالِهِ أَهْلُ النَّارِ؟ فَإِذَا نَظَرَ عَنْ يَمِينِهِ ضَحِكَ، وَإِذَا نَظَرَ قِبَلَ شِمَالِهِ بَكَى حَتَّى عَرَجَ بِي إِلَى السَّمَاءِ الثَّانِيَةِ، فَقَالَ لِخَازِنِهَا: افْتَحْ، فَقَالَ لَهُ خَازِنِهَا مِثْلَ مَا قَالَ الْأَوَّلُ، فَفَتَحَ، قَالَ أَنَسٌ: فَذَكَرَ أَنَّهُ وَجَدَ فِي السَّمَوَات آدَمَ، وَإِدْرِيسَ، وَمُوسَى، وَعِيسَى، وَإِبْرَاهِيمَ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِمْ، وَلَمْ يُثْبِتْ كَيْفَ مَنَازِلُهُمْ، غَيْرَ أَنَّهُ ذَكَرَ أَنَّهُ وَجَدَ آدَمَ فِي السَّمَاءِ الدُّنْيَا، وَإِبْرَاهِيمَ فِي السَّمَاءِ السَّادِسَةِ، قَالَ أَنَسٌ: فَلَمَّا مَرَّ جِبْرِيلُ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِإِدْرِيسَ، قَالَ: مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالْأَخِ الصَّالِحِ، فَقُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: هَذَا إِدْرِيسُ، ثُمَّ مَرَرْتُ بِمُوسَى، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالْأَخِ الصَّالِحِ، قُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: هَذَا مُوسَى، ثُمَّ مَرَرْتُ بِعِيسَى، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِالْأَخِ الصَّالِحِ وَالنَّبِيِّ الصَّالِحِ، قُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ: هَذَا عِيسَى، ثُمَّ مَرَرْتُ بِإِبْرَاهِيمَ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِالنَّبِيِّ الصَّالِحِ وَالِابْنِ الصَّالِحِ، قُلْتُ: مَنْ هَذَا؟ قَالَ هَذَا إِبْرَاهِيمُ عليه وسلم، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: فَأَخْبَرَنِي ابْنُ حَزْمٍ، أَنَّابْنَ عَبَّاسٍ، وَأَبَا حَبَّةَ الْأَنْصَارِيَّ كَانَا يَقُولَانِ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ثُمَّ عُرِجَ بِي حَتَّى ظَهَرْتُ لِمُسْتَوًى أَسْمَعُ فِيهِ صَرِيفَ الْأَقْلَامِ، قَالَ ابْنُ حَزْمٍ، وَأَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَفَرَضَ اللَّهُ عَلَى أُمَّتِي خَمْسِينَ صَلَاةً، فَرَجَعْتُ بِذَلِكَ حَتَّى مَرَرْتُ عَلَى مُوسَى، فَقَالَ: مَا فَرَضَ اللَّهُ لَكَ عَلَى أُمَّتِكَ؟ قُلْتُ: فَرَضَ خَمْسِينَ صَلَاةً، قَالَ: فَارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ، فَإِنَّ أُمَّتَكَ لَا تُطِيقُ ذَلِكَ، فَرَاجَعْتُ فَوَضَعَ شَطْرَهَا، فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى، قُلْتُ: وَضَعَ شَطْرَهَا، فَقَالَ: رَاجِعْ رَبَّكَ، فَإِنَّ أُمَّتَكَ لَا تُطِيقُ، فَرَاجَعْتُ: فَوَضَعَ شَطْرَهَا، فَرَجَعْتُ إِلَيْهِ، فَقَالَ: ارْجِعْ إِلَى رَبِّكَ فَإِنَّ أُمَّتَكَ لَا تُطِيقُ ذَلِكَ، فَرَاجَعْتُهُ، فَقَالَ: هِيَ خَمْسٌ وَهِيَ خَمْسُونَ لَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ، فَرَجَعْتُ إِلَى مُوسَى، فَقَالَ: رَاجِعْ رَبَّكَ، فَقُلْتُ: اسْتَحْيَيْتُ مِنْ رَبِّي، ثُمَّ انْطَلَقَ بِي حَتَّى انْتَهَى بِي إِلَى سِدْرَةِ الْمُنْتَهَى، وَغَشِيَهَا أَلْوَانٌ لَا أَدْرِي مَا هِيَ، ثُمَّ أُدْخِلْتُ الْجَنَّةَ فَإِذَا فِيهَا حَبَايِلُ اللُّؤْلُؤِ وَإِذَا تُرَابُهَا الْمِسْكُ".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے یونس کے واسطہ سے بیان کیا، انہوں نے ابن شہاب سے، انہوں نے انس بن مالک سے، انہوں نے فرمایا کہ ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ یہ حدیث بیان کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے گھر کی چھت کھول دی گئی، اس وقت میں مکہ میں تھا۔ پھر جبرائیل علیہ السلام اترے اور انہوں نے میرا سینہ چاک کیا۔ پھر اسے زمزم کے پانی سے دھویا۔ پھر ایک سونے کا طشت لائے جو حکمت اور ایمان سے بھرا ہوا تھا۔ اس کو میرے سینے میں رکھ دیا، پھر سینے کو جوڑ دیا، پھر میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے آسمان کی طرف لے کر چلے۔ جب میں پہلے آسمان پر پہنچا تو جبرائیل علیہ السلام نے آسمان کے داروغہ سے کہا کھولو۔ اس نے پوچھا، آپ کون ہیں؟ جواب دیا کہ جبرائیل، پھر انہوں نے پوچھا کیا آپ کے ساتھ کوئی اور بھی ہے؟ جواب دیا، ہاں میرے ساتھ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں۔ انہوں نے پوچھا کہ کیا ان کے بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ کہا، جی ہاں! پھر جب انہوں نے دروازہ کھولا تو ہم پہلے آسمان پر چڑھ گئے، وہاں ہم نے ایک شخص کو بیٹھے ہوئے دیکھا۔ ان کے داہنی طرف کچھ لوگوں کے جھنڈ تھے اور کچھ جھنڈ بائیں طرف تھے۔ جب وہ اپنی داہنی طرف دیکھتے تو مسکرا دیتے اور جب بائیں طرف نظر کرتے تو روتے۔ انہوں نے مجھے دیکھ کر فرمایا، آؤ اچھے آئے ہو۔ صالح نبی اور صالح بیٹے! میں نے جبرائیل علیہ السلام سے پوچھا یہ کون ہیں؟ انہوں نے کہا کہ یہ آدم علیہ السلام ہیں اور ان کے دائیں بائیں جو جھنڈ ہیں یہ ان کے بیٹوں کی روحیں ہیں۔ جو جھنڈ دائیں طرف ہیں وہ جنتی ہیں اور بائیں طرف کے جھنڈ دوزخی روحیں ہیں۔ اس لیے جب وہ اپنے دائیں طرف دیکھتے ہیں تو خوشی سے مسکراتے ہیں اور جب بائیں طرف دیکھتے ہیں تو (رنج سے) روتے ہیں۔ پھر جبرائیل مجھے لے کر دوسرے آسمان تک پہنچے اور اس کے داروغہ سے کہا کہ کھولو۔ اس آسمان کے داروغہ نے بھی پہلے کی طرح پوچھا پھر کھول دیا۔ انس نے کہا کہ ابوذر نے ذکر کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان پر آدم، ادریس، موسیٰ، عیسیٰ اور ابراہیم علیہم السلام کو موجود پایا۔ اور ابوذر رضی اللہ عنہ نے ہر ایک کا ٹھکانہ نہیں بیان کیا۔ البتہ اتنا بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آدم کو پہلے آسمان پر پایا اور ابراہیم علیہ السلام کو چھٹے آسمان پر۔ انس نے بیان کیا کہ جب جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادریس علیہ السلام پر گزرے۔ تو انہوں نے فرمایا کہ آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بھائی۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جواب دیا کہ یہ ادریس علیہ السلام ہیں۔ پھر موسیٰ علیہ السلام تک پہنچا تو انہوں نے فرمایا آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بھائی۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے بتایا کہ موسیٰ علیہ السلام ہیں۔ پھر میں عیسیٰ علیہ السلام تک پہنچا، انہوں نے کہا آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بھائی۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ عیسیٰ علیہ السلام ہیں۔ پھر میں ابراہیم علیہ السلام تک پہنچا۔ انہوں نے فرمایا آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بیٹے۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جبرائیل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ ابن شہاب نے کہا کہ مجھے ابوبکر بن حزم نے خبر دی کہ عبداللہ بن عباس اور ابوحبۃ الانصاری رضی اللہ عنہم کہا کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، پھر مجھے جبرائیل علیہ السلام لے کر چڑھے، اب میں اس بلند مقام تک پہنچ گیا جہاں میں نے قلم کی آواز سنی (جو لکھنے والے فرشتوں کی قلموں کی آواز تھی) ابن حزم نے (اپنے شیخ سے) اور انس بن مالک نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ پس اللہ تعالیٰ نے میری امت پر پچاس وقت کی نمازیں فرض کیں۔ میں یہ حکم لے کر واپس لوٹا۔ جب موسیٰ علیہ السلام تک پہنچا تو انہوں نے پوچھا کہ آپ کی امت پر اللہ نے کیا فرض کیا ہے؟ میں نے کہا کہ پچاس وقت کی نمازیں فرض کی ہیں۔ انہوں نے فرمایا آپ واپس اپنے رب کی بارگاہ میں جائیے۔ کیونکہ آپ کی امت اتنی نمازوں کو ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتی ہے۔ میں واپس بارگاہ رب العزت میں گیا تو اللہ نے اس میں سے ایک حصہ کم کر دیا، پھر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا اور کہا کہ ایک حصہ کم کر دیا گیا ہے، انہوں نے کہا کہ دوبارہ جائیے کیونکہ آپ کی امت میں اس کے برداشت کی بھی طاقت نہیں ہے۔ پھر میں بارگاہ رب العزت میں حاضر ہوا۔ پھر ایک حصہ کم ہوا۔ جب موسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچا تو انہوں نے فرمایا کہ اپنے رب کی بارگاہ میں پھر جائیے، کیونکہ آپ کی امت اس کو بھی برداشت نہ کر سکے گی، پھر میں باربار آیا گیا پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ نمازیں (عمل میں) پانچ ہیں اور (ثواب میں) پچاس (کے برابر) ہیں۔ میری بات بدلی نہیں جاتی۔ اب میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انہوں نے پھر کہا کہ اپنے رب کے پاس جائیے۔ لیکن میں نے کہا مجھے اب اپنے رب سے شرم آتی ہے۔ پھر جبرائیل مجھے سدرۃ المنتہیٰ تک لے گئے جسے کئی طرح کے رنگوں نے ڈھانک رکھا تھا۔ جن کے متعلق مجھے معلوم نہیں ہوا کہ وہ کیا ہیں۔ اس کے بعد مجھے جنت میں لے جایا گیا، میں نے دیکھا کہ اس میں موتیوں کے ہار ہیں اور اس کی مٹی مشک کی ہے۔

Narrated Abu Dhar: Allah's Apostle said, "While I was at Mecca the roof of my house was opened and Gabriel descended, opened my chest, and washed it with Zamzam water. Then he brought a golden tray full of wisdom and faith and having poured its contents into my chest, he closed it. Then he took my hand and ascended with me to the nearest heaven, when I reached the nearest heaven, Gabriel said to the gatekeeper of the heaven, 'Open (the gate).' The gatekeeper asked, 'Who is it?' Gabriel answered: 'Gabriel.' He asked, 'Is there anyone with you?' Gabriel replied, 'Yes, Muhammad I is with me.' He asked, 'Has he been called?' Gabriel said, 'Yes.' So the gate was opened and we went over the nearest heaven and there we saw a man sitting with some people on his right and some on his left. When he looked towards his right, he laughed and when he looked toward his left he wept. Then he said, 'Welcome! O pious Prophet and pious son.' I asked Gabriel, 'Who is he?' He replied, 'He is Adam and the people on his right and left are the souls of his offspring. Those on his right are the people of Paradise and those on his left are the people of Hell and when he looks towards his right he laughs and when he looks towards his left he weeps.' Then he ascended with me till he reached the second heaven and he (Gabriel) said to its gatekeeper, 'Open (the gate).' The gatekeeper said to him the same as the gatekeeper of the first heaven had said and he opened the gate. Anas said: "Abu Dhar added that the Prophet met Adam, Idris, Moses, Jesus and Abraham, he (Abu Dhar) did not mention on which heaven they were but he mentioned that he (the Prophet ) met Adam on the nearest heaven and Abraham on the sixth heaven. Anas said, "When Gabriel along with the Prophet passed by Idris, the latter said, 'Welcome! O pious Prophet and pious brother.' The Prophet asked, 'Who is he?' Gabriel replied, 'He is Idris." The Prophet added, "I passed by Moses and he said, 'Welcome! O pious Prophet and pious brother.' I asked Gabriel, 'Who is he?' Gabriel replied, 'He is Moses.' Then I passed by Jesus and he said, 'Welcome! O pious brother and pious Prophet.' I asked, 'Who is he?' Gabriel replied, 'He is Jesus. Then I passed by Abraham and he said, 'Welcome! O pious Prophet and pious son.' I asked Gabriel, 'Who is he?' Gabriel replied, 'He is Abraham. The Prophet added, 'Then Gabriel ascended with me to a place where I heard the creaking of the pens." Ibn Hazm and Anas bin Malik said: The Prophet said, "Then Allah enjoined fifty prayers on my followers when I returned with this order of Allah, I passed by Moses who asked me, 'What has Allah enjoined on your followers?' I replied, 'He has enjoined fifty prayers on them.' Moses said, 'Go back to your Lord (and appeal for reduction) for your followers will not be able to bear it.' (So I went back to Allah and requested for reduction) and He reduced it to half. When I passed by Moses again and informed him about it, he said, 'Go back to your Lord as your followers will not be able to bear it.' So I returned to Allah and requested for further reduction and half of it was reduced. I again passed by Moses and he said to me: 'Return to your Lord, for your followers will not be able to bear it. So I returned to Allah and He said, 'These are five prayers and they are all (equal to) fifty (in reward) for My Word does not change.' I returned to Moses and he told me to go back once again. I replied, 'Now I feel shy of asking my Lord again.' Then Gabriel took me till we '' reached Sidrat-il-Muntaha (Lote tree of; the utmost boundary) which was shrouded in colors, indescribable. Then I was admitted into Paradise where I found small (tents or) walls (made) of pearls and its earth was of musk."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 8, Number 345


   صحيح البخاري349أنس بن مالكفرج عن سقف بيتي وأنا بمكة فنزل جبريل ففرج صدري ثم غسله بماء زمزم ثم جاء بطست من ذهب ممتلئ حكمة وإيمانا فأفرغه في صدري ثم أطبقه ثم أخذ بيدي فعرج بي إلى السماء الدنيا فلما جئت إلى السماء الدنيا
   صحيح البخاري3430أنس بن مالكأسري به ثم صعد حتى أتى السماء الثانية فاستفتح قيل من هذا قال جبريل قيل ومن معك قال محمد قيل وقد أرسل إليه قال نعم فلما خلصت فإذا يحيى وعيسى وهما ابنا خالة قال هذا يحيى وعيسى فسلم عليهما فسلمت فردا ثم قالا مرحبا بالأخ الصالح والنبي الصالح
   صحيح البخاري3887أنس بن مالكبينما أنا في الحطيم وربما قال في الحجر مضطجعا إذ أتاني آت فقد قال وسمعته يقول فشق ما بين هذه إلى هذه فقلت للجارود وهو إلى جنبي ما يعني به قال من ثغرة نحره إلى شعرته وسمعته يقول من قصه إلى شعرته فاستخرج قلبي ثم أتيت بطست من ذهب مملوءة إيمانا فغسل قلبي
   صحيح البخاري7517أنس بن مالكأولهم أيهم هو فقال أوسطهم هو خيرهم فقال آخرهم خذوا خيرهم فكانت تلك الليلة فلم يرهم حتى أتوه ليلة أخرى فيما يرى قلبه وتنام عينه ولا ينام قلبه وكذلك الأنبياء تنام أعينهم ولا تنام قلوبهم فلم يكلموه حتى احتملوه فوضعوه عند بئر زمزم فتولاه منهم جبريل فشق جبري
   صحيح البخاري3570أنس بن مالكأولهم أيهم هو فقال أوسطهم هو خيرهم وقال آخرهم خذوا خيرهم فكانت تلك فلم يرهم حتى جاءوا ليلة أخرى فيما يرى قلبه والنبي نائمة عيناه ولا ينام قلبه وكذلك الأنبياء تنام أعينهم ولا تنام قلوبهم فتولاه جبريل ثم عرج به إلى السماء
   صحيح مسلم415أنس بن مالكفرج سقف بيتي وأنا بمكة فنزل جبريل ففرج صدري ثم غسله من ماء زمزم ثم جاء بطست من ذهب ممتلئ حكمة وإيمانا فأفرغها في صدري ثم أطبقه ثم أخذ بيدي فعرج بي إلى السماء فلما جئنا السماء الدنيا قال جبريل لخازن السماء الدنيا افتح قال من هذا قال
   صحيح مسلم416أنس بن مالكبينا أنا عند البيت بين النائم واليقظان إذ سمعت قائلا يقول أحد الثلاثة بين الرجلين فأتيت فانطلق بي فأتيت بطست من ذهب فيها من ماء زمزم فشرح صدري إلى كذا وكذا قال قتادة فقلت للذي معي ما يعني قال إلى أسفل بطنه فاستخرج قلبي فغسل بماء زمزم ثم أعيد مكانه ثم حشي
   صحيح مسلم412أنس بن مالكأتيت فانطلقوا بي إلى زمزم فشرح عن صدري ثم غسل بماء زمزم ثم أنزلت
   صحيح مسلم411أنس بن مالكأتيت بالبراق وهو دابة أبيض طويل فوق الحمار ودون البغل يضع حافره عند منتهى طرفه قال فركبته حتى أتيت بيت المقدس قال فربطته بالحلقة التي يربط به الأنبياء قال ثم دخلت المسجد فصليت فيه ركعتين ثم خرجت فجاءني جبريل بإناء من خمر وإناء من لبن فاخترت ال
   جامع الترمذي3346أنس بن مالكبينما أنا عند البيت بين النائم واليقظان إذ سمعت قائلا يقول أحد بين الثلاثة فأتيت بطست من ذهب فيها ماء زمزم فشرح صدري إلى كذا وكذا قال قتادة قلت لأنس بن مالك ما يعني قال إلى أسفل بطني فاستخرج قلبي فغسل قلبي بماء زمزم ثم أعيد مكانه ثم حشي إيمانا وحكمة
   سنن النسائى الصغرى451أنس بن مالكأتيت بدابة فوق الحمار ودون البغل خطوها عند منتهى طرفها فركبت ومعي جبريل فسرت فقال انزل فصل ففعلت فقال أتدري أين صليت صليت بطيبة وإليها المهاجر ثم قال انزل فصل فصليت فقال أتدري أين صليت صليت بطور سيناء حيث كلم الله موسى ثم قا
   سنن النسائى الصغرى449أنس بن مالكبينا أنا عند البيت بين النائم واليقظان إذ أقبل أحد الثلاثة بين الرجلين فأتيت بطست من ذهب ملآن حكمة وإيمانا فشق من النحر إلى مراق البطن فغسل القلب بماء زمزم ثم ملئ حكمة وإيمانا ثم أتيت بدابة دون البغل وفوق الحمار ثم انطلقت مع جبريل فأتينا السما

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 349  
´واقعہ معراج قرآن کریم کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ`
«. . . أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" فُرِجَ عَنْ سَقْفِ بَيْتِي وَأَنَا بِمَكَّةَ، فَنَزَلَ جِبْرِيلُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَفَرَجَ صَدْرِي . . .»
. . . ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ یہ حدیث بیان کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے گھر کی چھت کھول دی گئی، اس وقت میں مکہ میں تھا۔ پھر جبرائیل علیہ السلام اترے اور انہوں نے میرا سینہ چاک کیا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الصَّلَاةِ: 349]

تخريج الحديث:
[102۔ البخاري فى: 8 كتاب الصلاة: 1 باب كيف فرضت الصلاة فى الإسراء 349 مسلم 163 أبوعوانة 133/1]

لغوی توضیح:
«سَقْف» چھت۔
«طَسْت» برتن۔
«فَفَرَجَ» کھل گیا، پھٹ گیا۔
«اَسْوِدَة» اشخاص۔
«نَسَم» جمع ہے «نَسَمَة» کی، معنی ہے ارواح۔
«ظَهَرْتُ» میں بلند ہوا۔
«صَرِيْفَ الْاَقْلَامِ» قلموں کے لکھنے کی آواز، یہ فرشتوں کے لکھنے کی آواز تھی جو اللہ کے فیصلے اور وحی لکھتے ہیں۔
«الْجَنَابِذ» جمع ہے «جنبذه» کی، معنی ہے قبے، خیمے۔

فھم الحدیث:
واقعہ معراج قرآن کریم کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے بڑا معجزہ ہے کہ ساتوں آسمانوں کا سفر رات کے ایک قلیل حصے میں طے ہو گیا۔ یہ معجزہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ ہے جو دوسرے کسی نبی کو عطا نہیں ہوا۔ اہل السنہ و ائمہ سلف کا عقیدہ ہے کہ یہ کوئی خواب یا روحانی سیر نہیں تھی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جسم و روح سمیت بیداری کی حالت میں آسمانوں پر لے جایا گیا جہاں آپ نے انبیاء علیہم السلام سے ملاقاتیں کیں اور بارگاہ الٰہی سے پانچ نمازوں کا تحفہ لائے۔ [الوجيز فى عقيدة السلف 66/1 تفسير احسن البيان ص: 765 الرحيق المختوم ص: 198]
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 102   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 449  
´نماز کی فرضیت اور اس سلسلے میں انس بن مالک کی حدیث کی سند میں راویوں کے اختلاف اور اس (کے متن) میں ان کے لفظی اختلاف کا ذکر۔`
انس بن مالک، مالک بن صعصعہ رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں کعبہ کے پاس نیم خواب اور نیم بیداری میں تھا کہ اسی دوران میرے پاس تین (فرشتے) آئے، ان تینوں میں سے ایک جو دو کے بیچ میں تھا میری طرف آیا، اور میرے پاس حکمت و ایمان سے بھرا ہوا سونے کا ایک طشت لایا گیا، تو اس نے میرا سینہ حلقوم سے پیٹ کے نچلے حصہ تک چاک کیا، اور دل کو آب زمزم سے دھویا، پھر وہ حکمت و ایمان سے بھر دیا گیا، پھر میرے پاس خچر سے چھوٹا اور گدھے سے بڑا ایک جانور لایا گیا، میں جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ چلا، تو ہم آسمان دنیا پر آئے، تو پوچھا گیا کون ہو؟ انہوں نے کہا: جبرائیل ہوں، پوچھا گیا آپ کے ساتھ کون ہیں؟ انہوں نے کہا: محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں، پوچھا گیا: کیا بلائے گئے ہیں؟ مرحبا مبارک ہو ان کی تشریف آوری، پھر میں آدم علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے کہا: خوش آمدید تمہیں اے بیٹے اور نبی! پھر ہم دوسرے آسمان پر آئے، پوچھا گیا: کون ہو؟ انہوں نے کہا: جبرائیل ہوں، پوچھا گیا: آپ کے ساتھ کون ہیں؟ انہوں نے کہا: محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں، یہاں بھی اسی طرح ہوا، یہاں میں عیسیٰ علیہ السلام اور یحییٰ علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے ان دونوں کو سلام کیا، ان دونوں نے کہا: خوش آمدید تمہیں اے بھائی اور نبی! پھر ہم تیسرے آسمان پر آئے، پوچھا گیا کون ہو؟ انہوں نے کہا: جبرائیل ہوں، پوچھا گیا: آپ کے ساتھ کون ہیں؟ انہوں نے کہا: محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہیں، یہاں بھی اسی طرح ہوا، یہاں میں یوسف علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے کہا: خوش آمدید تمہیں اے بھائی اور نبی! پھر ہم چوتھے آسمان پر آئے، وہاں بھی اسی طرح ہوا، یہاں میں ادریس علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے کہا: خوش آمدید تمہیں اے بھائی اور نبی! پھر ہم پانچویں آسمان پر آئے، یہاں بھی ویسا ہی ہوا، میں ہارون علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے کہا: خوش آمدید تمہیں اے بھائی، اور نبی! پھر ہم چھٹے آسمان پر آئے، یہاں بھی ویسا ہی ہوا، تو میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے کہا: خوش آمدید تمہیں اے بھائی اور نبی! تو جب میں ان سے آگے بڑھا، تو وہ رونے لگے ۱؎، ان سے پوچھا گیا آپ کو کون سی چیز رلا رہی ہے؟ انہوں نے کہا: پروردگار! یہ لڑکا جسے تو نے میرے بعد بھیجا ہے اس کی امت سے جنت میں داخل ہونے والے لوگ میری امت کے داخل ہونے والے لوگوں سے زیادہ اور افضل ہوں گے، پھر ہم ساتویں آسمان پر آئے، یہاں بھی ویسا ہی ہوا، تو میں ابراہیم علیہ السلام کے پاس آیا، اور میں نے انہیں سلام کیا، انہوں نے کہا: خوش آمدید تمہیں اے بیٹے اور نبی! پھر بیت معمور ۲؎ میرے قریب کر دیا گیا، میں نے (اس کے متعلق) جبرائیل سے پوچھا تو انہوں نے کہا: یہ بیت معمور ہے، اس میں روزانہ ستر ہزار فرشتے نماز ادا کرتے ہیں، جب وہ اس سے نکلتے ہیں تو پھر دوبارہ اس میں واپس نہیں ہوتے، یہی ان کا آخری داخلہ ہوتا ہے، پھر سدرۃ المنتھی میرے قریب کر دیا گیا، اس کے بیر ہجر کے مٹکوں جیسے، اور اس کے پتے ہاتھی کے کان جیسے تھے، اور اس کی جڑ سے چار نہریں نکلی ہوئی تھی، دو نہریں باطنی ہیں، اور دو ظاہری، میں نے جبرائیل سے پوچھا، تو انہوں نے کہا: باطنی نہریں تو جنت میں ہیں، اور ظاہری نہریں فرات اور نیل ہیں، پھر میرے اوپر پچاس وقت کی نمازیں فرض کی گئیں، میں لوٹ کر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا، تو انہوں نے پوچھا: آپ نے کیا کیا؟ میں نے کہا: میرے اوپر پچاس نمازیں فرض کی گئیں ہیں، انہوں نے کہا: میں لوگوں کو آپ سے زیادہ جانتا ہوں، میں بنی اسرائیل کو خوب جھیل چکا ہوں، آپ کی امت اس کی طاقت بالکل نہیں رکھتی، اپنے رب کے پاس واپس جایئے، اور اس سے گزارش کیجئیے کہ اس میں تخفیف کر دے، چنانچہ میں اپنے رب کے پاس واپس آیا، اور میں نے اس سے تخفیف کی گزارش کی، تو اللہ تعالیٰ نے چالیس نمازیں کر دیں، پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس واپس آیا، انہوں نے پوچھا: آپ نے کیا کیا؟ میں نے کہا: اللہ تعالیٰ نے انہیں چالیس کر دی ہیں، پھر انہوں نے مجھ سے وہی بات کہی جو پہلی بار کہی تھی، تو میں پھر اپنے رب عزوجل کے پاس واپس آیا، تو اللہ تعالیٰ نے انہیں تیس کر دیں، پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا، اور انہیں اس کی خبر دی، تو انہوں نے پھر وہی بات کہی جو پہلے کہی تھی، تو میں اپنے رب کے پاس واپس گیا، تو اس نے انہیں بیس پھر دس اور پھر پانچ کر دیں، پھر میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا، تو انہوں نے پھر وہی بات کہی جو پہلے کہی تھی، تو میں نے کہا: (اب مجھے) اپنے رب عزوجل کے پاس (باربار) جانے سے شرم آ رہی ہے، تو آواز آئی: میں نے اپنا فریضہ نافذ کر دیا ہے، اور اپنے بندوں سے تخفیف کر دی ہے، اور میں نیکی کا بدلہ دس گنا دیتا ہوں۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 449]
449 ۔ اردو حاشیہ:
«عِنْدَ الْبَيْتِ» سے بیت اللہ مراد ہے۔ آپ بیت اللہ کے ایک حصے حجر میں لیٹے ہوئے تھے۔ اسے حطیم بھی کہتے ہیں۔ بعض روایات میں ام ہانی کے گھر کا ذکر ہے۔ [تفسیر طبری: 9؍5]
ممکن ہے وہیں سوئے ہوں، پھر حطیم میں آگئے ہوں۔
جاگنے سونے کے درمیان آپ کی عمومی نیند ایسی ہی تھی اور یہاں اس کا مطلب گہری نیند کی نفی ہے، یعنی آپ نیند کے ابتدائی مرحلے میں تھے، اسے جاگنے اور سونے کے درمیان سے تعبیر کیا گیا ہے۔
تین آدمی آئے ظاہر صورت کے لحاظ سے آدمی کہا: ورنہ وہ فرشتے تھے۔ دو کا نام بعض روایات میں ہے: جبریل اور میکائیل علیہما السلام۔
➍آپ کے سینۂ اطہر کا چیرا جانا، پھر زمزم سے دھویا جانا اور ایمان وحکمت سے بھرا جانا، یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب ترین رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا باہمی راز ہے جس کی کوئی توجیہ نہیں کی جا سکتی، ممکن ہے یہ آسمانوں پر جانے کی تیاری کا ابتدائی مرحلہ ہو۔
➎ استدلال کیا گیا ہے کہ زم زم کا پانی جنت کے پانی سے افضل ہے۔ تبھی آپ کے قلب اقدس کو اس سے دھویا گیا۔
جانور کا نام روایات میں براق آیا ہے۔ [صحیح البخاری، مناقب الانصار، حدیث: 3887، وصحیح مسلم، الایمان، حدیث: 164]
مگر یہ بھی وصفی نام ہے جو برق سے لیا گیا ہے۔
میں جبریل کے ساتھ چلا۔ آنے والے تین ہمراہیوں میں سے ایک جبریل علیہ السلام ہی تھے۔ اس کے بعد باقی دو کا ذکر نہیں۔ ظاہر ہے وہ خالی تھال لے کر اور آپ کے دیدار سے مشرف ہو کر واپس چلے گئے۔
ہم آسمان دنیا کے پاس آئے۔ روایت مختصر ہے۔ بعض روایات میں مدینہ منورہ، طورسینا، بیت اللحم اور بیت المقدس جانے کا بھی ذکر ہے۔ (دیکھیے، حدیث: 451) لیکن اس اضافے کے ساتھ یہ روایت منکر ہے، تفصیل کے لیے دیکھیے: [الاسراء والمعراج للالبانی، ص: 44]
➒ساتوں آسمانوں پر مختلف انبیاء علیہم السلام سے آپ کی ملاقات، ممکن ہے ان کو آپ کے استقبال و ملاقات کے لیے خصوصی طور پر لایا گیا ہو۔ اور یہی انسب ہے۔
➓ حضرت آدم اور ابراہیم علیہما السلام کا آپ کو بیٹا کہنا اس لیے ہے کہ وہ آپ کے اجداد میں شامل ہیںَ۔ نسب میں ان کا ذکر ہوتا ہے، جب کہ دوسرے انبیاء علیہم السلام آپ کے نسب میں نہیں آتے، لہٰذا وہ آپ کے چچازاد بھائیوں کے رتبے میں ہیں، تبھی انہوں نے آپ کو بھائی کہا:۔ (11)موسیٰ علیہ السلام کا رونا آپ یا آپ کی امت پر حسد کے طور پر نہیں تھا۔ حاشاوکلا۔ انبیاء علیہم السلام اس بیماری سے معصوم ہوتے ہیں، بلکہ یہ اپنی امت پر افسوس کی بنا پر تھا کہ میں نے اتنی محنت کی، اتنا عرصہ گزارا مگر میں یہ رتبہ حاصل نہ کرسکا کیونکہ جس نبی کے جتنے زیادہ پیروکار ہوں گے اسے اتنا ہی اجروثواب سے نوازا جائے گا۔ اگر حسد ہوتا تو واپسی کے وقت امت مسلمہ کے خیرخواہی کیوں کرتے اور پچاس(50) سے پانچ(5) نمازیں رہ جانے کا سبب کیوں بنتے؟ شاید اسی شبہے کے ازالے کے لیے یہ باتیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بجائے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہلوائی گئیں، ورنہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ساتویں آسمان پر تھے۔ واپسی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان سے ملاقات پہلے ہوئی۔ موسیٰ علیہ السلام تو چھٹے آسمان پر تھے۔ بعض محدثین نے یہ امکان بھی ظاہر کیا ہے کہ واپسی کے وقت انبیاء علیہم السلام کی ترتیب بدل گئی ہو گی۔ (12)بیت المعمور بیت اللہ کے عین اوپر ساتویں آسمان پر ہے جس میں فرشتے نماز پڑھتے ہیں۔ جو ایک دفعہ آتا ہے اس کی دوبارہ باری نہیں آتی۔ اور داخل بھی روزانہ سترہزار ہوتے ہیں۔ اس سے یہ اخذ کیا گیا ہے کہ فرشتے دیگر تمام مخلوقات سے تعداد میں زیادہ ہیں۔ واللہ اعلم۔ [صحیح البخاری، بدء الخلق، حدیث: 3207]
(13) سدرۃ المنتہیٰ بیری کا درخت ہے۔ اس کی حقیقت کیا ہے؟ قطعیت سے کچھ نہیں کہا: جا سکتا۔ صوفیاء نے اسے اللہ تعالیٰ کی صفت خلق کا تمثل قرار دیا ہے۔ واللہ اعلم۔ سدرہ عربی زبان میں بیری کے درخت کو کہتے ہیں۔ المنتہیٰ کے معنی ہیں: آخری، یعنی یہ مخلوقات کی انتہا ہے، یہاں عالم خلق ختم ہو جاتا ہے۔ بقول صوفیاء اس سے اوپر عالم امر ہے جہاں کسی مخلوق کی رسائی نہیں خواہ وہ کوئی انسان ہو یا فرشتہ۔ اس حدیث میں اسے ساتویں آسمان سے اوپر قرار دیا گیا ہے۔ آگے ایک حدیث میں اسے چھٹے آسمان پر بتلایا گیا ہے۔ تطبیق یوں ہے کہ جڑ چھٹے آسمان پر ہو گی اور شاخیں ساتویں آسمان پر پہنچی ہوئی ہوں گی۔ واللہ اعلم۔ (14)سدرۃ المنتہیٰ کی جڑ میں چار نہروں (یادریاؤں) کا جو ذکر ہے ان میں سے دو پوشیدہ بتلایا گیا ہے، نیز یہ کہ وہ جنت میں ہیں۔ اور دو کو ظاہر کیا گیا ہے جو نیل اور فرات ہیں۔ صحیح مسلم کی روایت میں جنت کی دو باطنی نہروں کے نام سیحان اور جیجان بتلائے گئے ہیں۔ (صحیح مسلم، الحنۃ وتیمھا، حدیث: 2839) علاوہ ازیں ان چاروں نہروں کو جنت کی نہریں قرار دیا گیا ہے۔ دریائے نیل و فرات تو مشہور اور ان کے علاقے بھی معلوم ہیں اور سیحان و جیجان کی بابت مولانا صفی الرحمن مبارکپوری رحمہ اللہ منۃ المنعم فی شرح صحیح مسلم میں فرماتے ہیں کہ یہ دونوں نہریں بہت بڑی ہیں اور ترکی میں ہیں۔ جیجان کی گزرگاہ مصیصہ ہے سیحان کی گزرگاہ اذنہ ہے۔ اور یہ دونوں نہریں بحرروم میں گرتی ہیں۔ ان کے علاوہ دو نہریں اور ہیں جن کے نام ان سے ملتے جلتے ہیں، یعنی جوجون اور سیحون۔ اس سے بعض لوگوں کو یہ مغالطہ ہوا کہ حدیث میں مذکور جیجان اور سیحان سے یہی مراد ہیں۔ لیکن امام نووی رحمہ اللہ نے بھی اس کی تردید کی ہے اور مولانا مبارکپوری رحمہ اللہ نے بھی۔ اور مولانا موصوف نے یہ وضاحت بھی کی ہے کہ دریائے جیجون وہی ہے جسے آج کل دریائے آمو کہا جاتا ہے اور یہ افغانستان اور ازبکستان کے درمیان حد ہے۔ یہ بلخ، ترمذ اور آمل ودرغان سے گزرتا ہوا بحیرۂ خوارزم میں جاگرتا ہے۔ اور سیحون، جیجون کے ماور اء ہے جو خجندہ اور خوقند کے قریب اور تاشقند سے پہلے گزرتا ہے۔ اسے آج کل سیردریا کہا جاتا ہے۔ ان چاروں دریائوں کے جنت سے ہونے کا ظاہری مطلب یہ ہے کہ ان کی اصل جنت ہے اور وہاں سے یہ زمین پر اتارے گئے ہیں۔ شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ان نہروں کے جنت ہے اور وہاں سے یہ زمین پر اتارے گئے ہیں۔ شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ان نہروں کے جنت سے ہونے سے مراد شاید یہ ہے کہ ان کی اصل جنت سے ہے، جیسے انسان کی اصل جنت سے ہے۔ چنانچہ یہ حدیث اس بات کے منافی نہیں ہے جو ان نہروں کی بابت مشہورومعلوم ہے کہ یہ نہریں زمین کے معروف سرچشموں سے پھوٹتی ہیں۔ اور اگر اس کے یہ یا اس سے ملتے جلتے معنی نہیں ہیں تو یہ حدیث امورغیب سے متعلق ہے جن پر ایمان رکھنا اور جو خبر دی گئی ہے، اس کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔۔۔ [سلسلة الاحادیث الصحیحة، 1؍177، 178]
بعض لوگوں نے اس کی یہ تاویل کی ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جن علاقوں میں یہ نہریں بہتی ہیں، ان میں اسلام کا پھیلاؤ اور غلبہ ہو گا۔ یا یہ مطلب ہے کہ ان نہروں کے پانی سے پیدا ہونے والی خوراک جو لوگ استعمال کریں گے وہ جنتی ہوں گے۔ لیکن امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ان دونوں تاویلوں کے مقابلے میں اس کا پہلا ظاہری معنیٰ ہی زیادہ صحیح ہے۔ [شرح صحیح مسلم للنووي، الجنة حدیث: 2839، ومنة المنعم: 4؍322، مطبوعة دارالسلام، الریاض]
(15)واپسی کے موقع پر موسیٰ علیہ السلام کے علاوہ کسی اور نبی کا ذکر نہیں۔ ممکن ہے واپسی پردیگر انبیاء سے ملاقات ہی نہ ہوئی ہو، یعنی جہاں سے ان کو لایا گیا تھا، وہیں بھیج دیا گیا۔ یا یہ بھی ممکن ہے کہ ان سے کوئی خصوصی بات نہ ہوئی ہو، اس لیے ان کا ذکر نہیں کیا گیا۔ (16)حضرت موسیٰ علیہ السلام کے توجہ دلانے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا واپس اللہ عزوجل کے پاس جانا شاید اس شبہے کو دور کرنے کے لیے تھا کہ موسیٰ علیہ السلام کو آپ کی امت پر حسد ہے۔ جس طرح بنی اسرائیل کے الزام سے بچانے کے لیے دنیا میں پتھر والا واقعہ پیش آیا تھا۔ [صحیح البخاری، الغسل، حدیث: 278، وصحیح مسلم، الحیض، حدیث: 339]
(17) نمازوں کی تخفیف بعض روایات کے مطابق پانچ(5) پانچ(5) سے ہوئی۔ [صحیح مسلم، الایمان، حدیث: 162]
گویا اس روایت میں اختصار ہے۔ آخر میں پانچ (5) کا رہ جانا بھی اس کا مؤید ہے۔ (18) «امضیت فریضتی» ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل فریضہ پانچ(5) نمازیں ہی تھیں۔ پچاس نمازوں کا مقرر ہونا گویا ان کے ثواب کے اظہار کے لیے تھا، باربار آنے جانے سے یہ عقدہ حل ہو گیا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 449   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 451  
´نماز کی فرضیت اور اس سلسلے میں انس بن مالک کی حدیث کی سند میں راویوں کے اختلاف اور اس (کے متن) میں ان کے لفظی اختلاف کا ذکر۔`
یزید بن ابی مالک کہتے ہیں کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے ہم سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے پاس گدھے سے بڑا اور خچر سے چھوٹا ایک جانور لایا گیا، اس کا قدم وہاں پڑتا تھا جہاں تک اس کی نگاہ پہنچتی تھی، تو میں سوار ہو گیا، اور میرے ہمراہ جبرائیل علیہ السلام تھے، میں چلا، پھر جبرائیل نے کہا: اتر کر نماز پڑھ لیجئیے، چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا، انہوں نے پوچھا: کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ نے کہاں نماز پڑھی ہے؟ آپ نے طیبہ میں نماز پڑھی ہے، اور اسی کی طرف ہجرت ہو گی، پھر انہوں نے کہا: اتر کر نماز پڑھئے، تو میں نے نماز پڑھی، انہوں نے کہا: کیا جانتے ہیں کہ آپ نے کہاں نماز پڑھی ہے؟ آپ نے طور سینا پر نماز پڑھی ہے، جہاں اللہ عزوجل نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا تھا، پھر کہا: اتر کر نماز پڑھئے، میں نے اتر کر نماز پڑھی، انہوں نے پوچھا: کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ نے کہاں نماز پڑھی ہے؟ آپ نے بیت اللحم میں نماز پڑھی ہے، جہاں عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش ہوئی تھی، پھر میں بیت المقدس میں داخل ہوا، تو وہاں میرے لیے انبیاء علیہم السلام کو اکٹھا کیا گیا، جبرائیل نے مجھے آگے بڑھایا یہاں تک کہ میں نے ان کی امامت کی، پھر مجھے لے کر جبرائیل آسمان دنیا پر چڑھے، تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہاں آدم علیہ السلام موجود ہیں، پھر وہ مجھے لے کر دوسرے آسمان پر چڑھے، تو دیکھتا ہوں کہ وہاں دونوں خالہ زاد بھائی عیسیٰ اور یحییٰ علیہما السلام موجود ہیں، پھر تیسرے آسمان پر چڑھے، تو دیکھتا ہوں کہ وہاں یوسف علیہ السلام موجود ہیں، پھر چوتھے آسمان پر چڑھے تو وہاں ہارون علیہ السلام ملے، پھر پانچویں آسمان پر چڑھے تو وہاں ادریس علیہ السلام موجود تھے، پھر چھٹے آسمان پر چڑھے وہاں موسیٰ علیہ السلام ملے، پھر ساتویں آسمان پر چڑھے وہاں ابراہیم علیہ السلام ملے، پھر ساتویں آسمان کے اوپر چڑھے اور ہم سدرۃ المنتہیٰ تک آئے، وہاں مجھے بدلی نے ڈھانپ لیا، اور میں سجدے میں گر پڑا، تو مجھ سے کہا گیا: جس دن میں نے زمین و آسمان کی تخلیق کی تم پر اور تمہاری امت پر میں نے پچاس نمازیں فرض کیں، تو تم اور تمہاری امت انہیں ادا کرو، پھر میں لوٹ کر ابراہیم علیہ السلام کے پاس آیا، تو انہوں نے مجھ سے کچھ نہیں پوچھا، میں پھر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا، تو انہوں نے پوچھا: تم پر اور تمہاری امت پر کتنی (نمازیں) فرض کی گئیں؟ میں نے کہا: پچاس نمازیں، تو انہوں نے کہا: نہ آپ اسے انجام دے سکیں گے اور نہ ہی آپ کی امت، تو اپنے رب کے پاس واپس جایئے اور اس سے تخفیف کی درخواست کیجئے، چنانچہ میں اپنے رب کے پاس واپس گیا، تو اس نے دس نمازیں تخفیف کر دیں، پھر میں موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا، تو انہوں نے مجھے پھر واپس جانے کا حکم دیا، چنانچہ میں پھر واپس گیا تو اس نے (پھر) دس نمازیں تخفیف کر دیں، میں پھر موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس آیا انہوں نے مجھے پھر واپس جانے کا حکم دیا، چنانچہ میں واپس گیا، تو اس نے مجھ سے دس نمازیں تخفیف کر دیں، پھر (باربار درخواست کرنے سے) پانچ نمازیں کر دی گئیں، (اس پر بھی) موسیٰ (علیہ السلام) نے کہا: اپنے رب کے حضور واپس جایئے اور تخفیف کی گزارش کیجئے، اس لیے کہ بنی اسرائیل پر دو نمازیں فرض کی گئیں تھیں، تو وہ اسے ادا نہیں کر سکے، چنانچہ میں اپنے رب کے حضور واپس آیا، اور میں نے اس سے تخفیف کی گزارش کی، تو اس نے فرمایا: جس دن میں نے زمین و آسمان پیدا کیا، اسی دن میں نے تم پر اور تمہاری امت پر پچاس نمازیں فرض کیں، تو اب یہ پانچ پچاس کے برابر ہیں، انہیں تم ادا کرو، اور تمہاری امت (بھی)، تو میں نے جان لیا کہ یہ اللہ عزوجل کا قطعی حکم ہے، چنانچہ میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس واپس آیا، تو انہوں نے کہا: پھر جایئے، لیکن میں نے جان لیا تھا کہ یہ اللہ کا قطعی یعنی حتمی فیصلہ ہے، چنانچہ میں پھر واپس نہیں گیا۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 451]
451 ۔ اردو حاشیہ: شیخ البانی رحمہ اللہ کے نزدیک یہ روایت اس سیاق سے منکر ہے۔ امام ابن کثیر رحمہ اللہ اس روایت کے طریق کے متعلق فرماتے ہیں: «فیھا عرابة ونکارة جدا» اس طریق میں سخت غرابت و نکارت ہے۔ اس کی سند میں ایک تو یزید بن عبدالرحمٰن بن ابی مالک دمشقی ہے جو صدوق ہے لیکن کبھی کبھار وہم کا شکار ہو جاتا تھا، دوسرے اس سے روایت کرنے والے سعید بن عبدالعزیز تنوخی ہیں، اگرچہ ثقہ ہیں لیکن آخری عمر میں اختلاط کا شکار ہو گئے تھے۔ (تقریب) لہٰذا اس روایت میں مدینہ طیبہ، طورسینا اور بیت اللحم میں اترنے اور وہاں نماز پڑھنے کا واقعہ درست نہیں۔ واللہ اعلم۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [الإسراء والمعراج للالباني، ص: 44]
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 451   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3346  
´سورۃ الم نشرح سے بعض آیات کی تفسیر۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ اپنی قوم کے ایک شخص مالک بن صعصہ رضی الله عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں بیت اللہ کے پاس نیم خوابی کے عالم میں تھا (کچھ سو رہا تھا اور کچھ جاگ رہا تھا) اچانک میں نے ایک بولنے والے کی آواز سنی، وہ کہہ رہا تھا تین آدمیوں میں سے ایک (محمد ہیں) ۱؎، پھر میرے پاس سونے کا ایک طشت لایا گیا، اس میں زمزم کا پانی تھا، اس نے میرے سینے کو چاک کیا یہاں سے یہاں تک، قتادہ کہتے ہیں: میں نے انس رضی الله عنہ سے کہا: کہاں تک؟ انہوں نے کہا: آپ نے فرمایا: پیٹ کے نیچے تک، پھر آپ نے فرمایا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3346]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
ان تین میں ایک جعفر،
ایک حمزہ اور ایک نبیﷺتھے۔

2؎:
شق صدر کا واقعہ کئی بار ہوا ہے،
انہی میں سے ایک یہ واقعہ ہے۔

3؎:
یہ قصہ اسراء اورمعراج کا ہے جو بہت معروف ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3346   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 349  
349. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: حضرت ابوذر ؓ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ نے فرمایا: جب میں مکے میں تھا تو ایک شب میرے گھر کی چھت پھٹی۔ حضرت جبریل ؑ اترے، انھوں نے پہلے میرے سینے کو چاک کر کے اسے آب زم زم سے دھویا، پھر ایمان و حکمت سے بھرا ہوا سونے کا ایک طشت لائے اور اسے میرے سینے میں ڈال دیا، بعد میں سینہ بند کر دیا، پھر انھوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے آسمان دنیا کی طرف لے چڑھے۔ جب میں آسمان دنیا پر پہنچا تو جبریل ؑ نے داروغہ آسمان سے کہا: دروازہ کھول۔ اس نے کہا: کون ہے؟ بولے: میں جبریل ہوں۔ پھر اس نے پوچھا: تمہارے ہمراہ بھی کوئی ہے؟ حضرت جبریل نے کہا: ہاں، میرے ساتھ حضرت محمد ﷺ ہیں۔ اس نے پھر دریافت کیا: انھیں دعوت دی گئی ہے؟ حضرت جبریل ؑ نے کہا: ہاں۔ اس نے جب دروازہ کھول دیا تو ہم آسمان دنیا پر چڑھے، وہاں ہم نے ایک ایسے شخص کو بیٹھے دیکھا جس کی دائیں جانب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:349]
حدیث حاشیہ:
معراج کا واقعہ قرآن مجید کی سورۃ بنی اسرائیل اور سورۃ نجم کے شروع میں بیان ہوا ہے اور احادیث میں اس کثرت کے ساتھ اس کا ذکر ہے کہ اسے تواتر کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔
سلف امت کا اس پر اتفاق ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کومعراج جاگتے میں بدن اور روح ہر دو کے ساتھ ہوا۔
سینہ مبارک کا چاک کرکے آبِ زمزم سے دھوکر حکمت اور ایمان سے بھرکر آپ کوعالم ملکوت کی سیر کرنے کے قابل بنادیاگیا۔
یہ شق صدردوبارہ ہے۔
ایک بارپہلے حالت رضاعت میں بھی آپ کا سینہ چاک کرکے علم وحکمت و انوارِ تجلیات سے بھردیاگیا تھا۔
دوسری روایات کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام سے، دوسرے آسمان پر حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام سے، تیسرے پر حضرت یوسف علیہ السلام سے، چوتھے پر حضرت ادریس علیہ السلام سے اور پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام سے اور چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اور ساتویں پر سیدنا حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام سے ملاقات فرمائی۔
جب آپ مقام اعلیٰ پر پہنچ گئے، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں فرشتوں کی قلموں کی آوازیں سنیں اور مطابق آیت شریفہ لقدرای من آیات ربہ الکبریٰ (النجم: 18)
آپ نے ملااعلیٰ میں بہت سی چیزیں دیکھیں، وہاں اللہ پاک نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر پچاس وقت کی نمازیں فرض کیں۔
پھر آپ کے نوبارآنے جانے کے صدقے میں صرف پنچ وقت نماز باقی رہ گئی، مگرثواب میں وہ پچاس کے برابر ہیں۔
ترجمہ باب یہیں سے نکلتا ہے کہ نماز معراج کی رات میں اس تفصیل کے ساتھ فرض ہوئی۔
سدرۃ المنتہیٰ ساتویں آسمان پر ایک بیری کا درخت ہے جس کی جڑیں چھٹے آسمان تک ہیں۔
فرشتے وہیں تک جاسکتے ہیں آگے جانے کی ان کو بھی مجال نہیں ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ منتہیٰ اس کو اس لیے کہتے ہیں کہ اوپر سے جو احکام آتے ہیں وہ وہاں آکر ٹھہرجاتے ہیں اور نیچے سے جو کچھ جاتا ہے وہ بھی اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔
معراج کی اور تفصیلات اپنے مقام پر بیان کی جائیں گی۔
آسمانوں کا وجود ہے جس پر جملہ کتب سماویہ اور تمام انبیاءکرام کا اتفاق ہے، مگر اس کی کیفیت اور حقیقت اللہ ہی بہترجانتا ہے۔
جس قدر بتلادیا گیا ہے اس پر ایمان لانا ضروری ہے اور فلاسفہ وملاحدہ اور آج کل کے سائنس والے جو آسمان کا انکار کرتے ہیں۔
ان کے قول باطل پر ہرگز کان نہ لگانے چاہئیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 349   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:349  
349. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: حضرت ابوذر ؓ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ نے فرمایا: جب میں مکے میں تھا تو ایک شب میرے گھر کی چھت پھٹی۔ حضرت جبریل ؑ اترے، انھوں نے پہلے میرے سینے کو چاک کر کے اسے آب زم زم سے دھویا، پھر ایمان و حکمت سے بھرا ہوا سونے کا ایک طشت لائے اور اسے میرے سینے میں ڈال دیا، بعد میں سینہ بند کر دیا، پھر انھوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے آسمان دنیا کی طرف لے چڑھے۔ جب میں آسمان دنیا پر پہنچا تو جبریل ؑ نے داروغہ آسمان سے کہا: دروازہ کھول۔ اس نے کہا: کون ہے؟ بولے: میں جبریل ہوں۔ پھر اس نے پوچھا: تمہارے ہمراہ بھی کوئی ہے؟ حضرت جبریل نے کہا: ہاں، میرے ساتھ حضرت محمد ﷺ ہیں۔ اس نے پھر دریافت کیا: انھیں دعوت دی گئی ہے؟ حضرت جبریل ؑ نے کہا: ہاں۔ اس نے جب دروازہ کھول دیا تو ہم آسمان دنیا پر چڑھے، وہاں ہم نے ایک ایسے شخص کو بیٹھے دیکھا جس کی دائیں جانب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:349]
حدیث حاشیہ:

شب معراج میں فرضیت نماز کی یہ حکمت تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے اس رات فرشتوں کی مختلف عبادات کو دیکھا، ان میں جو حالت قیام میں تھے وہ بیٹھتے نہیں تھے اورجو رکوع میں تھے وہ سجدے میں نہ جاتے تھے اور بہت سے فرشتے حالت سجدے میں پڑے اپنا سر نہیں اٹھا رہے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کی تمام انواع عبادت کو ایک رکعت نماز میں جمع کردیا، نیز اس میں نماز کی عظمت اور اس کے شرف کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اس کی فرضیت میں یہ خصوصیت رکھی گئی کہ اس کی فرضیت بلاواطہ فرشتہ ہوئی ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ مزید لکھتے ہیں کہ شب معراج میں فرضیت نماز کی حکمت تھی کہ معراج سے پہلے رسول اللہ ﷺ کو ظاہری اور باطنی طہارت سے آراستہ کیا گیا کہ آپ کے قلب مبارک کو آب زم زم سے دھوکر اس میں ایمان وحکمت کوبھردیا گیا کہ آپ اپنے رب سے مناجات کے لیے مستعد ہوجائیں۔
اسی طرح نماز میں بھی بندہ اپنے رب سے رازونیاز کی باتیں کرنے کےلیے پہلے خود کو طہارت ونظافت سے مزین کرتا ہے، اس لیے مناسب ہواکہ معراج کی مناسبت سے اس امت پر نماز کو فرض کردیا جائے، نیز اس سے ملاء اعلیٰ پر رسول اللہ ﷺ کا شرف ظاہرکرنا بھی مقصود تھا تاکہ ساکنان حریم قدس ملائکہ اورحضرات انبیائے کرام علیہ السلام کی امامت کروائیں اور اپنے رب سے مناجات کریں، اس مناسبت سے نمازی بھی دوران نماز میں اپنے رب سے مناجات کرتا ہے۔
(فتح الباري: 596/1)

اس روایت میں بیت المقدس تک اسراء کا تذکرہ نہیں ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ معراج اسراء کے بغیر ہے، بلکہ کسی راوی نے واقعہ مختصر کردیا ہے۔
امام بخاری ؒ اس بات کے قائل ہیں کہ جس رات میں نماز فرض ہوئی اس رات میں بیت المقدس تک اسراء بھی ہے اورعالم بالا تک معراج بھی ہواہے۔
اگرچہ اسرا اورمعراج دوالگ الگ چیزیں ہیں، یعنی مکے سے بیت المقدس تک کاسفر اسراکہلاتا ہے اور بیت المقدس سے عالم بالا کے سفر کو معراج کہا جاتا ہے۔
امام بخاری ؒ کی تحقیق یہ ہے کہ دونوں سفر ایک ہی رات سے متعلق ہیں، چنانچہ عنوان سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اسراء کی رات نماز کیسے فرض ہوئی؟ حالانکہ روایت میں اسراء کا ذکر نہیں ہے، لیکن اسراء کا واقعہ بھی اسی رات میں بحالت بیداری پیش آیا۔
واللہ أعلم۔

اس روایت سے امام بخاریؒ کامقصود صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس رات کو امت پر پچاس نمازیں فرض فرمادیں جو بندے اور آقا کے درمیان مناجات کا ذریعہ ہیں، چنانچہ آپ بے چون چرا اس تحفے کو لے کر واپس ہوئے۔
آپ نے یہ خیال نہیں کیا کہ پچاس نمازیں کی طرح ادا ہوں گی، کیونکہ آپ مقام عبدیت میں ہیں، عبودیت کامل تھی جس کا تقاضا تھا کہ جو چیز آقا کی طرف سے عطا کی جائے، اسے بلاچون وچرا قبول کیاجائے۔
ان پچاس نمازوں کی فرضیت میں رسول اللہ ﷺ کی عظمت کی طرف بھی اشارہ ہے، کیونکہ بندوں پر اللہ کی سب سے بڑی نعمت نماز ہے۔
جس قدر یہ نعمت زیادہ ہوگی، اس قدر شان نمایاں ہوگی۔
دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نوبار اپنے رب کے حضور آمدروفت سے پچاس نمازوں میں سے پانچ رہ گئیں۔
ایک مرتبہ میں ہی تخفیف کرکے پانچ کی جاسکتی تھیں، مگر اس صورت میں آپ کی شان محبوبیت کا اظہار نہ ہوتا۔
بار بار حاضری کا موقع دیا جارہا ہے، آخر میں فرمادیا کہ اب نمازیں پانچ ہیں۔
وہ پانچ رہتے ہوئے بھی پچاس ہی ہیں۔
چونکہ قرآنی ضابطے کے مطابق ایک نیکی کااجر دس گنا ہے، اس لیے پانچ نمازیں اداکرنے سے پچاس ہی کا ثواب لکھاجاتاہے۔
(فتح الباري: 600/1)

آخری مرتبہ پانچ نمازیں رہ جانے کے بعد رسول اللہ ﷺ نے واپس جانے کی جو وجہ ظاہر کی ہے وہ یہ کہ اب مجھے اپنے رب سے درخواست پیش کرنے میں شرم آرہی ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے پانچ پانچ کی تخفیف سے یہ اندازہ لگالیاتھا کہ اگر پانچ رہ جانے کے بعد بھی درخواست کریں گے تو اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ باقی ماندہ پانچ نمازیں بھی بالکل معاف کردی جائیں جس کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عطیے کو واپس کیا جارہا ہے جو کسی حال میں مناسب نہیں تھا، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے اسے پسند نہ کیا۔
اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ کو یقین ہوگیا تھا کہ ہربار میں جو باقی حکم رہ گیا ہے وہ حتمی اور آخری فیصلہ نہیں، لیکن آخری بار میں پانچ نمازوں کے ساتھ فرمادیاتھا کہ میرے ہاں قول وفیصلہ کی الٹ پلٹ نہیں ہوتی، اس سے آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ اب آخری اور حتمی فیصلہ ہوچکاہے، اب تخفیف کی درخواست کرنا مناسب نہیں۔
(فتح الباري: 600/1)

حدیث میں ہے کہ معراج میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہ ﷺ کو تین چیزیں عطا کی گئیں:
پانچ نمازیں، سورہ بقرہ کی آخری آیات اوربشرط عدم شرک کبائر کی مغفرت۔
(صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 431 (173)
پانچ نمازوں کی عطا سے مراد ان کی فرضیت ہے۔
سورہ بقرہ کی آخری آیات (آمَنَ الرَّسُولُ)
سے ختم سورت تک ان آیات میں اس اُمت کے لیے اللہ تعالیٰ کی کمال رحمت، تخفیف احکام، بشارت مغفرت اور کافروں کے مقابلے میں نصرت کابیان ہے۔
اس عطا سے مراد عطائے مضمون ہے، کیونکہ نزول کے لحاظ سے تو تمام سورہ بقرہ مدنی ہے اور معراج مکرمہ میں ہوئی ہے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ شب معراج میں بلاواسطہ یہ آیات رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی ہوں، پھر جب حضرت جبرئیل علیہ السلام کے واسطے سے مدینہ منورہ میں نازل ہوئیں تومصحف میں لکھی گئیں۔
کبائر معاصی کی مغفرت کا مطلب یہ نہیں کہ موحدین اہل کبائر کو قیامت کے دن عذاب ہی نہیں ہوگا، کیونکہ یہ بات تو اجماع اہل سنت کےخلاف ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کفار ومشرکین کی طرح امت کے اہل کبائر ہمیشہ جہنم میں نہیں رہیں گے، بلکہ انھیں آخر کار جہنم سے نکال لیا جائےگا۔
واللہ أعلم۔
نوٹ:
۔
اسراء اورمعراج کے متعلق دیگرمباحث کتاب احادیث الانبیاء حدیث: 3342۔
میں بیان ہوں گے۔
بإذن اللہ
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 349   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.