الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
The Book of As-Salat (The Prayer)
5. بَابُ إِذَا صَلَّى فِي الثَّوْبِ الْوَاحِدِ فَلْيَجْعَلْ عَلَى عَاتِقَيْهِ:
5. باب: جب ایک کپڑے میں کوئی نماز پڑھے تو اس کو کندھوں پر ڈالے۔
(5) Chapter. If someone offers Salat (prayer) wrapped in a single garment, he should cross its corners round his shoulders.
حدیث نمبر: 360
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو نعيم، قال: حدثنا شيبان، عن يحيى بن ابي كثير، عن عكرمة، قال: سمعته او كنت سالته، قال: سمعت ابا هريرة، يقول: اشهد اني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" من صلى في ثوب واحد فليخالف بين طرفيه".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، قَالَ: سَمِعْتُهُ أَوْ كُنْتُ سَأَلْتُهُ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: أَشْهَدُ أَنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَنْ صَلَّى فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ فَلْيُخَالِفْ بَيْنَ طَرَفَيْهِ".
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان بن عبدالرحمٰن نے یحییٰ بن ابی کثیر کے واسطہ سے، انہوں نے عکرمہ سے، یحییٰ نے کہا میں نے عکرمہ سے سنایا میں نے ان سے پوچھا تھا تو عکرمہ نے کہا کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ فرماتے تھے۔ میں اس کی گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے یہ ارشاد فرماتے سنا تھا کہ جو شخص ایک کپڑے میں نماز پڑھے اسے کپڑے کے دونوں کناروں کو اس کے مخالف سمت کے کندھے پر ڈال لینا چاہیے۔

Narrated Abu Huraira: Allah's Apostle said, "Whoever prays in a single garment must cross its ends (over the shoulders).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 8, Number 356


   صحيح البخاري360عبد الرحمن بن صخرمن صلى في ثوب واحد فليخالف بين طرفيه
   صحيح البخاري359عبد الرحمن بن صخرلا يصلي أحدكم في الثوب الواحد ليس على عاتقيه شيء
   صحيح البخاري365عبد الرحمن بن صخرأوكلكم يجد ثوبين
   صحيح البخاري358عبد الرحمن بن صخرأولكلكم ثوبان
   صحيح مسلم1151عبد الرحمن بن صخرلا يصلي أحدكم في الثوب الواحد ليس على عاتقيه منه شيء
   صحيح مسلم1150عبد الرحمن بن صخرأو كلكم يجد ثوبين
   صحيح مسلم1148عبد الرحمن بن صخرأولكلكم ثوبان
   سنن أبي داود625عبد الرحمن بن صخرأولكلكم ثوبان
   سنن أبي داود626عبد الرحمن بن صخرلا يصل أحدكم في الثوب الواحد ليس على منكبيه منه شيء
   سنن أبي داود627عبد الرحمن بن صخرإذا صلى أحدكم في ثوب فليخالف بطرفيه على عاتقيه
   سنن النسائى الصغرى770عبد الرحمن بن صخرلا يصلين أحدكم في الثوب الواحد ليس على عاتقه منه شيء
   سنن النسائى الصغرى764عبد الرحمن بن صخرأولكلكم ثوبان
   سنن ابن ماجه1047عبد الرحمن بن صخرأو كلكم يجد ثوبين
   بلوغ المرام162عبد الرحمن بن صخرلا يصلي احدكم في الثوب الواحد ليس على عاتقه منه شيء
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم201عبد الرحمن بن صخراو كلكم يجد ثوبين؟
   المعجم الصغير للطبراني196عبد الرحمن بن صخر أيصلي الرجل فى الثوب الواحد ؟ فقال : أكلكم يجد ثوبين ؟
   المعجم الصغير للطبراني324عبد الرحمن بن صخر أيصلي أحدنا فى الثوب الواحد ؟ ، فقال : أو كلكم يجد ثوبين
   مسندالحميدي966عبد الرحمن بن صخرأولكلكم ثوبان
   مسندالحميدي993عبد الرحمن بن صخر

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 201  
´مردوں کے لئے ایک کپڑے مثلاً ایک چادر یا صرف قمیض میں نماز پڑھنا جائز ہے`
«. . . ان سائلا سال رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الصلاة فى ثوب واحد، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: او كلكم يجد ثوبين؟»
کسی شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک کپڑے میں نماز (پڑھنے) کے بارے میں پوچھا: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم میں سے ہر آدمی کے پاس دو کپڑے موجود ہیں؟ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 201]

تخریج الحدیث:
[الموطأ رواية يحييٰ بن يحييٰ 140/1 ح 316، ك 8 ب 9 ح 30، التمهيد 363/6، الاستذكار: 286، و أخرجه البخاري 358، ومسلم 515، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ مردوں کے لئے ایک کپڑے مثلاً ایک چادر یا صرف قمیض میں نماز پڑھنا جائز ہے بشرطیکہ کندھے ڈھکے ہوئے ہوں لیکن بہتر یہ ہے کہ دو (یا زیادہ) کپڑوں میں نماز پڑھیں۔
➋ کسی کام میں مشغولیت کی وجہ سے نافع رحمہ اللہ ایک کپڑے میں نماز پڑھ رہے تھے تو نماز کے بعد سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا میں نے تمہیں دو کپڑے نہیں دیئے تھے؟ نافع نے کہا: جی ہاں! ابن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر میں تمہیں ایک کپڑے میں باہر بھیجوں تو چلے جاؤ گے؟ نافع نے کہا: نہیں۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا اللہ اس کا مستحق ہے کہ اس کے لئے زینت اختیار کی جائے یا لوگ؟ نافع نے کہا: اللہ، پھر ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (یا عمر رضی اللہ عنہ) نے فرمایا: «إِذَا وَجَدَ أَحَدُكُمْ ثَوْبَيْنِ فَلْيُصَلِّ فِيهِمَا۔۔۔» اگر تم میں سے کسی کے پاس دو کپڑے ہوں تو ان میں نماز پڑھے [التمهيد 371/6 وسنده صحيح]
● نیز دیکھئے [السنن الكبريٰ للبيهقي 236/2 وسنده صحيح، شرح معاني الآثار للطحاوي 377/1، ومجموع فتاويٰ ابن تيميه 117/22، ولفظه غريب]
➌ مرد کے لئے ننگے سر نماز پڑھنا جائز ہے لیکن حج و عمرے کے علاوہ بہتر یہ ہے کہ سر پر ٹوپی، رومال، عمامہ یا کپڑا ہو۔ دیکھئے میری کتاب: [هدية المسلمين حديث نمبر 10]
➍ عورت کو گھر میں چہرے کے علاوہ باقی جسم ڈھانک کر نماز پڑھنی چاہئے اور غیر مردوں کی موجودگی میں اپنا چہرہ بھی چھپانا چاہئے، یہ بہتر اور افضل ہے۔ نیز دیکھئے: [التمهيد 364/6]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 12   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 162  
´نماز میں چادر اوڑھنا یا پہننا`
«. . . ان النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال له: ‏‏‏‏إذا كان الثوب واسعا فالتحف به في الصلاة . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا: جب کپڑا بڑا اور فراخ ہو تو (نماز میں) کپڑا خوب (جسم پر) لپیٹ لو . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 162]

لغوی تشریح:
«فالتحف»، «التحاف» سے امر کا صغیہ مراد ہے۔ معنی ہیں: چادر اوڑھنا یا پہننا۔ اس اوڑھنے کی کیفیت کی وضاحت اگلا جملہ «فخالف بين طرفيه» کر رہا ہے۔ اس کی صورت یہ ہو گی کہ کپڑے کے درمیان کو اپنے جسم کے درمیان میں پچھلی جانب رکھے، پر دائیں جانب کو پکڑ کر سامنے سے بائیں کندھے پر ڈال دے اور اسی طرح بائیں جانب کو دائیں کندھے پر ڈال دے اور گدی کے پاس دونوں کونوں کو گانٹھ (گرہ) دے لے۔
«فَاتَّزَرْ» باب افتعال سے امر کا صیغہ ہے، معنی ہیں: تہ بند باندھنا، ازار پہننا۔

فائدہ:
اس کا مطلب یہ بیان کیا گیا ہے کہ چادر اگر بڑی ہو تو اس کا ایک حصہ ازار کے طور پر اور کچھ رواء (اوپر والی چادر) کے طور پر اس طرح اوڑھ لے کہ اس کے دونوں کنارے (ایک دوسرے کے مخالف) کندھوں پر ہوں، کندھے ننگے نہ رہیں۔ اور اگر چادر چھوٹی ہو تو پھر اسے ازار (تہ بند) کے طور پر باندھ لے۔ مشہور قول کے مطابق مرد کے لیے قابل ستر حصہ ناف سے لے کر گھٹنوں تک ہے۔ [سبل السلام]
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 162   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 625  
´کتنے کپڑوں میں نماز پڑھنی درست ہے؟`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: کیا تم میں سے ہر ایک کو دو کپڑے میسر ہیں؟۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 625]
625۔ اردو حاشیہ:
یعنی جب فی الواقع ہر انسان کو دو کپڑے مہیا نہیں تو شریعت میں بھی تنگی نہیں، ایک کپڑے میں بھی نماز جائز ہے، اس کے باندھنے کا طریقہ درج ذیل احادیث سے بیان ہوا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 625   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 627  
´کتنے کپڑوں میں نماز پڑھنی درست ہے؟`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص ایک کپڑے میں نماز پڑھے تو اس کے داہنے کنارے کو بائیں کندھے پر اور بائیں کنارے کو داہنے کندھے پر ڈال لے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 627]
627۔ اردو حاشیہ:
یعنی کمر پر اس طرح لپٹیے کہ اس کا دایاں پلّو بائیں کندھے پر اور بایاں پلّو دائیں کندھے پر آ جائے، اس طرح یہ کپڑا تہ بند اوپر کی چادر، دونوں کا کام دے گا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 627   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 770  
´مرد کا ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کا بیان جس کا کوئی حصہ اس کے کندھے پر نہ ہو۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی ایک کپڑے میں نماز نہ پڑھے جس کا کوئی حصہ اس کے کندھے پر نہ ہو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 770]
770 ۔ اردو حاشیہ: یہ اس وقت ہے جب کپڑا وسیع ہو۔ اگر کپڑا چھوٹا ہو تو اسے ازار کے طور پر باندھ لیا جائے۔ اگر کوئی اور کپڑا میسر نہ ہو تو ناف سے گھٹنوں تک پردہ کفایت کر جائے گا اور شرعاً یہ جائز ہے کیونکہ مجبوری میں اس معاملے میں تخفیف ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 770   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1047  
´ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم میں سے کوئی ایک کپڑے میں نماز پڑھ سکتا ہے؟، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم میں سے ہر شخص کو دو کپڑے میسر ہیں؟ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1047]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مرد ایک کپڑا اوڑھ کر نماز ادا کرسکتاہے۔
عربوں میں ایک کپڑا اوڑھنے کا طریقہ یہ تھا کہ کمر پر کپڑا تہہ بند کی طرح رکھ کر آگے کی طرف لاکر اس کا دایاں سرا بایئں کندھے پر ڈال لیا جائے۔
اور بایاں پلو دایئں کندھے پر ڈال لیا جائے۔
اس طرح ایک ہی کپڑے سے ستر چھپ جائے گا۔
پیٹ وغیرہ بھی اور کندھے بھی۔
گویا ایک بڑے کپڑے سے دو کپڑوں کا کام چل جاتا ہے۔

(2)
اگر کپڑا چھوٹا ہو اور مذکورہ بالاطریقے سے اوڑھنا ممکن نہ ہو۔
تودوسرا کپڑا بھی استعمال کرنا چاہیے۔
ایک کپڑے کو تہہ بند کی طرح باندھ لیا جائے۔
اور دوسرے کو چادر کی طرح اوڑھ لیا جائے۔
اگر اوڑھا نہ جا سکتا ہو۔
تو کندھوں پر ڈال لیا جائے۔
کیونکہ نبی اکرمﷺ کا ارشاد ہے۔
کوئی شخص ایک کپڑے میں اس طرح نماز نہ پڑھے کہ اس کے کندھوں پر کچھ نہ ہو (صحیح البخاري، الصلاة، باب إذا صلی فی الثوب الواحد فلیجعل علی عاتقیه، حدیث: 359)

(3)
حدیث میں (عَاتِق)
کالفظ ہے۔
جس کا ترجمہ کندھا کیا گیا ہے کندھے کےلئے دوسرا لفظ منکب ہے۔
جو اس مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔
جو اردو میں کندھے کا متعارف مفہوم ہے۔
عاتق کا اصل مطلب منکب اور گردن کے درمیان کی جگہ ہے مطلب یہ ہے کہ جسم کے بالائی حصہ پر بھی کوئی لباس یا کپڑا ہونا چاہیے۔

(4)
اگر کپڑا ایک ہی ہو اور اسے اوڑھا نہ جا سکتا ہو تو تہہ بند کی طرح باندھ کر نماز پڑھ لی جائے۔
ارشاد نبوی ﷺ ہے۔
اگر کپڑا کھلا ہوتو اس میں لپٹ جاؤ اور اگر تنگ ہو تو اسے تہہ بند بنا لو (صحیح البخاري، الصلاة، باب إذا کان الثوب ضیقاً، حدیث: 361)

(5)
عورت کو نماز میں اپنا تمام جسم ڈھانپنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1047   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:360  
360. حضرت ابوہریرہ ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا: جو شخص ایک کپڑے میں نماز پڑھے، اسے چاہئے کہ اس کے دونوں کناروں کو الٹ لے، یعنی اس کا دایاں کنارہ بائیں طرف اور بایاں کنارہ دائیں طرف ڈال لے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:360]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ نے اس باب میں نمازی کے لیے بحالت نماز سترپوشی کی ایک قسم بیان فرمائی ہے جو خالص اللہ تعالیٰ کا حق ہے، کیونکہ نمازی کے لیے دوران نماز میں بسااوقات جسم کے کسی ایسے حصے کو چھپانا بھی ضروری ہوتا ہے جسے نماز کے علاوہ عام حالات میں ظاہر کیا جاسکتا ہے، جیسا کہ بعض اوقات نماز میں کسی ایسے حصے کو ظاہر کرنا ہوتا ہے جسے عام حالات میں عورتوں کے لیے مردوں سے چھپانا ضروری ہوتا ہے۔
پہلی صورت کی مثال کندھے ہیں کہ بحالت نماز ان کا ڈھانپنا ضروری ہے۔
یہ حکم حق نماز کی وجہ سے ہے، جبکہ مرد حضرات عام حالات میں اپنے کندھوں کو ننگارکھ سکتے ہیں۔
دوسری صورت کی مثال چہرہ، ہاتھ اور پاؤں کا حکم ہے کہ عورت کے لیے عام حالات میں اجنبی مردوں کے سامنے ان کا کھولنا جائز نہیں، لیکن نماز کی حالت میں عورت کے لیے ان کا چھپانا ضروری نہیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ نماز میں اس نوعیت کی سترپوشی اللہ کاحق ہے اور یہی وجہ ہے کہ رات کی تاریکی میں تن تنہا بھی بیت اللہ کا عریاں ہوکر طواف نہیں کیاجاسکتا۔
جیسا کہ اکیلے آدمی کو اختیاری حالات میں ننگے ہوکر نماز پڑھنےکی اجازت نہیں۔
اس بحث کو امام ابن تیمیہ ؒ نے اپنے ایک رسالے میں بڑے خوبصورت اندازمیں پیش کیا ہے جس کا ہم نے اردو ترجمہ بعنوانمسلمان عورت کا پردہ اور اس کا لباسِ نماز کیاہے۔

حافظ ا بن حجر ؒ کہتے ہیں کہ نماز کی حالت میں کندھوں پر کپڑا ڈالنے کی تاکید جمہور کے نزدیک استحباب کے لیے ہے اورجن احادیث میں ممانعت ہے وہ کراہت تنزیہی پر محمول ہے، لیکن امام احمد ؒ سے ایک قول یہ منقول ہے کہ کندھوں پر کپڑا ڈالے بغیر نماز جائز نہیں، گویا انھوں نے اس کو شرط صحت صلاۃ قراردیاہے۔
دوسرا قول یہ ہے کہ نماز ہوجائے گی، لیکن ترک واجب کی وجہ سے گناہکار ہوگا۔
(فتح الباري: 611/1)
علامہ کرمانی ؒ کہتے ہیں کہ بظاہر ممانعت کا تقاضا تو تحریم ہی ہے مگر اجماع جواز ترک پر ہوچکاہے، کیونکہ اصل مقصود تو سترعورۃ ہے، وہ کسی بھی طریقے سے کیاجاسکتا ہے۔
(شرح الکرماني: 18/2)
علامہ کرمانیؒ کا یہ اجماع کا دعویٰ محل نظر ہے، کیونکہ امام احمد بن حنبل ؒ نے اس موقف سے اختلاف کیاہے۔
علامہ خطابی ؒ نے عدم وجوب پر اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک کپڑے میں نماز پڑھی جس کا ایک کنارہ کسی زوجہ محترمہ پر تھا اور وہ سورہی تھیں۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کپڑا اتنا بڑا نہیں تھا کہ کندھوں پر ڈالا جاسکتا اور نہ اتنا چھوٹا ہی تھا کہ اسے بطور تہہ بند ہی استعمال کیا جاسکتا۔
اگرکندھوں کا ڈھانپنا ضروری ہوتا تو دوسرے کنارے سے انھیں ڈھانپا جاسکتا تھا، لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا جس کا مطلب یہ ہے کہ کہ دوران نماز میں کندھوں کا ڈھانپنا ضروری نہیں۔
(إعلام الحدیث: 250/1)
حافظ ابن حجر ؒ خطابی ؒ کا استدلال ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ یہ محل نظر ہے۔
(فتح الباري: 612/1)
بظاہر امام بخاری ؒ کے مسلک میں تفصیل ہے کہ کپڑاگربڑا ہوتو اسے کندھوں پر ڈالنا ضروری ہے اور اگرتنگ ہوتو اسے تہبند استعمال کیاجائے، کندھوں پر ڈالنا ضروری نہیں۔
ان کا موقف امام احمد ؒ کے موقف سے مختلف ہے۔
امام احمد ؒ کندھوں کے ڈھانپنے کو صحت صلاۃ کے لیے شرائط قراردیتے ہیں، جبکہ امام بخاری ؒ صرف وجوب کے قائل ہیں اور اس وجوب کو بھی تنگی کے وقت اٹھا دیتے ہیں۔
جیسا کہ آئندہ عنوان سے معلوم ہوتا ہے۔

علامہ کرمانی ؒ نے عنوان سے دوسری حدیث کی مطابقت بایں الفاظ بیان کی ہے کہ اس حدیث میں مخالفت طرفین کا حکم ہے اور اس پر عمل کرنا اسی وقت ممکن ہوگا جب کندھوں پر کچھ ڈالا جائے گا، اس کے بغیر مخالفت طرفین نہیں ہوسکتی۔
(شرح الکرماني: 19/2)
شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے بھی تراجم بخاری میں اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے، فرماتے ہیں:
اس حدیث کی عنوان پر دلالت بایں طورہے کہ کپڑے کے دونوں کناروں کا ایک دوسرے کے مخالف سمت ہونا ہی اس بات کا سبب ہے کہ کوئی کنارہ اس کے کندھوں پر ضرور ڈالا جائےگا۔
حافظ ابن حجر ؒ جو امام بخاری ؒ کے رمزشناس ہیں، کہتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے حسب عادت اس انداز سے ایک روایت کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں مخالفت طرفین کے وقت کندھوں پر کپڑا ڈالنے کی صراحت ہے، چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو صرف ایک کپڑے میں نماز پڑھے اسے چاہیے کہ کندھوں پر کپڑا ڈال کر اس کے دونوں کناروں کو اُلٹ لے۔
(مسند احمد: 255/2)
علامہ اسماعیلی ؒ اور ابونعیم ؒ نے بھی حسین کے طریق سے اسی طرح بیا ن کیاہے۔
(فتح الباري: 611/1)
مختصر یہ ہے کہ جب کپڑا اس قدر وسیع ہوکہ ستر پوشی کے بعد کندھوں کو ڈھانپاجاسکتا ہو تو ایسا ہی کرنا چاہیے۔
اس کے برعکس اگر کپڑا تنگ ہو کہ کندھوں کو چھپانے کے بعد ستر کھلنے کا اندیشہ ہوتو ایسی حالت میں کندھوں کو کھلا رکھتے ہوئے تہ بند باندھ کر نماز پڑھ لینا بالاتفاق جائزہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 360   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.