الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: غزوات کے بیان میں
The Book of Al- Maghazi
60. بَابُ سَرِيَّةُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ حُذَافَةَ السَّهْمِيِّ وَعَلْقَمَةَ بْنِ مُجَزِّزٍ الْمُدْلِجِيِّ:
60. باب: عبداللہ بن حذافہ سہمی اور علقمہ بن مجزز المدلجی رضی اللہ عنہما کے دستہ کا بیان۔
(60) Chapter. The Sariya of Abdullah bin Hudhafa As-Sahmi and Alqama bin Majazziz Al-Mudliji, and it is said that it was called the Sariya of the Ansar.
حدیث نمبر: 4340
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا عبد الواحد، حدثنا الاعمش، قال: حدثني سعد بن عبيدة، عن ابي عبد الرحمن، عن علي رضي الله عنه، قال: بعث النبي صلى الله عليه وسلم سرية، فاستعمل رجلا من الانصار وامرهم ان يطيعوه، فغضب، فقال: اليس امركم النبي صلى الله عليه وسلم ان تطيعوني؟ قالوا: بلى، قال: فاجمعوا لي حطبا، فجمعوا، فقال: اوقدوا نارا، فاوقدوها، فقال: ادخلوها، فهموا، وجعل بعضهم يمسك بعضا، ويقولون: فررنا إلى النبي صلى الله عليه وسلم من النار، فما زالوا حتى خمدت النار، فسكن غضبه، فبلغ النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:"لو دخلوها ما خرجوا منها إلى يوم القيامة، الطاعة في المعروف".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعْدُ بْنُ عُبَيْدَةَ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَعَثَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَرِيَّةً، فَاسْتَعْمَلَ رَجُلًا مِنْ الْأَنْصَارِ وَأَمَرَهُمْ أَنْ يُطِيعُوهُ، فَغَضِبَ، فَقَالَ: أَلَيْسَ أَمَرَكُمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ تُطِيعُونِي؟ قَالُوا: بَلَى، قَالَ: فَاجْمَعُوا لِي حَطَبًا، فَجَمَعُوا، فَقَالَ: أَوْقِدُوا نَارًا، فَأَوْقَدُوهَا، فَقَالَ: ادْخُلُوهَا، فَهَمُّوا، وَجَعَلَ بَعْضُهُمْ يُمْسِكُ بَعْضًا، وَيَقُولُونَ: فَرَرْنَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ النَّارِ، فَمَا زَالُوا حَتَّى خَمَدَتِ النَّارُ، فَسَكَنَ غَضَبُهُ، فَبَلَغَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:"لَوْ دَخَلُوهَا مَا خَرَجُوا مِنْهَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، الطَّاعَةُ فِي الْمَعْرُوفِ".
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا مجھ سے سعد بن عبیدہ نے بیان کیا، ان سے ابوعبدالرحمٰن اسلمی نے اور ان سے علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مختصر لشکر روانہ کیا اور اس کا امیر ایک انصاری صحابی (عبداللہ بن حذافہ سہمی رضی اللہ عنہ) کو بنایا اور لشکریوں کو حکم دیا کہ سب اپنے امیر کی اطاعت کریں پھر امیر کسی وجہ سے غصہ ہو گئے اور اپنے فوجیوں سے پوچھا کہ کیا تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری اطاعت کرنے کا حکم نہیں فرمایا ہے؟ سب نے کہا کہ ہاں فرمایا ہے۔ انہوں نے کہا پھر تم سب لکڑیاں جمع کرو۔ انہوں نے لکڑیاں جمع کیں تو امیر نے حکم دیا کہ اس میں آگ لگاؤ اور انہوں نے آگ لگا دی۔ اب انہوں نے حکم دیا کہ سب اس میں کود جاؤ۔ فوجی کود جانا ہی چاہتے تھے کہ انہیں میں سے بعض نے بعض کو روکا اور کہا کہ ہم تو اس آگ ہی کے خوف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آئے ہیں! ان باتوں میں وقت گزر گیا اور آگ بھی بجھ گئی۔ اس کے بعد امیر کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا۔ جب اس کی خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر یہ لوگ اس میں کود جاتے تو پھر قیامت تک اس میں سے نہ نکلتے۔ اطاعت کا حکم صرف نیک کاموں کے لیے ہے۔

Narrated `Ali: The Prophet sent a Sariya under the command of a man from the Ansar and ordered the soldiers to obey him. He (i.e. the commander) became angry and said "Didn't the Prophet order you to obey me!" They replied, "Yes." He said, "Collect fire-wood for me." So they collected it. He said, "Make a fire." When they made it, he said, "Enter it (i.e. the fire)." So they intended to do that and started holding each other and saying, "We run towards (i.e. take refuge with) the Prophet from the fire." They kept on saying that till the fire was extinguished and the anger of the commander abated. When that news reached the Prophet he said, "If they had entered it (i.e. the fire), they would not have come out of it till the Day of Resurrection. Obedience (to somebody) is required when he enjoins what is good."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 629


   صحيح البخاري7257علي بن أبي طالببعث جيشا وأمر عليهم رجلا فأوقد نارا وقال ادخلوها فأرادوا أن يدخلوها وقال آخرون إنما فررنا منها فذكروا للنبي فقال للذين أرادوا أن يدخلوها لو دخلوها لم يزالوا فيها إلى يوم القيامة وقال للآخرين لا طاعة في معصية إنما الطاعة في المعروف
   صحيح البخاري4340علي بن أبي طالببعث النبي سرية فاستعمل رجلا من الأنصار وأمرهم أن يطيعوه فغضب فقال أليس أمركم النبي أن تطيعوني قالوا بلى قال فاجمعوا لي حطبا فجمعوا فقال أوقدوا نارا فأوقدوها فقال ادخلوها فهموا وجعل بعضهم يمسك بعضا ويقولون فررنا إلى النبي من النار فما زالوا حتى خمدت النار
   صحيح البخاري7145علي بن أبي طالبلو دخلوها ما خرجوا منها أبدا الطاعة في المعروف
   صحيح مسلم4766علي بن أبي طالبلو دخلوها ما خرجوا منها الطاعة في المعروف
   صحيح مسلم4765علي بن أبي طالببعث جيشا وأمر عليهم رجلا فأوقد نارا وقال ادخلوها فأراد ناس أن يدخلوها وقال الآخرون إنا قد فررنا منها فذكر ذلك لرسول الله فقال للذين أرادوا أن يدخلوها لو دخلتموها لم تزالوا فيها إلى يوم القيامة وقال للآخرين قولا حسنا وقال لا طاعة في معصية الله إنما الطاعة
   سنن أبي داود2625علي بن أبي طالببعث جيشا وأمر عليهم رجلا وأمرهم أن يسمعوا له ويطيعوا فأجج نارا وأمرهم أن يقتحموا فيها فأبى قوم أن يدخلوها وقالوا إنما فررنا من النار وأراد قوم أن يدخلوها فبلغ ذلك النبي فقال لو دخلوها أو دخلوا فيها لم يزالوا فيها وقال لا طاعة في معصية الله إنما الطاعة في
   سنن النسائى الصغرى4210علي بن أبي طالببعث جيشا وأمر عليهم رجلا فأوقد نارا فقال ادخلوها فأراد ناس أن يدخلوها وقال الآخرون إنما فررنا منها فذكروا ذلك لرسول الله فقال للذين أرادوا أن يدخلوها لو دخلتموها لم تزالوا فيها إلى يوم القيامة وقال للآخرين خيرا وقال لا طاعة في معصية الله إنما الطاعة في ال

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2625  
´امیر لشکر کی اطاعت کا بیان۔`
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر بھیجا، اور ایک آدمی ۱؎ کو اس کا امیر بنایا اور لشکر کو حکم دیا کہ اس کی بات سنیں، اور اس کی اطاعت کریں، اس آدمی نے آگ جلائی، اور لوگوں کو حکم دیا کہ وہ اس میں کود پڑیں، لوگوں نے اس میں کودنے سے انکار کیا اور کہا: ہم تو آگ ہی سے بھاگے ہیں اور کچھ لوگوں نے اس میں کود جانا چاہا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر وہ اس میں داخل ہو گئے ہوتے تو ہمیشہ اسی میں رہتے، اور فرمایا: اللہ کی معصیت میں کسی کی اطاعت نہیں، اطاعت تو بس نیکی کے ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2625]
فوائد ومسائل:
جو شخص شریعت کی مخالفت میں حکام وقت کی اطاعت کرے۔
وہ اللہ کا نا فرمان ہے۔
اور اللہ کے ہاں اس کا یہ عذر مقبول نہ ہوگا کہ حاکم کی اطاعت میں میں نے ایسے کیا تھا۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2625   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4340  
4340. حضرت علی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ایک لشکر روانہ کیا اور اس کا سالار ایک انصاری شخص کو مقرر فرمایا اور لوگوں کو حکم دیا کہ وہ اس کی اطاعت کریں۔ اتفاق سے اسے غصہ آیا تو کہنے لگا: کیا نبی ﷺ نے تمہیں میری اطاعت کا حکم نہیں دیا تھا؟ لوگوں نے کہا کہ کیوں نہیں، تب اس نے کہا کہ تم سب میرے لیے لکڑیاں جمع کرو۔ انہوں نے لکڑیاں جمع کر دیں۔ اس نے کہا کہ اب آگ سلگاؤ۔ انہوں نے آگ بھی سلگائی۔ پھر اس نے کہا کہ اس میں کود جاؤ۔ انہوں نے کود جانے کا ارادہ کیا تو ان میں سے کچھ ایک دوسرے کو روکنے لگے اور انہوں نے کہا کہ ہم اس آگ سے راہ فرار اختیار کر کے تو نبی ﷺ کے پاس آئے ہیں۔ وہ اسی طرح بحث مباحثے میں رہے کہ آگ بجھ گئی اور اس کا غصہ بھی جاتا رہا۔ پھر جب نبی ﷺ کو اس واقعے کی اطلاع ملی تو آپ نے فرمایا: اگر وہ اس آگ میں داخل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4340]
حدیث حاشیہ:
امام خلیفہ پیر مرشد کی اطاعت صرف قرآن وحدیث کے مطابق احکام کے اندر ہے۔
اگر وہ خلاف بات کہیں تو پھر ان کی اطاعت کر نا جائز نہیں ہے۔
ا سی لیے ہمارے امام ابو حنیفہ ؒ نے فرمایا کہ إذا صح الحدیث فھو مذھبي۔
جب صحیح حدیث مل جائے تو وہی میر امذہب ہے۔
ایسے موقع پر میرے فتوی کو چھوڑ کر صحیح حدیث پر عمل کر نا۔
حضرت امام کی وصیت کے باوجود کتنے لوگ ہیں جو قول امام کے آگے صحیح حدیث کو ٹھکرا دیتے ہیں۔
اللہ تعالی ان کو سمجھ عطا کرے۔
بقول حضرت شاہ ولی اللہ ؒ مرحوم ایسے لوگ قیامت کے دن اللہ کی عدالت میں کیا جواب دے سکیں گے۔
مروجہ تقلید شخصی کے خلاف یہ حدیث ایک مشعل ہدایت ہے۔
بشرطیکہ آنکھ کھول کر اس سے روشنی حاصل کی جائے۔
ائمہ کرام کا ہرگز یہ منشاء نہ تھا کہ ان کے ناموں پر الگ الگ مذاہب بنائے جائیں کہ وہ اسلامی وحدت کو پارہ پارہ کرکے رکھ دیں۔
اللہ نے سچ فرمایا ﴿إِنَّ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا لَسْتَ مِنْهُمْ فِي شَيْءٍ إِنَّمَا أَمْرُهُمْ إِلَى اللَّهِ﴾
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4340   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4340  
4340. حضرت علی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ایک لشکر روانہ کیا اور اس کا سالار ایک انصاری شخص کو مقرر فرمایا اور لوگوں کو حکم دیا کہ وہ اس کی اطاعت کریں۔ اتفاق سے اسے غصہ آیا تو کہنے لگا: کیا نبی ﷺ نے تمہیں میری اطاعت کا حکم نہیں دیا تھا؟ لوگوں نے کہا کہ کیوں نہیں، تب اس نے کہا کہ تم سب میرے لیے لکڑیاں جمع کرو۔ انہوں نے لکڑیاں جمع کر دیں۔ اس نے کہا کہ اب آگ سلگاؤ۔ انہوں نے آگ بھی سلگائی۔ پھر اس نے کہا کہ اس میں کود جاؤ۔ انہوں نے کود جانے کا ارادہ کیا تو ان میں سے کچھ ایک دوسرے کو روکنے لگے اور انہوں نے کہا کہ ہم اس آگ سے راہ فرار اختیار کر کے تو نبی ﷺ کے پاس آئے ہیں۔ وہ اسی طرح بحث مباحثے میں رہے کہ آگ بجھ گئی اور اس کا غصہ بھی جاتا رہا۔ پھر جب نبی ﷺ کو اس واقعے کی اطلاع ملی تو آپ نے فرمایا: اگر وہ اس آگ میں داخل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4340]
حدیث حاشیہ:

مسند احمد میں ہے کہ اس لشکر کا سالار حضر ت عبداللہ بن حذافہ ؓ کو بنایا گیاتھا۔
(مسند احمد: 67/3)
لیکن یہ انصاری نہیں بلکہ ان کاتعلق مہاجرین سے ہے۔
شاید انھیں انصاری اس لیے کہا گیا ہوکہ انھوں نے دین اسلام کے معاملات میں رسول اللہ ﷺ کی مدد کی تھی۔
یہ بھی ممکن ہے کہ روایت میں انصار کا لفظ راوی کاوہم ہو۔
(فتح الباري: 73/8)
واللہ اعلم۔

ایک روایت میں ہے کہ جو لوگ امیر کےتیارکردہ الاؤ میں کودنے کے لیے تیار نہ ہوئے۔
رسول اللہ ﷺ نے ان کی حوصلہ افزائی فرمائی۔
(مسند احمد: 94/1)

واضح رہے کہ حضرت علقمہ ؓ اس قیافہ شناس کے بیٹے ہیں جنھوں نے حضرت اسامہ ؓ اورحضرت زید ؓ کے پاؤں دیکھ کرکہا تھا کہ یہ دونوں باپ بیٹا ہیں اور رسول اللہ ﷺ اس قیافہ سے بہت خوش ہوئے تھے، اس لیے علقمہ ؓ خود صحابی ہیں اور صحابی کے بیٹے ہیں۔
(فتح الباري: 74/8)

ابن اسحاق نے اس سریے کا یہ سبب بیان کیا ہے کہ غزوہ ذی قرد میں وقاص بن مجزز شہید ہوگئے تھے تو ان کے بھائی حضرت علقمہ بن مجزز نے انتقام لینا چاہا، تب رسول اللہ ﷺ نے اس سریے کو روانہ کیا۔
یہ بیان پہلے ذکر کردہ سبب کے خلاف ہے۔
ممکن ہے کہ اس سریے کے دونوں اسباب ہوں۔
واللہ اعلم۔
(فتح الباري: 73/8)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4340   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.