الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: غزوات کے بیان میں
The Book of Al- Maghazi
63. بَابُ غَزْوَةُ ذِي الْخَلَصَةِ:
63. باب: غزوہ ذوالخلصہ کا بیان۔
(63) Chapter. Ghazwa Dhul-Khalasa.
حدیث نمبر: 4355
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا خالد، حدثنا بيان، عن قيس، عن جرير، قال: كان بيت في الجاهلية، يقال له: ذو الخلصة، والكعبة اليمانية، والكعبة الشامية، فقال لي النبي صلى الله عليه وسلم:" الا تريحني من ذي الخلصة"، فنفرت في مائة وخمسين راكبا فكسرناه، وقتلنا من وجدنا عنده، فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم فاخبرته، فدعا لنا ولاحمس.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، حَدَّثَنَا بَيَانٌ، عَنْ قَيْسٍ، عَنْ جَرِيرٍ، قَالَ: كَانَ بَيْتٌ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، يُقَالُ لَهُ: ذُو الْخَلَصَةِ، وَالْكَعْبَةُ الْيَمانِيَةُ، وَالْكَعْبَةُ الشَّأْمِيَّةُ، فَقَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَلَا تُرِيحُنِي مِنْ ذِي الْخَلَصَةِ"، فَنَفَرْتُ فِي مِائَةٍ وَخَمْسِينَ رَاكِبًا فَكَسَرْنَاهُ، وَقَتَلْنَا مَنْ وَجَدْنَا عِنْدَهُ، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرْتُهُ، فَدَعَا لَنَا وَلِأَحْمَسَ.
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے خالد بن عبداللہ طحان نے بیان کیا، ان سے بیان بن بشر نے بیان کیا، ان سے قیس نے اور ان سے جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ذوالخلصہ سے مجھے کیوں نہیں بےفکری دلاتے! میں نے عرض کیا میں حکم کی تعمیل کروں گا۔ چنانچہ قبیلہ احمس کے ڈیڑھ سو سواروں کو ساتھ لے کر میں روانہ ہوا۔ یہ سب اچھے سوار تھے، لیکن میں سواری اچھی طرح نہیں کر پاتا تھا۔ میں نے اس کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر مارا جس کا اثر میں نے اپنے سینہ میں دیکھا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی۔

Narrated Jarir: In the Pre-lslamic Period of Ignorance there was a house called Dhu-l-Khalasa or Al-Ka`ba Al- Yamaniya or Al-Ka`ba Ash-Shamiya. The Prophet said to me, "Won't you relieve me from Dhu-l- Khalasa?" So I set out with one-hundred-and-fifty riders, and we dismantled it and killed whoever was present there. Then I came to the Prophet and informed him, and he invoked good upon us and Al- Ahmas (tribe) .
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 641


   صحيح البخاري3020جرير بن عبد اللهألا تريحني من ذي الخلصة وكان بيتا في خثعم يسمى كعبة اليمانية قال فانطلقت في خمسين ومائة فارس من أحمس وكانوا أصحاب خيل قال وكنت لا أثبت على الخيل فضرب في صدري حتى رأيت أثر أصابعه في صدري وقال اللهم ثبته واجعله هاديا مهديا فانطلق إليها فكسرها وحرقها ثم بعث
   صحيح البخاري6090جرير بن عبد اللهاللهم ثبته واجعله هاديا مهديا
   صحيح البخاري4355جرير بن عبد اللهألا تريحني من ذي الخلصة
   صحيح البخاري3076جرير بن عبد اللهألا تريحني من ذي الخلصة وكان بيتا فيه خثعم يسمى كعبة اليمانية فانطلقت في خمسين ومائة من أحمس وكانوا أصحاب خيل فأخبرت النبي أني لا أثبت على الخيل فضرب في صدري حتى رأيت أثر أصابعه في صدري فقال اللهم ثبته واجعله هاديا مهديا فانطلق إليها فكسرها وحرقها فأرسل إ
   صحيح البخاري4357جرير بن عبد اللهألا تريحني من ذي الخلصة فقلت بلى فانطلقت في خمسين ومائة فارس من أحمس وكانوا أصحاب خيل وكنت لا أثبت على الخيل فذكرت ذلك للنبي فضرب يده على صدري حتى رأيت أثر يده في صدري وقال اللهم ثبته واجعله هاديا مهديا
   صحيح البخاري6333جرير بن عبد اللهألا تريحني من ذي الخلصة وهو نصب كانوا يعبدونه يسمى الكعبة اليمانية قلت يا رسول الله إني رجل لا أثبت على الخيل فصك في صدري فقال اللهم ثبته واجعله هاديا مهديا
   صحيح البخاري4356جرير بن عبد اللهألا تريحني من ذي الخلصة وكان بيتا في خثعم يسمى الكعبة اليمانية فانطلقت في خمسين ومائة فارس من أحمس وكانوا أصحاب خيل وكنت لا أثبت على الخيل فضرب في صدري حتى رأيت أثر أصابعه في صدري وقال اللهم ثبته واجعله هاديا مهديا فانطلق إليها فكسرها وحرقها ثم بعث إلى رس
   صحيح البخاري3823جرير بن عبد اللههل أنت مريحي من ذي الخلصة قال فنفرت إليه في خمسين ومائة فارس من أحمس قال فكسرنا وقتلنا من وجدنا عنده فأتيناه فأخبرناه فدعا لنا ولأحمس
   صحيح البخاري3036جرير بن عبد اللهاللهم ثبته واجعله هاديا مهديا
   صحيح مسلم6366جرير بن عبد اللهألا تريحني من ذي الخلصة بيت لخثعم كان يدعى كعبة اليمانية قال فنفرت في خمسين ومائة فارس وكنت لا أثبت على الخيل فذكرت ذلك لرسول الله فضرب يده في صدري فقال اللهم ثبته واجعله هاديا مهديا قال فانطلق فحرقها بالنار ثم بعث جرير إلى رسول الله رجلا يبشره يكنى أبا أ
   صحيح مسلم6365جرير بن عبد اللهكان في الجاهلية بيت يقال له ذو الخلصة وكان يقال له الكعبة اليمانية والكعبة الشامية فقال رسول الله هل أنت مريحي من ذي الخلصة والكعبة اليمانية والشامية فنفرت إليه في مائة وخمسين من أحمس فكسرناه وقتلنا من وجدنا عنده فأتيته فأخبرته قال فدعا لنا ولأحمس
   سنن أبي داود2772جرير بن عبد اللهألا تريحني من ذي الخلصة فأتاها فحرقها ثم بعث رجلا من أحمس إلى النبي يبشره يكنى أبا أرطاة
   سنن ابن ماجه159جرير بن عبد اللهاللهم ثبته واجعله هاديا مهديا
   مسندالحميدي818جرير بن عبد الله
   مسندالحميدي820جرير بن عبد اللهألا تكفيني هذه الخلصة اليمانية؟

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث159  
´جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ کے مناقب و فضائل۔`
جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے پاس آنے سے نہیں روکا، اور جب بھی مجھے دیکھا میرے روبرو مسکرائے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ میں گھوڑے پر ٹک نہیں پاتا (گر جاتا ہوں) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ میرے سینے پہ مارا اور دعا فرمائی: اے اللہ! اس کو ثابت رکھ اور اسے ہدایت کنندہ اور ہدایت یافتہ بنا دے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 159]
اردو حاشہ:
(1)
حضرت جریر رضی اللہ عنہ دراز قد، خوبصورت اور خوش شکل تھے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ انہیں اس امت کا یوسف کہا کرتے تھے۔

(2)
حاضر ہونے سے منع نہیں فرمایا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں تشریف فرما ہوتے تھے یا کسی خاص مجلس میں رونق افروز ہوتے تھے اگر میں حاضری کی اجازت چاہتا تو مجھے ضرور اجازت مل جاتی تھی۔
کبھی حاضری سے منع نہیں کیا گیا، یعنی حضرت جریر رضی اللہ عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خصوصی قرب حاصل تھا۔

(3)
ملاقات کے وقت مسکرانا خوشی کا مظہر ہے، جو محبت کی علامت ہے کیونکہ جس سے محبت ہوتی ہے اس کی ملاقات سے خوشی ہوتی ہے، اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خوش خلقی اور خندہ پیشانی کی عادتِ مبارکہ بھی معلوم ہوتی ہے۔

(4)
گھوڑ سواری ایک فن ہے جس کا حصول ایک مجاہد کے لیے بہت ضروری ہے، حضرت جریر رضی اللہ عنہ کو یہ شکایت تھی کہ گھوڑے پر جم کر نہیں بیٹھ سکتے تھے، گرنے کا خطرہ محسوس کرتے تھے، اس لیے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات بتائی۔
کسی بزرگ ہستی کو اپنی کسی کمزوری سے آگاہ کرنا درست ہے تاکہ کوئی مناسب مشورہ حاصل ہو یا دعا ہی مل جائے۔

(5)
جب کسی بزرگ سے دعا کی درخواست کی جائے تو اسے چاہیے کہ دعا کر دے، انکار نہ کرے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 159   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2772  
´جنگ میں فتح کی خوشخبری دینے والوں کو بھیجنے کا بیان۔`
جریر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم مجھے ذو الخلصہ ۱؎ سے آرام نہیں پہنچاؤ گے؟ ۲؎، یہ سن کر جریر رضی اللہ عنہ وہاں آئے اور اسے جلا دیا پھر انہوں نے قبیلہ احمس کے ایک آدمی کو جس کی کنیت ابوارطاۃ تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا کہ وہ آپ کو اس کی خوشخبری دیدے۔ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2772]
فوائد ومسائل:

بنو خشعم نے اپنا ایک معبد بنا رکھا تھا۔
جسے وہ (الکعبة الیمانیة) کہتے تھے۔
اس گھرکا نام (خلصہ) اور بت کا نام (ذوالخلصہ) رکھا ہوا تھا۔
حضرت جریر فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے اور یہ مہم سر کی۔


کسی اہم واقعے کی خوشخبری بھیجنا جائز ہے۔
بشرط یہ کہ اس میں اپنے کردار کا لوگوں کو سنانا اور دکھلانا مقصود نہ ہو بلکہ اسلام کی سر بلندی کی اطلاع دینا مقصود ہویا مسلمانوں کا بڑھاوا اور ان کی حوصلہ افزائی مقصود ہو۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2772   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4355  
4355. حضرت جریر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ زمانہ جاہلیت میں ایک گھر تھا جسے ذوالخلصہ، کعبی یمانیہ اور کعبہ شامیہ کہا جاتا تھا۔ نبی ﷺ نے مجھے فرمایا: "کیا تم مجھے ذوالخلصہ سے آرام نہیں پہنچاؤ گے؟" میں ایک سو پچاس سوار لے کر گیا۔ اسے ہم نے توڑ پھوڑ دیا اور اس کے مجاوروں کو قتل کر دیا۔ اس کے بعد میں نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر سارا واقعہ بیان کیا تو آپ نے ہمارے اور قبیلہ حمس کے لیے دعا فرمائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4355]
حدیث حاشیہ:
ایک روایت میں یوں ہے کہ رسول کریم ﷺ نے حضرت جریر بن عبد اللہ ؓ کے سر پر ہاتھ رکھا اور منہ اور سینے پر زیرناف تک پھیر دیا پھر سر پر ہاتھ رکھا اور پیٹھ پر سرین تک پھیرا یا سینے پر خاص طور سے ہاتھ پھیرا۔
ان پاکیزہ دعاؤ ں کا یہ اثر ہوا کہ حضرت جریر بن عبد اللہ ؓ ایک بہترین شہسوار بن کر اس مہم پر روانہ ہوئے اور کا میابی سے واپس آئے۔
آپ نے اس بت خانے کے بارے میں جو فرمایا ا س کی وجہ یہ تھی کہ وہاںکفار ومشرکین اسلام کے خلاف سازشیں کرتے، رسول کریم ﷺ کی ایذارسانی کی تدابیر سوچتے اور کعبہ مقدس کی تنقیص کرتے اور ہر طرح سے اسلام دشمنی کا مظاہرہ کرتے، لہذاقیام امن کے لیے اس کا ختم کرنا ضروری ہوا۔
حالت امن میں کسی قوم ومذہب کی عبادت گاہ کو اسلام نے مسمار کرنے کا حکم نہیں دیا ہے۔
حضرت عمر ؓ نے اپنے عہد خلافت میں ذمی یہود اور نصاری کے گرجاؤں کو محفوظ رکھا اور ہندو ستان میں مسلمان بادشاہوں نے اس ملک کی عبادت گاہوں کی حفاظت کی اور ان کے لیے جاگیریں وقف کی ہیں۔
جیساکہ تاریخ شاہد ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4355   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4355  
4355. حضرت جریر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ زمانہ جاہلیت میں ایک گھر تھا جسے ذوالخلصہ، کعبی یمانیہ اور کعبہ شامیہ کہا جاتا تھا۔ نبی ﷺ نے مجھے فرمایا: "کیا تم مجھے ذوالخلصہ سے آرام نہیں پہنچاؤ گے؟" میں ایک سو پچاس سوار لے کر گیا۔ اسے ہم نے توڑ پھوڑ دیا اور اس کے مجاوروں کو قتل کر دیا۔ اس کے بعد میں نے نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر سارا واقعہ بیان کیا تو آپ نے ہمارے اور قبیلہ حمس کے لیے دعا فرمائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4355]
حدیث حاشیہ:

قبیلہ خشعم کے لوگوں نے بیت اللہ کی طرز پر ایک بت خانہ تیا رکیا تھا جسے کعبہ یمانیہ اور کعبہ شامیہ کہا جاتاتھا۔
ذوالخلصہ، کعبہ یمانیہ اور کعبہ شامیہ یہ تینوں اس کےنام تھے۔
کعبہ یمانیہ اس لیے کہ اسے یمن میں تعمیر کیا گیا تھا اور کعبہ شامیہ اس لیے کہتے تھے کہ اس کا دروازہ شام کی طرف تھا جیسا کہ لاہور میں دہلی دروازے کا نام اس بناپر ہے کہ وہ انڈیا کے شہر دہلی کی طرف واقع ہے۔

رسول اللہ ﷺ نے حضرت جریربن عبداللہ ؓ کو اسے توڑنے کے لیے مقرر فرمایا کیونکہ یہ بت خانہ ان کے علاقے میں تھا اوریہ اپنی قوم کے سردار تھے۔
ان کا تعلق قبیلہ بجیلہ سے تھا اور قبیلہ احمس ان کا حلیف تھا، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں کے لیے دعا فرمائی۔
اس کی تفصیل آئندہ بیان ہوگی۔
ان شاء اللہ۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4355   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.