الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: غزوات کے بیان میں
The Book of Al- Maghazi
79. بَابُ غَزْوَةُ تَبُوكَ، وَهْيَ غَزْوَةُ الْعُسْرَةِ:
79. باب: غزوہ تبوک کا بیان، اس کا دوسرا غزوہ عسرت یعنی (تنگی کا غزوہ) بھی ہے۔
(79) Chapter. The Ghazwa of Tabuk, which is also called Ghazwa AI-Usrah (i.e., the battle of hardship).
حدیث نمبر: 4416
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن شعبة، عن الحكم، عن مصعب بن سعد، عن ابيه: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم خرج إلى تبوك واستخلف عليا، فقال: اتخلفني في الصبيان والنساء، قال:" الا ترضى ان تكون مني بمنزلة هارون من موسى؟ إلا انه ليس نبي بعدي"،وقال ابو داود: حدثنا شعبة، عن الحكم، سمعت مصعبا.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَى تَبُوكَ وَاسْتَخْلَفَ عَلِيًّا، فَقَالَ: أَتُخَلِّفُنِي فِي الصِّبْيَانِ وَالنِّسَاءِ، قَالَ:" أَلَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى؟ إِلَّا أَنَّهُ لَيْسَ نَبِيٌّ بَعْدِي"،وَقَالَ أَبُو دَاوُدَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْحَكَمِ، سَمِعْتُ مُصْعَبًا.
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سمیر قفان نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے حکم بن عتبہ نے، ان سے مصعب بن سعد نے اور ان سے ان کے والد نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک کے لیے تشریف لے گئے تو علی رضی اللہ عنہ کو مدینہ میں اپنا نائب بنایا۔ علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ آپ مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑے جا رہے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اس پر خوش نہیں ہو کہ میرے لیے تم ایسے ہو جیسے موسیٰ کے لیے ہارون تھے۔ لیکن فرق یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔ اور ابوداؤد طیالسی نے اس حدیث کو یوں بیان کیا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے حکم بن عتبہ نے اور انہوں نے کہا میں نے مصعب سے سنا۔

Narrated Sa`d: Allah's Apostle set out for Tabuk. appointing `Ali as his deputy (in Medina). `Ali said, "Do you want to leave me with the children and women?" The Prophet said, "Will you not be pleased that you will be to me like Aaron to Moses? But there will be no prophet after me."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 700


   صحيح البخاري4416سعد بن مالكألا ترضى أن تكون مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه ليس نبي بعدي
   صحيح البخاري3706سعد بن مالكأما ترضى أن تكون مني بمنزلة هارون من موسى
   صحيح مسلم6221سعد بن مالكأما ترضى أن تكون مني بمنزلة هارون من موسى
   صحيح مسلم6220سعد بن مالكأما ترضى أن تكون مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبوة بعدي لأعطين الراية رجلا يحب الله ورسوله ويحبه الله ورسوله
   صحيح مسلم6217سعد بن مالكأنت مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبي بعدي
   صحيح مسلم6218سعد بن مالكأما ترضى أن تكون مني بمنزلة هارون من موسى غير أنه لا نبي بعدي
   جامع الترمذي3731سعد بن مالكأنت مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبي بعدي
   سنن ابن ماجه121سعد بن مالكمن كنت مولاه فعلي مولاه أنت مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبي بعدي أعطين الراية اليوم رجلا يحب الله ورسوله
   سنن ابن ماجه115سعد بن مالكألا ترضى أن تكون مني بمنزلة هارون من موسى
   المعجم الصغير للطبراني890سعد بن مالكأنت مني بمنزلة هارون من موسى إلا أنه لا نبي بعدي
   المعجم الصغير للطبراني895سعد بن مالك أنت مني بمنزلة هارون من موسى ، إلا أنه لا نبي بعدي
   مسندالحميدي71سعد بن مالكأما ترضى أن تكون مني بمنزلة هارون من موسى

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث115  
´علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے مناقب و فضائل۔`
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: کیا تم اس بات پر خوش نہیں کہ تم میری طرف سے ایسے ہی رہو جیسے ہارون موسیٰ کی طرف سے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 115]
اردو حاشہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہ ارشاد اس وقت فرمایا تھا، جب نبی علیہ السلام غزوہ تبوک کے لیے تشریف لے گئے اور مدینہ منورہ کے انتظام کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جہاد سے پیچھے رہنے پر افسوس ہوا اور عرض کیا:
کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑے جاتے ہیں۔
اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مذکورہ بالا ارشاد فرمایا:
(صحيح البخاري، المغازي، باب غزوه تبوك، حديث: 4416)

(2)
بعض لوگوں نے اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت بلا فصل ثابت کرنے کی کوشش کی ہے، وہ کہتے ہیں:
حضرت ہارون علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلیفہ تھے اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ ہیں۔
اس بنا پر وہ لوگ خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنھم پر اعتراض کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حق لے لیا۔
در حقیقت یہ محض مغالطہ ہے کیونکہ حضرت ہارون علیہ السلام کی خلافت عارضی تھی اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں تھی۔
اس طرح غزوہ تبوک میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت عارضی تھی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تھی۔
حضرت ہارون علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد ان کے خلیفہ نہیں بنے کیونکہ ان کی وفات حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زندگی میں ہو چکی تھی۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد ان کا منصب یوشع بن نون علیہ السلام نے سنبھالا تھا۔
اس حدیث کی روشنی میں اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت مستقل تسلیم کر بھی لی جائے تو اس امر کی کوئی دلیل نہیں کہ یہ خلافت بلا فصل ہو گی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 115   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4416  
4416. حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ تبوک کی طرف تشریف لے جانے لگے تو آپ نے مدینہ منورہ میں حضرت علی ؓ کو اپنا جانشین مقرر فرمایا۔ انہوں نے عرض کی: آپ مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑ کر جاتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: کیا تم اس بات پر خوش نہیں کہ میرے پاس تمہارا وہی درجہ ہو جو موسٰی ؑ کے ہاں ہارون ؑ کا تھا۔ صرف اتنا فرق ہے کہ میرے بعد کوئی دوسرا نبی نہیں ہو گا۔ ابو داود نے اس حدیث کو ایک دوسری سند سے بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4416]
حدیث حاشیہ:
غزوئہ تبوک کی وجہ یہ ہوئی کہ رسول کریم ﷺ کو یہ خبرپہنچی تھی کہ روم کے نصاریٰ مسلمانوں سے لڑنے کی تیاری کررہے ہیں اور عرب کے بھی کئی قبائل لخم جذام وغیرہ کو وہ اپنے ساتھ ملا رہے ہیں۔
یہ خبر سن کر آنحضرت ﷺ نے خود پیش قدمی کرنے کا فیصلہ فرمایا تاکہ نصاریٰ کو مسلمانوں کی تیاریوں کا علم ہوجائے اور وہ خود لڑائی کا خیال چھوڑ دیں اور جنگ نہ ہونے پائے۔
اس جنگ میں حضرت عثمان ؓ نے دو سو اونٹ معہ سامان کے مسلمانوں کے لیے پیش فرمائے تھے۔
جس پرآنحضرت ﷺ نے خوش ہوکر فرمایا کہ اب عثمان ؓ جیسے بھی عمل کریں ان کے لیے رضائے الٰہی واجب ہوچکی ہے۔
روایت میں حضرت علی ؓ کی فضیلت کا بھی ذکر ہے۔
آنحضرت ﷺ نے ان کو اپنے لیے ایسا ہی معاون قرار دیا جیسے حضرت ہاروں ؑ حضرت موسیٰ ؑ کے معاون تھے۔
اس سے حضرت علی ؓ کی خلافت بلا فصل پر دلیل پکڑنا غلط ہے۔
کیونکہ حضرت ہارون ؑ کو موسوی خلافت نہیں ملی۔
وہ حضر ت موسیٰ ؑ سے پہلے ہی انتقال کرچکے تھے۔
حضرت موسیٰ ؑ نے صرف طور پر جاتے وقت حضرت ہاروں ؑ کو اپنا جانشین بنایا تھا۔
ایسا ہی آنحضرت ﷺ نے جنگ تبوک میں جاتے وقت حضرت علی ؓ کو مدینہ میں اپنا جانشین بنایا۔
بس اس مماثلت کا تعلق صرف اسی حد تک ہے۔
ا س ارشاد نبوی ﷺ کا مفہوم خود حضرت علی ؓ نے بھی یہ نہیں سمجھا تھا جو شیعہ حضرات نے سمجھا ہے۔
اگر حضرت علی ؓ ایسا سمجھتے تو خود کیونکر حضرت ابوبکر ؓ کے دست حق پر بیعت کرکے ان کو خلیفہ برحق سمجھتے۔
حدیث ھذا سے یہ بھی ثابت ہوا کہ آنحضرت ﷺ آخری نبی ہیں۔
آپ کے بعد رسالت ونبو ت کا سلسلہ قیامت تک کے لیے بند ہوچکا ہے۔
اب جو بھی کسی بھی قسم کی نبوت کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا دجال ہے، خواہ وہ کیسی ہی اسلام دوستی کی بات کرے، وہ غدار ہے مکار ہے۔
تخت نبوت کا باغی ہے۔
ہر کلمہ گو مسلمان کا فرض ہے کہ ایسے مدعی کا منہ توڑمقابلہ کر کے ناموس رسالت کے تحفظ کے لیے اپنی پوری پوری جد وجہد کرے۔
اس دور آخر میں فرقہ قادیانیہ ایک ایسا ہی باطل پر ست فرقہ ہے جو پنجاب کے قصبہ قادیان کے ایک شخص مسمیٰ مرزاغلام احمد کے لیے نبوت کا مدعی ہے اور جس نے دجل ومکر پھیلانے میں ہو بہو دجال کی نقل کی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4416   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4416  
4416. حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ تبوک کی طرف تشریف لے جانے لگے تو آپ نے مدینہ منورہ میں حضرت علی ؓ کو اپنا جانشین مقرر فرمایا۔ انہوں نے عرض کی: آپ مجھے بچوں اور عورتوں میں چھوڑ کر جاتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: کیا تم اس بات پر خوش نہیں کہ میرے پاس تمہارا وہی درجہ ہو جو موسٰی ؑ کے ہاں ہارون ؑ کا تھا۔ صرف اتنا فرق ہے کہ میرے بعد کوئی دوسرا نبی نہیں ہو گا۔ ابو داود نے اس حدیث کو ایک دوسری سند سے بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4416]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث سے شیعہ حضرات نے حضرت علی ؓ کے لیے خلافت بلافصل کا استدلال کیا ہے جوکئی لحاظ سے محل نظر ہے۔
۔
حضرت ہارون ؑ حضرت موسیٰ ؑ سے پہلے ہی فوت ہوچکے تھے، اس لیے خلافت کا قیاس صحیح نہیں۔
۔
حضرت علی ؓ کو دنیوی معاملات اور گھریلو دیکھ بھال کے لیے جانشین نامزد کیا تھا جیسا کہ بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں اور دیگر گھریلوخواتین کو بلا کرتلقین کی کہ علی کی بات سننا اور اس کی اطاعت کرنا۔
۔
حضرت ابوبکرصدیق ؓ کی خلافت پرتمام صحابہ کرام ؓ کا اجماع ہوا حتی کہ حضرت علی ؓ نے بھی بالآخر بیعت کرکے اس اجماع کوقبول کرلیا۔
۔
احادیث میں واضح طور پر ایسے ارشادات ملتے ہیں کہ آپ کے بعد حضرت ابوبکر ؓ کا خلیفہ بننا آپ کی مرضی کے عین مطابق تھا۔
واللہ اعلم۔

اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺ آخری نبی ہیں۔
آپ کے بعد رسالت ونبوت کا دروازہ قیامت تک کے لیے بند ہوچکا ہے اب جو بھی کسی قسم کی نبوت کا دعویٰ کرے گا وہ جھوٹا دجال ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4416   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.