الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: غزوات کے بیان میں
The Book of Al- Maghazi
84. بَابُ مَرَضِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَوَفَاتِهِ:
84. باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا بیان۔
(84) Chapter. The sickness of the Prophet and his death.
حدیث نمبر: 4449
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثني محمد بن عبيد، حدثنا عيسى بن يونس، عن عمر بن سعيد، قال: اخبرني ابن ابي مليكة، ان ابا عمرو ذكوان مولى عائشة اخبره، ان عائشة كانت تقول: إن من نعم الله علي ان رسول الله صلى الله عليه وسلم توفي في بيتي، وفي يومي، وبين سحري ونحري، وان الله جمع بين ريقي وريقه عند موته، دخل علي عبد الرحمن وبيده السواك، وانا مسندة رسول الله صلى الله عليه وسلم فرايته ينظر إليه، وعرفت انه يحب السواك، فقلت: آخذه لك؟ فاشار براسه ان: نعم، فتناولته فاشتد عليه، وقلت: الينه لك؟ فاشار براسه ان: نعم، فلينته، فامره وبين يديه ركوة او علبة يشك عمر فيها ماء، فجعل يدخل يديه في الماء، فيمسح بهما وجهه، يقول:" لا إله إلا الله، إن للموت سكرات"، ثم نصب يده فجعل، يقول:" في الرفيق الاعلى"، حتى قبض ومالت يده.(مرفوع) حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ، أَنَّ أَبَا عَمْرٍو ذَكْوَانَ مَوْلَى عَائِشَةَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَائِشَةَ كَانَتْ تَقُولُ: إِنَّ مِنْ نِعَمِ اللَّهِ عَلَيَّ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تُوُفِّيَ فِي بَيْتِي، وَفِي يَوْمِي، وَبَيْنَ سَحْرِي وَنَحْرِي، وَأَنَّ اللَّهَ جَمَعَ بَيْنَ رِيقِي وَرِيقِهِ عِنْدَ مَوْتِهِ، دَخَلَ عَلَيَّ عَبْدُ الرَّحْمَنِ وَبِيَدِهِ السِّوَاكُ، وَأَنَا مُسْنِدَةٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَأَيْتُهُ يَنْظُرُ إِلَيْهِ، وَعَرَفْتُ أَنَّهُ يُحِبُّ السِّوَاكَ، فَقُلْتُ: آخُذُهُ لَكَ؟ فَأَشَارَ بِرَأْسِهِ أَنْ: نَعَمْ، فَتَنَاوَلْتُهُ فَاشْتَدَّ عَلَيْهِ، وَقُلْتُ: أُلَيِّنُهُ لَكَ؟ فَأَشَارَ بِرَأْسِهِ أَنْ: نَعَمْ، فَلَيَّنْتُهُ، فَأَمَرَّهُ وَبَيْنَ يَدَيْهِ رَكْوَةٌ أَوْ عُلْبَةٌ يَشُكُّ عُمَرُ فِيهَا مَاءٌ، فَجَعَلَ يُدْخِلُ يَدَيْهِ فِي الْمَاءِ، فَيَمْسَحُ بِهِمَا وَجْهَهُ، يَقُولُ:" لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، إِنَّ لِلْمَوْتِ سَكَرَاتٍ"، ثُمَّ نَصَبَ يَدَهُ فَجَعَلَ، يَقُولُ:" فِي الرَّفِيقِ الْأَعْلَى"، حَتَّى قُبِضَ وَمَالَتْ يَدُهُ.
مجھ سے محمد بن عبید نے بیان کیا، کہا ہم سے عیسیٰ بن یونس نے بیان کیا، ان سے عمر بن سعید نے، انہیں ابن ابی ملیکہ نے خبر دی اور انہیں عائشہ رضی اللہ عنہا کے غلام ابوعمرو ذکوان نے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرمایا کرتی تھیں، اللہ کی بہت سی نعمتوں میں ایک نعمت مجھ پر یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات میرے گھر میں اور میری باری کے دن ہوئی۔ آپ اس وقت میرے سینے سے ٹیک لگائے ہوئے تھے۔ اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت میرے اور آپ کے تھوک کو ایک ساتھ جمع کیا تھا کہ عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ گھر میں آئے تو ان کے ہاتھ میں مسواک تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ پر ٹیک لگائے ہوئے تھے، میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس مسواک کو دیکھ رہے ہیں۔ میں سمجھ گئی کہ آپ مسواک کرنا چاہتے ہیں، اس لیے میں نے آپ سے پوچھا، یہ مسواک آپ کے لیے لے لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر کے اشارہ سے اثبات میں جواب دیا، میں نے وہ مسواک ان سے لے لی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے چبا نہ سکے، میں نے پوچھا آپ کے لیے میں اسے نرم کر دوں؟ آپ نے سر کے اشارہ سے اثبات میں جواب دیا۔ میں نے مسواک نرم کر دی۔ آپ کے سامنے ایک بڑا پیالہ تھا، چمڑے کا یا لکڑی کا (راوی حدیث) عمر کو اس سلسلے میں شک تھا، اس کے اندر پانی تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باربار اپنے ہاتھ اس کے اندر داخل کرتے اور پھر انہیں اپنے چہرے پر پھیرتے اور فرماتے «لا إله إلا الله» ۔ موت کے وقت شدت ہوتی ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا ہاتھ اٹھا کر کہنے لگے «في الرفيق الأعلى» یہاں تک کہ آپ رحلت فرما گئے اور آپ کا ہاتھ جھک گیا۔

Narrated Aisha: It was one of the favors of Allah towards me that Allah's Apostle expired in my house on the day of my turn while he was leaning against my chest and Allah made my saliva mix with his saliva at his death. `Abdur-Rahman entered upon me with a Siwak in his hand and I was supporting (the back of) Allah's Apostle (against my chest ). I saw the Prophet looking at it (i.e. Siwak) and I knew that he loved the Siwak, so I said ( to him ), "Shall I take it for you ? " He nodded in agreement. So I took it and it was too stiff for him to use, so I said, "Shall I soften it for you ?" He nodded his approval. So I softened it and he cleaned his teeth with it. In front of him there was a jug or a tin, (The sub-narrator, `Umar is in doubt as to which was right) containing water. He started dipping his hand in the water and rubbing his face with it, he said, "None has the right to be worshipped except Allah. Death has its agonies." He then lifted his hands (towards the sky) and started saying, "With the highest companion," till he expired and his hand dropped down.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 730


   صحيح البخاري4436عائشة بنت عبد اللهفي الرفيق الأعلى
   صحيح البخاري6348عائشة بنت عبد اللهالرفيق الأعلى
   صحيح البخاري4437عائشة بنت عبد اللهفي الرفيق الأعلى
   صحيح البخاري4463عائشة بنت عبد اللهالرفيق الأعلى
   صحيح البخاري6509عائشة بنت عبد اللهالرفيق الأعلى
   صحيح البخاري4438عائشة بنت عبد اللهفي الرفيق الأعلى ثلاثا
   صحيح البخاري5674عائشة بنت عبد اللهاغفر لي وارحمني وألحقني بالرفيق الأعلى
   صحيح البخاري4440عائشة بنت عبد اللهاغفر لي وارحمني وألحقني بالرفيق
   صحيح البخاري4449عائشة بنت عبد اللهفي الرفيق الأعلى
   صحيح البخاري4451عائشة بنت عبد اللهفي الرفيق الأعلى في الرفيق الأعلى
   صحيح مسلم6297عائشة بنت عبد اللهالرفيق الأعلى
   صحيح مسلم6293عائشة بنت عبد اللهاغفر لي وارحمني وألحقني بالرفيق
   جامع الترمذي3496عائشة بنت عبد اللهاغفر لي وارحمني وألحقني بالرفيق الأعلى

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5674  
´مریض کا موت کی تمنا کرنا منع ہے`
«. . . عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُسْتَنِدٌ إِلَيَّ يَقُولُ:" اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَارْحَمْنِي وَأَلْحِقْنِي بِالرَّفِيقِ الأَعْلَى . . .»
. . . عباد بن عبداللہ بن زبیر نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرا سہارا لیے ہوئے تھے (مرض الموت میں) اور فرما رہے تھے «اللهم اغفر لي وارحمني وألحقني بالرفيق الأعلى» اے اللہ! میری مغفرت فرما مجھ پر رحم کر اور مجھ کو اچھے رفیقوں (فرشتوں اور پیغمبروں) کے ساتھ ملا دے۔ [صحيح البخاري/كتاب المرضى: 5674]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5674 کا باب: «بَابُ تَمَنِّي الْمَرِيضِ الْمَوْتَ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے موت کی تمنا کرنے کو ناجائز قرار دیا ہے اور اسی پر باب قائم فرمایا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے تحت الباب چار احادیث کا ذکر فرمایا ہے۔
سیدنا انس، سیدنا خباب بن ارت اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہم کی احادیث سے باب میں مناسبت واضح ہے، مگر چوتھی حدیث جو ام المؤمنین سے مروی ہے اس کی باب سے مناسبت مشکل ہے کیونکہ اس میں موت کی تمنا کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔

دراصل امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو تحت الباب آخر میں ذکر فرمایا ہے، آپ کی یہاں مراد یہ ہے کہ ایک روایت میں ہے: «ولا يدع به قبل ان يأتيه» جو اس بات کی قید ہے کہ موت کی تمنا اس وقت درست ہو گی کہ جب اس کے آثار نمایاں ہو جائیں تو اس وقت موت کی تمنا کرنا جائز ہو گی، اسی لیے امام بخاری رحمہ اللہ نے «اللهم بالرفيق الأعلى» والی حدیث کو آخر میں ذکر فرمایا،

چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ العسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«ولا يدع به من قبل أن ياتيه وهو قيد فى الصورتيں، ومفهومه اذا حل به لا يمنع من تمنيه رضا بلقاء الله ولا من طلبه من الله لذالك وهو كذالك، ولهذه النكتة عقب البخاري حديث أبى هريرة بحديث عائشة اللهم اغفرلي وارحمني والحقني بالرفيق الأعلى إشارة إلى أن النهي مختص بالحالة التى قبل نزول الموت، فلله دره ما كان اكثر استحضاره و ايثار للأخفى على الأجل شحذاً للأذهان، وقد خفي صنيعه هذا على من جعل حديث عائشة فى الباب معارضاً الأحاديث الباب أو ناسخاً لها .»
«لا يتمنين» ہمام بن ابی ہریرہ کی روایت میں بھی نون تاکید کے ساتھ ہے اور «الموت» کے بعد یہ جملہ بھی مراد ہے، «ولا يدع به قبل ان يأتيه» یہ دونوں صورتوں میں قید ہے، اس کا مفہوم یہ ہے کہ جب وہ آ جائے تو اس کی لقاء للہ کی تمنا اور نہ اللہ تعالیٰ سے اس کی طلب اس کے لیے مانع ہے، اسی نکتہ کے مدنظر اس کے بعد ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت لائے، جس میں نزع کے عالم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کہے یہ الفاظ مذکور ہیں، «اللهم اغفر لي وارحمني والحقني بالرفيق الأعلىٰ» تو اشارہ دیا کہ نہی نزول موت سے قبل کی حالت کے ساتھ مختص ہے تو اللہ تعالیٰ بھلا کرے امام بخاری رحمہ اللہ کا کہ کس قدر حاضر دماغ اور صاحب مطالعہ ہیں، آپ اخفٰی روایت کو اجلٰی پر ترجیح دیتے ہوئے نقل کرنے کی یہ روش تشحیذ اذہان کے لیے پیدا کی ہے، ان کی یہ صنیع ان حضرات پر مخفی رہی جنہوں نے حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا کو باب کی دیگر احاد یث کے معارض یا ان کے لیے اسے ناسخ قرار دیا۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے ان اقتباسات سے کئی باتیں ظاہر ہوئیں، آپ کا اشارہ اس طرف ہے کہ جب موت کے آثار نمایاں نہ ہوں تو حدیث «لا يتمنين» پر عمل ہو گا اور اگر جب اس کے آثار نمایاں ہو جا ئیں واضح طور پر تو حدیث ام المؤمنین عائشہ کے مطابق اس کی تمنا کرنا جائز ہو گا، لہٰذا متعارض سمجھنے والوں نے اجلت سے کام لیا، کیوں کہ ان روایات میں تطبیق واضح ہے اور یہ تعارض نہیں ہے، بلکہ بین الروایتین المختلیفین میں مخفی تطبیقی ہے، اسی بات کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ ذکر فرما رہے ہیں، اب ترجمۃ الباب سے حدیث کی مناسبت واضح ہوئی کہ ترجمہ کا تعلق جو ممانعت کے ساتھ ہے ان سے وہ حضرات مراد ہیں جن پر موت کے آثار نمایاں نہیں ہیں اور اگر نمایاں ہو جائیں تو موت کی تمنا جائز ہو گی، پس یہی مراد ہے باب اور ماتحت الباب احادیث کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ «فأفهم ولا تكن من الغافلين»

حدیث پر ایک اشکال اور اس کا جواب:
مذکورہ باب کے تحت امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک اور حدیث ذکر فرمائی کہ «لَنْ يدْخَلَ أحَدََا عَمَلَه الْجَنَّةَ» یعنی تم میں سے کوئی بھی ہرگز اپنے عمل کی وجہ سے جنت میں داخل نہ ہو گا۔ یہ حدیث قرآن مجید کی آیت سے معارض ہے۔ چنانچہ امام قسطلانی رحمہ اللہ حدیث پر ایک اعتراض اس طرح سے نقل کرتے ہیں کہ:
«لن يدخل أحدأ عمله الجنة واستشكل بقوله تعالىٰ: وتلك الجنة التى أورثتموها بما كنتم تعملون» [الزخرف: 72]
یعنی حدیث کہ تم میں کوئی ہرگز اپنے عمل کی وجہ سے جنت میں نہ جائے گا اس پر یہ اشکال وارد ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ:
«وتلك الجنة التى . . . . . . . الاية» لہٰذا حدیث قرآنی آیت سے معارض ہے، کیوں کہ حدیث میں عمل کی وجہ سے جنت میں جانے کی نفی ہے اور قرآنی آیت میں اثبات۔
چنانچہ اس اشکال کا جواب دیتے ہوئے امام قسطلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«وأجيب بأن محمل الاية على أن الجنة تنال المنازل فيها بالاعمال لأن درجات الجنة متفاوتة بحسب تفاوت الاعمال وأن محل الحديث على اصل دخول الحنة .»
اس کا جواب یہ ہے کہ آیت کریمہ میں جنت سے درجات اور منازل جنت مراد ہیں کہ جنت کے درجات اعمال سے متعین ہوں گے، کیوں کہ جنت کے درجات مختلف اور متفاوت ہیں، اس لیے جس کا جس قدر عمل ٹھیک ہو گا اسی کے مطابق اس کو جنت میں رتبہ نصیب ہو گا حدیث باب میں جنت سے نفس جنت میں داخلہ مراد ہے، یعنی اصل جنت میں دخول کسی عمل کی وجہ سے نہیں ہو گا، بلکہ اللہ تعالیٰ کے خاص کرم سے ہو گا، البتہ مراتب اعمال کے اعتبار سے ہوں گے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 150   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3496  
´باب:۔۔۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی وفات کے وقت (یہ دعا) پڑھتے ہوئے سنا ہے: «اللهم اغفر لي وارحمني وألحقني بالرفيق الأعلى» اے اللہ! بخش دے مجھ کو اور رحم فرما مجھ پر اور مجھ کو رفیق اعلیٰ (انبیاء و ملائکہ) سے ملا دے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3496]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اے اللہ! بخش دے مجھ کو اور رحم فرما مجھ پر اور مجھ کو رفیق اعلیٰ (انبیاء وملائکہ) سے ملا دے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3496   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4449  
4449. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: بےشک اللہ تعالٰی کے احسانات میں سے ایک احسان مجھ پر یہ بھی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے میری باری کے دن میرے گھر میں وفات پائی۔ وفات کے وقت آپ کا سر مبارک میرے سینے اور گردن کے درمیان تھا۔ اور اللہ تعالٰی نے آخری وقت میرا اور آپ کا لعاب دہن ملا دیا کیونکہ (میرے بھائی) حضرت عبدالرحمٰن ؓ ایک تازہ مسواک پکڑے گھر میں داخل ہوئے۔ میں اس وقت آپ کو سہارا دیے ہوئے تھی۔ میں نے دیکھا کہ آپ مسواک کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہے ہیں اور مجھے معلوم تھا کہ آپ مسواک کو بہت پسند کرتے تھے۔ میں نے عرض کی: یہ مسواک آپ کے لیے لے لوں؟ آپ نے سر مبارک سے اشارہ کر کے فرمایا: ہاں۔ چنانچہ میں نے وہ مسواک لے کر آپ کو دی لیکن آپ کو سخت محسوس ہوئی، اس لیے میں نے کہا: میں اسے آپ کے لیے نرم کر دوں؟ آپ نے سر کے اشارے سے فرمایا: ہاں۔ لہذا میں نے اسے چبا کر نرم کر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4449]
حدیث حاشیہ:

صحیح بخاری ہی کی ایک روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے دنیا کے آخری اور آخرت کے پہلے دن میرا اور رسول اللہ ﷺ کا لعاب دہن اکٹھا کردیا۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4451)
اس میں میں اشارہ تھا کہ صدیقہ کائنات حضرت عائشہ ؓ اور رسول اللہ ﷺ دنیا وآخرت میں ایک جگہ رہیں گے۔

اس حدیث سے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے کہ آپ کا لعاب دہن اور رسول اللہ ﷺ کا لعاب مبارک آپ کے منہ میں جمع ہو گئے کیونکہ جب رسول اللہ ﷺ نے مسواک کرنا شروع کی تو اس وقت جو حضرت عائشہ ؓ کا لعاب دہن مسواک سے لگا ہوا تھا وہ رسول اللہ ﷺ کے لعاب مبارک سے مل گیا۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4449   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.