الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
3. بَابُ قَوْلِهِ: {قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنْفُسُكُمْ أَمْرًا} :
3. باب: آیت کی تفسیر ”یعقوب نے کہا، تم نے اپنے دل سے خود ایک جھوٹی بات گھڑ لی ہے“۔
(3) Chapter. The Statement of Allah: “He said, ’Nay, but your ownselves have made up a tale. So (for me), patience is most fitting. And it is Allah (Alone) Whose help can be sought against that (lie) which you describe.’ ” (V.12:18)
حدیث نمبر: 4691
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا موسى، حدثنا ابو عوانة، عن حصين، عن ابي وائل، قال: حدثني مسروق بن الاجدع، قال: حدثتني ام رومان وهي ام عائشة، قالت: بينا انا وعائشة اخذتها الحمى، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" لعل في حديث تحدث"، قالت: نعم، وقعدت عائشة، قالت: مثلي ومثلكم كيعقوب وبنيه، بل سولت لكم انفسكم امرا فصبر جميل والله المستعان على ما تصفون سورة يوسف آية 18.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَسْرُوقُ بْنُ الْأَجْدَعِ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي أُمُّ رُومَانَ وَهْيَ أُمُّ عَائِشَةَ، قَالَتْ: بَيْنَا أَنَا وَعَائِشَةُ أَخَذَتْهَا الْحُمَّى، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَعَلَّ فِي حَدِيثٍ تُحُدِّثَ"، قَالَتْ: نَعَمْ، وَقَعَدَتْ عَائِشَةُ، قَالَتْ: مَثَلِي وَمَثَلُكُمْ كَيَعْقُوبَ وَبَنِيهِ، بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنْفُسُكُمْ أَمْرًا فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ سورة يوسف آية 18.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعوانہ نے بیان کیا، ان سے حصین بن عبدالرحمٰن نے، ان سے ابووائل شقیق بن سلمہ نے، کہا کہ مجھ سے مسروق بن اجدع نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ام رومان رضی اللہ عنہا نے بیان کیا، وہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی والدہ ہیں، انہوں نے بیان کیا کہ میں اور عائشہ بیٹھے ہوئے تھے کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بخار چڑھ گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ غالباً یہ ان باتوں کی وجہ ہوا ہو گا جن کا چرچا ہو رہا ہے۔ ام رومان رضی اللہ عنہا نے عرض کیا کہ جی ہاں۔ اس کے بعد عائشہ رضی اللہ عنہا بیٹھ گئیں اور کہا کہ میری اور آپ لوگوں کی مثال یعقوب علیہ السلام اور ان کے بیٹوں جیسی ہے اور آپ لوگ جو کچھ بیان کرتے ہو اس پر اللہ ہی مدد کرے۔

Narrated Um Ruman: Who was `Aisha's mother: While I was with `Aisha, `Aisha got fever, whereupon the Prophet said, "Probably her fever is caused by the story related by the people (about her)." I said, "Yes." Then `Aisha sat up and said, "My example and your example is similar to that of Jacob and his sons:--'Nay, but your minds have made up a tale. So (for me) patience is most fitting. It is Allah (alone) Whose help can be sought against that which you assert.' (12.18)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 213


   صحيح البخاري4143زينب بنت عبد دهمانبينا أنا قاعدة أنا وعائشة إذ ولجت امرأة من الأنصار فقالت فعل الله بفلان وفعل فقالت أم رومان وما ذاك قالت ابني فيمن حدث الحديث قالت وما ذاك قالت كذا وكذا قالت عائشة سمع رسول الله قالت نعم قالت وأبو بكر قالت نعم فخرت مغشيا علي
   صحيح البخاري3388زينب بنت عبد دهمانبحمد الله لا بحمد أحد
   صحيح البخاري4691زينب بنت عبد دهمانلعل في حديث تحدث

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3388  
´بیشک یوسف اور ان کے بھائیوں کے واقعات میں پوچھنے والوں کیلئے قدرت کی بہت سی نشانیاں ہیں`
«. . .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَامٍ، أَخْبَرَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: سَأَلْتُ أُمَّ رُومَانَ وَهِيَ أُمُّ عَائِشَةَ عَمَّا قِيلَ فِيهَا مَا قِيلَ قَالَتْ: بَيْنَمَا أَنَا مَعَ عَائِشَةَ جَالِسَتَانِ إِذْ وَلَجَتْ عَلَيْنَا امْرَأَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ وَهِيَ تَقُولُ: فَعَلَ اللَّهُ بِفُلَانٍ وَفَعَلَ، قَالَتْ: فَقُلْتُ لِمَ؟ . . .»
. . .ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو محمد بن فضیل نے خبر دی ‘ کہا ہم سے حصین نے بیان کیا ‘ ان سے سفیان نے ‘ ان سے مسروق نے بیان کیا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا کی والدہ ام رومان رضی اللہ عنہا سے عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں جو بہتان تراشا گیا تھا اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی کہ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب أَحَادِيثِ الْأَنْبِيَاءِ: 3388]

باب اور حدیث میں مناسبت
صحیح بخاری کا باب: «بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {لَقَدْ كَانَ فِي يُوسُفَ وَإِخْوَتِهِ آيَاتٌ لِلسَّائِلِينَ}
ترجمۃ الباب میں امام عالی مقام امام بخاری رحمہ اللہ نے یوسف علیہ السلام کا ذکر فرمایا اور تحت الباب میں جس حدیث کا ذکر فرمایا ہے، اس میں واضح طور پر یوسف علیہ السلام کا ذکر نہیں ہے، بلکہ اشارۃً ان کا ذکر ہے، علامہ عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ:
«حديث ام رومان اورده هنا القول عائشة فيه: فمثلي ومثلك كمثل يعقوب وبنيه، فان يوسف داخل فيهم .»
یعنی امام رومان رضی اللہ عنہا کی حدیث کا باب سے تعلق عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس قول میں ہے کہ میری اور آپ کی مثال یعقوب علیہ السلام اور ان کے بیٹوں کی سی ہے، پس ان کے بیٹوں میں یوسف علیہ السلام داخل ہیں۔
مزید اگر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کے دوسرے طرق کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں، جس میں امی عائشہ رضی اللہ عنہا کے الفاظ کچھ اس طرح کے ہیں، مجھے یعقوب علیہ السلام کا نام یاد نہیں آیا تو میں نے یوسف علیہ السلام کے والد کہہ دیا۔
لہٰذا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔
فائدہ:۔
خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے ایک اشکال مذکورہ حدیث کی سند پر لگایا ہے، کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے «مسروق عن ام رومان» کہ واسطے سے جو حدیث الافک روایت کی ہے، اس کو مسروق نے ام رومان رضی اللہ عنہا سے نہیں سنا، کیوں کہ ام رومان رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دورمیں انتقال فرما گئی تھیں، اور اس وقت مسروق چھ سال کے تھے، اس لئے مسروق کی روایت ام رومان رضی اللہ عنہا سے کس طرح درست ہو سکتی ہے؟ پس یہ علت روایت میں موجود ہے،
خطیب صاحب کے الفاظ یہ ہیں کہ:
«وخفيت هذه العلة على البخاري رحمه الله .»
پس یہ علت اس میں موجود ہے، جو امام بخاری رحمہ اللہ پر مخفی رہی۔
اس تنقید کہ ہم پیالہ کئی متاخرین کی جماعت بنی، لیکن اگر تحقیقی نگاہ سے دیکھا جائے تو خطیب بغدادی رحمہ اللہ کا موقف کمزور ہے، بلکہ صحیح بات ان سے مخفی رہی، نہ کہ امام بخاری رحمہ اللہ پر۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ، امام بخاری رحمہ اللہ کی تحقیق کے قائل تھے، بلکہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے خطیب رحمہ اللہ کا واضح طور پر رد فرمایا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:
جس روایت سے ام رومان کا ۶ ھ میں انتقال ثابت کیا جاتا ہے، اس میں ایک سیئی الحفظ راوی زید بن جدعان ہے، چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ نے تاریخ الصغیر اور تاریخ الاوسط میں اس کی نقل کردہ روایت کو ضعیف قرار دیا ہے اور «فيه نظر» فرما کر اس کا رد فرما دیا۔
مزید حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے محدث ابراہیم حربی رحمہ اللہ کا قول بھی نقل فرمایا ہے تاکہ مسروق اور ام رومان رضی اللہ عنہا کے انقطاع کا خدشہ دور ہو جائے اور ان کی لقاء و سماع ثابت ہو جائے۔
«وقد جزم ابراهيم الحربي الحافظ باٴن مسروقآ انما سمع من ام رومان فى خلافة عمر رضي الله عنه»
یقیناًً ابراہیم حربی نے جزم کے ساتھ ثابت فرمایا ہے کہ مسروق نے ام رومان سے خلافت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں سماعت فرمایا ہے۔
لہٰذا امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ کا بھی یہاں بآسانی رد ہوتا ہے کیونکہ آپ بھی خطیب بغدادی رحمہ اللہ کے ہم پیالہ تھے، اس مسئلے میں امام ابونعیم الاصفھانی رحمہ اللہ نے فرمایا: جو یہ کہتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں وہ انتقال کر گئی تھیں، تو اسے وہم ہو گیا ہے۔
«عاشت ام رومان بعد نبي صلى الله عليه وسلم دهرا»
یعنی ام رومان رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کئی سال زندہ رہیں۔
ان اقتباسات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ، ام رومان رضی اللہ عنہا کا سماع امام مسروق رحمہ اللہ سے ثابت ہے، لہٰذا خطیب بغدادی رحمہ اللہ کا اعتراض کالعدم ٹھرا، مزید تفصیل کے لئے مراجعت کیجئے: [التوضيح لشرح الجامع الصحيح لابن الملقن: 19 / 38۔ 439]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 27   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4691  
4691. حضرت مسروق بن اجدع سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھے ام المومنین حضرت عائشہ‬ ؓ ک‬ی والدہ حضرت ام رومان‬ ؓ ن‬ے بیان کیا کہ میں اور عائشہ‬ ؓ ب‬یٹھے ہوئے تھے، اس دوران میں عائشہ‬ ؓ ک‬و بخار چڑھ گیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: غالبا یہ بخار ان باتوں کی وجہ سے ہے جن کا چرچا ہو رہا ہے۔ حضرت ام رومان نے کہا: جی ہاں۔ اس کے بعد حضرت عائشہ ؓ اٹھ کر بیٹھ گئیں اور کہا: میری اور آپ لوگوں کی مثال حضرت یعقوب ؑ اور ان کے بیٹوں جیسی ہے۔ بلکہ تم لوگوں نے ایک بری بات کو بنا سنوار لیا ہے، خیر اب صبر ہی بہتر ہے اور جو کچھ تم بیان کرتے ہو، اس کے متعلق میں اللہ ہی سے مدد چاہتی ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4691]
حدیث حاشیہ:
ام رومان آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد بہت دنوں تک زندہ رہیں۔
جب ہی تو مسروق نے ان سے سنا جو تابعی ہیں اوریہ روایت صحیح نہیں ہے کہ ام رومان آںنحضرت ﷺ کی حیات میں مر گئی تھیں اور آپ ان کی قبر میں اترے تھے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4691   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4691  
4691. حضرت مسروق بن اجدع سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھے ام المومنین حضرت عائشہ‬ ؓ ک‬ی والدہ حضرت ام رومان‬ ؓ ن‬ے بیان کیا کہ میں اور عائشہ‬ ؓ ب‬یٹھے ہوئے تھے، اس دوران میں عائشہ‬ ؓ ک‬و بخار چڑھ گیا۔ نبی ﷺ نے فرمایا: غالبا یہ بخار ان باتوں کی وجہ سے ہے جن کا چرچا ہو رہا ہے۔ حضرت ام رومان نے کہا: جی ہاں۔ اس کے بعد حضرت عائشہ ؓ اٹھ کر بیٹھ گئیں اور کہا: میری اور آپ لوگوں کی مثال حضرت یعقوب ؑ اور ان کے بیٹوں جیسی ہے۔ بلکہ تم لوگوں نے ایک بری بات کو بنا سنوار لیا ہے، خیر اب صبر ہی بہتر ہے اور جو کچھ تم بیان کرتے ہو، اس کے متعلق میں اللہ ہی سے مدد چاہتی ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4691]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ اس حدیث کو مذکورہ عنوان کے تحت اس لیے لائے ہیں کہ اس میں "صبر جمیل" کا ایک عملی نمونہ مذکورہے اس میں حضرت یوسف ؑ اور ان کے والد گرامی کا ذکرہے۔

حضرت عائشہ ؓ کو اس قدرغم تھا کہ شدت صدمہ کی وجہ سے حضرت یعقوب ؑ کا نام بھی ذہن میں نہ آسکا۔
ایک روایت میں ہے کہ میں نے ذہن پر زور ڈالا لیکن حضرت یعقوب ؑ کا نام ذہن میں نہ آسکا۔
میں نے جلدی سے ابو یوسف ہی کہہ دیا۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4757)
البتہ جن روایات میں حضرت ام رومان ؓ کا ذکر ہے ان میں حضرت عائشہ ؓ کی طرف سے حضرت یعقوب ؑ کے نام کی صراحت ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہےکہ جن روایات میں نام کی صراحت ہے وہ روایات بالمعنی ہیں کیونکہ ہشام کی روایت میں وضاحت ہے کہ حضرت عائشہ ؓ نے حضرت یعقوب ؑ کا نام اپنے ذہن میں لانے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکیں پھر آپ نے ان کی کنیت ذکر کردی۔
(فتح الباري: 604/8)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4691   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.