الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
2. بَابُ: {يَغْشَى النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ} :
2. باب: آیت کی تفسیر یعنی ”ان سب لوگوں پر چھا جائے گا، یہ ایک عذاب درد ناک ہو گا“۔
(2) Chapter. “Covering the people, this is a painful torment.” (V.44:11)
حدیث نمبر: 4821
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا يحيى، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن مسلم، عن مسروق، قال: قال عبد الله: إنما كان هذا لان قريشا لما استعصوا على النبي صلى الله عليه وسلم دعا عليهم بسنين كسني يوسف، فاصابهم قحط، وجهد حتى اكلوا العظام، فجعل الرجل ينظر إلى السماء، فيرى ما بينه وبينها كهيئة الدخان من الجهد، فانزل الله تعالى: فارتقب يوم تاتي السماء بدخان مبين {10} يغشى الناس هذا عذاب اليم {11} سورة الدخان آية 10-11، قال: فاتي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقيل له: يا رسول الله، استسق الله لمضر، فإنها قد هلكت، قال لمضر:" إنك لجريء"، فاستسقى لهم، فسقوا، فنزلت: إنكم عائدون سورة الدخان آية 15، فلما اصابتهم الرفاهية عادوا إلى حالهم حين اصابتهم الرفاهية، فانزل الله عز وجل: يوم نبطش البطشة الكبرى إنا منتقمون سورة الدخان آية 16، قال: يعني يوم بدر.(مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُسْلِمٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: إِنَّمَا كَانَ هَذَا لِأَنَّ قُرَيْشًا لَمَّا اسْتَعْصَوْا عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَا عَلَيْهِمْ بِسِنِينَ كَسِنِي يُوسُفَ، فَأَصَابَهُمْ قَحْطٌ، وَجَهْدٌ حَتَّى أَكَلُوا الْعِظَامَ، فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَنْظُرُ إِلَى السَّمَاءِ، فَيَرَى مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا كَهَيْئَةِ الدُّخَانِ مِنَ الْجَهْدِ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ {10} يَغْشَى النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ {11} سورة الدخان آية 10-11، قَالَ: فَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقِيلَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، اسْتَسْقِ اللَّهَ لِمُضَرَ، فَإِنَّهَا قَدْ هَلَكَتْ، قَالَ لِمُضَرَ:" إِنَّكَ لَجَرِيءٌ"، فَاسْتَسْقَى لَهُمْ، فَسُقُوا، فَنَزَلَتْ: إِنَّكُمْ عَائِدُونَ سورة الدخان آية 15، فَلَمَّا أَصَابَتْهُمُ الرَّفَاهِيَةُ عَادُوا إِلَى حَالِهِمْ حِينَ أَصَابَتْهُمُ الرَّفَاهِيَةُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَى إِنَّا مُنْتَقِمُونَ سورة الدخان آية 16، قَالَ: يَعْنِي يَوْمَ بَدْرٍ.
ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابومعاویہ نے بیان کیا، ان سے اعمش نے، ان سے مسلم نے، ان سے مسروق نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ یہ (قحط) اس لیے پڑا تھا کہ قریش جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت قبول کرنے کی بجائے شرک پر جمے رہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے ایسے قحط کی بددعا کی جیسا یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں پڑا تھا۔ چنانچہ قحط کی نوبت یہاں تک پہنچی کہ لوگ ہڈیاں تک کھانے لگے۔ لوگ آسمان کی طرف نظر اٹھاتے لیکن بھوک اور فاقہ کی شدت کی وجہ سے دھویں کے سوا اور کچھ نظر نہ آتا اسی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين * يغشى الناس هذا عذاب أليم‏» تو آپ انتظار کریں اس روز کا جب آسمان کی طرف نظر آنے والا دھواں پیدا ہو جو لوگوں پر چھا جائے، یہ ایک درد ناک عذاب ہو گا۔ بیان کیا کہ پھر ایک صاحب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ! قبیلہ مضر کے لیے بارش کی دعا کیجئے کہ وہ برباد ہو چکے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مضر کے حق میں دعا کرنے کے لیے کہتے ہو، تم بڑے جری ہو۔ آخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا فرمائی اور بارش ہوئی۔ اس پر آیت «إنكم عائدون‏» نازل ہوئی (یعنی اگرچہ تم نے ایمان کا وعدہ کیا ہے لیکن تم کفر کی طرف پھر لوٹ جاؤ گے) چنانچہ جب پھر ان میں خوشحالی ہوئی تو شرک کی طرف لوٹ گئے (اور اپنے ایمان کے وعدے کو بھلا دیا) اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «يوم نبطش البطشة الكبرى إنا منتقمون‏‏» جس روز ہم بڑی سخت پکڑ پکڑیں گے (اس روز) ہم پورا بدلہ لے لیں گے۔ بیان کیا اس آیت سے مراد بدر کی لڑائی ہے۔

Narrated `Abdullah: It (i.e., the imagined smoke) was because, when the Quraish refused to obey the Prophet, he asked Allah to afflict them with years of famine similar to those of (Prophet) Joseph. So they were stricken with famine and fatigue, so much so that they ate even bones. A man would look towards the sky and imagine seeing something like smoke between him and the sky because of extreme fatigue. So Allah revealed:-- 'Then watch you for the Day that the sky will bring forth a kind of smoke plainly visible, covering the people; this is a painfull of torment.' (44.10-11) Then someone (Abu Sufyan) came to Allah's Messenger and said, "O Allah's Messenger ! Invoke Allah to send rain for the tribes of Mudar for they are on the verge of destruction." On that the Prophet said (astonishingly) "Shall I invoke Allah) for the tribes of Mudar? Verily, you are a brave man!" But the Prophet prayed for rain and it rained for them. Then the Verse was revealed. 'But truly you will return (to disbelief).' (44.15) (When the famine was over and) they restored prosperity and welfare, they reverted to their ways (of heathenism) whereupon Allah revealed: 'On the Day when We shall seize you with a Mighty Grasp. We will indeed (then) exact retribution.' (44.16) The narrator said, "That was the day of the Battle of Badr."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 346


   صحيح البخاري1007عبد الله بن مسعوداللهم سبع كسبع يوسف أخذتهم سنة حصت كل شيء حتى أكلوا الجلود والميتة والجيف وينظر أحدهم إلى السماء فيرى الدخان من الجوع
   صحيح البخاري4693عبد الله بن مسعوداللهم اكفنيهم بسبع كسبع يوسف
   صحيح البخاري4821عبد الله بن مسعوددعا عليهم بسنين كسني يوسف أصابهم قحط وجهد حتى أكلوا العظام فجعل الرجل ينظر إلى السماء فيرى ما بينه وبينها كهيئة الدخان من الجهد فأنزل الله فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين يغشى الناس هذا عذاب أليم قال فأتي رسول الله فقيل له يا رسول الله استسق الله
   صحيح البخاري4809عبد الله بن مسعوداللهم أعني عليهم بسبع كسبع يوسف
   صحيح البخاري4823عبد الله بن مسعوداللهم أعني عليهم بسبع كسبع يوسف
   صحيح البخاري4774عبد الله بن مسعوداللهم أعني عليهم بسبع كسبع يوسف أخذتهم سنة حتى هلكوا فيها وأكلوا الميتة والعظام ويرى الرجل ما بين السماء والأرض كهيئة الدخان فجاءه أبو سفيان فقال يا محمد جئت تأمرنا بصلة الرحم وإن قومك قد هلكوا فادع الله فقرأ فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين
   صحيح البخاري4822عبد الله بن مسعوداللهم أعني عليهم بسبع كسبع يوسف
   صحيح البخاري4824عبد الله بن مسعوداللهم أعني عليهم بسبع كسبع يوسف
   صحيح مسلم7067عبد الله بن مسعوددعا عليهم بسنين كسني يوسف أصابهم قحط وجهد حتى جعل الرجل ينظر إلى السماء فيرى بينه وبينها كهيئة الدخان من الجهد وحتى أكلوا العظام فأتى النبي رجل فقال يا رسول الله استغفر ال
   جامع الترمذي3254عبد الله بن مسعوداللهم أعني عليهم بسبع كسبع يوسف
   مشكوة المصابيح272عبد الله بن مسعودقل ما اسالكم عليه من اجر وما انا من المتكلفين
   مسندالحميدي116عبد الله بن مسعوداللهم اكفنيهم بسبع كسبع يوسف

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 272  
´لاعلمی کا اعتراف کوئی عیب نہیں`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَنْ عَلِمَ شَيْئًا فَلْيَقُلْ بِهِ وَمَنْ لَمْ يَعْلَمْ فَلْيَقُلِ اللَّهُ أعلم فَإِن من الْعلم أَن يَقُول لِمَا لَا تَعْلَمُ اللَّهُ أَعْلَمُ. قَالَ اللَّهُ تَعَالَى لِنَبِيِّهِ (قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنا من المتكلفين) . . .»
. . . سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگو! جو شخص کسی بات کو جانتا ہو تو اسے بیان کر دینا چاہئے۔ اور جو نہیں جانتا (اس سے وہ دریافت کیا گیا) تو اسے یہ کہنا چاہئے «الله اعلم» اللہ خوب جانتا ہے۔ یہ بھی ایک قسم کا علم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا: «قل ما أسألكم عليه من أجر وما أنا من المتكلفين» [بخاري و مسلم] ۔ یعنی آپ فرما دیجئے کہ میں اس تبلیغ پر تم سے کوئی اجرت نہیں طلب کرتا اور نہ میں بات بنانے والوں میں سے ہوں۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ: 272]

تخریج:
[صحيح بخاري 4809]، [صحيح مسلم 7066]

فقہ الحدیث:
➊ جس مسئلے کا علم نہ ہو تو صاف بتا دینا چاہئے کہ مجھے پتا نہیں ہے یا میں نہیں جانتا اور خواہ مخواہ تکلف کر کے اپنا دماغی و اختراعی فتویٰ جاری نہیں کرنا چاہئے۔
➋ کتاب و سنت، اجماع اور آثار سلف صالحین کی پیروی میں ہی نجات ہے۔
◄ مولانا محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ اور جماعت اہل حدیث کے اعیان و ارکان (1322ھ) میں لاہور شہر میں جمع ہوئے، اس اجلاس میں اس امر پر بحث ہوئی کہ اہل حدیث کے نام سے کون شخص موسوم ہو سکتا ہے؟ طویل بحث و مباحثہ کے بعد یہ قرار دیا گیا کہ اہل حدیث وہ ہے جو اپنا دستور العمل و الاستدلال احادیث صحیحہ اور آثار سلفیہ کو بناوے اور جب اس کے نزدیک ثابت و متحقق ہو جائے کہ ان کے مقابلہ میں کوئی معارض مساوی یا اس سے قوی نہیں پایا جاتا تو وہ ان احادیث و آثار پر عمل کرنے کو مستعد ہو جاوے اور اس عمل سے اس کو کسی امام یا مجتہد کا قول بلا دلیل مانع نہ ہو۔ [تاريخ اهلِ حديث ج1 ص151، ازقلم ڈاكٹر محمد بهاؤالدين]
◄ مولانا محمد حسین بٹالوی رحمہ اللہ نے فرمایا:
اس معیار کے دوسرے درجہ پر جہاں صحیح حدیث نبوی نہ پائی جاتی ہو، دوسرا معیار سلفیہ آثار صحابہ کبار و تابعین ابرار و محدثین اخیار ہیں، جس مسئلہ اعتقادیہ و عملیہ میں صریح سنت نبوی کا علم نہ ہو، اس مسئلے میں اہل حدیث کا متمسک آثار سلفیہ ہوتے ہیں اور وہی مذہب اہل حدیث کہلاتا ہے۔ [تاريخ اهلحديث ج 1 ص 157]
◄ حافظ عبداللہ روپڑی رحمہ اللہ نے فرمایا:
خلاصہ یہ کہ ہم تو ایک ہی بات جانتے ہیں وہ کہ سلف کا خلاف جائز نہیں۔‏‏‏‏ [فتاويٰ اهلحديث ج 1 ص 111]
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 272   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3254  
´سورۃ الدخان سے بعض آیات کی تفسیر۔`
مسروق کہتے ہیں کہ ایک شخص نے عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کے پاس آ کر کہا: ایک قصہ گو (واعظ) قصہ بیان کرتے ہوئے کہہ رہا تھا (قیامت کے قریب) زمین سے دھواں نکلے گا، جس سے کافروں کے کان بند ہو جائیں گے، اور مسلمانوں کو زکام ہو جائے گا۔ مسروق کہتے ہیں: یہ سن کر عبداللہ غصہ ہو گئے (پہلے) ٹیک لگائے ہوئے تھے، (سنبھل کر) بیٹھ گئے۔ پھر کہا: تم میں سے جب کسی سے کوئی چیز پوچھی جائے اور وہ اس کے بارے میں جانتا ہو تو اسے بتانی چاہیئے اور جب کسی ایسی چیز کے بارے میں پوچھا جائے جسے وہ نہ جانتا ہو تو اسے «اللہ اعلم» اللہ بہتر جانتا ہے کہنا چاہیئے،۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3254]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
کہہ دو میں تم سے اس کام پر کسی اجر کا طالب نہیں ہوں،
اور میں خود سے باتیں بنانے والا بھی نہیں ہوں (ص: 86)

2؎:
جس دن آسمان کھلا ہوا دھواں لائے گا یہ (دھواں) لوگوں کو ڈھانپ لے گا،
یہ بڑا تکلیف دہ عذاب ہے (الدخان: 10)

3؎:
اے ہمارے رب! ہم سے عذاب کو ٹال دے ہم ایمان لانے والے ہیں (الدخان: 12)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3254   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4821  
4821. حضرت مسروق سے روایت ہے، انہوں نے کہا: حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا: واقعہ یہ ہے کہ جب قریش نے نبی ﷺ کی نافرمانی کی تو آپ نے ان پر قحط سالی کی بد دعا کی، جیسے حضرت یوسف ؑ کے زمانے میں قحط سالی آئی تھی۔ لوگوں کو قحط سالی اور مشقت نے اس طرح پکڑا کہ وہ ہڈیاں کھانے لگے۔ اس دوران میں جب آدمی آسمان کی طرف دیکھتا تو اس مشقت کی وجہ سے اسے اپنے اور آسمان کے درمیان دھواں سا نظر آتا تھا۔ اس وقت اللہ تعالٰی نے یہ آیت نازل فرمائی: آپ اس دن کا انتظار کریں جب آسمان نمایاں دھواں لائے گا۔ وہ دھواں لوگوں کو ڈھانپ لے گا۔ یہ دردناک عذاب ہے۔ پھر رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک وفد آیا اور انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! اللہ تعالٰی سے قبیلہ مضر کے لیے بارش کی دعا فرمائیں وہ تو ہلاک و برباد ہو چکے ہیں۔ آپ نے فرمایا: تم بڑے جراءت مند ہو کر مضر قبیلے کے لیے دعا کی سفارش کرتے ہو۔ بہرحال آپ نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4821]
حدیث حاشیہ:
قال لمضر أي قال علیه السلام عجیبا أتأمرني أن أستسقي لمضر مع ما معھم علیه من معصیة اللہ والإشراك به إنك لجري أي ذو جرءة حیث تشرك باللہ وتطلب رحمته فاستسقی علیه السلام الخ (قسطلانی)
یعنی آپ نے مضر قبیلہ کے لئے تعجب سے فرمایا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے نافرمان اور مشرک ہیں۔
تم بڑے جرأت مند ہو جو ایسے مشرکین کے لئے اللہ سے دعا کراتے ہو پھر آپ نے ان کے لئے بارش کی دعا فرمائی۔
(صلی اللہ علیه وسلم)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4821   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4821  
4821. حضرت مسروق سے روایت ہے، انہوں نے کہا: حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا: واقعہ یہ ہے کہ جب قریش نے نبی ﷺ کی نافرمانی کی تو آپ نے ان پر قحط سالی کی بد دعا کی، جیسے حضرت یوسف ؑ کے زمانے میں قحط سالی آئی تھی۔ لوگوں کو قحط سالی اور مشقت نے اس طرح پکڑا کہ وہ ہڈیاں کھانے لگے۔ اس دوران میں جب آدمی آسمان کی طرف دیکھتا تو اس مشقت کی وجہ سے اسے اپنے اور آسمان کے درمیان دھواں سا نظر آتا تھا۔ اس وقت اللہ تعالٰی نے یہ آیت نازل فرمائی: آپ اس دن کا انتظار کریں جب آسمان نمایاں دھواں لائے گا۔ وہ دھواں لوگوں کو ڈھانپ لے گا۔ یہ دردناک عذاب ہے۔ پھر رسول اللہ ﷺ کے پاس ایک وفد آیا اور انہوں نے عرض کی: اللہ کے رسول! اللہ تعالٰی سے قبیلہ مضر کے لیے بارش کی دعا فرمائیں وہ تو ہلاک و برباد ہو چکے ہیں۔ آپ نے فرمایا: تم بڑے جراءت مند ہو کر مضر قبیلے کے لیے دعا کی سفارش کرتے ہو۔ بہرحال آپ نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4821]
حدیث حاشیہ:

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا موقف ہے کہ "دخان" کا واقعہ گزر چکا ہے لیکن ہمارے رجحان کے مطابق "دخان" دو ہیں۔
ان میں سے ایک تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ظاہر ہو چکا ہے اور دوسرا قرب قیامت کے وقت ظاہر ہو گا جیسا کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے جبکہ ہم قیامت کا ذکر کر رہے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
تم کیا گفتگو کر رہے ہو؟ ہم نے کہا قیامت کا ذکر کر رہیں ہیں۔
آپ نے فرمایا:
بلا شبہ وہ قیامت ہر گز قائم نہیں ہو گی حتی کہ تم اس سے پہلے دس نشانیاں دیکھ لو۔
آپ نے دھویں اور دجال کا ذکر کیا۔
(صحیح مسلم، الفتن، حدیث: 7285۔
(2901)

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ دخان دو ہیں ایک تو گزر چکا ہے اور دوسرا وہ ہو گا جس سے زمین و آسمان کا خلا بھرجائے گا مومن پر تو اس کاا ثر زکام جیسا ہو گا۔
مگر کافروں کے کان اس سے پھٹ جائیں گے۔
(التذکرة للقرطبي، ص: 655)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4821   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.