الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
5. بَابُ قَوْلِهِ: {وَالرِّجْزَ فَاهْجُرْ} :
5. باب: آیت کی تفسیر ”اور بتوں سے الگ رہیئے“۔
(5) Chapter. “And keep away from Ar-Rujz (the idols).” (V.75:5)
حدیث نمبر: Q4926
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
يقال: الرجز والرجس العذاب.يُقَالُ: الرِّجْزُ وَالرِّجْسُ الْعَذَابُ.
‏‏‏‏ کہا گیا ہے کہ «الرجز» اور «الرجس» عذاب کے معنی میں ہیں۔

حدیث نمبر: 4926
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن يوسف، حدثنا الليث، عن عقيل، قال ابن شهاب: سمعت ابا سلمة، قال: اخبرني جابر بن عبد الله، انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يحدث عن فترة الوحي:" فبينا انا امشي سمعت صوتا من السماء، فرفعت بصري قبل السماء، فإذا الملك الذي جاءني بحراء قاعد على كرسي بين السماء والارض، فجئثت منه حتى هويت إلى الارض، فجئت اهلي، فقلت: زملوني زملوني، فزملوني، فانزل الله تعالى يايها المدثر قم فانذر إلى قوله فاهجر سورة المدثر آية 1 - 5، قال ابو سلمة: والرجز: الاوثان، ثم حمي الوحي وتتابع.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ عُقَيْلٍ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحَدِّثُ عَنْ فَتْرَةِ الْوَحْيِ:" فَبَيْنَا أَنَا أَمْشِي سَمِعْتُ صَوْتًا مِنَ السَّمَاءِ، فَرَفَعْتُ بَصَرِي قِبَلَ السَّمَاءِ، فَإِذَا الْمَلَكُ الَّذِي جَاءَنِي بِحِرَاءٍ قَاعِدٌ عَلَى كُرْسِيٍّ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، فَجَئِثْتُ مِنْهُ حَتَّى هَوَيْتُ إِلَى الْأَرْضِ، فَجِئْتُ أَهْلِي، فَقُلْتُ: زَمِّلُونِي زَمِّلُونِي، فَزَمَّلُونِي، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى يَأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ قُمْ فَأَنْذِرْ إِلَى قَوْلِهِ فَاهْجُرْ سورة المدثر آية 1 - 5، قَالَ أَبُو سَلَمَةَ: وَالرِّجْزَ: الْأَوْثَانَ، ثُمَّ حَمِيَ الْوَحْيُ وَتَتَابَعَ.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے عقیل نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے بیان کیا کہ میں نے ابوسلمہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم درمیان میں وحی کے سلسلے کے رک جانے سے متعلق بیان فرما رہے تھے کہ میں چل رہا تھا کہ میں نے آسمان کی طرف سے آواز سنی۔ اپنی نظر آسمان کی طرف اٹھا کر دیکھا تو وہی فرشتہ نظر آیا جو میرے پاس غار حرا میں آیا تھا۔ وہ کرسی پر آسمان اور زمین کے درمیان میں بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے اسے دیکھ کر اتنا ڈرا کہ زمین پر گر پڑا۔ پھر میں اپنی بیوی کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو، مجھے کپڑا اوڑھا دو! مجھے کپڑا اوڑھا دو۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «يا أيها المدثر‏» سے «والرجز فاهجر‏» تک ابوسلمہ نے بیان کیا کہ «الرجز» بت کے معنی میں ہے۔ پھر وحی گرم ہو گئی اور سلسلہ نہیں ٹوٹا۔

Narrated Jabir bin `Abdullah: That he heard Allah's Messenger describing the period of pause of the Divine Inspiration, and in his description he said, "While I was walking I heard a voice from the sky. I looked up towards the sky, and behold! I saw the same Angel who came to me in the Cave of Hira', sitting on a chair between the sky and the earth. I was so terrified by him that I fell down on the ground. Then I went to my wife and said, 'Wrap me in garments! Wrap me in garments!' They wrapped me, and then Allah revealed: "O you, (Muhammad) wrapped-up! Arise and warn...and desert the idols." (74.1-5) Abu Salama said....Rujz means idols." After that, the Divine Inspiration started coming more frequently and regularly.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 448


   صحيح البخاري4922جابر بن عبد اللهجاورت بحراء فلما قضيت جواري هبطت فنوديت فنظرت عن يميني فلم أر شيئا ونظرت عن شمالي فلم أر شيئا ونظرت أمامي فلم أر شيئا ونظرت خلفي فلم أر شيئا فرفعت رأسي فرأيت شيئا فأتيت خديجة فقلت دثروني وصبوا علي ماء باردا قال فدثروني وصبوا علي ماء باردا قال فنزلت يأي
   صحيح البخاري4923جابر بن عبد اللهجاورت بحراء
   صحيح البخاري4924جابر بن عبد اللهجاورت في حراء فلما قضيت جواري هبطت فاستبطنت الوادي فنوديت فنظرت أمامي وخلفي وعن يميني وعن شمالي فإذا هو جالس على كرسي بين السماء والأرض فأتيت خديجة فقلت دثروني وصبوا علي ماء باردا وأنزل علي يأيها المدثر قم فأنذر وربك فكبر
   صحيح البخاري4925جابر بن عبد اللهبينا أنا أمشي إذ سمعت صوتا من السماء فرفعت رأسي فإذا الملك الذي جاءني بحراء جالس على كرسي بين السماء والأرض فجئثت منه رعبا فرجعت فقلت زملوني زملوني فدثروني فأنزل الله يأيها المدثر إلى والرجز فاهجر
   صحيح البخاري4926جابر بن عبد اللهبينا أنا أمشي سمعت صوتا من السماء فرفعت بصري قبل السماء فإذا الملك الذي جاءني بحراء قاعد على كرسي بين السماء والأرض فجئثت منه حتى هويت إلى الأرض فجئت أهلي فقلت زملوني زملوني فزملوني فأنزل الله يأيها المدثر قم فأنذر إلى قوله فاهجر
   صحيح البخاري3238جابر بن عبد اللهبينا أنا أمشي سمعت صوتا من السماء فرفعت بصري قبل السماء فإذا الملك الذي جاءني بحراء قاعد على كرسي بين السماء والأرض فجئثت منه حتى هويت إلى الأرض فجئت أهلي فقلت زملوني زملوني فأنزل الله يأيها المدثر قم فأنذر إلى قوله والرجز ف
   صحيح مسلم406جابر بن عبد اللهبينا أنا أمشي سمعت صوتا من السماء فرفعت رأسي فإذا الملك الذي جاءني بحراء جالسا على كرسي بين السماء والأرض قال رسول الله فجئثت منه فرقا فرجعت فقلت زملوني زملوني فدثروني فأنزل الله تبارك و يأيها المدثر قم فأنذر وربك فكبر وثيابك
   صحيح مسلم409جابر بن عبد اللهجاورت بحراء شهرا فلما قضيت جواري نزلت فاستبطنت بطن الوادي فنوديت فنظرت أمامي وخلفي وعن يميني وعن شمالي فلم أر أحدا ثم نوديت فنظرت فلم أر أحدا ثم نوديت فرفعت رأسي فإذا هو على العرش في الهواء يعني جبريل فأخذتني رجفة شديدة فأتيت خديجة فقلت دثرو

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 4922  
´نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی پہلی وحی`
«. . . عَنْ أَوَّلِ مَا نَزَلَ مِنَ الْقُرْآنِ، قَالَ: يَأَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ سورة المدثر آية 1، قُلْتُ: يَقُولُونَ: اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ . . .»
. . . قرآن مجید کی کون سی آیت سب سے پہلے نازل ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ «يا أيها المدثر‏» میں نے عرض کیا کہ لوگ تو کہتے ہیں کہ «اقرأ باسم ربك الذي خلق‏» سب سے پہلے نازل ہوئی . . . [صحيح البخاري/كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ: 4922]

تخريج الحديث:
[101۔ البخاري فى: 65 كتاب التفسير: 74 سورة المدثر: باب حدثنا يحييٰ، حديث: 4922]

فھم الحدیث:
ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی پہلی وحی سورہ علق کی یہ ابتدائی آیات تھیں: «اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ * خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ * اِقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ» پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شدید گھبراہٹ کی وجہ سے کچھ دیر وحی منقطع رہی۔ انقطاع وحی کی مدت کتنی تھی اس بارے میں شیخ صفی الرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ نے جس بات کو صحیح کہا ہے وہ یہ ہے کہ یہ انقطاع چند دنوں کا تھا، اس سلسلے میں تین سال یا دو سال کے اقوال درست نہیں۔ [الرحيق المختوم، عربي ايڈيشن ص: 52]
پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے گھبراہٹ دور ہوئی تو دوسری وحی سورہ مدثر کی ان ابتدائی آیات کی صورت میں نازل ہوئی: «يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ * قُمْ فَأَنذِرْ * وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ * وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ * وَالرُّجْزَ فَاهْجُرْ *»
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 101   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4926  
4926. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ بندش وحی کا تذکرہ فرما رہے تھے، فرمایا: ایک دفعہ میں نے چلتے چلتے آسمان سے ایک آواز سنی۔ میں نے اپنی نظر آسمان کی طرف اٹھائی تو وہی فرشتہ نظر آیا جو میرے پاس غار حرام میں آیا تھا۔ وہ آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا تھا۔ اسے دیکھ کر میں اس قدر خوفزدہ ہوا کہ مارے ڈر کے زمین پر گر پڑا، پھر میں اپنے گھر آیا تو اپنے اہل خانہ سے کہا: مجھے کمبل اوڑھا دو مجھے کمبل اوڑھا دو، چنانچہ انہوں نے مجھے کمبل اوڑھا دیا تو اللہ تعالٰی نے یہ آیات نازل فرمائیں: ﴿يَـٰٓأَيُّهَا ٱلْمُدَّثِّرُ ﴿١﴾ قُمْ فَأَنذِرْ ﴿٢﴾ ) سے لے کر (فَاهْجُرْ) تک۔ ابوسلمہ کہتے ہیں کہ الرُّجْزَ سے مراد بت ہیں۔ پھر وحی کا سلسلہ تیز ہو گیا اور مسلسل آنا شروع ہو گئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4926]
حدیث حاشیہ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بت پرستی نہیں کی تھی۔
مگر آپ کی قوم بت پرست تھی۔
گویا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تاکیدا کہا گیا کہ آپ بت پرست قوم کا ساتھ بالکل چھوڑ دیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4926   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4926  
4926. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ بندش وحی کا تذکرہ فرما رہے تھے، فرمایا: ایک دفعہ میں نے چلتے چلتے آسمان سے ایک آواز سنی۔ میں نے اپنی نظر آسمان کی طرف اٹھائی تو وہی فرشتہ نظر آیا جو میرے پاس غار حرام میں آیا تھا۔ وہ آسمان و زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا تھا۔ اسے دیکھ کر میں اس قدر خوفزدہ ہوا کہ مارے ڈر کے زمین پر گر پڑا، پھر میں اپنے گھر آیا تو اپنے اہل خانہ سے کہا: مجھے کمبل اوڑھا دو مجھے کمبل اوڑھا دو، چنانچہ انہوں نے مجھے کمبل اوڑھا دیا تو اللہ تعالٰی نے یہ آیات نازل فرمائیں: ﴿يَـٰٓأَيُّهَا ٱلْمُدَّثِّرُ ﴿١﴾ قُمْ فَأَنذِرْ ﴿٢﴾ ) سے لے کر (فَاهْجُرْ) تک۔ ابوسلمہ کہتے ہیں کہ الرُّجْزَ سے مراد بت ہیں۔ پھر وحی کا سلسلہ تیز ہو گیا اور مسلسل آنا شروع ہو گئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4926]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بت پرستی نہیں کی تھی مگر آپ کی قوم بت پرست تھی یہ حکم دراصل لوگوں کو آپ کے ذریعے سے دیا جا رہا ہے۔

اوپرالرجز عذاب کے ہم معنی بتایا گیا ہے کیونکہ ان کی پوجا کرنے سے انسان عذاب تک پہنچ جاتا ہے۔
گویا یہ عذاب الٰہی کا سبب ہیں اس لیے انھیں عذاب کے ہم معنی قرار دیا گیا ہے۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4926   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.