الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
1. بَابُ وَقَوْلُهُ: {لاَ تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ} :
1. باب: آیت کی تفسیر ”آپ اس کو (یعنی قرآن کو) جلدی جلدی لینے کے لیے اس پر زبان نہ ہلایا جلایا کریں“۔
(1) Chapter. The Statement of Allah: “Move not your tongue concerning (the Quran, O Muhamamd ) to make haste therewith." (V.75:16)
حدیث نمبر: Q4927
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقال ابن عباس: سدي: هملا، ليفجر امامه: سوف اتوب سوف اعمل، لا وزر: لا حصن سدى هملا.وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: سُدًي: هَمَلًا، لِيَفْجُرَ أَمَامَهُ: سَوْفَ أَتُوبُ سَوْفَ أَعْمَلُ، لَا وَزَرَ: لَا حِصْنَ سُدًى هَمَلًا.
‏‏‏‏ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ «سدى» یعنی بےقید، آزاد جو چاہے وہ کرے۔ «ليفجر أمامه» یعنی انسان ہمیشہ گناہ کرتا رہتا اور یہی کہتا رہتا ہے کہ جلدی توبہ کر لوں گا، جلدی اچھے عمل کروں گا۔ «لا وزر» ای «لا حصن» یعنی پناہ کے لیے کوئی قلعہ نہیں ملے گا۔

حدیث نمبر: 4927
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا الحميدي، حدثنا سفيان، حدثنا موسى بن ابي عائشة، وكان ثقة، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال:" كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا نزل عليه الوحي حرك به لسانه"، ووصف سفيان يريد ان يحفظه، فانزل الله لا تحرك به لسانك لتعجل به سورة القيامة آية 16.(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحُمَيْدِيُّ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ أَبِي عَائِشَةَ، وَكَانَ ثِقَةً، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا نَزَلَ عَلَيْهِ الْوَحْيُ حَرَّكَ بِهِ لِسَانَهُ"، وَوَصَفَ سُفْيَانُ يُرِيدُ أَنْ يَحْفَظَهُ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ لا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ سورة القيامة آية 16.
ہم سے حمیدی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ہم سے موسیٰ بن ابی عائشہ نے بیان کیا اور موسیٰ ثقہ تھے، انہوں نے سعید بن جبیر سے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر اپنی زبان ہلایا کرتے تھے۔ سفیان نے کہا کہ اس ہلانے سے آپ کا مقصد وحی کو یاد کرنا ہوتا تھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «لا تحرك به لسانك لتعجل به‏» آپ جلدی جلدی لینے کے لیے اس پر زبان نہ ہلایا کریں، اس کا جمع کر دینا اور اس کا پڑھوا دینا، یہ ہر دو کام تو ہمارے ذمہ ہیں۔

Narrated Ibn `Abbas: The Prophet used to move his tongue when the divine Inspiration was being revealed to him. (Sufyan, a subnarrator, demonstrated (how the Prophet used to move his lips) and added. "In order to memorize it." So Allah revealed: "Move not your tongue concerning (the Qur'an) to make haste therewith." (75.16)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 449


   صحيح البخاري5عبد الله بن عباسيعالج من التنزيل شدة وكان مما يحرك شفتيه فأنزل الله لا تحرك به لسانك لتعجل به إن علينا جمعه وقرءانه
   صحيح البخاري4927عبد الله بن عباسكان النبي إذا نزل عليه الوحي حرك به لسانه
   صحيح البخاري4929عبد الله بن عباسإذا نزل جبريل بالوحي وكان مما يحرك به لسانه وشفتيه فيشتد عليه وكان يعرف منه فأنزل الله الآية التي في لا أقسم بيوم القيامة
   صحيح البخاري7524عبد الله بن عباسيعالج من التنزيل شدة وكان يحرك شفتيه فأنزل الله لا تحرك به لسانك لتعجل به إن علينا جمعه وقرءانه
   صحيح البخاري5044عبد الله بن عباسيحرك به لسانه وشفتيه فيشتد عليه وكان يعرف منه فأنزل الله الآية التي في لا أقسم بيوم القيامة
   صحيح مسلم1004عبد الله بن عباسإذا نزل عليه جبريل بالوحي كان مما يحرك به لسانه وشفتيه فيشتد عليه فكان ذلك يعرف منه فأنزل الله لا تحرك به لسانك لتعجل به
   صحيح مسلم1005عبد الله بن عباسيعالج من التنزيل شدة كان يحرك شفتيه فأنزل الله لا تحرك به لسانك لتعجل به إن علينا جمعه وقرآنه
   جامع الترمذي3329عبد الله بن عباسإذا أنزل عليه القرآن يحرك به لسانه يريد أن يحفظه فأنزل الله لا تحرك به لسانك لتعجل به
   سنن النسائى الصغرى936عبد الله بن عباسيعالج من التنزيل شدة وكان يحرك شفتيه قال الله لا تحرك به لسانك لتعجل به إن علينا جمعه وقرءانه
   بلوغ المرام1332عبد الله بن عباس يقول الله تعالى : أنا مع عبدي ما ذكرني وتحركت بي شفتاه
   مسندالحميدي537عبد الله بن عباس

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5  
´وحی کی ابتدائی کیفیت `
«. . . كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَالِجُ مِنَ التَّنْزِيلِ شِدَّةً، وَكَانَ مِمَّا يُحَرِّكُ شَفَتَيْهِ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نزول قرآن کے وقت بہت سختی محسوس فرمایا کرتے تھے اور اس کی (علامتوں) میں سے ایک یہ تھی کہ یاد کرنے کے لیے آپ اپنے ہونٹوں کو ہلاتے تھے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا میں اپنے ہونٹ ہلاتا ہوں جس طرح آپ ہلاتے تھے۔ سعید کہتے ہیں میں بھی اپنے ہونٹ ہلاتا ہوں جس طرح ابن عباس رضی اللہ عنہما کو میں نے ہلاتے دیکھا۔ پھر انہوں نے اپنے ہونٹ ہلائے۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَابُ بَدْءِ الْوَحْيِ: 5]

تشریح:
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وحی کی ابتدائی کیفیت کے بیان میں اس حدیث کا نقل کرنا بھی مناسب سمجھا جس سے وحی کی عظمت اور صداقت پر بھی روشنی پڑتی ہے، اس لیے کہ اللہ پاک نے ان آیاتِ کریمہ «لاتحرك به لسانك لتعجل به» [القيامة: 16] میں آپ کو پورے طور پر تسلی دلائی کہ وحی کا نازل کرنا، پھر اسے آپ کے دل میں جما دینا، اس کی پوری تفسیر آپ کو سمجھا دینا، اس کا ہمیشہ کے لیے محفوظ رکھنا یہ جملہ ذمہ داریاں صرف ہماری ہیں۔ ابتداءمیں آپ کو یہ کھٹکا رہتا تھا کہ کہیں حضرت جبرئیل علیہ السلام کے جانے کے بعد میں نازل شدہ کلام کو بھول نہ جاؤں۔ اس لیے آپ ان کے پڑھنے کے ساتھ ساتھ پڑھنے اور یاد کرنے کے لیے اپنی زبانِ مبارک ہلاتے رہتے تھے، اس سے آپ کو روکا گیا اور بغور و توجہ کامل سننے کے لیے ہدایتیں کی گئیں، جس کے بعد آپ کا یہی معمول ہو گیا۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما آیت کریمہ «لاتحرك به» الخ کے نزول کے وقت عالم وجود میں نہ تھے۔ مگر بعد کے زمانوں میں جب بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وحی کے ابتدائی حالات بیان فرماتے تب ابتدائے نبوت کی پوری تفصیل بیان فرمایا کرتے تھے، ہونٹ ہلانے کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ ایسا ہی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنے عہد میں دیکھا اور فعل نبوی کی اقتدا میں اپنے ہونٹ ہلاکر اس حدیث کو نقل فرمایا۔ پھر حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ نے بھی اپنے عہد میں اسے روایت کرتے وقت اپنے ہونٹ ہلائے۔ اسی لیے اس حدیث کو مسلسل بتحریک الشفتین کہا گیا ہے۔ یعنی ایسی حدیث جس کے راویوں میں ہونٹ ہلانے کا تسلسل پایا جائے۔ اس میں یہ بھی ہے کہ وحی کی حفاظت کے لیے اس کے نزول کے وقت کی حرکات و سکنات نبویہ تک کو بذریعہ نقل در نقل محفوظ رکھا گیا۔ آیتِ شریفہ «ثم ان علينا بيانه» میں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اشارہ اس طرف بھی ہے کہ قرآن مجید کی عملی تفسیر جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی اور اپنے عمل سے دکھلائی یہ بھی سب اللہ پاک کی وحی کے تحت ہے، اس سے حدیث نبوی کی عظمت ظاہر ہوتی ہے۔ جو لوگ حدیث نبوی میں شکوک و شبہات پیدا کرتے اور ان کو غلط قرار دینے کی مذموم کوشش کرتے ہیں ان کے خیالات باطلہ کی بھی یہاں پوری تردید موجود ہے۔ صحیح مرفوع حدیث یقینا وحی ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ قرآنی وحی کو وحی متلو اور حدیث کو وحی غیرمتلو قرار دیا گیا ہے۔

حدیث مذکورہ سے معلم و متعلّم کے آداب پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک متعلّم کی حیثیت میں استماع اور انصات کی ہدایت فرمائی گئی۔ استماع کانوں کا فعل ہے اور انصات بقول حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما آنکھوں سے ہوتا ہے۔ پس متعلّم کے لیے ضروری ہے کہ درس کے وقت اپنے کانوں اور آنکھوں سے معلّم پر پوری توجہ سے کام لے۔ اس کے چہرے پر نظر جمائے رکھے، لب و لہجہ کے اشارات سمجھنے کے لیے نگاہ استاد کی طرف اٹھی ہوئی ہو۔ قرآن مجید و حدیث شریف کی عظمت کا یہی تقاضا ہے کہ ان ہر دو کا درس لیتے وقت متعلّم ہمہ تن گوش ہو جائے اور پورے طور پر استماع اور انصات سے کام لے۔ حالتِ خطبہ میں بھی سامعین کے لیے اسی استماع و انصات کی ہدایت ہے۔ نزول وحی کے وقت آپ پر سختی اور شدت کا طاری ہونا اس لیے تھا کہ خود اللہ پاک نے فرمایا ہے «اناسنلقي عليك قولا ثقيلا» بے شک ہم آپ پر بھاری باعظمت کلام نازل کرنے والے ہیں۔ پچھلی حدیث میں گزر چکا ہے کہ سخت سردی کے موسم میں بھی نزول وحی کے وقت آپ پسینہ پسینہ ہو جاتے تھے۔ وہی کیفیت یہاں بیان کی گئی ہے۔

آیت شریفہ میں زبان ہلانے سے منع کیا گیا ہے اور حدیث ہذا میں آپ کے ہونٹ ہلانے کا ذکر ہے۔ یہاں راوی نے اختصار سے کام لیا ہے۔ کتاب التفسیر میں حضرت جریر نے موسیٰ بن ابی عائشہ سے اس واقعہ کی تفصیل میں ہونٹوں کے ساتھ زبان ہلانے کا بھی ذکر فرمایا ہے۔ «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى الله عليه وسلم اذا نزل جبرئيل بالوحي فكان ممايحرك بلسانه وشفتيه» اس صورت میں آیت و حدیث میں کوئی تعارض نہیں رہتا۔

راویانِ حدیث: حضرت موسیٰ بن اسماعیل منقری۔ منقر بن عبید الحافظ کی طرف منسوب ہیں۔ جنھوں نے بصرہ میں 223 ھ ماہِ رجب میں انتقال فرمایا۔ غفر اللہ لہ۔ ابوعوانہ وضاح بن عبداللہ ہیں جن کا 196 ھ میں انتقال ہوا۔ موسیٰ بن ابی عائشہ (الکوفی الہمدانی) ہیں۔ سعید بن جبیر بن ہشام الکوفی الاسدی ہیں۔ جن کو 96 ھ میں مظلومانہ حالت میں حجاج بن یوسف ثقفی نے نہایت ہی بے دردی کے ساتھ قتل کیا۔ جن کی بددعا سے حجاج پھر جلد ہی غارت ہو گیا۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو ترجمان القرآن کہا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انے ان کے لیے فہم قرآن کی دعا فرمائی تھی۔ 68ھ میں طائف میں ان کا انتقال ہوا۔ صحیح بخاری شریف میں ان کی روایت سے 217 احادیث نقل کی گئی ہیں۔ [قسطلانی]
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 5   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 936  
´قرآن سے متعلق جامع باب۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے اللہ تعالیٰ کے قول: «لا تحرك به لسانك لتعجل به * إن علينا جمعه وقرآنه» (القیامۃ: ۱۶- ۱۷) کی تفسیر میں مروی ہے، کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وحی اترتے وقت بڑی تکلیف برداشت کرتے تھے، اپنے ہونٹ ہلاتے رہتے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے نبی! آپ قرآن کو جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دیں، کیونکہ اس کا جمع کرنا اور پڑھانا ہمارے ذمہ ہے ۱؎، ابن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ «جمعه» کے معنی: اس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سینہ میں بیٹھا دینا ہے، اور «قرآنه» کے معنی اسے اس طرح پڑھوا دینا ہے کہ جب آپ چاہیں اسے پڑھنے لگ جائیں «فإذا قرأناه فاتبع قرآنه» میں «فاتبع قرآنه» کے معنی ہیں: آپ اسے غور سے سنیں، اور چپ رہیں، چنانچہ جب جبرائیل علیہ السلام آپ کے پاس وحی لے کر آتے تو آپ بغور سنتے تھے، اور جب روانہ ہو جاتے تو آپ اسے پڑھتے جس طرح انہوں نے پڑھایا ہوتا۔ [سنن نسائي/كتاب الافتتاح/حدیث: 936]
936 ۔ اردو حاشیہ:
➊ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ ساتھ پڑھنا اس خطرے کے پیش نظر تھا کہ مجھے کچھ بھول نہ جائے۔ جب اللہ تعالیٰ نے حفاظت کا ذمہ لے لیا تو آپ نے ساتھ ساتھ پڑھنا چھوڑ دیا۔
➋ حدیث میں ہونٹ ہلانے کا ذکر ہے جب کہ قرآن مجید میں زبان کی حرکت کا۔ دراصل زبان کی حرکت کا علم ہونٹوں کے ہلنے سے ہوتا ہے، نیز مراد پڑھنا ہے اور پڑھتے وقت ہونٹ بھی ہلتے ہیں اور زبان بھی۔ مختصر صحیح البخاری (اردو) مطبوعہ دارالسلام میں اس حدیث کے فوائد کچھ یوں ہیں: اس حدیث میں قرآن حکیم کے متعلق تین مراحل کا ذکر کیا گیا ہے: پہلا مرحلہ آپ کے سینۂ مبارک میں محفوظ طریقے سے اتارنا ہے، دوسرا مرحلہ قلب مبارک میں جمع شدہ قرآن کو زبان کے ذریعے سے پڑھنے کی توفیق دینا اور آخری مرحلہ قرآن کے مجملات کی تشریح اور مشکلات کی توضیح ہے جو احادیث (صحیحہ) کی شکل میں موجود ہے۔ ان تمام مراحل کی ذمے داری خود اللہ تعالیٰ نے اٹھائی ہے۔ [عون الباري: 1: 58]
یہ یاد رہے کہ بخاری شریف کی حدیث میں نسائی شریف کی حدیث کی نسبت کچھ الفاظ زیادہ ہیں، لہٰذا اس مناسبت سے یہ تشریح کی گئی ہے۔ واللہ أعلم۔
➌ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نزول وحی کے وقت کبھی تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور یہ وحی کے بوجھ کی وجہ سے تھا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: « ﴿إِنَّا سَنُلْقِي عَلَيْكَ قَوْلا ثَقِيلا﴾ » [المزمل: 5: 73]
یقیناً ہم جلد آپ پر بھاری بات ڈالیں گے۔
➌ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ضمانت خود اٹھائی تھی کہ انہیں قرآن بھولے گا نہیں اور اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آپ غور سے سنتے۔ جب جبرئیل علیہ السلام اپنی قرأت مکمل کر لیتے اور واپس چلے جاتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو اسی طرح پڑھ کر سناتے جس طرح جبرئیل نے آپ کو پڑھایا ہوتا تھا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: « ﴿سَنُقْرِئُكَ فَلا تَنْسَى﴾ » [الاعلیٰ: 6: 87]
ہم جلد آپ کو پڑھائیں گے، پھر آپ بھولیں گے نہیں۔
➎ اس حدیث مبارکہ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کوئی بھی قرآن کریم کو حفظ کرنا چاہے، وہ اللہ کی مدد اور اس کے فضل کے بغیر حفظ نہیں کر سکتا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 936   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1332  
´ذکر اور دعا کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ میں اپنے بندوں کے اس وقت تک ساتھ رہتا ہوں جب تک وہ مجھے یاد کرتا ہے اور میرے لئے اس کے ہونٹ ہلتے رہتے ہیں۔ اس کو ابن ماجہ نے نکالا ہے اور ابن حبان نے اسے صحیح کہا ہے اور بخاری نے اسے تعلیقاً بیان کیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1332»
تخریج:
«أخرجه ماجه، الأدب، باب فضل الذكر، حديث:3792، وابن حبان(الإحسان):2 /92، والبخاري تعليقًا، التوحيد، باب قول الله تعالي: " لا تحرك به لسانك..."، قبل حديث:7524.»
تشریح:
1. اس حدیث میں ذکر کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔
2. اللہ کے ذکر کا فائدہ یہ ہے کہ ذکر کرنے والے خوش نصیب کو اللہ تعالیٰ کی معیت اور ساتھ نصیب ہوتا ہے۔
3. ذکر اللہ تعالیٰ کی توحید‘ اس کی ثنا‘ تحمید و تمجید وغیرہ کے کلمات کو دل اور زبان پر جاری رکھنے کا نام ہے۔
محض دل میں ان کلمات کے ہونے کا کوئی معنی نہیں جب تک کہ زبان بھی دل کی ہمنوا نہ ہو۔
اور صرف زبان سے ادا کرنا اور دل کا بے خبر رہنا‘ اس سے بھی کوئی خاص فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔
جب دل اور زبان ہم آہنگ ہوں اور ایک دوسرے کے ہمنوا ہوں تو مطلوب حاصل ہوتا ہے اور یہی اللہ کے ہاں مطلوب اور محبوب ہے۔
4.دعا اور ذکر میں طلب کا فرق ہے۔
دعا میں طلب ہوتی ہے جب کہ ذکر میں نہیں۔
5. دعا کی فضیلت میں بہت سی احادیث منقول ہیں۔
حافظ ابن قیم رحمہ اللہ کی الوابل الصیب اس سلسلے میں بہترین کتاب ہے۔
اہل ذوق اس کی طرف رجوع فرمائیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1332   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3329  
´سورۃ القیامہ سے بعض آیات کی تفسیر۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل ہوتا تو جلدی جلدی زبان چلانے (دہرانے) لگتے تاکہ اسے یاد و محفوظ کر لیں، اس پر اللہ نے آیت «لا تحرك به لسانك لتعجل به» اے نبی!) آپ قرآن کو جلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دیں (القیامۃ: ۱۶)، نازل ہوئی۔ (راوی) اپنے دونوں ہونٹ ہلاتے تھے، (ان کے شاگرد) سفیان نے بھی اپنے ہونٹ ہلا کر دکھائے۔ [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3329]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اے نبی! آپ قرآن کوجلدی یاد کرنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دیں (القیامة: 16)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 3329   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4927  
4927. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب نبی ﷺ پر وحی نازل ہوتی تو آپ (اس کو یاد کرنے کے لیے) اپنی زبان کو حرکت دیا کرتے تھے۔ سفیان نے بیان کیا کہ آپ کا مقصد اس وحی کو یاد کرنا ہوتا۔ اس پر اللہ تعالٰی نے یہ آیات نازل فرمائیں: آپ قرآن کو جلدی یاد کر لینے کی نیت سے اپنی زبان کو حرکت نہ دیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4927]
حدیث حاشیہ:

ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب حضرت جبرئیل علیہ السلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی لاتے تو آپ زبان اور لب ہلاتے رہتے کہ کہیں ایسانہ ہو کوئی آیت بھول جائے۔
اس سے آپ پر بہت سختی ہو جاتی تھی تو اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا۔

یہ حکم پہلے بھی دیا جا چکا تھا ارشاد باری تعالیٰ ہے:
آپ قرآن پڑھنے میں جلدی نہ کیا کریں اس سے پہلے کہ آپ کی طرف جو وحی کی جاتی ہے وہ پوری ہو جائے۔
(طٰه: 20۔
114)

اللہ تعالیٰ نے آپ کو فرشتے کے ساتھ اس طرح جلدی جلدی پڑھنے سے منع فرما دیا۔
آپ جلدی اس لیے کرتے تھے کہ وحی الٰہی کا کوئی لفظ بھول نہ جائے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس کی ضمانت دی کہ آپ کے سینے میں اس کا جمع کر دینا اور آپ کی زبان پر اس کی قراءت کو جاری کر دینا ہماری ذمے داری ہےآپ کا کام یہ ہے کہ اس دوران میں آپ خاموشی سے سنا کریں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4927   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.