الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: نکاح کے مسائل کا بیان
The Book of (The Wedlock)
15. بَابُ تَزْوِيجِ الْمُعْسِرِ لِقَوْلِهِ تَعَالَى: {إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِهِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ} :
15. باب: مفلس کا نکاح کرانا درست ہے , سورۃ نساء میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اگر وہ (دولہا دولہن) نادار ہیں تو اللہ اپنے فضل سے انہیں مالدار کر دے گا۔
(15) Chapter. The marrying of the poor by virtue of the Statement of Allah: “If they be poor, Allah will enrich them out of His Bounty.” (V.24:32)
حدیث نمبر: 5087
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا عبد العزيز بن ابي حازم، عن ابيه، عن سهل بن سعد الساعدي، قال:" جاءت امراة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، جئت اهب لك نفسي، قال: فنظر إليها رسول الله صلى الله عليه وسلم فصعد النظر فيها وصوبه ثم طاطا رسول الله صلى الله عليه وسلم راسه، فلما رات المراة انه لم يقض فيها شيئا جلست، فقام رجل من اصحابه، فقال: يا رسول الله إن لم يكن لك بها حاجة فزوجنيها، فقال: وهل عندك من شيء؟ قال: لا والله يا رسول الله، فقال: اذهب إلى اهلك فانظر هل تجد شيئا، فذهب ثم رجع، فقال: لا والله ما وجدت شيئا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: انظر ولو خاتما من حديد، فذهب ثم رجع، فقال: لا والله يا رسول الله ولا خاتما من حديد، ولكن هذا إزاري، قال سهل: ما له رداء فلها نصفه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما تصنع بإزارك إن لبسته لم يكن عليها منه شيء، وإن لبسته لم يكن عليك منه شيء، فجلس الرجل حتى إذا طال مجلسه قام، فرآه رسول الله صلى الله عليه وسلم موليا، فامر به فدعي، فلما جاء، قال: ماذا معك من القرآن؟ قال: معي سورة كذا وسورة كذا عددها، فقال: تقرؤهن عن ظهر قلبك؟ قال: نعم، قال: اذهب فقد ملكتكها بما معك من القرآن".(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ، قَالَ:" جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، جِئْتُ أَهَبُ لَكَ نَفْسِي، قَالَ: فَنَظَرَ إِلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَعَّدَ النَّظَرَ فِيهَا وَصَوَّبَهُ ثُمَّ طَأْطَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأْسَهُ، فَلَمَّا رَأَتِ الْمَرْأَةُ أَنَّهُ لَمْ يَقْضِ فِيهَا شَيْئًا جَلَسَتْ، فَقَامَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكَ بِهَا حَاجَةٌ فَزَوِّجْنِيهَا، فَقَالَ: وَهَلْ عِنْدَكَ مِنْ شَيْءٍ؟ قَالَ: لَا وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ: اذْهَبْ إِلَى أَهْلِكَ فَانْظُرْ هَلْ تَجِدُ شَيْئًا، فَذَهَبَ ثُمَّ رَجَعَ، فَقَالَ: لَا وَاللَّهِ مَا وَجَدْتُ شَيْئًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: انْظُرْ وَلَوْ خَاتَمًا مِنْ حَدِيدٍ، فَذَهَبَ ثُمَّ رَجَعَ، فَقَالَ: لَا وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا خَاتَمًا مِنْ حَدِيدٍ، وَلَكِنْ هَذَا إِزَارِي، قَالَ سَهْلٌ: مَا لَهُ رِدَاءٌ فَلَهَا نِصْفُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا تَصْنَعُ بِإِزَارِكَ إِنْ لَبِسْتَهُ لَمْ يَكُنْ عَلَيْهَا مِنْهُ شَيْءٌ، وَإِنْ لَبِسَتْهُ لَمْ يَكُنْ عَلَيْكَ مِنْهُ شَيْءٌ، فَجَلَسَ الرَّجُلُ حَتَّى إِذَا طَالَ مَجْلِسُهُ قَامَ، فَرَآهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُوَلِّيًا، فَأَمَرَ بِهِ فَدُعِيَ، فَلَمَّا جَاءَ، قَالَ: مَاذَا مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ؟ قَالَ: مَعِي سُورَةُ كَذَا وَسُورَةُ كَذَا عَدَّدَهَا، فَقَالَ: تَقْرَؤُهُنَّ عَنْ ظَهْرِ قَلْبِكَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: اذْهَبْ فَقَدْ مَلَّكْتُكَهَا بِمَا مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی حازم نے بیان کیا، ان سے ان کے والد نے اور ان سے سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں آپ کی خدمت میں اپنے آپ کو آپ کے لیے وقف کرنے حاضر ہوئی ہوں۔ راوی نے بیان کیا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نظر اٹھا کر اسے دیکھا۔ پھر آپ نے نظر کو نیچی کر لیا اور پھر اپنا سر جھکا لیا۔ جب اس عورت نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں فرمایا تو وہ بیٹھ گئی۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر آپ کو ان سے نکاح کی ضرورت نہیں ہے تو ان سے میرا نکاح کر دیجئیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تمہارے پاس (مہر کے لیے) کوئی چیز ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ نہیں، اللہ کی قسم، یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اپنے گھر جاؤ اور دیکھو ممکن ہے تمہیں کوئی چیز مل جائے۔ وہ گئے اور واپس آ گئے اور عرض کیا: اللہ کی قسم! میں نے کچھ نہیں پایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر لوہے کی ایک انگوٹھی بھی مل جائے تو لے آؤ۔ وہ گئے اور واپس آ گئے اور عرض کیا: اللہ کی قسم، یا رسول اللہ! میرے پاس لوہے کی ایک انگوٹھی بھی نہیں البتہ میرے پاس ایک تہمد ہے۔ انہیں (خاتون کو) اس میں سے آدھا دے دیجئیے۔ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ان کے پاس چادر بھی نہیں تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ تمہارے اس تہمد کا کیا کرے گی۔ اگر تم اسے پہنو گے تو ان کے لیے اس میں سے کچھ نہیں بچے گا اور اگر وہ پہن لے تو تمہارے لیے کچھ نہیں رہے گا۔ اس کے بعد وہ صحابی بیٹھ گئے۔ کافی دیر تک بیٹھے رہنے کے بعد جب وہ کھڑے ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا کہ وہ واپس جا رہے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلوایا جب وہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تمہیں قرآن مجید کتنا یاد ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں۔ انہوں نے گن کر بتائیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تم انہیں بغیر دیکھے پڑھ سکتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ جی ہاں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر جاؤ۔ میں نے انہیں تمہارے نکاح میں دیا۔ ان سورتوں کے بدلے جو تمہیں یاد ہیں۔

Narrated Sahl bin Sa`d As-Sa`idi: A woman came to Allah's Apostle and said, "O Allah's Apostle! I have come to give you myself in marriage (without Mahr)." Allah's Apostle looked at her. He looked at her carefully and fixed his glance on her and then lowered his head. When the lady saw that he did not say anything, she sat down. A man from his companions got up and said, "O Allah's Apostle! If you are not in need of her, then marry her to me." The Prophet said, "Have you got anything to offer?" The man said, "No, by Allah, O Allah's Apostle!" The Prophet said (to him), "Go to your family and see if you have something." The man went and returned, saying, "No, by Allah, I have not found anything." Allah's Apostle said, "(Go again) and look for something, even if it is an iron ring." He went again and returned, saying, "No, by Allah, O Allah's Apostle! I could not find even an iron ring, but this is my Izar (waist sheet)." He had no rida. He added, "I give half of it to her." Allah's Apostle said, "What will she do with your Izar? If you wear it, she will be naked, and if she wears it, you will be naked." So that man sat down for a long while and then got up (to depart). When Allah's Apostle saw him going, he ordered that he be called back. When he came, the Prophet said, "How much of the Qur'an do you know?" He said, "I know such Sura and such Sura," counting them. The Prophet said, "Do you know them by heart?" He replied, "Yes." The Prophet said, "Go, I marry her to you for that much of the Qur'an which you have."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 7, Book 62, Number 24


   صحيح البخاري5135سهل بن سعدزوجناكها بما معك من القرآن
   صحيح البخاري5121سهل بن سعدأملكناكها بما معك من القرآن
   صحيح البخاري2310سهل بن سعدزوجناكها بما معك من القرآن
   صحيح البخاري5030سهل بن سعدملكتكها بما معك من القرآن
   صحيح البخاري5126سهل بن سعدملكتكها بما معك من القرآن
   صحيح البخاري5871سهل بن سعدملكتكها بما معك من القرآن
   صحيح البخاري5087سهل بن سعدملكتكها بما معك من القرآن
   صحيح البخاري7417سهل بن سعدأمعك من القرآن شيء قال نعم سورة كذا وسورة كذا لسور سماها
   صحيح البخاري5029سهل بن سعدزوجتكها بما معك من القرآن
   صحيح البخاري5150سهل بن سعدتزوج ولو بخاتم من حديد
   صحيح البخاري5132سهل بن سعدزوجتكها بما معك من القرآن
   صحيح البخاري5149سهل بن سعدأنكحتكها بما معك من القرآن
   صحيح البخاري5141سهل بن سعدملكتكها بما معك من القرآن
   صحيح مسلم3487سهل بن سعدملكتكها بما معك من القرآن
   جامع الترمذي1114سهل بن سعدزوجتكها بما معك من القرآن
   سنن النسائى الصغرى3282سهل بن سعدأنكحتكها على ما معك من القرآن
   سنن النسائى الصغرى3361سهل بن سعدزوجتكها على ما معك من القرآن
   سنن النسائى الصغرى3341سهل بن سعدهل عندك من شيء فقال لا والله ما وجدت شيئا فقال انظر ولو خاتما من حديد فذهب ثم رجع فقال لا والله يا رسول الله ولا خاتما من حديد ولكن هذا إزاري قال سهل ما له رداء فلها نصفه فقال رسول الله ما تصنع بإزارك إن لبسته لم يكن عليها منه شيء وإن ل
   سنن النسائى الصغرى3202سهل بن سعدزوجه بما معه من سور القرآن
   سنن ابن ماجه1889سهل بن سعدزوجتكها على ما معك من القرآن
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم350سهل بن سعدزوجتكها بما معك من القرآن
   بلوغ المرام833سهل بن سعد‏‏‏‏اذهب فقد ملكتكها بما معك من القرآن

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ ابويحييٰ نورپوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5029  
´دینی تعلیم پر اجرت لینے کا جواز`
«. . . فَقَالَ: مَا مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ؟ قَالَ: كَذَا وَكَذَا. قَالَ:" فَقَدْ زَوَّجْتُكَهَا بِمَا مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا تم کو قرآن کتنا یاد ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ فلاں فلاں سورتیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر میں نے تمہارا ان سے قرآن کی ان سورتوں پر نکاح کیا جو تمہیں یاد ہیں . . . [صحيح البخاري/كِتَاب فَضَائِلِ الْقُرْآنِ: 5029]

فقہ الحدیث:
امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث سے کیا ثابت کرنا چاہتے تھے، اس کے بارے میں:
➊ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«وهذا الحديث متفق على إخراجه من طرق عديدة، والغرض منه أن الذى قصده البخاري أن هذا الرجل تعلم الذى تعلمه من القرآن، وأمره النبى صلى الله عليه وسلم أن يعلمه تلك المرأة، ويكون ذلك صداقا لها على ذلك، وهذا فيه نزاع بين العلماء، وهل يجوز أن يجعل مثل هذا صداقا؟ أو هل يجوز أخذ الأجرة على تعليم القرآن؟ وهل هذا كان خاصا بذلك الرجل؟ وما معنى قوله عليه الصلاة والسلام: زوجتكها بما معك من القرآن؟ أبسبب ما معك من القرآن؟ كما قاله أحمد بن حنبل: نكرمك بذلك . أو بعوض ما معك، وهذا أقوى، لقوله فى صحيح مسلم: فعلمها وهذا هو الذى أراده البخاري هاهنا .»
یہ حدیث کئی سندوں سے صحیح بخاری و مسلم میں موجود ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود یہ تھا کہ اس صحابی نے قرآن کریم کی کچھ سورتیں سیکھی ہوئی تھیں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ سورتیں اس عورت کو سکھانے کا حکم فرمایا۔ یہی سورتیں اس نکاح میں ان کا مہر بن گئیں۔ اس بارے میں اہل علم کے مابین اختلاف ہے کہ کیا اس جیسی چیز کو حق مہر بنایا جا سکتا ہے؟ یا قرآن کریم کی تعلیم پر اجرت لی جا سکتی ہے؟ کیا یہ معاملہ اسی صحابی کے ساتھ خاص تھا؟ نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کا کیا مطلب ہے کہ میں نے یاد کیے ہوئے قرآن کی وجہ سے اس عورت سے آپ کا نکاح کر دیا ہے؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اس قرآن کے سبب سے یہ نکاح ہوا؟ جیسا کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ، فرماتے ہیں کہ ہم اس قرآن کی وجہ سے آپ کو تکریم دیتے ہیں۔ یا اس کا معنی یہ ہے کہ اس قرآن کے عوض؟ یہی عوض والا معنی زیادہ قوی ہے، کیوں کہ صحیح مسلم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اپنی بیوی کو یہ سورتیں سکھاؤ (اگر تکریم والا معاملہ ہو تو سکھانے کے حکم کا کوئی معنی نہیں رہتا۔ اس حکم سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بطور حق مہر تھا)۔ یہاں امام بخاری رحمہ اللہ کی یہی مراد ہے۔ [تفسير القرآن العظيم: 68/1، دار طيبة للنشر والتوزيع، 1999ء]

➋ امام مدینہ، مالک بن انس رحمہ اللہ کے بارے میں ہے:
«في الذى امره النبى صلى الله عليه وسلم ان ينكح بما معه من القرآن، ان ذلك فى اجرته على تعليمها ما معه .»
اس صحابی کے بارے میں، جسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یاد قرآن کے عوض نکاح کا حکم فرمایا تھا، امام موصوف رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ قرآن سکھانا (حق مہر کے لیے) بطور اجرت تھا۔ [التمهيد لما فى المؤطّأ من المعاني والأ سانيد لابن عبدالبرّ: 120/21، وزارة عموم الأوقاف والشؤون الإسلامية، المغرب، 1387ه، وسنده حسن]

➌ امام شافعی رحمہ اللہ کے بارے میں امام بیہقی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«واحتج الشافعي رحمه الله فى جواز اخذ الاجره اخذ الاجرة على تعليم الخير بحديث التزويج على تعليم القرآن .»
امام شافعی رحمہ اللہ نے دینی تعلیم پر اجرت لینے کے جواز پر اس حدیث سے استدلال کیا ہے، جس میں قرآن کریم کی تعلیم پر شادی کرنے کا ذکر ہے۔ [مختصر خلافيات للبيهقي لأبي العباس الشافعي: 172/4، مكتبة الرشد، الرياض، 1997ء]

➍ خود امام، ابوبکر، احمد بن حسین، بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وحديث المزوجة على تعليم القرآن، دليل فيه.»
قرآن کریم کی تعلیم کے عوض نکاح والی حدیث دینی امور پر اجرت کے جواز کی دلیل ہے۔ [السنن الكبريٰ:205/6، دارالكتب العلمية،بيروت، 2003ء]
   ماہنامہ السنہ جہلم، شمارہ 79، حدیث\صفحہ نمبر: 30   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 350  
´حق مہر کا بیان`
«. . . 411- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم جاءته امرأة فقالت: يا رسول الله، إني قد وهبت نفسي لك؛ فقامت قياما طويلا، فقام رجل فقال: يا رسول الله، زوجنيها إن لم تكن لك بها حاجة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: هل عندك من شيء تصدقها إياه؟ قال: ما عندي إلا إزاري هذا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن أعطيتها إزارك جلست لا إزار لك، فالتمس شيئا قال: ما أجد شيئا، قال: التمس ولو خاتم حديد فالتمس فلم يجد شيئا، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: هل معك من القرآن شيء قال: نعم، سورة كذا وسورة كذا لسور سماها لرسول الله صلى الله عليه وسلم فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: قد زوجتكها بما معك من القرآن. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا سہل رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک عورت نے آ کر عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اپنی جان آپ کو ہبہ کرتی ہوں پھر وہ کافی دیر کھڑی رہی تو ایک آدمی نے کھڑے ہو کر کہا: یا رسول اللہ! اگر آپ کو ضرورت نہیں ہے تو اس کا نکا ح میرے ساتھ کر دیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہارے پاس کوئی ایسی چیز ہے جو تم اسے حق مہر میں دے سکو؟ اس آدمی نے کہا: میرے پاس اس ازار کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم اسے اپنا ازار دے دو گے تو پھر تمہارے پاس کوئی ازار نہیں رہے گا، جاؤ اور کوئی چیز تلاش کرو انہوں نے کہا: میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تلاش کرو اگرچہ لوہے کی ایک انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو۔ اس آدمی نے تلاش کیا تو کچھ بھی نہ پایا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: کیا قرآن میں سے کچھ تمہیں یاد ہے؟ اس نے کہا: جی ہاں! فلاں فلاں سورت یاد ہے اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کچھ سورتوں کے نام لئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: میں نے اس عورت کا نکا ح تمہارے ساتھ اس قرآن کے عوض کر دیا جو تمہیں یاد ہے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 350]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 5135، و الترمذي 1114، من حديث مالك به و رواه مسلم 1424، من حديث ابي حازم به]

تفقه:
➊ یہ حدیث قرآن مجید کی سورۃ الاحزاب کی آیت: 50 کی تشریح ہے۔
➋ اگر فریقین راضی ہوں تو حق مہر میں مال ودولت کا ہونا ضروری نہیں بلکہ تعلیمِ قرآن کے بدلے میں بھی نکاح ہو سکتا ہے اور اس حالت میں یہی حق مہر ہے۔
➌ جب تعلیم قرآن کے بدلے میں نکاح جائز ہے تو ثابت ہوا کہ تعلیم قرآن پر اجرت لینا بھی جائز ہے۔ اس سلسلے میں راقم الحروف کا ایک فتویٰ ماہنامہ الحدیث حضرو [عدد 18 ص 12، 13،] سے پیش خدمت ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إن أحق ما أخذتم عليه أجرًا كتاب الله» تم جس پر اُجرت لیتے ہو ان میں سب سے زیادہ مستحق کتاب اللہ ہے۔ [صحيح بخاري: 5737] اس حدیث کو امام بخاری رحمہ اللہ [كتاب الإجاره، باب ما يعطي فى الرقية على أحياء العرب بفاتحة الكتاب، قبل ح2276] میں بھی لائے ہیں۔ اس حدیث کی شرح میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: «واستدل به للجمهور فى جواز أخذ الأجرة على تعليم القرآن» اور اس سے جمہور کے لئے دلیل لی گئی ہے کہ تعلیم القرآن پر اجرت لینا جائز ہے۔ [فتح الباري ج4 ص453]
اب چند آثار پیش خدمت ہیں:
① حکم بن عتیبہ (تابعی صغیر) رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ: «ما سمعت فقیھا یکرھہ» میں نے کسی فقیہ کو اسے (اجرت معلم کو) مکروہ (کراہت تحریمی) قرار دیتے ہوۓ نہیں سنا۔ [مسند على بن الجعد: 1105، وسنده صحيح]
② معاویہ بن قرۃ (تابعی) رحمہ اللہ نے فرمایا: «اني لارجو ان يكون له فى ذالك خير» مجھے یہ امید ہے کہ اس کے لئے اس میں اجر ہوگا۔ [مسند على بن الجعد: 1104، و سنده صحيح]
③ ابوقلابہ (تابعی) رحمہ اللہ تعلیم دینے والے معلم کی اجرت (تنخواہ) میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ [ديكهئے مصنف ابن ابي شيبه ج6 ص220 ح20824 وسنده صحيح]
④ طاؤس (تابعی) رحمہ اللہ بھی اسے جائز سمجھتے تھے۔ [ابن ابي شيبه ايضاً، ح: 20825 وسنده صحيح]
⑤ محمد بن سیرین (تابعی) رحمہ اللہ کے قول سے بھی اس کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ [مصنف ابن ابي شيبه 6/223 ح20835 وسنده صحيح]
⑥ ابراہیم نخعی (تابعی صغیر) رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ «كانوا يكرهون أجر المعلم» وہ (اگلے لوگ، سلف صالحین) معلم کی اجرت کو مکروہ (کراہتِ تنزیہی) سمجھتے تھے۔ [مسند على بن الجعد: 1106، وسنده قوي]
اس پر استدراک کرتے ہوئے اما شعبہ بن الحجاج رحمہ اللہ، امام ابوالشعثاء جابر بن زید (تابعی) رحمہ اللہ سے نقل کرتے ہیں کہ بہتر و افضل یہی ہے کہ تعلیم وتدریس کی اجرت نہ لی جائے تاہم اگر کوئی شخص اجرت لیتا ہے تو جائز ہے۔
تنبیہ:
➊: سب آثار کو مدنظر رکھتے ہوئے، ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کے قول یکرھون میں کراہت سے کراہتِ تنزیہی مراد ہے اور حکم بن عتیبہ رحمہ اللہ کے قول یکرھه میں کراہتِ تحریمی مراد ہے۔ واللہ اعلم
تنبیہ:
➋: بعض آثار صحیح بخاری [قبل ح2276] میں کچھ اختلاف کے ساتھ مذکور ہیں۔ اجرت تعلیم القرآن کا انکار کرنے والے بعض الناس جن آیات وروایات سے استدلال کرتے ہیں ان کا تعلق دو امور سے ہے:
⓵ اجرتِ تبلیغ (یعنی جو تبلیغ فرض ہے اس پر اجرت لینا) «لَا اَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا» اور «وَلَا تَشْتَرُوْا بِآيَاتِيْ ثَمَنًا قَلِيْلًا» وغیرہ آیات کا یہی مفہوم ہے۔ نیز دیکھئے دینی امور پر اجرت کا جواز [76]
⓶ قرأت قرآن پر اجرت (یعنی نماز تراویح میں قرآن سنا کر اس کی اجرت لینا) حدیث «أقرؤا القرآن ولا تأكلوا به» وغیرہ کا یہی مطلب ومفہوم ہے۔
دیکھئے [مصنف ابن ابي شيبه ج2 ص400 باب فى الرجل يقوم بالناس فى رمضان فيعطي، ح7742]
➍ حق مہر میں کوئی خاص مقدار مقرر نہیں ہے بلکہ فریقین جس پر راضی ہوجائیں بشرطیکہ وہ کتاب و سنت کے خلاف نہ ہو تو نکاح صحیح ہے۔
عطاء بن ابی رباح رحمہ اللہ سے پوچھا: گیا کہ ایک آدمی دس درہم (حق مہر) پر شادی کرتا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا: مسلمان اس سے کم اور زیادہ پر شادیاں کرتے رہے ہیں۔ [مصنف ابن ابي شيبه 4/187 ح16362، وسنده صحيح]
➎ شوہر اپنی بیوی کو بطور حق مہر جو کچھ دے دیتا ہے تو وہ اس کا مالک نہیں رہتا بلکہ اس کی بیوی اس کی مالک ہو جاتی ہے۔
➏ جس عورت کا رخصتی سے پہلے شوہر فوت ہوجائے اور حق مہر مقرر نہ ہو تو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ اور سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس کے لئے کوئی حق مہر نہیں ہے اور سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے فرمایا: وہ وارث ہوگی اور عدت گزارے گی۔ [مصنف ابن ابي شيبه 4/301 بعد ح17106، وسنده صحيح]
➐ اس حدیث سے لوہے کی انگوٹھی کا جواز ثابت ہوتا ہے اور دوسری حدیث میں اسے جہنمیوں کا زیور کہا گیا ہے۔ دیکھئے [سنن الترمذي 1785، وقال: غريب، وسنن ابي داود 4223، وغيرهما وهو حديث حسن وله شاهد حسن عند مسدد فى مسنده، انظر اتحاف الخيرة للبوصيري 6/112 ح5580] ان دونوں حدیثوں میں تطبیق یہ ہے کہ عورتوں کے لئے لوہے کی انگوٹھی پہننا جائز ہے جبکہ مردوں کے لئے اسے پہننا جائز نہیں ہے۔
➑ اگر سرپرست کی مرضی شامل ہو تو شادی کرنے والا خود بھی اپنی منگنی کا پیغام بھیج سکتا ہے۔
➒ اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ نکاح میں ایجاب وقبول ایک دفعہ ہی کافی ہے، اس کے لئے تین دفعہ تکرار کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
➓ امیر ہو یا غریب، ہر آدمی کو کتاب و سنت کا علم سیکھنے میں کوشاں رہنا چاہئے اور اس علم کو آگے اپنے اہل و عیال، دوستوں اور رشتہ داروں وغیرہ میں پھیلانے کی کوشش بھی کرنی چاہئے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 411   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5087  
´نکاح کے لیے زیادہ مال ہونے کی شرط نہیں`
«. . . فَرَآهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُوَلِّيًا، فَأَمَرَ بِهِ فَدُعِيَ، فَلَمَّا جَاءَ، قَالَ: مَاذَا مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ؟ قَالَ: مَعِي سُورَةُ كَذَا وَسُورَةُ كَذَا عَدَّدَهَا، فَقَالَ: تَقْرَؤُهُنَّ عَنْ ظَهْرِ قَلْبِكَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: اذْهَبْ فَقَدْ مَلَّكْتُكَهَا بِمَا مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ تمہیں قرآن مجید کتنا یاد ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ فلاں فلاں سورتیں یاد ہیں۔ انہوں نے گن کر بتائیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تم انہیں بغیر دیکھے پڑھ سکتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ جی ہاں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر جاؤ۔ میں نے انہیں تمہارے نکاح میں دیا۔ ان سورتوں کے بدلے جو تمہیں یاد ہیں . . . [صحيح البخاري/كِتَاب النِّكَاحِ: 5087]

فوائد و مسائل:
یہ حدیث [كتاب النكاح:5150] میں مختصراً مذکور ہے اور صحیح بخاری کے علاوہ درج ذیل کتابوں میں بھی موجود ہے:
[موطا امام مالك:526/2، ح:1141]
[مسند الحميدي:928]
[مسنداحمد:334، 330/5، 336]
[صحيح مسلم:1425 يا 3487، 3488]
[سنن دارمي:2207]
[سنن ابوداود:2111]
[سنن ابن ماجه:1889]
[سنن الترمذي:114، وقال: هذا حديث حسن صحيح وقد ذهب الشافعي إليٰ هذا الحديث]
[سنن النسائي:54/6، 91، 113، 123]
[منتقيٰ ابن الجارود:716]
[مسند ابي يعليٰ:7522، 7539]
[شرح معاني الآثار للطحاوي:17/3]
[سنن الدار قطني:248/3، 249]
[مصنف ابن ابي شيبه:187/4]
[مسند ابي عوانه:6860، 6866]
[مستدرك للحاكم:178/2]
[كتاب الام للشافعي:59/5، 160]
لوہے کی انگوٹھی بھی مال ہے اگرچہ بہت تھوڑا ہے لیکن قرآن نے نکاح کے لیے زیادہ مال ہونے کی شرط نہیں لگائی۔ «ان تبتغوا باموالكم» کا مطلب یہ ہے کہ اپنے اموال کے ذریعے سے نکاح کرو اور اموال کے ذریعے سے زنا نہ کرو۔ ديكهئے: [تفسير قرطبي،طبعه جديده، ج:ا، ص:849]
یعنی اس آیت میں زنا کے مقابلے میں نکاح پر مال خرچ کرنے کا حکم ہے لیکن یہ شرط نہیں ہے کہ ضرور بالضرور نکاح کے لئے زیادہ مال ہونا چاہئے لہٰذا اس آیت کو حدیث مذکور کے خلاف پیش کرنا انہی لوگوں کا کام ہے جو حدیث کو حجت نہیں مانتے اور اپنے خود ساختہ مفہوم قرآنی کو حجت بنا لیتے ہیں۔

مشہور ثقہ تابعی، ابوحازم سلمہ بن دینار المدنی رحمہ اللہ کا مختصر تعارف درج ذیل ہے:
➊ امام احمد بن حنبل نے کہا: «ثقه» ۔ [الجرح و التعدیل لابن ابی حاتم:159/4، وسندہ صحیح]
➋ ابوحاتم الرازی نے کہا: «ثقه» ۔ [ایضاً]
➌ امام یحییٰ بن معین نے کہا: «مشهور مدني ثقه» ۔ [التاريخ الكبير لابن ابي خيثمه،ص:411، وسنده صحيح]
➍ احمد بن عبداللہ العجلی نے کہا: «مدني تابعي ثقه رجل صالح» ۔ [تاریخ العجلی:641]
➎ ابن حبان نے اسے کتاب الثقات میں ذکر کر کے کہا: وہ مدینے والے عبادت گزار زاہدوں کو قاضیوں (یا واعظوں) میں سے تھے، سلیمان بن عبدالملک (اموی خلیفہ) نے انہیں بلانے کے لیے (امام) زہری کو بھیجا۔ زہری نے کہا: امیر کی دعوت قبول کریں۔ انہوں (ابوحازم) نے فرمایا: مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے کہ ان کے پاس جاؤں، اگر انہیں کوئی ضرورت ہے تو وہ میرے پاس آئیں۔ [ج:4، ص:316]
➏ سفیان ثوری نے کہا: «رحم الله أبا حازم» اللہ ابوحازم پر رحم کرے۔ [كتاب العلل و معرفته الرجال للام احمد:373/2،فقره:2659، و سنده صحيح]
➐ ابن سعد نے کہا: «وكان عابدا زاهدا» اور وہ عابد زاہد تھے۔ [تاريخ دمشق لابن عساكر:15/24، وسنده حسن]
➑ بخاری، مسلم، ترمذی اور ابن الجارود وغیرہم نے ابوحازم کی حدیث کو صحیح قرار دے کر انہیں ثقہ و صدوق قرار دیا ہے۔ کسی محدث نے ابوحازم رحمہ اللہ پر جرح نہیں کی مگر معترض (منکرین حدیث اپنی کتاب میں) انہیں گالیا ں دے کر اپنی باطنی خباثت عیاں کر رہا ہے۔
   توفيق الباري في تطبيق القرآن و صحيح بخاري، حدیث\صفحہ نمبر: 38   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1889  
´عورتوں کے مہر کا بیان۔`
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی تو آپ نے فرمایا: اس سے کون نکاح کرے گا؟ ایک شخص نے کہا: میں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: اسے کچھ دو چاہے لوہے کی ایک انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو، وہ بولا: میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے اس کا نکاح تمہارے ساتھ اس قرآن کے بدلے کر دیا جو تمہیں یاد ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1889]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
حق مہر کی کم سے کم کوئی مقدر مقرر نہیں ہے۔
استعمال کی معمولی سے معمولی چیزیں بھی حق مہر مقرر ہو سکتی ہے، بشرطیکہ عورت رضامند ہو۔

(2)
  کوئی غیر مادی فائدہ بھی حق مہر ہو سکتا ہے، جیسے حضرت موسیٰ نے دس سال اپنے سسرال کی خدمت کی اور ان کی بکریاں چرائیں۔ (القصص، 28: 27، 29)

(3)
بعض علماء نے حدیث کے آخری جملے کا ترجمہ یوں کیا ہے:
تجھے جو قرآن یاد ہے، میں نے اس کی وجہ سے اس کا نکاح تجھ سے کردیا۔
مطلب یہ ہے کہ بعد میں جب ممکن ہو اسے مہر مثل ادا کردینا۔
وہ کہتے ہیں:
مہر کے لیے مادی چیزکا ہونا ضروری ہے لیکن ان کا یہ موقف درست نہیں کیونکہ یہ واقعہ صحیح مسلم میں ان الفاظ میں مروی ہے:
(اِنْطَلِقْ فَقَدْ زَوَّجْتُكَهِا فَعَلِّمْهَا مِنَ الْقُرْآن)
جاؤ میں نے اس سے تمہارا نکاح کردیا، لہذا اسے قرآن سکھا دینا۔
 (صحیح مسلم، النکاح، باب الصداق و جواز کونه تعلیم القرآن .......، حدیث: 1425)

(4)
اس سے معلوم ہوا کہ قرآن سکھانا ہی اس کا حق مہر تھا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1889   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5087  
5087. سیدنا سہل بن سعد ساعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ایک ایک عورت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی: اللہ کے رسول! میں حاضر خدمت ہوں اور اپنی ذات کو ہبہ کرتی ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے نظر اوپر اٹھا کر اسے دیکھا۔ پھر اپنی نگاہ نیچے کی اور سے مبارک جھکا لیا۔ جب اس خاتون نے دیکھا کہ آپ ﷺ نے اس کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا تو وہ بیٹھ گئی۔ تب آپ کے صحابہ کرام‬ ؓ م‬یں ایک صاحب کھڑے ہوئے اور عرض کی: اللہ کے رسول! اگر آپ کو اس کی حاجت نہیں ہے تو اس کا نکاح مجھ سے کر دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تیرے پاس کچھ مال ہے؟ اس نے کہا اللہ کے رسول! اللہ کی قسم میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اپنے گھر جاؤ، ممکن ہے کہ وہاں سے کوئی چیز مل جائے۔ چنانچہ ہو گئے اور وآپس آ کر کہا: اللہ کی قسم! میں نے وہاں کچھ نہیں پایا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دیکھو اگر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5087]
حدیث حاشیہ:
تمہارا مہر یہی ہے کہ تم اس کو وہ سورتیں جو تم کو یاد ہیں ان کو یاد کرا دینا۔
نسائی اور ابو داؤد کی روایت میں سورۃ بقرہ اور اس کے پاس والی سورت آل عمران مذکور ہے۔
دارقطنی کی روایت میں سورۃ بقرہ اورمفصل کی چند سورتیں مذکور ہیں۔
ایک روایت میں یوں ہے حضرت ابوامامہ سے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری کا نکاح سات سورتوں پر کر دیا۔
ایک روایت میں یوں ہے کہ اس کو بیس آیتیں سکھلا دے وہ تیری جورو ہے۔
اس حدیث سے یہ نکلتا ہے کہ تعلیم قرآن پر اجرت لینا جائز ہے اور حنفیہ نے برخلاف ان احادیث صحیحہ کے یہ حکم دیا ہے کہ تعلیم قرآن مہر نہیں ہو سکتی اورکہتے ہیں ﴿أن تَبتَغُو ا بِأموالِکُم﴾ ہم کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم قرآن کو بھی مال قرار دیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ قرآن کو تم نہیں جانتے۔
واللہ اعلم۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 5087   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5087  
5087. سیدنا سہل بن سعد ساعد ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ایک ایک عورت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی: اللہ کے رسول! میں حاضر خدمت ہوں اور اپنی ذات کو ہبہ کرتی ہوں۔ رسول اللہ ﷺ نے نظر اوپر اٹھا کر اسے دیکھا۔ پھر اپنی نگاہ نیچے کی اور سے مبارک جھکا لیا۔ جب اس خاتون نے دیکھا کہ آپ ﷺ نے اس کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا تو وہ بیٹھ گئی۔ تب آپ کے صحابہ کرام‬ ؓ م‬یں ایک صاحب کھڑے ہوئے اور عرض کی: اللہ کے رسول! اگر آپ کو اس کی حاجت نہیں ہے تو اس کا نکاح مجھ سے کر دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تیرے پاس کچھ مال ہے؟ اس نے کہا اللہ کے رسول! اللہ کی قسم میرے پاس کچھ نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اپنے گھر جاؤ، ممکن ہے کہ وہاں سے کوئی چیز مل جائے۔ چنانچہ ہو گئے اور وآپس آ کر کہا: اللہ کی قسم! میں نے وہاں کچھ نہیں پایا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دیکھو اگر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5087]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے یہ ثابت کیا ہے کہ وقتی طور پر اگر کوئی نادار یا مفلس ہے تو یہ ناداری نکاح میں رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث میں مذکور ایک نادار و مفلس شخص کا نکاح قرآن کی چند سورتوں کے بدلے میں کر دیا تھا، اگر ناداری و مفلسی رکاوٹ کا باعث ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا نکاح نہ کرتے۔
(2)
تنگدست آدمی نکاح کر سکتا ہے۔
نکاح کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس کی تنگدستی دور کرنے کا وعدہ کیا ہے لیکن اس وعدے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جو بھی محتاج شادی کرے گا شادی کے بعد وہ مال دار غنی ہو جائے گا بلکہ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان نکاح کے بعد احساس ذمہ داری کی وجہ سے پوری محنت کرنے لگتا ہے جو پہلے نہیں کرتا تھا۔
کبھی بیوی اس کے کسب معاش کے سلسلے میں معاون بن جاتی ہے، کبھی بیوی کے کنبے والے اس سلسلے میں اس کا ہاتھ بٹاتے ہیں، کبھی مرد کے لیے کمائی اور آمدنی کی ایسی راہیں کھل جاتی ہیں جس کا اسے پہلے وہم گمان بھی نہیں ہوتا۔
بہر حال مفلسی اور ناداری کو نکاح کے لیے رکاوٹ خیال نہیں کرنا چاہیے اور یقین رکھنا چاہیے کہ رزق کی تنگی اور فراخی کا انحصار نہ نکاح کرنے پر ہے اور نہ مجرد رہنے ہر، لہٰذا اس بنا پر نکاح سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وقتی طور پر تنگ دستی کو نکاح میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے، ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ نکاح کے بعد رزق کے دروازے اس کے لیے کھول دے۔
(فتح الباري: 164/9)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 5087   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.