الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اوقات نماز کے بیان میں
The Book of The Times of As-Salat (The Prayers) and Its Superiority
18. بَابُ وَقْتِ الْمَغْرِبِ:
18. باب: مغرب کی نماز کے وقت کا بیان۔
(18) Chapter. The time of the Maghrib prayer (evening prayer).
حدیث نمبر: 560
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، قال: حدثنا محمد بن جعفر، قال: حدثنا شعبة، عن سعد، عن محمد بن عمرو بن الحسن بن علي، قال: قدم الحجاج فسالنا جابر بن عبد الله، فقال:" كان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي الظهر بالهاجرة، والعصر والشمس نقية، والمغرب إذا وجبت، والعشاء احيانا واحيانا إذا رآهم اجتمعوا عجل، وإذا رآهم ابطوا اخر، والصبح كانوا او كان النبي صلى الله عليه وسلم يصليها بغلس".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سَعْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ، قَالَ: قَدِمَ الْحَجَّاجُ فَسَأَلْنَا جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، فَقَالَ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الظُّهْرَ بِالْهَاجِرَةِ، وَالْعَصْرَ وَالشَّمْسُ نَقِيَّةٌ، وَالْمَغْرِبَ إِذَا وَجَبَتْ، وَالْعِشَاءَ أَحْيَانًا وَأَحْيَانًا إِذَا رَآهُمُ اجْتَمَعُوا عَجَّلَ، وَإِذَا رَآهُمْ أَبْطَوْا أَخَّرَ، وَالصُّبْحَ كَانُوا أَوْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّيهَا بِغَلَسٍ".
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن جعفر نے، کہا ہم سے شعبہ بن حجاج نے سعد بن ابراہیم سے، انہوں نے محمد بن عمرو بن حسن بن علی سے، انہوں نے کہا کہ حجاج کا زمانہ آیا (اور وہ نماز دیر کر کے پڑھایا کرتا تھا اس لیے) ہم نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز ٹھیک دوپہر میں پڑھایا کرتے تھے۔ ابھی سورج صاف اور روشن ہوتا تو نماز عصر پڑھاتے۔ نماز مغرب وقت آتے ہی پڑھاتے اور نماز عشاء کو کبھی جلدی پڑھاتے اور کبھی دیر سے۔ جب دیکھتے کہ لوگ جمع ہو گئے ہیں تو جلدی پڑھا دیتے اور اگر لوگ جلدی جمع نہ ہوتے تو نماز میں دیر کرتے۔ (اور لوگوں کا انتظار کرتے) اور صبح کی نماز صحابہ رضی اللہ عنہم یا (یہ کہا کہ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اندھیرے میں پڑھتے تھے۔

Narrated Jabir bin `Abdullah: The Prophet used to pray the Zuhr at midday, and the `Asr at a time when the sun was still bright, the Maghrib after sunset (at its stated time) and the `Isha at a variable time. Whenever he saw the people assembled (for `Isha' prayer) he would pray earlier and if the people delayed, he would delay the prayer. And they or the Prophet used to offer the Fajr Prayers when it still dark.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 10, Number 535


   صحيح البخاري565جابر بن عبد اللهيصلي الظهر بالهاجرة العصر والشمس حية المغرب إذا وجبت العشاء إذا كثر الناس عجل وإذا قلوا أخر الصبح بغلس
   صحيح البخاري560جابر بن عبد اللهيصلي الظهر بالهاجرة العصر والشمس نقية المغرب إذا وجبت العشاء أحيانا وأحيانا إذا رآهم اجتمعوا عجل وإذا رآهم أبطوا أخر الصبح يصليها بغلس
   صحيح مسلم1460جابر بن عبد اللهيصلي الظهر بالهاجرة العصر والشمس نقية المغرب إذا وجبت العشاء أحيانا يؤخرها وأحيانا يعجل كان إذا رآهم قد اجتمعوا عجل وإذا رآهم قد أبطئوا أخر الصبح وكان يصليها بغلس
   سنن أبي داود397جابر بن عبد اللهيصلي الظهر بالهاجرة العصر والشمس حية المغرب إذا غربت الشمس العشاء إذا كثر الناس عجل إذا قلوا أخر الصبح بغلس
   سنن النسائى الصغرى605جابر بن عبد اللهأقام فصلى الظهر ثم أقام فصلى العصر ولم يصل بينهما شيئا
   سنن النسائى الصغرى514جابر بن عبد اللهيعلمه مواقيت الصلاة فتقدم جبريل ورسول الله خلفه والناس خلف رسول الله فصلى الظهر حين زالت الشمس
   سنن النسائى الصغرى656جابر بن عبد اللهأقام فصلى الظهر ثم أقام فصلى العصر ولم يصل بينهما شيئا
   سنن النسائى الصغرى528جابر بن عبد اللهيصلي الظهر بالهاجرة العصر والشمس بيضاء نقية المغرب إذا وجبت الشمس العشاء أحيانا كان إذا رآهم قد اجتمعوا عجل وإذا رآهم قد أبطئوا أخر
   سنن النسائى الصغرى525جابر بن عبد اللهصلى الظهر حين زالت الشمس كان الفيء قدر الشراك صلى العصر حين كان الفيء قدر الشراك وظل الرجل صلى المغرب حين غابت الشمس صلى العشاء حين غاب الشفق صلى الفجر حين طلع الفجر
   سنن النسائى الصغرى505جابر بن عبد اللهصل معي فصلى الظهر حين زاغت الشمس العصر حين كان فيء كل شيء مثله المغرب حين غابت الشمس العشاء حين غاب الشفق قال ثم صلى الظهر حين كان فيء الإنسان مثله العصر حين كان فيء الإنسان مثليه المغرب حين كان قبيل غيبوبة الشفق

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 397  
´نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوقات نماز کا بیان اور آپ نماز کیسے پڑھتے تھے؟`
محمد بن عمرو سے روایت ہے (اور وہ حسن بن علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہما کے لڑکے ہیں) وہ کہتے ہیں کہ ہم نے جابر رضی اللہ عنہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے اوقات کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سورج ڈھل جانے پر پڑھتے تھے، عصر ایسے وقت پڑھتے کہ سورج زندہ رہتا، مغرب سورج ڈوب جانے پر پڑھتے، اور عشاء اس وقت جلدی ادا کرتے جب آدمی زیادہ ہوتے، اور جب کم ہوتے تو دیر سے پڑھتے، اور فجر غلس (اندھیرے) میں پڑھتے تھے۔ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 397]
397۔ اردو حاشیہ:
اہل بیت نبوی ہم تمام مسلمانوں کے محبو ب و مکرم افراد ہیں، ان پر اللہ کی بےحد و بےشمار رحمتیں ہوں، ان کا خاندان کرہ ارضی پر بےمثل و بےمثال خاندان ہے، ان کا امتیاز یہ ہے کہ وہ اسوہ رسول کے حامل اور مبلغ تھے جیسے کہ یہ حدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پڑپوتے جناب محمد بن عمرو  رحمہ اللہ نے نقل کی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 397   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 505  
´عصر کے اول وقت کا بیان۔`
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز کے اوقات کے بارے میں پوچھا، تو آپ نے فرمایا: تم میرے ساتھ نماز پڑھو، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر اس وقت پڑھائی جب سورج ڈھل گیا، اور عصر اس وقت پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہو گیا، اور مغرب اس وقت پڑھائی جب سورج ڈوب گیا، اور عشاء اس وقت پڑھائی جب شفق غائب ہو گئی، پھر (دوسرے دن) ظہر اس وقت پڑھائی جب انسان کا سایہ اس کے برابر ہو گیا، اور عصر اس وقت پڑھائی جب انسان کا سایہ اس کے قد کے دوگنا ہو گیا، اور مغرب شفق غائب ہونے سے کچھ پہلے پڑھائی۔ عبداللہ بن حارث کہتے ہیں: پھر انہوں نے عشاء کے سلسلہ میں کہا: میرا خیال ہے اس کا وقت تہائی رات تک ہے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 505]
505 ۔ اردو حاشیہ:
➊ اس حدیث میں فجر کے سوا باقی نمازوں کے اول اور آخر اوقات بیان کر دیے گئے ہیں، البتہ عشاء کا آخر وقت دوسری روایات کے مطابق نصف لیل ہے اور یہی صحیح ہے۔
➋عصر کے اول وقت کی تفصیلی بحث کے لیے دیکھیے حدیث: 503۔
➌صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے شوق اور اہتمام کا پتہ چلتا ہے کہ وہ احکام شرعیہ کو سیکھنے میں کس قدر سرگرم تھے۔
➍عالم دین کی ذمہ داری ہے کہ وہ ناواقف لوگوں کو مسائل شرعیہ سے آگاہ کرے اور تفہیم کا ایسا انداز اختیار کرے کہ جس سے مسئلہ آسانی سے اور جلدی سمجھ میں آجائے اور عوام کے ذہنوں میں راسخ ہو جائے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 505   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 514  
´عصر کے اخیر وقت کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کے اوقات سکھا رہے تھے، تو جبرائیل علیہ السلام آگے بڑھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پیچھے تھے اور لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے تھے، تو جبرائیل علیہ السلام نے ظہر پڑھائی جس وقت سورج ڈھل گیا، پھر جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت آئے جب سایہ قد کے برابر ہو گیا، اور جس طرح انہوں نے پہلے کیا تھا ویسے ہی پھر کیا، جبرائیل آگے بڑھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پیچھے ہوئے، اور لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے، پھر انہوں نے عصر پڑھائی، پھر جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت آئے جب سورج ڈوب گیا، تو جبرائیل آگے بڑھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پیچھے ہوئے، اور لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے، پھر انہوں نے مغرب پڑھائی، پھر جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت آئے جب شفق غائب ہو گئی، تو وہ آگے بڑھے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پیچھے ہوئے، اور لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے، تو انہوں نے عشاء پڑھائی، پھر جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت آئے جب فجر کی پو پھٹی، تو وہ آگے بڑھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پیچھے اور لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے، انہوں نے فجر پڑھائی، پھر جبرائیل علیہ السلام دوسرے دن آپ کے پاس اس وقت آئے جب آدمی کا سایہ اس کے قد کے برابر ہو گیا، چنانچہ انہوں نے ویسے ہی کیا جس طرح کل کیا تھا، تو ظہر پڑھائی، پھر وہ آپ کے پاس اس وقت آئے جب انسان کا سایہ اس کے قد کے دوگنا ہو گیا، انہوں نے ویسے ہی کیا جس طرح کل کیا تھا، تو انہوں نے عصر پڑھائی، پھر آپ کے پاس اس وقت آئے جب سورج ڈوب گیا، تو انہوں نے ویسے ہی کیا جس طرح کل کیا تھا، تو انہوں نے مغرب پڑھائی، پھر ہم سو گئے، پھر اٹھے، پھر سو گئے پھر اٹھے، پھر جبرائیل علیہ السلام آپ کے پاس آئے، اور اسی طرح کیا جس طرح کل انہوں نے کیا تھا، پھر عشاء پڑھائی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت آئے جب فجر (کی روشنی) پھیل گئی، صبح ہو گئی، اور ستارے نمودار ہو گئے، اور انہوں نے ویسے ہی کیا جس طرح کل کیا تھا، تو انہوں نے فجر پڑھائی، پھر کہا: ان دونوں نمازوں کے درمیان میں ہی نماز کے اوقات ہیں۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 514]
514 ۔ اردو حاشیہ: یہ حدیث حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ ظاہر الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت جابر بھی موقع پر موجود تھے جب کہ مشہور یہ ہے کہ جبریل علیہ السلام کا تعلیم اوقات کے لیے آنا مکی زندگی کی بات ہے۔ ممکن ہے حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے کسی اور صحابی سے سنا ہو یا مدینہ منورہ میں بھی ایسا واقعہ ہوا ہو۔ حدیث نمبر503 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ وہاں بھی یہ دونوں احتمال ہیں مگر اغلب یہ ہے کہ یہ واقعہ مدینہ منورہ میں پیش آیا تھا کیونکہ باجماعت نماز مکہ میں نہیں مدینہ منورہ میں ہوتی تھی۔ مزید فوائد کے لیے دیکھیے حدیث: 503۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 514   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 528  
´عشاء جلدی پڑھنے کا بیان۔`
محمد بن عمرو بن حسن کہتے ہیں کہ حجاج آئے تو ہم نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم سے پوچھا تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر دوپہر میں (سورج ڈھلتے ہی) پڑھتے تھے، اور عصر اس وقت پڑھتے جب سورج سفید اور صاف ہوتا، اور مغرب اس وقت پڑھتے جب سورج ڈوب جاتا، اور عشاء جب آپ دیکھتے کہ لوگ جمع ہو گئے ہیں تو جلدی پڑھ لیتے، اور جب دیکھتے کہ لوگ دیر کر رہے ہیں تو مؤخر کرتے۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 528]
528 ۔ اردو حاشیہ:
«الْهَاجِرَة» نصف النہار سے مراد زوال کے فوراًً بعد ہے۔
➋عشاء کی نماز میں ثلث لیل (تہائی رات) تک تاخیر مستحب ہے مگر نمازیوں کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے۔ اگر لوگ کام کاج والے ہوں جنھیں جلدی نیند آجاتی ہے تو اول وقت میں پڑھ لی جائے تاکہ وہ نماز باجماعت سے محروم نہ ہوں۔ اگر فارغ قسم کے لوگ ہیں جو دیر سے سوتے ہیں تو ثلث لیل تک تاخیر کرلی جائے، مزید مجبوری ہو تو نصف رات تک تاخیر کر لیں۔ اس سے زیادہ تاخیر تو صرف اضطراری حالت ہی میں ہو سکتی ہے، مثلاً: کسی کو نیند آگئی اور وہ سویا رہ گیا اور نماز نہ پڑھی گئی تو وہ صبح تک پڑھ لے۔ گویا وقت مستحبات ثلث لیل تک، وقت جواز نصف لیل تک اور وقت اضطرار فجر طلوع ہونے تک ہے۔ واللہ اعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 528   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 605  
´عرفہ میں ظہر و عصر جمع کر کے پڑھنے کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (حج میں منی سے مزدلفہ) چلے یہاں تک کہ آپ عرفہ آئے تو دیکھا کہ نمرہ ۱؎ میں آپ کے لیے خیمہ لگا دیا گیا ہے، آپ نے وہاں قیام کیا، یہاں تک کہ سورج ڈھل گیا آپ نے قصواء نامی اونٹنی ۲؎ لانے کا حکم دیا، تو آپ کے لیے اس پر کجاوہ کسا گیا، جب آپ وادی میں پہنچے تو لوگوں کو خطبہ دیا، پھر بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی، پھر اقامت کہی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر پڑھائی، پھر بلال رضی اللہ عنہ نے اقامت کہی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر پڑھی، اور ان دونوں کے بیچ کوئی اور نماز نہیں پڑھی۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 605]
605 ۔ اردو حاشیہ: عرفات میں ظہر اور عصر کی نمازیں ظہر کے وقت میں جمع کرنے اور مزدلفہ میں مغرب اور عشاء کی نمازیں عشاء کے وقت میں جمع کرنے پر ساری امت کا ہر دور میں اتفاق رہا ہے۔ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 605   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 656  
´نماز میں جمع تقدیم کے لیے پہلی نماز کے وقت اذان کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلے یہاں تک کہ عرفہ آئے، تو آپ کو نمرہ میں اپنے لیے خیمہ لگا ہوا ملا، وہاں آپ نے قیام کیا یہاں تک کہ جب سورج ڈھل گیا تو آپ نے قصواء نامی اونٹنی پر کجاوہ کسنے کا حکم دیا، تو وہ کسا گیا (اور آپ سوار ہو کر چلے) یہاں تک کہ جب آپ وادی کے بیچو بیچ پہنچے تو آپ نے لوگوں کو خطبہ دیا، پھر بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی، پھر اقامت کہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر پڑھائی، پھر بلال رضی اللہ عنہ نے اقامت کہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر پڑھائی، اور ان دونوں کے درمیان کوئی اور چیز نہیں پڑھی۔ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 656]
656 ۔ اردو حاشیہ:
➊ نمرہ عرفات سے متصل ایک وادی ہے جو عرفات میں شامل نہیں۔ اس جگہ خطبۂ حج اور ظہر و عصر کی نمازیں جمع ہوتی ہیں۔ پھر وقوف عرفات میں ہوتا ہے۔ آج کل مسجد نمرہ اس وادی میں بنی ہوئی ہے۔ توسیع کی بنا پر کچھ حصہ عرفات میں آگیا ہے۔
➋ جب دو نمازوں کو پہلی کے وقت میں جمع کریں گے تو صرف پہلی کے لیے اذان کہیں گے۔ ہاں، دونوں نمازوں کے لیے اقامت الگ الگ ہو گی کیونکہ اقامت صرف جماعت کی اطلاع دینے کے لیے ہے، نیز جمع کی صورت میں دوسری اذان کی ضرورت اس لیے بھی نہیں کہ لوگ پہلے سے جمع ہیں۔
➌ دو نمازوں کے جمع کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ درمیان میں نوافل نہ پڑھے جائیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 656   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:560  
560. حضرت محمد بن عمرو سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب حجاج بن یوسف مدینے آیا (اور نمازوں میں تاخیر کرنے لگا) تو ہم نے حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے (اس کی بابت) دریافت کیا، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ نماز ظہر عین دوپہر کے وقت پڑھتے تھے۔ اور نماز عصر ایسے وقت میں ادا کرتے کہ آفتاب صاف ہوتا تھا۔ اور نماز مغرب (اس وقت پڑھتے) جب آفتاب غروب ہو جاتا۔ اور عشاء کی نماز کبھی کسی وقت، کبھی کسی وقت، یعنی جب آپ دیکھتے کہ لوگ جمع ہو گئے ہیں تو جلدی پڑھ لیتے اور جب آپ دیکھتے کہ انہوں نے آنے میں دیر کی ہے تو نماز کو مؤخر کر دیتے۔ اور صبح کی نماز، صحابہ کرام یا نبی ﷺ اندھیرے میں پڑھتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:560]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت عبداللہ بن زبیر ؓ کی شہادت کے بعد 74ھ میں خلیفہ عبدالملک بن مروان نے حجاج بن یوسف کو مدینے کا گورنر تعینات کیا۔
حرمین کا تمام علاقہ اس کے زیر نگیں تھا۔
خلفائے بنو امیہ کو نمازیں دیر سے پڑھنے کی عادت تھی۔
حجاج بھی انھی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نمازوں کو بہت دیر سے پڑھتا تھا۔
ان حالات کے پیش نظر چند درد مند حضرات نے سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ سے نمازوں کے اوقات کے متعلق سوال کیا کہ رسول اللہ ﷺ نماز پنجگانہ کن اوقات میں ادا کرتے تھے؟ تو اپ نے یہ حدیث بیان فرمائی۔
(2)
امام بخاری ؒ کا مقصود صرف نماز مغرب کا وقت بیان کرنا ہے کہ سورج کی ٹکیہ آنکھوں سے اوجھل ہوجائے تو نماز مغرب کا وقت شروع ہو جاتا ہے بشرطیکہ دیکھنے والے اور سورج کے درمیان کوئی رکاوٹ نہ ہو، جیسا کہ بعض روایات میں ہے۔
رسول اللہ ﷺ نماز مغرب اس وقت پڑھتے جب سورج غروب ہوجاتا۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 417)
واضح رہے کہ نماز عشاء کے وقت تولوگوں کا خیال رکھا جاتا تھا کہ اگر جمع ہوجاتے تو جلدی پڑھ لیتے، بصورت دیگر ان کے آنے کا انتظار کیا جاتا لیکن صبح کے وقت لوگوں کا انتظار نہ ہوتا بلکہ اسے اندھیرے میں پڑھ لیا جاتا تھا۔
(فتح الباري: 56/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 560   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.