وقال ابو برزة: كان النبي صلى الله عليه وسلم يستحب تاخيرها.وَقَالَ أَبُو بَرْزَةَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَحِبُّ تَأْخِيرَهَا.
اور ابوبرزہ رضی اللہ عنہ صحابی نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس میں دیر کرنا پسند فرمایا کرتے تھے۔
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري Q572
´عشاء کی نماز کا وقت آدھی رات تک رہتا ہے` «. . . وَقَالَ أَبُو بَرْزَةَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَحِبُّ تَأْخِيرَهَا . . . .» ”. . . اور ابوبرزہ رضی اللہ عنہ صحابی نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس میں دیر کرنا پسند فرمایا کرتے تھے۔ . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ/بَابُ وَقْتِ الْعِشَاءِ إِلَى نِصْفِ اللَّيْلِ:: Q572]
تشریح: یہ اس حدیث کا ٹکڑ اہے جو باب «وقت العصر» میں موصولاً گزر چکی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 572
(مرفوع) حدثنا عبد الرحيم المحاربي، قال: حدثنا زائدة، عن حميد الطويل، عن انس، قال:" اخر النبي صلى الله عليه وسلم صلاة العشاء إلى نصف الليل، ثم صلى، ثم قال: قد صلى الناس وناموا، اما إنكم في صلاة ما انتظرتموها"، وزاد ابن ابي مريم اخبرنا يحيى بن ايوب، حدثني حميد، سمع انسا كاني انظر إلى وبيص خاتمه ليلتئذ.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحِيمِ الْمُحَارِبِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا زَائِدَةُ، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:" أَخَّرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْعِشَاءِ إِلَى نِصْفِ اللَّيْلِ، ثُمَّ صَلَّى، ثُمَّ قَالَ: قَدْ صَلَّى النَّاسُ وَنَامُوا، أَمَا إِنَّكُمْ فِي صَلَاةٍ مَا انْتَظَرْتُمُوهَا"، وَزَادَ ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنِي حُمَيْدٌ، سَمِعَ أَنَسًا كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى وَبِيصِ خَاتَمِهِ لَيْلَتَئِذٍ.
ہم سے عبدالرحیم محاربی نے بیان کیا، کہا ہم سے زائدہ نے حمید طویل سے، انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک دن) عشاء کی نماز آدھی رات گئے پڑھی۔ اور فرمایا کہ دوسرے لوگ نماز پڑھ کر سو گئے ہوں گے۔ (یعنی دوسری مساجد میں پڑھنے والے مسلمان) اور تم لوگ جب تک نماز کا انتظار کرتے رہے (گویا سارے وقت) نماز ہی پڑھتے رہے۔ ابن مریم نے اس میں یہ زیادہ کیا کہ ہمیں یحییٰ بن ایوب نے خبر دی۔ کہا مجھ سے حمید طویل نے بیان کیا، انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے یہ سنا، گویا اس رات آپ کی انگوٹھی کی چمک کا نقشہ اس وقت بھی میری نظروں کے سامنے چمک رہا ہے۔
Narrated Anas: The Prophet delayed the `Isha' prayer till midnight and then he offered the prayer and said, "The people prayed and slept but you have been in prayer as long as you have been waiting for it (the prayer)." Anas added: As if I am looking now at the glitter of the ring of the Prophet on that night.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 10, Number 546
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 572
´عشاء کی نماز کا وقت آدھی رات تک رہتا ہے۔` «. . . عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: " أَخَّرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةَ الْعِشَاءِ إِلَى نِصْفِ اللَّيْلِ، ثُمَّ صَلَّى، ثُمَّ قَالَ: قَدْ صَلَّى النَّاسُ وَنَامُوا، أَمَا إِنَّكُمْ فِي صَلَاةٍ مَا انْتَظَرْتُمُوهَا "، وَزَادَ ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ، حَدَّثَنِي حُمَيْدٌ، سَمِعَ أَنَسًا كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى وَبِيصِ خَاتَمِهِ لَيْلَتَئِذٍ . . . .» ”. . . انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک دن) عشاء کی نماز آدھی رات گئے پڑھی۔ اور فرمایا کہ دوسرے لوگ نماز پڑھ کر سو گئے ہوں گے۔ (یعنی دوسری مساجد میں پڑھنے والے مسلمان) اور تم لوگ جب تک نماز کا انتظار کرتے رہے (گویا سارے وقت) نماز ہی پڑھتے رہے۔ ابن مریم نے اس میں یہ زیادہ کیا کہ ہمیں یحییٰ بن ایوب نے خبر دی۔ کہا مجھ سے حمید طویل نے بیان کیا، انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے یہ سنا، گویا اس رات آپ کی انگوٹھی کی چمک کا نقشہ اس وقت بھی میری نظروں کے سامنے چمک رہا ہے۔ . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ/بَابُ وَقْتِ الْعِشَاءِ إِلَى نِصْفِ اللَّيْلِ:: 572]
تشریح: ابن مریم کی اس تعلیق کے بیان کرنے سے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض یہ ہے کہ حمید کا سماع حضرت انس رضی اللہ عنہ سے صراحتاً ثابت ہو جائے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 572
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 540
´عشاء کے اخیر وقت کا بیان۔` حمید کہتے ہیں: انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انگوٹھی پہنی ہے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں، ایک رات آپ نے آدھی رات کے قریب تک عشاء مؤخر کی، جب نماز پڑھ چکے تو آپ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور آپ نے فرمایا: ”جب تک تم لوگ نماز کا انتظار کرتے رہے برابر نماز میں رہے۔“ انس کہتے ہیں: گویا میں آپ کی انگوٹھی کی چمک دیکھ رہا ہوں۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 540]
540 ۔ اردو حاشیہ: ➊”لوگ نماز پڑھ کر سوگئے۔“ جب کہ تم عشاء کی نماز کی وجہ سے نیند اور آرام کو مؤخر کرتے ہو اور صرف نماز کے انتظار میں جاگتے ہو، لہٰذا مغرب سے عشاء کی نماز تک کا وقت ثواب کے لحاظ سے نماز کی طرح ہے۔ اگر نماز سے نماز عشاء مراد ہے تو لوگوں سے مراد مدینہ منورہ کی دوسری مساجد کے لوگ ہوں گے جہاں نماز عشاء جلدی پڑھ لی جاتی تھی۔ اس صورت میں یہ مسجد نبوی کے نمازیوں کی فضیلت ہے۔ ➋”انگوٹھی کی چمک“ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی چاندی کی تھی، نگینہ بھی چاندی کا تھا۔ یہ انگوٹھی آپ نے مہرلگانے کے لیے بنوائی تھی۔ معلوم ہوا کہ مرد انگوٹھی پہن سکتا ہے لیکن شرط ہے کہ چاندی کی ہو، نہ کہ سونے کی۔ واللہ اعلم۔ ➌انگوٹھی کے نگینے پر نام وغیرہ کندہ کروایا جا سکتا ہے۔ ➍وعظ و نصیحت کرتے وقت امام کا مقتدیوں کی طرف متوجہ ہونا مسنون عمل ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 540
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث692
´نماز عشاء کا وقت۔` حمید کہتے ہیں کہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا: کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انگوٹھی بنوائی تھی؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، ایک رات آپ نے عشاء کی نماز آدھی رات کے قریب مؤخر کی، جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو ہماری جانب متوجہ ہو کر فرمایا: ”اور لوگ نماز پڑھ کر سو گئے، اور تم لوگ برابر نماز ہی میں رہے جب تک نماز کا انتظار کرتے رہے“، انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: گویا میں آپ کی انگوٹھی کی چمک دیکھ رہا ہوں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصلاة/حدیث: 692]
اردو حاشہ: (1) رسول اللہ ﷺ کا اکثر عمل عشاء کی نماز جلدی پڑھنے کا ہے یعنی اتنی زیادہ تاخیر نہیں فرماتے تھے۔ کبھی کبھی یہ عمل افضلیت کے اظہار کے لیے اختیار فرماتے تھے۔
(2) نواب وحید االزمان خان نے عملاً جلدی پڑھنے اور قولاً تاخیر کی فضیلت بیان کرنے کی حدیثوں میں تطبیق دیتے ہوئے کہا کہ اگر سب مقتدی جاگنے پر راضی ہوں اور تاخیر میں ان کو تکلیف نہ ہو تو تاخیر کرنا افضل ہے ورنہ اول وقت میں پڑھ لینا افضل ہے۔ والله اعلم (3) نماز کے بعد وعظ و نصیحت کی جاسکتی ہے۔
(4) نماز کا انتظار بہت فضیلت والا عمل ہے۔
(5) انگوٹھی پہننا جائز ہے تاہم مرد صرف چاندی کی انگوٹھی پہن سکتا ہے سونے کا استعمال مرد کے لیے جائز نہیں۔ (سنن ابن ماجه، اللباس، باب لبس الحریر والذھب للنساء، حدیث: 3595)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 692