الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اخلاق کے بیان میں
The Book of Al-Adab (Good Manners)
9. بَابُ صِلَةِ الأَخِ الْمُشْرِكِ:
9. باب: کافر و مشرک بھائی کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔
(9) Chapter. To be good to one’s brother who is a Mushrik.
حدیث نمبر: 5981
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا عبد العزيز بن مسلم، حدثنا عبد الله بن دينار، قال: سمعت ابن عمر رضي الله عنهما، يقول: راى عمر حلة سيراء تباع، فقال: يا رسول الله ابتع هذه والبسها يوم الجمعة وإذا جاءك الوفود قال:" إنما يلبس هذه من لا خلاق له" فاتي النبي صلى الله عليه وسلم منها بحلل فارسل إلى عمر بحلة، فقال: كيف البسها وقد قلت فيها ما قلت، قال:" إني لم اعطكها لتلبسها ولكن تبيعها او تكسوها" فارسل بها عمر إلى اخ له من اهل مكة قبل ان يسلم.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُسْلِمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دِينَارٍ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، يَقُولُ: رَأَى عُمَرُ حُلَّةَ سِيَرَاءَ تُبَاعُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ ابْتَعْ هَذِهِ وَالْبَسْهَا يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَإِذَا جَاءَكَ الْوُفُودُ قَالَ:" إِنَّمَا يَلْبَسُ هَذِهِ مَنْ لَا خَلَاقَ لَهُ" فَأُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهَا بِحُلَلٍ فَأَرْسَلَ إِلَى عُمَرَ بِحُلَّةٍ، فَقَالَ: كَيْفَ أَلْبَسُهَا وَقَدْ قُلْتَ فِيهَا مَا قُلْتَ، قَالَ:" إِنِّي لَمْ أُعْطِكَهَا لِتَلْبَسَهَا وَلَكِنْ تَبِيعُهَا أَوْ تَكْسُوهَا" فَأَرْسَلَ بِهَا عُمَرُ إِلَى أَخٍ لَهُ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ قَبْلَ أَنْ يُسْلِمَ.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن مسلم نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا، کہا کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے سیراء کا (ایک ریشمی) حلہ بکتے دیکھا تو عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ اسے خرید لیں اور جمعہ کے دن اور جب آپ کے پاس وفود آئیں تو اسے پہنا کریں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے تو وہی پہن سکتا ہے جس کا (آخرت میں) کوئی حصہ نہ ہو۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اسی قسم کے کئی حلے آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے ایک حلہ عمر رضی اللہ عنہ کے لیے بھیجا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ میں اسے کیسے پہن سکتا ہوں جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے متعلق پہلے ممانعت فرما چکے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اسے تمہیں پہننے کے لیے نہیں دیا بلکہ اس لیے دیا ہے کہ تم اسے بیچ دو یا کسی دوسرے کو پہنا دو چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے وہ حلہ اپنے ایک بھائی کو بھیج دیا جو مکہ مکرمہ میں تھے اور اسلام نہیں لائے تھے۔

Narrated Ibn `Umar: My father, seeing a silken cloak being sold, said, "O Allah's Apostle! Buy this and wear it on Fridays and when the foreign delegates pay a visit to you." He said, "This is worn only by that person who will have no share in the Hereafter." Later a few silken cloaks were given to the Prophet as a gift, and he sent one of those cloaks to `Umar. `Umar said (to the Prophet), "How can I wear it while you have said about it what you said?" The Prophet said, "I did not give it to you to wear but to sell or to give to someone else to wear." So `Umar sent it to his (pagan) brother who was from the inhabitants of Mecca before he (`Umar's brother) embraced Islam.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 73, Number 11


   صحيح البخاري2619عبد الله بن عمررأى عمر حلة على رجل تباع فقال للنبي ابتع هذه الحلة تلبسها يوم الجمعة وإذا جاءك الوفد فقال إنما يلبس هذا من لا خلاق له في الآخرة فأتي رسول الله منها بحلل فأرسل إلى عمر منها بحلة فقال عمر كيف ألبسها وقد قلت فيها ما قلت
   صحيح البخاري948عبد الله بن عمرهذه لباس من لا خلاق له وأرسلت إلي بهذه الجبة
   صحيح البخاري5981عبد الله بن عمريلبس هذه من لا خلاق له
   صحيح البخاري6081عبد الله بن عمريلبس الحرير من لا خلاق له
   صحيح البخاري5841عبد الله بن عمريلبس هذه من لا خلاق له النبي بعث بعد ذلك إلى عمر حلة سيراء حرير كساها إياه فقال عمر كسوتنيها وقد سمعتك تقول فيها ما قلت فقال إنما بعثت إليك لتبيعها أو تكسوها
   صحيح البخاري886عبد الله بن عمريلبس هذه من لا خلاق له في الآخرة جاءت رسول الله منها حلل فأعطى عمر بن الخطاب منها حلة
   صحيح البخاري5835عبد الله بن عمريلبس الحرير في الدنيا من لا خلاق له في الآخرة
   صحيح البخاري3054عبد الله بن عمرهذه لباس من لا خلاق له
   صحيح البخاري2612عبد الله بن عمريلبسها من لا خلاق له في الآخرة
   صحيح البخاري2104عبد الله بن عمرلم أرسل بها إليك لتلبسها إنما يلبسها من لا خلاق له
   صحيح مسلم5404عبد الله بن عمرهذه لباس من لا خلاق له أو إنما يلبس هذه من لا خلاق له
   صحيح مسلم5406عبد الله بن عمريلبس هذا من لا خلاق له أهدي إلى رسول الله حلة سيراء فأرسل بها إلي قال قلت أرسلت بها إلي وقد سمعتك قلت فيها ما قلت قال إنما بعثت بها إليك لتستمتع بها
   صحيح مسلم5403عبد الله بن عمريلبس الحرير في الدنيا من لا خلاق له في الآخرة أتي رسول الله بحلل سيراء فبعث إلى عمر بحلة وبعث إلى أسامة بن زيد بحلة وأعطى علي بن أبي طالب حلة وقال شققها خمرا بين نسائك
   صحيح مسلم5401عبد الله بن عمريلبس هذه من لا خلاق له في الآخرة جاءت رسول الله منها حلل فأعطى عمر منها حلة
   سنن أبي داود4040عبد الله بن عمريلبس هذه من لا خلاق له في الآخرة جاء رسول الله منها حلل فأعطى عمر بن الخطاب منها حلة فقال عمر يا رسول الله كسوتنيها وقد قلت في حلة عطارد ما قلت فقال رسول الله إني لم أكسكها لتلبسها فكساها عمر بن الخطاب أخا
   سنن أبي داود1076عبد الله بن عمريلبس هذه من لا خلاق له في الآخرة جاءت رسول الله منها حلل فأعطى عمر بن الخطاب منها حلة
   سنن النسائى الصغرى5302عبد الله بن عمررأى عمر مع رجل حلة سندس فأتى بها النبي فقال اشتر هذه
   سنن النسائى الصغرى5308عبد الله بن عمرمن لبس الحرير في الدنيا فلا خلاق له في الآخرة
   سنن النسائى الصغرى1383عبد الله بن عمريلبس هذه من لا خلاق له في الآخرة جاء رسول الله مثلها فأعطى عمر منها حلة فقال عمر يا رسول الله كسوتنيها وقد قلت في حلة عطارد ما قلت قال رسول الله لم أكسكها لتلبسها
   سنن النسائى الصغرى5301عبد الله بن عمريلبس هذا من لا خلاق له أتي رسول الله بثلاث حلل منها فكسا عمر حلة وكسا عليا حلة وكسا أسامة حلة
   سنن النسائى الصغرى5309عبد الله بن عمريلبس الحرير من لا خلاق له
   سنن النسائى الصغرى1561عبد الله بن عمرهذه لباس من لا خلاق له ثم أرسلت إلي بهذه
   سنن النسائى الصغرى5297عبد الله بن عمريلبس هذه من لا خلاق له في الآخرة أتي رسول الله منها حلل
   سنن ابن ماجه3591عبد الله بن عمريلبس هذا من لا خلاق له في الآخرة
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم412عبد الله بن عمرإنما يلبس هذه من لا خلاق له فى الآخرة
   مسندالحميدي696عبد الله بن عمرإني لم أكسكها لتلبسها إنما أعطيتكها لتكسوها النساء

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 412  
´مردوں کے لئے ریشم کا لباس پہننا جائز نہیں ہے`
«. . . 252- وبه: أن عمر بن الخطاب رأى حلة سيراء تباع عند باب المسجد، فقال: يا رسول الله، لو اشتريت هذه فلبستها يوم الجمعة وللوفد إذا قدموا عليك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إنما يلبس هذه من لا خلاق له فى الآخرة، ثم جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم منها حلل، فأعطى عمر بن الخطاب منها حلة، فقال عمر: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم، كسوتنيها وقد قلت فى حلة عطارد ما قلت؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لم أكسكها لتلبسها، فكساها عمر بن الخطاب أخا له مشركا بمكة. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مسجد کے دروازے کے پاس ایک ریشمی کپڑا بکتے ہوئے دیکھا تو کہا: یا رسول اللہ! اگر آپ اسے خرید لیں تو جمعہ کے دن اور جب آپ کے پاس کوئی وفد آئے تو پہن لیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تو وہی شخص پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ریشم کے کپڑے (مال غنیمت میں) لائے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے ایک کپڑا سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو دیا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: یا رسول اللہ! آپ نے مجھے یہ کپڑا دیا ہے حالانکہ آپ نے عطارد کے کپڑے کے بارے میں جو ارشاد فرمایا تھا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمھیں یہ کپڑا پہننے کے لئے نہیں دیا۔ پھر عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے مکہ میں اپنے مشرک بھائی کو یہ کپڑا پہننے کے لئے دے دیا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 412]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 886، 2612، ومسلم 6/2068، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ جمعہ، عیدین اور خاص موقعوں پر بہترین نیا یا پاک و صاف لباس پہننا مسنون ہے۔
➋ مردوں کے لئے ریشمی لباس پہننا حرام ہے۔
➌ اگر خیر کی امید ہو تو کفار و مشرکین کو تحائف دینا جائز ہے۔
➍ مسجد کے قریب اور دروازے سے باہر خرید و فروخت جائز ہے۔
➎ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے عمر بن الخطاب (رضی اللہ عنہ) کو دیکھا جب وہ امیر المؤمنین تھے، آپ کے کرتے پر دونوں کندھوں کے درمیان میں ایک دوسرے کے اوپر تین پیوند لگے ہوئے تھے۔ [الموطا 918/1 ح1771، وسنده صحيح]
➏ اس پر اجماع ہے کہ عورتوں کے لئے ریشمی لباس (اور سونا پہننا) حلال ہے۔ [التمهيد 241/14،]
➐ کفار ومشرکین پر شریعتِ اسلامیہ کے عمومی احکامات نافذ نہیں اِلا یہ کہ کسی خاص حکم کی کوئی تخصیص ثابت ہو۔
➑ بعض روایات وآثار سے ثابت ہے کہ اگر مردانہ لباس میں بعض جگہ تھوڑا سا ریشم استعمال کر لیا جائے تو جائز ہے اور اسی طرح سونے کا دانت لگانا بھی جائز ہے۔
➒ اگر کوئی شخص بیمار ہو اور اس کے لئے ریشمی لباس مفید ہو تو استثنائی حکم کی وجہ سے اس کے لئے ریشمی لباس پہننا جائز ہے۔
➓ حافظ ابن عبدالبر نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ غیرمسلموں کو (جو اسلام کے دشمن ہیں) فرض زکوٰۃ دینا جائز نہیں ہے اور باقی صدقات مثلاً صدقۂ فطر، کفارہ قسم اور کفارۂ ظہار بھی اسی حکم میں ہیں جبکہ نفلی صدقات دینا جائز ہے۔ دیکھئے: [التمهيد 14/263]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 252   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1076  
´جمعہ کے لباس کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مسجد کے دروازے کے پاس ایک ریشمی جوڑا بکتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! کاش! آپ اس کو خرید لیں اور جمعہ کے دن اور جس دن آپ کے پاس باہر کے وفود آئیں، اسے پہنا کریں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے تو صرف وہی پہنے گا جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اسی قسم کے کچھ جوڑے آئے تو آپ نے ان میں سے ایک جوڑا عمر رضی اللہ عنہ کو دیا تو عمر نے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے یہ کپڑا مجھے پہننے کو دیا ہے؟ حالانکہ عطارد کے جوڑے کے سلسلہ میں آپ ایسا ایسا کہہ چکے ہیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمہیں یہ جوڑا اس لیے نہیں دیا ہے کہ اسے تم پہنو، چنانچہ عمر نے اسے اپنے ایک مشرک بھائی کو جو مکہ میں رہتا تھا پہننے کے لیے دے دیا۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1076]
1076۔ اردو حاشیہ:
➊ جمعہ، عید اور خاص مواقع پر عمدہ لباس کا اہتمام مسنون و مستحب ہے۔
➋ ریشمی لباس مردوں کے لئے حرام مگر عورتوں کے لئے مباح ہے جیسے کہ دیگر احادیث سے ثابت ہے۔
➌ کافر رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی اور حسن سلوک اسلامی اخلاق و آداب کا حصہ ہے نیز ان کوتحفہ یا ہدیہ دینا بھی جائز ہے۔ جبکہ دینی قلبی محبت اللہ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل ایمان ہی کا حق ہے۔
➍ ریشم فی نفسہ جائز اور حلال ہے یہی وجہ ہے کہ عورتوں کے لئے اس کا استعمال بھی درست ہے۔ مردوں کے لئے حرمت کی دلیل مذکورہ حدیث ہے جو صحیحین یعنی صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں بھی وارد ہے۔ دیکھیے: [صحيح بخاري۔ حديث: 886، وصحيح مسلم، حديث: 2068]
یہ حدیث قرآن مقدس کی اس آیت کی مخصص ہے۔ جس میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: «قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللَّـهِ الَّتِي أَخْرَجَ لِعِبَادِه» [الأعراف: 32]
اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم)! کہہ دیجیے جو زینت اور کھانے پینے کی پاکیزہ چیزیں اللہ نے اپنے بندوں کے لئے پیدا کی ہیں وہ کس نے حرام کی ہیں؟ اس سے معلوم ہوا کہ صحیح حدیث سے عموم قرآن کی تخصیص ہو سکتی ہے۔ «والله أعلم»
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1076   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3591  
´ریشمی کپڑے پہننے کی حرمت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ریشم کا ایک سرخ جوڑا دیکھا تو کہا: اللہ کے رسول! اگر آپ اس جوڑے کو وفود سے ملنے کے لیے اور جمعہ کے دن پہننے کے لیے خرید لیتے تو اچھا ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے وہ لوگ پہنتے ہیں جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب اللباس/حدیث: 3591]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1) (حله)
ایک طرح کے دو کپڑوں کو کہتے ہیں ایک جسم کے اوپر کے حصے پر پہننے یا اوڑھنے کے لیے دوسرا جسم کے زیریں حصے پر پہننے کے لیے جیسے تہ بند وغیرہ اس لئے اس کا ترجمہ جوڑا کیا گیا ہے۔

(2)
جمعہ اور عید وغیرہ کے موقع پر عمدہ لباس پہننا مستحب ہے اس لئے حضرت عمر ؓ نے مشورہ دیا۔

(3)
مہمانوں کے استقبال کے موقع پر عمدہ لباس پہننا مستحسن ہے۔

(4)
صحابہ کرام ؓ نبی ﷺسے بہت محبت رکھتے تھے اس لئے آپﷺ کے لئے عمدہ چیزیں پسند کرتے تھے۔

(5)
کوئی شخص خلوص اور محبت سے مشورہ دے اور وہ مشورہ درست نہ ہو تو سختی سے رد کرنے کے بجائے اس کی غلطی وضح کر دی جائے تاکہ اسے رنج نہ ہو اور آئندہ اس غلطی سے بچ سکے۔

(6)
آخرت میں حصہ نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ یہ لبال کافر پہنتے ہیں جنہیں آخرت میں کوئی بھلائی نصیب نہیں ہوگی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3591   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5981  
5981. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے ایک ریشمی دھاری دار جوڑا فروخت ہوتے دیکھا تو کہا: اللہ کے رسول! آپ اسے خرید لیں تاکہ جمعہ کے دن اور وفود کی آمد پر اسے زیب تن کیا کریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اسے تو صرف وہ پہننا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ اس کے بعد نبی ﷺ کے پاس اس طرح کے کئی ریشمی جوڑے آئے تو آپ نے ایک جوڑا حضرت عمر بن خطاب ؓ کو بھیج دیا۔ انہوں نے کہا: میں اسے کیونکر پہن سکتا ہوں جبکہ آپ نے قبل ازیں اس کے متعلق فرمایا تھا وہ فرمایا تھا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: میں نے یہ تمہیں پہننے کے لیے نہیں بھیجا بلکہ اس لیے دیا ہے کہ تم اسے بازار میں فروخت کر دو یا کسی کو پہنا دو۔ چنانچہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے وہ جوڑا اپنے ایک بھائی کو بھیج دیا جو مکہ مکرمہ میں رہتا تھا، اور ابھی تک وہ مسلمان نہیں ہوا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5981]
حدیث حاشیہ:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے مشرک بھائی کو وہ حلہ بھیج دیا۔
اس سے باب کا مطلب نکلتا ہے کہ مشرک بھائی کے ساتھ بھی صلہ رحمی کی جا سکتی ہے۔
اسلام نیکی میں عمومیت کا سبق دیتا ہے جو اس کے دین فطرت ہونے کی دلیل ہے وہ جانوروں تک کے ساتھ بھی نیکی کی تعلیم دیتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 5981   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5981  
5981. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے ایک ریشمی دھاری دار جوڑا فروخت ہوتے دیکھا تو کہا: اللہ کے رسول! آپ اسے خرید لیں تاکہ جمعہ کے دن اور وفود کی آمد پر اسے زیب تن کیا کریں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اسے تو صرف وہ پہننا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوتا۔ اس کے بعد نبی ﷺ کے پاس اس طرح کے کئی ریشمی جوڑے آئے تو آپ نے ایک جوڑا حضرت عمر بن خطاب ؓ کو بھیج دیا۔ انہوں نے کہا: میں اسے کیونکر پہن سکتا ہوں جبکہ آپ نے قبل ازیں اس کے متعلق فرمایا تھا وہ فرمایا تھا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: میں نے یہ تمہیں پہننے کے لیے نہیں بھیجا بلکہ اس لیے دیا ہے کہ تم اسے بازار میں فروخت کر دو یا کسی کو پہنا دو۔ چنانچہ حضرت عمر بن خطاب ؓ نے وہ جوڑا اپنے ایک بھائی کو بھیج دیا جو مکہ مکرمہ میں رہتا تھا، اور ابھی تک وہ مسلمان نہیں ہوا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5981]
حدیث حاشیہ:
(1)
مکے میں رہنے والا یہ بھائی عثمان بن حکیم ہے۔
یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حقیقی بھائی نہیں بلکہ وہ ان کے مادر زاد بھائی حضرت زید بن خطاب کا بھائی تھا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عطا کردہ ریشمی جوڑا اپنے مشرک بھائی کو بھیج دیا تھا۔
(2)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صلہ رحمی اپنے مشرک بھائی سے بھی کی جا سکتی ہے جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے عنوان قائم کیا ہے۔
بہر حال اسلام ایک دین فطرت ہے اور اس میں جانوروں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنے کی تلقین ہے۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 5981   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.