الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں
The Book of Adhan
6. بَابُ مَا يُحْقَنُ بِالأَذَانِ مِنَ الدِّمَاءِ:
6. باب: اذان کی وجہ سے خون ریزی رکنا۔
(6) Chapter. To suspend fighting on hearing the Adhan.
حدیث نمبر: 610
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، قال: حدثنا إسماعيل بن جعفر، عن حميد، عن انس بن مالك،" ان النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا غزا بنا قوما لم يكن يغزو بنا حتى يصبح وينظر، فإن سمع اذانا كف عنهم، وإن لم يسمع اذانا اغار عليهم، قال: فخرجنا إلى خيبر فانتهينا إليهم ليلا، فلما اصبح ولم يسمع اذانا ركب وركبت خلف ابي طلحة وإن قدمي لتمس قدم النبي صلى الله عليه وسلم، قال: فخرجوا إلينا بمكاتلهم ومساحيهم، فلما راوا النبي صلى الله عليه وسلم، قالوا: محمد والله، محمد والخميس، قال: فلما رآهم رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: الله اكبر الله اكبر، خربت خيبر، إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين".(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ حُمَيْدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ،" أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا غَزَا بِنَا قَوْمًا لَمْ يَكُنْ يَغْزُو بِنَا حَتَّى يُصْبِحَ وَيَنْظُرَ، فَإِنْ سَمِعَ أَذَانًا كَفَّ عَنْهُمْ، وَإِنْ لَمْ يَسْمَعْ أَذَانًا أَغَارَ عَلَيْهِمْ، قَالَ: فَخَرَجْنَا إِلَى خَيْبَرَ فَانْتَهَيْنَا إِلَيْهِمْ لَيْلًا، فَلَمَّا أَصْبَحَ وَلَمْ يَسْمَعْ أَذَانًا رَكِبَ وَرَكِبْتُ خَلْفَ أَبِي طَلْحَةَ وَإِنَّ قَدَمِي لَتَمَسُّ قَدَمَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَخَرَجُوا إِلَيْنَا بِمَكَاتِلِهِمْ وَمَسَاحِيهِمْ، فَلَمَّا رَأَوْا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالُوا: مُحَمَّدٌ وَاللَّهِ، مُحَمَّدٌ وَالْخَمِيسُ، قَالَ: فَلَمَّا رَآهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ، خَرِبَتْ خَيْبَرُ، إِنَّا إِذَا نَزَلْنَا بِسَاحَةِ قَوْمٍ فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِينَ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر انصاری نے حمید سے بیان کیا، انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ساتھ لے کر کہیں جہاد کے لیے تشریف لے جاتے، تو فوراً ہی حملہ نہیں کرتے تھے۔ صبح ہوتی اور پھر آپ انتظار کرتے اگر اذان کی آواز سن لیتے تو حملہ کا ارادہ ترک کر دیتے اور اگر اذان کی آواز نہ سنائی دیتی تو حملہ کرتے تھے۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم خیبر کی طرف گئے اور رات کے وقت وہاں پہنچے۔ صبح کے وقت جب اذان کی آواز نہیں سنائی دی تو آپ اپنی سواری پر بیٹھ گئے اور میں ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے بیٹھ گیا۔ چلنے میں میرے قدم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم مبارک سے چھو چھو جاتے تھے۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ خبیر کے لوگ اپنے ٹوکروں اور کدالوں کو لیے ہوئے (اپنے کام کاج کو) باہر نکلے۔ تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، اور چلا اٹھے کہ «محمد والله محمد» ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پوری فوج سمیت آ گئے۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دیکھا تو آپ نے فرمایا «الله أكبر،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ الله أكبر» خیبر پر خرابی آ گئی۔ بیشک جب ہم کسی قوم کے میدان میں اتر جائیں تو ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح بری ہو گی۔

Narrated Humaid: Anas bin Malik said, "Whenever the Prophet went out with us to fight (in Allah's cause) against any nation, he never allowed us to attack till morning and he would wait and see: if he heard Adhan he would postpone the attack and if he did not hear Adhan he would attack them." Anas added, "We reached Khaibar at night and in the morning when he did not hear the Adhan for the prayer, he (the Prophet ) rode and I rode behind Abi Talha and my foot was touching that of the Prophet. The inhabitants of Khaibar came out with their baskets and spades and when they saw the Prophet they shouted 'Muhammad! By Allah, Muhammad and his army.' When Allah's Apostle saw them, he said, "Allahu-Akbar! Allahu-Akbar! Khaibar is ruined. Whenever we approach a (hostile) nation (to fight), then evil will be the morning of those who have been warned."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 11, Number 584


   صحيح البخاري371أنس بن مالكغزا خيبر فصلينا عندها صلاة الغداة بغلس فركب نبي الله وركب أبو طلحة وأنا رديف أبي طلحة فأجرى نبي الله في زقاق خيبر وإن ركبتي لتمس فخذ نبي الله ثم حسر الإزار عن فخذه حتى إني أنظر إلى بياض فخذ نبي الله
   صحيح البخاري4197أنس بن مالكخربت خيبر إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين
   صحيح البخاري3647أنس بن مالكالله أكبر خربت خيبر إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين
   صحيح البخاري2945أنس بن مالكالله أكبر خربت خيبر إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين
   صحيح البخاري2944أنس بن مالكإذا غزا قوما لم يغر حتى يصبح فإن سمع أذانا أمسك وإن لم يسمع أذانا أغار بعد ما يصبح فنزلنا خيبر ليلا
   صحيح البخاري947أنس بن مالكالله أكبر خربت خيبر إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين خرجوا يسعون في السكك ويقولون محمد والخميس قال والخميس الجيش قتل المقاتلة وسبى الذراري صارت صفية لدحية الكلبي وصارت لرسول الله
   صحيح البخاري610أنس بن مالكالله أكبر خربت خيبر إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين
   صحيح البخاري2991أنس بن مالكالله أكبر خربت خيبر إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين أصبنا حمرا فطبخناها فنادى منادي النبي إن الله ورسوله ينهيانكم عن لحوم الحمر أكفئت القدور بما فيها
   صحيح البخاري4200أنس بن مالكالله أكبر خربت خيبر إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين خرجوا يسعون في السكك قتل النبي المقاتلة وسبى الذرية كان في السبي صفية صارت إلى دحية الكلبي ثم صارت إلى النبي فجعل عتقها صداقها
   صحيح مسلم4667أنس بن مالكإنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين
   صحيح مسلم4666أنس بن مالكخربت خيبر إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين هزمهم الله
   صحيح مسلم4665أنس بن مالكغزا خيبر قال فصلينا عندها صلاة الغداة بغلس فركب نبي الله وركب أبو طلحة وأنا رديف أبي طلحة فأجرى نبي الله في زقاق خيبر وإن ركبتي لتمس فخذ نبي الله وانحسر الإزار عن فخذ نبي الله وإ
   صحيح مسلم3500أنس بن مالكخربت خيبر إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين هزمهم الله وقعت في سهم دحية جارية جميلة اشتراها رسول الله بسبعة أرؤس ثم دفعها إلى أم سليم تصنعها له وتهيئها تعتد في بيتها وهي صفية بنت حيي قال وجعل
   جامع الترمذي1550أنس بن مالكإذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين
   سنن أبي داود3009أنس بن مالكغزا خيبر فأصبناها عنوة فجمع السبي
   سنن النسائى الصغرى548أنس بن مالكالله أكبر خربت خيبر مرتين إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين
   سنن النسائى الصغرى3382أنس بن مالكغزا خيبر فصلينا عندها الغداة بغلس فركب النبي وركب أبو طلحة وأنا رديف أبي طلحة فأخذ نبي الله في زقاق خيبر وإن ركبتي لتمس فخذ رسول الله وإني لأرى بياض فخذ نبي الله فلما دخل القرية ق
   بلوغ المرام23أنس بن مالك ان الله ورسوله ينهيانكم عن لحوم الحمر الاهلية،‏‏‏‏ فإنها رجس
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم563أنس بن مالكالله اكبر، خربت خيبر، إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين
   المعجم الصغير للطبراني581أنس بن مالك الله أكبر ، خربت خيبر إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 23  
´گدھے کا گوشت بالاتفاق حرام ہے`
«. . . فنادى: ان الله ورسوله ينهيانكم عن لحوم الحمر الاهلية،‏‏‏‏ فإنها رجس . . .»
. . . باآواز بلند اعلان کیا کہ اللہ اور اس کا رسول دونوں تمہیں گھریلو گدھوں کے گوشت کو کھانے سے منع فرماتے ہیں، کیونکہ وہ «رجس» (ناپاک) ہے . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 23]

لغوی تشریح:
«يَوْمُ خَيْبَرَ» غزوۂ خیبر کا دن مراد ہے۔ خیبر مدینہ کی شمالی جانب 96 میل کے فاصلے پر ایک شہر ہے۔ یہاں یہود رہتے تھے۔ یہ غزوہ یہود کے ساتھ محرم 7 ہجری میں صلح حدیبیہ کے بعد واقع ہوا۔ فتح خیبر کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اسی جگہ اس شرط پر رہنے کا حق دیا کہ وہ اپنے کھیتوں کے اناج اور باغات کے پھلوں کا آدھا حصہ مسلمانوں کو دیں گے۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں ان کو تیماء اور اریحا کی طرف جلا وطن کر دیا۔
«يَنْهَيَانِكُمْ» میں تثنیہ کی ضمیر اللہ اور اس کے رسول کی طرف راجع ہے، یعنی تمہیں اللہ اور اس کا رسول منع فرماتے ہیں۔
«الْحُمُرِ» حا اور میم کے ضمہ کے ساتھ ہے۔ اس کا واحد حمار ہے یعنی گدھا۔
«الْأَهْلِيَّةِ» گھریلو، پالتو (جنگلی نہیں) اہل کی طرف نسبت ہے، یعنی وہ جانور جسے انسان اپنے گھر میں اہل و عیال کی طرح پرورش کرتا اور پالتا ہے۔
«رِجْسٌ» را کے کسرہ اور جیم کے سکون کے ساتھ ہے۔ ہر وہ چیز جسے انسان گندگی تصور کرتا ہے، خواہ وہ نجس ہو یا نہ ہو، لہٰذا اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ گدھے کا جوٹھا نجس اور ناپاک ہے۔

فوائد و مسائل:
➊ گدھے کا گوشت بالاتفاق حرام ہے۔ صرف سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اسے جائز سمجھتے تھے۔
➋ گدھے کا جوٹھا پاک ہے یا نہیں، اس بارے میں فقہاء کا اختلاف ہے۔ امام شافعی اور امام مالک رحمہ اللہ علیہم وغیرہ پاک کہتے ہیں۔ امام احمد رحمہ اللہ کا ایک قول ہے کہ یہ نجس ہے۔ امام حسن بصری، ابن سیرین، اوزاعی اور اسحاق رحمہ اللہ علیہم وغیرہ کا بھی یہی قول ہے۔ اور دوسرا قول یہ ہے کہ اگر کوئی پانی نہ ملے تو گدھے کے جوٹھے پانی سے وضو کیا جائے اور تیمم بھی کر لیا جائے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی یہی رائے ہے۔ مگر امام شافعی رحمہ اللہ وغیرہ کی بات زیادہ قرین صواب ہے۔ علامہ ابن قدامہ رحمہ اللہ نے بھی اسی کو صحیح قرار دیا ہے۔ «والله اعلم»

راویٔ حدیث: SR سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ ER ابوطلحہ کنیت اور نام زید بن سہل بن اسود بن حرام انصاری ہے۔ کبار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے تھے۔ بیعت عقبہ اور تمام غزوات میں شریک رہے۔ غزوہ احد میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرتے ہوئے ان کا ہاتھ شل ہو گیا۔ معرکہ حنین میں بیس دشمنان اسلام کو قتل کیا۔ 34 یا بقول بعض 51 ہجری میں وفات پائی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 23   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 563  
´اہم موقع پر اللہ اکبر کہنا مسنون ہے`
«. . . فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الله اكبر، خربت خيبر، إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اکبر، خراب ہوا خیبر، جب ہم کسی قوم کے پاس پہنچتے ہیں تو ان لوگوں کی صبح بری ہوتی ہے جنہیں (جہنم اور عذاب سے) ڈرایا گیا ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 563]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 2945، من حديث مالك به وصرح حميد الطّويل بالسماع عند البخاري 2943]

تفقه:
➊ جن کافروں تک دین اسلام کی دعوت پہلے پہنچ چکی ہو تو انھیں جنگ کے وقت دوبارہ دعوت دینا ضروری نہیں ہے۔
➋ کفار کے خلاف جہادی مہم میں رات کو تیاری کر کے صبح کے وقت حملہ کرنا بہتر ہے۔
➌ اپنی بات کی تائید کے لئے شرعی حدود کو مدنظر رکھتے ہوئے عند الضرورت قرآنی آیات سے استشہاد و استدلال جائز ہے۔
➍ اہم موقع پر اللہ اکبر کہنا مسنون ہے لیکن یاد رہے کہ ہمارے زمانے میں مروجہ نعرہ تکبیر کا کوئی ثبوت ہمارے علم میں نہیں ہے بلکہ سیدنا ابوموسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ مرفوع حدیث سے اس کی ممانعت ثابت ہے۔ دیکھئے: [صحيح بخاري 2992، وصحيح مسلم 2704]
➎ وہ کافر جو دن رات مسلمانوں کو نقصان پہنچانے میں کوشاں ہیں، ان کے خلاف حملہ کی ابتداء کر کے اقدامی جہاد کیا جا سکتا ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 149   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 548  
´سفر میں غلس میں نماز پڑھنے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خیبر کے دن فجر غلس (اندھیرے) میں پڑھی، (آپ خیبر والوں کے قریب ہی تھے) پھر آپ نے ان پر حملہ کیا، اور دو بار کہا: «اللہ أكبر» اللہ سب سے بڑا ہے خیبر ویران و برباد ہوا، جب ہم کسی قوم کے علاقہ میں اترتے ہیں تو ڈرائے گئے لوگوں کی صبح بری ہوتی ہے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 548]
548 ۔ اردو حاشیہ:
➊۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حملہ صبح کے بعد کیا کیونکہ آپ صبح کی اذان کا انتظار فرماتے تھے۔ اگر اذان سنتے تو حملہ نہ کرتے تاکہ وہاں مسلمان حملے میں نہ مارے جائیں اور اگر اذان نہ سنتے تو حملہ کر دیتے کہ سب کافر ہیں۔
خیبر ویران ہوا۔ یہ پیش گوئی ہو سکتی ہے جو واقعتاً پوری ہوئی۔ دعا بھی ہو سکتی ہے، پھر معنی ہوں گے خیبر ویران ہو جائے۔ یہ جملہ بطور فال بھی ہو سکتا ہے کیونکہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم خیبر پہنچے تو وہ آگے سے ٹوکرے اور کدالیں لے کر آرہے تھے۔
➌جن کفار کو پہلے اسلام کی دعوت دی جاچکی ہو، ان پرچڑھائی کرنا جائز ہے۔
➍دشمن کا سامنا کرتے وقت اللہ اکبر کہنا مسنون عمل ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 548   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1550  
´رات میں دشمن پر چھاپہ مارنے اور حملہ کرنے کا بیان۔`
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر روانہ ہوئے تو وہاں رات کو پہنچے، اور آپ جب بھی کسی قوم کے پاس رات کو پہنچتے تو جب تک صبح نہ ہو جاتی اس پر حملہ نہیں کرتے ۱؎، پھر جب صبح ہو گئی تو یہود اپنے پھاوڑے اور ٹوکریوں کے ساتھ نکلے، جب انہوں نے آپ کو دیکھا تو کہا: محمد ہیں، اللہ کی قسم، محمد لشکر کے ہمراہ آ گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اکبر! خیبر برباد ہو گیا، جب ہم کسی قوم کے میدان میں اترتے ہیں اس وقت ڈرائے گئے لوگوں کی صبح، بڑی بری ہوتی ہے۔ [سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1550]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
آپ ایسا اس لیے کرتے تھے کہ اذان سے یہ واضح ہوجائے گا کہ یہ مسلمانوں کی بستی ہے یا نہیں،
چنانچہ اگراذان سنائی دیتی تو حملہ سے رک جاتے بصورت دیگر حملہ کرتے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1550   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3009  
´خیبر کی زمینوں کے حکم کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل خیبر سے جہاد کیا، ہم نے اسے لڑ کر حاصل کیا، پھر قیدی اکٹھا کئے گئے (تاکہ انہیں مسلمانوں میں تقسیم کر دیا جائے)۔ [سنن ابي داود/كتاب الخراج والفيء والإمارة /حدیث: 3009]
فوائد ومسائل:
امام ابو دائود یہ حدیث بیا ن کرکے واضح کرنا چاہتے ہیں۔
کہ خیبر کا کچھ حصہ قتال سے اور کچھ حصہ صلح سے حاصل ہوا تھا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3009   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 610  
610. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ جب بھی ہمارے ساتھ کسی قوم پر چڑھائی کرتے تو اس وقت تک حملہ نہ کرتے جب تک صبح نہ ہو جاتی۔ اور آپ انتظار فرماتے، اگر اذان سن لیتے تو حملے کا ارادہ ترک کر دیتے اور اگر اذان نہ سنتے تو ان پر غارت گری کرتے، چنانچہ ہم لوگ خیبر کی لڑائی کے لیے نکلے تو ہم رات کو ان کے ہاں پہنچے، جب صبح ہوئی اور نبی ﷺ نے اذان نہ سنی تو آپ سوار ہوئے۔ میں بھی حضرت ابوطلحہ ؓ کے پیچھے سوار ہو گیا، میرا پاؤں نبی ﷺ کے قدم مبارک سے چھو رہا تھا۔ حضرت انس ؓ نے فرمایا: خیبر کے لوگ اپنے ٹوکرے اور دیگر آلات زراعت لے کر کام کاج کے لیے باہر نکلے، جب انہوں نے نبی ﷺ کو دیکھا تو کہنے لگے کہ محمد، اللہ کی قسم! محمد (ﷺ) پوری فوج کے ساتھ آ گئے۔ حضرت انس ؓ نے کہا: جب رسول اللہ ﷺ نے انہیں دیکھا تو فرمایا: الله أكبر، الله أكبر، خیبر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:610]
حدیث حاشیہ:
حضرت امام خطابی ؒ فرماتے ہیں کہ اذان اسلام کی ایک بڑی نشانی ہے۔
اس لیے اس کا ترک کرنا جائز نہیں۔
جس بستی سے اذان کی آواز بلند ہواس بستی والوں کے لیے اسلام جان اورمال کی حفاظت کی ذمہ داری لیتا ہے۔
حضرت ابوطلحہ ؓ حضرت انس ؓ کی والدہ کے دوسرے شوہرہیں۔
گویا حضرت انس کے سوتیلے باپ ہیں۔
خمیس پورے لشکر کو کہتے ہیں جس میں پانچوں ٹکڑیاں ہوں یعنی میمنہ، میسرہ، قلب، مقدمہ، ساقہ۔
حدیث اورباب میں مطابقت ظاہر ہے۔
إنا إذا نزلنا سورہ صافات کی آیت کا اقتباس ہے جو یوں ہے:
فإذا نزل بساحتهم فساء صباح المنذرین (الصافات: 177)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 610   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:610  
610. حضرت انس ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ جب بھی ہمارے ساتھ کسی قوم پر چڑھائی کرتے تو اس وقت تک حملہ نہ کرتے جب تک صبح نہ ہو جاتی۔ اور آپ انتظار فرماتے، اگر اذان سن لیتے تو حملے کا ارادہ ترک کر دیتے اور اگر اذان نہ سنتے تو ان پر غارت گری کرتے، چنانچہ ہم لوگ خیبر کی لڑائی کے لیے نکلے تو ہم رات کو ان کے ہاں پہنچے، جب صبح ہوئی اور نبی ﷺ نے اذان نہ سنی تو آپ سوار ہوئے۔ میں بھی حضرت ابوطلحہ ؓ کے پیچھے سوار ہو گیا، میرا پاؤں نبی ﷺ کے قدم مبارک سے چھو رہا تھا۔ حضرت انس ؓ نے فرمایا: خیبر کے لوگ اپنے ٹوکرے اور دیگر آلات زراعت لے کر کام کاج کے لیے باہر نکلے، جب انہوں نے نبی ﷺ کو دیکھا تو کہنے لگے کہ محمد، اللہ کی قسم! محمد (ﷺ) پوری فوج کے ساتھ آ گئے۔ حضرت انس ؓ نے کہا: جب رسول اللہ ﷺ نے انہیں دیکھا تو فرمایا: الله أكبر، الله أكبر، خیبر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:610]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے اذان کی فضیلت بھی معلوم ہوتی ہے اور ایک شرعی حکم کا بھی پتہ چلتا ہے۔
اذان کی فضیلت بایں طور ہے کہ محض اس کی آواز سننے سے بستی والوں کے مال اور خون محفوظ ہوجاتے ہیں۔
اور شرعی حکم یہ ہے کہ اگر کسی بستی سے اذان کی آواز آجائے تو وہاں حملہ کرنا جائز نہیں۔
یہ اس لیے کہ اذان، دین اسلام کی ایک بہت بڑی نشانی ہے، اس کا ترک کسی صورت جائز نہیں۔
جس بستی سے اذان کی آواز بلند ہو، اسلام اس بستی کے باشندگان کے مال وجان کی ضمانت دیتا ہے، نیز جس طرح اسلام کا اظہار شہادتین کے اقرار سے ہوتا ہے، اسی طرح عمل سے بھی ہوتا ہے، چنانچہ اگر کسی کافر کو اذان پڑھتے دیکھیں تو اسے قتل کرنا جائز نہیں، پھر جب تک اس سے کوئی کفر یہ عمل سرزد نہ ہو، اسے مسلمان ہی خیال کرنا چاہیے۔
(2)
دراصل امام بخاری ؒ اذان کے ثمرات بیان کرنا چاہتے ہیں کہ اذان کا وجود لوگوں کے مال وخون کے محفوظ ہونے کی ضمانت دیتا ہے، چنانچہ ایک روایت میں اس کی بایں طور وضاحت ہے کہ رسول ا للہ ﷺ طلوع فجر کے وقت حملہ آور ہوتے تھے۔
آپ اذان کا انتطار کرتے، اگر اذان کی آواز سن لیتے تو حملہ کرنے سے رک جاتے اور اگر اذان کی آواز نہ آتی تو وہاں حملہ کردیتے۔
(صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 847(382)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 610   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.