الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اجازت لینے کے بیان میں
The Book of Asking Permission
32. بَابُ: {إِذَا قِيلَ لَكُمْ تَفَسَّحُوا فِي الْمَجَالِسِ فَافْسَحُوا يَفْسَحِ اللَّهُ لَكُمْ وَإِذَا قِيلَ انْشِزُوا فَانْشِزُوا} الآيَةَ:
32. باب: اللہ پاک کا سورۃ المجادلہ میں فرمانا کہ ”اے مسلمانو! جب تم سے کہا جائے کہ مجلس میں کشادگی کر لو تو کشادگی کرو، اللہ تعالیٰ تمہارے لیے کشادگی کرے گا اور جب تم سے کہا جائے کہ اٹھ جاؤ تو اٹھ جایا کرو“۔
(32) Chapter. (The Statement of Allah): “(O you who believe!) When you are told to make room in the assemblies, (spread out and) make room...” (V.58:11)
حدیث نمبر: 6270
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا خلاد بن يحيى، حدثنا سفيان، عن عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم انه" نهى ان يقام الرجل من مجلسه ويجلس فيه آخر، ولكن تفسحوا وتوسعوا"، وكان ابن عمر يكره ان يقوم الرجل من مجلسه، ثم يجلس مكانه.(مرفوع) حَدَّثَنَا خَلَّادُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ" نَهَى أَنْ يُقَامَ الرَّجُلُ مِنْ مَجْلِسِهِ وَيَجْلِسَ فِيهِ آخَرُ، وَلَكِنْ تَفَسَّحُوا وَتَوَسَّعُوا"، وَكَانَ ابْنُ عُمَرَ يَكْرَهُ أَنْ يَقُومَ الرَّجُلُ مِنْ مَجْلِسِهِ، ثُمَّ يَجْلِسَ مَكَانَهُ.
ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے عبداللہ عمری نے، ان سے نافع اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا تھا کہ کسی شخص کو اس کی جگہ سے اٹھایا جائے تاکہ دوسرا اس کی جگہ پر بیٹھے، البتہ (آنے والے کو مجلس میں) جگہ دے دیا کرو اور فراخی کر دیا کرو اور ابن عمر رضی اللہ عنہما ناپسند کرتے تھے کہ کوئی شخص مجلس میں سے کسی کو اٹھا کر خود اس کی جگہ بیٹھ جائے۔

Narrated Ibn `Umar: The Prophet forbade that a man should be made to get up from his seat so that another might sit on it, but one should make room and spread out. Ibn `Umar disliked that a man should get up from his seat and then somebody else sit at his place.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 74, Number 287


   صحيح البخاري6270عبد الله بن عمرنهى أن يقام الرجل من مجلسه ويجلس فيه آخر ولكن تفسحوا وتوسعوا
   صحيح البخاري911عبد الله بن عمريقيم الرجل أخاه من مقعده ويجلس فيه
   صحيح البخاري6269عبد الله بن عمرلا يقيم الرجل الرجل من مجلسه ثم يجلس فيه
   صحيح مسلم5686عبد الله بن عمرلا يقيمن أحدكم أخاه ثم يجلس في مجلسه
   صحيح مسلم5683عبد الله بن عمرلا يقيمن أحدكم الرجل من مجلسه ثم يجلس فيه
   صحيح مسلم5684عبد الله بن عمرلا يقيم الرجل الرجل من مقعده ثم يجلس فيه ولكن تفسحوا وتوسعوا
   جامع الترمذي2749عبد الله بن عمرلا يقم أحدكم أخاه من مجلسه ثم يجلس فيه
   جامع الترمذي2750عبد الله بن عمرلا يقم أحدكم أخاه من مجلسه ثم يجلس فيه
   سنن أبي داود4828عبد الله بن عمرجاء رجل إلى رسول الله فقام له رجل من مجلسه فذهب ليجلس فيه فنهاه النبي
   بلوغ المرام1240عبد الله بن عمرلا يقيم الرجل الرجل من مجلسه ثم يجلس فيه ولكن تفسحوا وتوسعوا
   مسندالحميدي659عبد الله بن عمرلا يتناجى اثنان دون الثالث
   مسندالحميدي660عبد الله بن عمرلا يتناجى اثنان دون الثالث
   مسندالحميدي661عبد الله بن عمرلا يتناجى اثنان دون الثالث
   مسندالحميدي679عبد الله بن عمرلا يقيمن أحدكم الرجل من مجلسه ثم يجلس فيه، ولكن تفسحوا وتوسعوا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1240  
´کسی کو اٹھا کر اس کی جگہ پر مت بیٹھیں`
«وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏لا يقيم الرجل الرجل من مجلسه ثم يجلس فيه ولكن تفسحوا وتوسعوا . متفق عليه»
اور ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی آدمی دوسرے آدمی کو اس کی بیٹھنے کی جگہ سے نہ اٹھائے کہ پھر خود اس میں بیٹھ جائے لیکن کھل جاؤ اور کشادگی کر لو۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع/باب الأدب: 1240]
تخریج:
[بخاري: 6270]،
[مسلم، السلام 5684]،
[بلوغ المرام: 1239]
[تحفة الاشراف 220/6]

مفردات:
«تفسحوا» آپس میں کھل جاؤ تاکہ آنے والا بیٹھ جائے۔
«توسعوا» ایک دوسرے کے ساتھ مل جاؤ تا کہ آنے والے کے لئے جگہ نکل آئے قالہ ابن ابی جمرہ [فتح]
«لا يقيم» نفی کا صیغہ ہے مگر اس سے مراد نہی ہے خصوصاً اس لئے کہ صحیح مسلم میں «لا يقيمن» کے الفاظ ہیں یعنی ہرگز نہ اٹھائے۔

فوائد:
اس سے مراد یہ نہیں کہ کسی کی مخصوص جگہ میں یا اس کی ملکیت میں کوئی دوسرا آ کر بیٹھ جائے تو اسے اٹھانا جائز نہیں کیونکہ وہاں بلا اجازت بیٹھنا تو اس کے لئے جائز ہی نہیں۔ اس سے مراد وہ جگہیں ہیں جہاں بیٹھنا ہر مسلمان کے لئے جائز ہے، مثلاً مسجد، حکام کی مجالس، اہل علم کے حلقہ ہائے درس، بازار میں تجارت کے لئے کوئی جگہ، دستکاری کے لئے کوئی جگہ، تفریحی مقامات، منیٰ، مزدلفہ، عرفات وغیرہ میں جو شخص پہلے آ کر بیٹھ جائے کسی کے لئے جائز نہیں کہ اسے اٹھا کر خود بیٹھ جائے۔
➋ جو شخص کسی دوسرے کو اٹھا کر خود بیٹھتا ہے یا تو اس لئے یہ کام کرتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس پر ترجیح دے رہا ہے اور یہ بات مسلمان کے لائق نہیں ہے۔
«وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ» وہ اپنے آپ پر (دوسروں کو) ترجیح دیتے ہیں چاہے ان کو سخت حاجت ہو۔ [59-الحشر:9]
یا پھر تکبر کی وجہ سے ایسا کرتا ہے تو یہ اس سے بھی بدتر ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں تواضع کا حکم دیا ہے۔
➌ کسی شخص کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خود بیٹھنے کے نتیجے میں دلوں کے اندر دوری اور بغض پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔ جب کہ مومنوں کو باہمی محبت و اخوت کی تاکید کی گئی ہے۔
«لا يقيم» نہ اٹھائے کے لفظ سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص خود بخود اٹھ کر بیٹھنے کی پیشکش کرے تو وہاں بیٹھنا جائز ہے۔ البتہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس سے بھی اجتناب کرتے تھے اگر کوئی شخص ان کی خاطر اپنی جگہ سے اٹھتا تو وہ وہاں نہیں بیٹھتے تھے۔ [بخاري: 7470] مگر اہل علم نے ان کے اس عمل کو مزید احتیاط پر محمول کیا ہے کہ ممکن ہے وہ شخص خوش دلی سے نہ اٹھا ہو صرف شرم کی وجہ سے اٹھ کھڑا ہوا ہو۔
➎ اس حدیث میں سے پاگل اور بےوقوف مستثنیٰ ہیں اگر وہ مجلس علم کو خراب کر رہے ہوں یا مسجد کے ادب میں خلل انداز ہوں تو انہیں نکالنا درست ہے۔
«وَلا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ»
اور بیوقوفوں کو اپنا مال نہ دو۔
مجلس علم کا مقام مال سے بہت زیادہ ہے۔ جب بےوقوفوں کو اس بات سے روکا جا سکتا ہے کہ وہ مال کو خراب کریں تو انہیں علم کی دولت خراب کرنے سے کیوں نہیں روکا جائے گا۔
➏ جو شخص بدبودار چیز کھا کر مسجد میں آئے۔ یا کسی کو تکلیف دے اسے مسجد سے نکالنا جائز ہے۔ جائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے یہ سبزیاں تھوم، پیاز یا گندنا کھائی ہوں وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے کیونکہ فرشتوں کو اس چیز سے تکلیف ہوتی ہے جس سے بنی آدم کو تکلیف ہوتی ہے۔ [مسلم عن جابر: مساجد 4]
عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک جمعہ کے خطبہ کے آخر میں فرمایا: لوگو تم یہ دو پودے کھاتے ہو جنہیں میں تو خبیث (برا) ہی سمجھتا ہوں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ مسجد میں کسی آدمی سے ان کی بو محسوس کرتے تو اس کے متعلق حکم دیتے تو اسے بقیع کی طرف نکال دیا جاتا۔ [مسلم: مساجد: 78]
حقے اور سگریٹ کی بدبو تو پیاز اور لہسن سے کئی گنا تکلیف دہ ہوتی ہے۔
   شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث\صفحہ نمبر: 36   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1240  
´ادب کا بیان`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی آدمی کسی کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خود اس کی جگہ نہ بیٹھے۔ (اگر جگہ کی کمی ہو تو) کھل جاؤ اور کشادہ ہو جاؤ۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1240»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأستئذان، باب لا يقيم الرجل الرجل من مجلسه، حديث:6269، ومسلم، السلام، باب تحريم إقامة الإنسان من موضعه المباح الذي سبق إليه، حديث:2177.»
تشریح:
1. اس حدیث میں مجلسی آداب کی تعلیم دی گئی ہے کہ اگر مجلس میں جگہ کی کمی واقع ہو رہی ہے اور لوگوں کی آمد بدستور جاری ہے تو پہلے نشستوں پر بیٹھے ہوئے لوگ ذرا سکڑ جائیں‘ ایک دوسرے کے قریب ہو جائیں یا مجلس کے دائرے کو ذرا اور وسیع کر لیا جائے تاکہ آنے والے حضرات بھی بیٹھ سکیں‘ البتہ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ایک آدمی کسی ضرورت کے پیش نظر اپنی نشست چھوڑ کر ذرا دیر کے لیے باہر جائے تو دوسرا اس کی جگہ پر قبضہ جما لے۔
2. یہ حکم ہر جگہ کے لیے یکساں ہے‘ خواہ مسجد میں ہو یا مجلس احباب میں یا کہیں دوسرے مقام پر۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1240   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4828  
´ایک شخص دوسرے کے لیے اپنی جگہ سے اٹھے تو یہ کیسا ہے؟`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، تو ایک شخص اس کے لیے اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا تو وہ وہاں بیٹھنے چلا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے روک دیا۔ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4828]
فوائد ومسائل:
1) یہ ممانعت بھی احتیاط کے طور پر ہے تاکہ لوگ ایک دوسرے کی جگہ پر نہ بیٹھیں۔
ورنہ اگر کو ئی شخص احتراماَ کسی دوسرے کو اپنی جگہ بیٹھنے کی پیشکش کرتا ہے تو دیگر دلائل کی رُو سے اسکا جواز ہے۔

2) یہ رویت ہمارے فاضل محقق کے نزدیک ضعیف ہے، تاہم معنوی طور پر صحیح ہے جیسا کہ خود اُنھوں نے اپنی تحقیق میں بخاری و مسلم کی روایات کا حوالہ درج کرنے کے بعد یغني عنه یعنی بخاری اور مسلم کی روایات کفایت کرتی ہیں کہا ہے۔
علاوہ ازیں شیخ البانی ؒ نے بھی اسے حسن کہا ہے، تفصیل کے لیئے دیکھئے:(الصحٰحة، حديث: ٢٢٨)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4828   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6270  
6270. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے اس سے منع فرمایا تھا کہ کسی شخص کو اس کی نشست سے اٹھایا جائے کہ کوئی دوسرا اس کی جگہ پر بیٹھے لیکن وسعت اور کشادگی پیدا کرکے دوسرے کو بیٹھنے کا موقع دو۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ کوئی آدمی اپنی جگہ سے اٹھے پھر وہ (دوسرا) اس جگہ پر بیٹھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6270]
حدیث حاشیہ:
مجلس کے آداب میں سے یہ اہم ترین ادب ہے جس کی تعلیم اس حدیث میں دی گئی ہے آیت باب بھی اسی پاک تعلیم پر مشتمل ہے۔
قلت لفظ ابن عمر علی قتادة کانوا یتنافسو ن في مجلس النبي صلی اللہ علیه و سلم إذا راوہ مقبلا فسبقوا علیهم فأمرهم اللہ تعالیٰ أن یوسع بعضهم لبعض (فتح)
یعنی صحابہ کرام جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو تشریف لاتے ہوئے دیکھتے تو وہ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے اور جگہ پکڑنے کی کوشش کرتے تھے اس پر ان کو مجلس میں کھل کر بیٹھنے کا حکم دیا گیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 6270   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6270  
6270. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے اس سے منع فرمایا تھا کہ کسی شخص کو اس کی نشست سے اٹھایا جائے کہ کوئی دوسرا اس کی جگہ پر بیٹھے لیکن وسعت اور کشادگی پیدا کرکے دوسرے کو بیٹھنے کا موقع دو۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ اس بات کو ناپسند کرتے تھے کہ کوئی آدمی اپنی جگہ سے اٹھے پھر وہ (دوسرا) اس جگہ پر بیٹھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6270]
حدیث حاشیہ:
(1)
پہلے سے بیٹھا ہوا شخص ہی زیادہ حق دار ہے کہ وہ اپنی جگہ پر بیٹھے۔
ہاں، اگر اٹھنے والا اپنی خوشی سے ایسا کرے تو جائز ہے دوسرا وہاں بیٹھ جائے جیسا کہ حدیث میں ہے:
کسی کی عزت کی جگہ پر بیٹھنا جائز نہیں الا یہ کہ وہ خوداجازت دے۔
(صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 1534(673) (2)
اجازت ملنے کے باوجود تقویٰ اور پرہیز گاری کا تقاضا ہے کہ وہاں نہ بیٹھے بلکہ اسی کو وہاں بیٹھنے کا موقع دے جیسا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے متعلق حدیث میں ہے کہ اگر کوئی ان کے لیے مجلس میں اٹھتا اور انھیں وہاں بیٹھنے کا کہتا تو وہ وہاں نہ بیٹھے۔
(الأدب المفرد، حدیث: 1153)
اسی طرح حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کے متعلق روایات میں ہے کہ ایک دفعہ وہ گواہی دینے کے لیے تشریف لائے تو ایک آدمی مجلس میں ان کے لیے اٹھ کھڑا ہوا تو انھوں نے اس جگہ بیٹھنے سے انکار کر دیا اور حدیث بیان کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے سے منع فرمایا ہے۔
(سنن أبي داود، الأدب، حدیث: 4827)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6270   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.