الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: دل کو نرم کرنے والی باتوں کے بیان میں
The Book of Ar-Riqaq (Softening of The Hearts)
34. بَابُ الْعُزْلَةُ رَاحَةٌ مِنْ خُلاَّطِ السُّوءِ:
34. باب: بری صحبت سے تنہائی بہتر ہے۔
(34) Chapter. Seclusion is better for a believer than to have evil companions.
حدیث نمبر: 6495
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا ابو نعيم، حدثنا الماجشون، عن عبد الرحمن بن ابي صعصعة، عن ابيه، عن ابي سعيد الخدري، انه سمعه يقول: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم، يقول:" ياتي على الناس زمان خير مال الرجل المسلم الغنم يتبع بها شعف الجبال، ومواقع القطر يفر بدينه من الفتن".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا الْمَاجِشُونُ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي صَعْصَعَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَهُ يَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" يَأْتِي عَلَى النَّاسِ زَمَانٌ خَيْرُ مَالِ الرَّجُلِ الْمُسْلِمِ الْغَنَمُ يَتْبَعُ بِهَا شَعَفَ الْجِبَالِ، وَمَوَاقِعَ الْقَطْرِ يَفِرُّ بِدِينِهِ مِنَ الْفِتَنِ".
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ماجشون نے بیان کیا، ان سے عبدالرحمٰن بن ابی صعصعہ نے، ان سے ان کے والد نے اور انہوں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں پر ایک ایسا دور آئے گا جب ایک مسلمان کا سب سے بہتر مال بھیڑیں ہوں گی وہ انہیں لے کر پہاڑ کی چوٹیوں اور بارش کی جگہوں پر چلا جائے گا، اس دن وہ اپنے دین کو لے کر فسادوں سے ڈر کر وہاں سے بھاگ جائے گا۔

Narrated Abu Sa`id: I heard from the Prophet saying, "There will come a time upon the people when the best property of a Muslim will be sheep which he will take to the tops of mountains and to the places of rainfall, run away with his religion (in order to save it) from afflictions."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 76, Number 502


   صحيح البخاري6495سعد بن مالكيأتي على الناس زمان خير مال الرجل المسلم الغنم يتبع بها شعف الجبال ومواقع القطر يفر بدينه من الفتن
   صحيح البخاري3600سعد بن مالكيأتي على الناس زمان تكون الغنم فيه خير مال المسلم يتبع بها شعف الجبال في مواقع القطر يفر بدينه من الفتن
   صحيح البخاري3300سعد بن مالكيوشك أن يكون خير مال الرجل غنم يتبع بها شعف الجبال ومواقع القطر يفر بدينه من الفتن
   صحيح البخاري7088سعد بن مالكيوشك أن يكون خير مال المسلم غنم يتبع بها شعف الجبال ومواقع القطر يفر بدينه من الفتن
   صحيح البخاري19سعد بن مالكيوشك أن يكون خير مال المسلم غنم يتبع بها شعف الجبال ومواقع القطر يفر بدينه من الفتن
   سنن أبي داود4267سعد بن مالكيوشك أن يكون خير مال المسلم غنما يتبع بها شعف الجبال ومواقع القطر يفر بدينه من الفتن
   سنن النسائى الصغرى5039سعد بن مالكيوشك أن يكون خير مال مسلم غنم يتبع بها شعف الجبال ومواقع القطر يفر بدينه من الفتن
   سنن ابن ماجه3980سعد بن مالكيوشك أن يكون خير مال المسلم غنم يتبع بها شعف الجبال أومواقع القطر يفر بدينه من الفتن
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم551سعد بن مالكيوشك ان يكون خير مال المسلم غنما يتبع بها شعف الجبال ومواقع القطر، يفر بدينه من الفتن
   مسندالحميدي750سعد بن مالكيوشك أن يكون خير مال الرجل المسلم غنم يتبع شعف الجبال، ومواقع القطر، يفر بدينه من الفتن

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 551  
´فتنوں سے بچاؤ ضروری ہے`
«. . . 393- وبه: عن أبى سعيد الخدري أنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يوشك أن يكون خير مال المسلم غنما يتبع بها شعف الجبال ومواقع القطر، يفر بدينه من الفتن. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قریب ہے کہ مسلمان کا بہترین مال وہ بکریاں ہو جنہیں لے کر وہ پہاڑوں کی چوٹیوں اور بارش گرنے کی جگہ (وادیوں) میں پھرتے ہوئے فتنوں سے بھاگ کر اپنے دین کو بچاتا ہے۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 551]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 3300، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ ہر وقت اپنے آپ کو فتنوں اور برائیوں سے بچانا چاہئے۔
➋ موجودہ دور میں جتنے کاغذی گروہ اور تنظیمیں ہیں، ان سب سے علیحدگی ضروری ہے۔
➌ جس شخص کے لئے اپنا ایمان بچانا مشکل ہو تو اس کے لئے آبادی سے دوری اور بکریاں پالنا بہتر اور افضل ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 393   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 19  
´فتنہ و فساد میں سب سے یکسوئی بہتر ہے`
«. . . عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يُوشِكُ أَنْ يَكُونَ خَيْرَ مَالِ الْمُسْلِمِ غَنَمٌ، يَتْبَعُ بِهَا شَعَفَ الْجِبَالِ وَمَوَاقِعَ الْقَطْرِ، يَفِرُّ بِدِينِهِ مِنَ الْفِتَنِ . . .»
. . . ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ وقت قریب ہے جب مسلمان کا (سب سے) عمدہ مال (اس کی بکریاں ہوں گی)۔ جن کے پیچھے وہ پہاڑوں کی چوٹیوں اور برساتی وادیوں میں اپنے دین کو بچانے کے لیے بھاگ جائے گا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ/بَابُ مِنَ الدِّينِ الْفِرَارُ مِنَ الْفِتَنِ:: 19]

تشریح:
مقصد حدیث یہ ہے کہ جب فتنہ و فساد اتنا بڑھ جائے کہ اس کی اصلاح بظاہر ناممکن نظر آنے لگے تو ایسے وقت میں سب سے یکسوئی بہتر ہے۔ فتنہ میں فسق و فجور کی زیادتی، سیاسی حالات اور ملکی انتظامات کی بدعنوانی، یہ سب چیزیں داخل ہیں۔ جن کی وجہ سے مرد مومن کے لیے اپنے دین اور ایمان کی حفاظت دشوار ہو جاتی ہے۔ ان حالات میں اگر محض دین کی حفاظت کے جذبے سے آدمی کسی تنہائی کی جگہ چلا جائے۔ جہاں فتنہ و فساد سے بچ سکے تو یہ بھی دین ہی کی بات ہے اور اس پر بھی آدمی کو ثواب ملے گا۔

حضرت امام کا مقصد یہی ہے کہ اپنے دین کو بچانے کے لیے سب سے یکسوئی اختیار کرنے کا عمل بھی ایمان میں داخل ہے۔ جو لوگ اعمال صالحہ کو ایمان سے جدا قرار دیتے ہیں ان کا قول صحیح نہیں ہے۔

بکری کا ذکر اس لیے کیا گیا کہ اس پر انسان آسانی سے قابو پا لیتا ہے اور یہ انسان کے لیے مزاحمت بھی نہیں کرتی۔ یہ بہت ہی غریب اور مسکین جانور ہے۔ اس کو جنت کے چوپایوں میں سے کہا گیا ہے۔ اس سے انسان کو نفع بھی بہت ہے۔ اس کا دودھ بہت مفید ہے۔ جس کے استعمال سے طبیعت ہلکی رہتی ہے۔ نیز اس کی نسل بھی بہت بڑھتی ہے۔ اس کی خوراک کے لیے بھی زیادہ اہتمام کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جنگلوں میں اپنا پیٹ خود بھر لیتی ہے۔ بہ آسانی پہاڑوں پر بھی چڑھ جاتی ہے۔ اس لیے فتنے فساد کے وقت پہاڑوں جنگلوں میں تنہائی اختیار کر کے اس مفید ترین جانور کی پر ورش سے گزران معیشت کرنا مناسب ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بطور پیشین گوئی فرمایا تھا۔ چنانچہ تاریخ میں بہت پرفتن زمانے آئے اور کتنے ہی بندگان الٰہی نے اپنے دین و ایمان کی حفاظت کے لیے آبادی سے ویرانوں کو اختیار کیا۔ اس لیے یہ عمل بھی ایمان میں داخل ہے کیونکہ اس سے ایمان و اسلام کی حفاظت مقصود ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 19   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6495  
6495. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا جس میں مسلمان آدمی کا بہترین مال بکریاں ہوں گی۔ وہ انہیں لے کر پہاڑ کی چوٹیوں اور بارش کے مقامات پر لے جائے گا۔ وہ اس زمانے میں برپا فتنوں سے اپنے دین کو بچا کر بھاگ نکلے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6495]
حدیث حاشیہ:
آج کی دور میں ایسی آزادانہ چوٹیاں بھی نابود ہو گئی ہیں اب ہر جگہ خطرہ ہے۔
اس حدیث سے ان لوگوں نے دلیل لی ہے جو کہتے ہیں عزلت بہتر ہے کبھی لوگوں سے مل کر رہنا بہتر ہوتا ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ عزلت کرنے والا شخص شہرت اور ریاونمود کی نیت سے عزلت نہ کرے بلکہ گناہوں سے بچنے کی نیت اور جمعہ جماعت فرائض اسلام ترک نہ کرے زیادہ تفصیل احیاء العلوم میں ہے (مذکورہ احادیث اور ان جیسی دوسرے احادیث میں جو عزلت کی ترغیب اور فضیلت بیان ہوئی ہے اس سے فتنوں کا زمانہ مراد ہے اور ماحول میں لوگوں سے ملنے کی صورت میں گناہوں سے بچنا مشکل ہو۔
ورنہ اسلام عام حالت میں تعلق جوڑنے اور آبادی بڑھانے کا حکم دیتا ہے۔
کیونکہ آپ سوچیں کہ تیمار داری کا ثواب، سلام کرنے، صلہ رحمی کا ثواب وغیرہ یہ جملہ نیکیاں تب ممکن ہیں جب آبادی میں رہائش ہوگی۔
عبد الرشید تونسی)

عزلت کے معنیٰ لوگوں سے الگ تھلگ تنہا دور رہنے کے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 6495   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3980  
´(فتنہ کے زمانہ میں) سب سے الگ تھلگ رہنے کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عنقریب ایسا زمانہ آئے گا کہ اس وقت مسلمان کا بہترین مال بکریاں ہوں گی جنہیں وہ لے کر پہاڑ کی چوٹیوں یا بارش کے مقامات میں چلا جائے گا، وہ اپنا دین فتنوں سے بچاتا پھر رہا ہو گا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3980]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  جب عام لوگوں کے ساتھ رہنے میں ایمان کو خطرہ ہوتو گوشہ نشینی اختیار کرنا جائز ہے۔

(2)
جو شخص فتنوں میں غلط کار لوگوں کی غلطیاں واضح کرنے کے لیے اپنی زبان استعمال کرسکتا ہو اس کے لیے وعظ ونصیحت اور بحث و مناظرہ کے لیے آبادی میں رہنا اور یہ خدمت انجام دینا افضل ہے.
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3980   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4267  
´فتنہ کے دنوں میں آبادی سے باہر دور چلے جانے کی رخصت کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قریب ہے کہ مسلمان کا بہتر مال بکریاں ہوں، جنہیں لے کر وہ پہاڑ کی چوٹیوں اور بارش کے مقامات پر پھرتا اور اپنا دین لے کر وہ فساد اور فتنوں سے بھاگتا ہو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الفتن والملاحم /حدیث: 4267]
فوائد ومسائل:
جس بندے کو اپنے رب اور اس کے دین و شریعت کی حقیقی معرفت نصیب ہو جائے اس کے لیئے اسکا سب سے بڑا سرمایہ اس کا دین بن جاتا ہے اور ہر دم اسے اس کی حفاظت ہی کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔
اسی بنا پر خالص مسلمان فتنوں کے ایام میں آبادیوں سے بھاگ کر جنگلوں اور وادیوں میں پناہ لے گا۔
اور دین کی حفاظت بڑی عزیمت کا کام ہے، جسے اللہ توفیق دے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4267   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6495  
6495. حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا جس میں مسلمان آدمی کا بہترین مال بکریاں ہوں گی۔ وہ انہیں لے کر پہاڑ کی چوٹیوں اور بارش کے مقامات پر لے جائے گا۔ وہ اس زمانے میں برپا فتنوں سے اپنے دین کو بچا کر بھاگ نکلے گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6495]
حدیث حاشیہ:
(1)
دور حاضر میں ایسی آزادانہ پہاڑوں کی چوٹیاں ناپید ہیں۔
اب تو ہر جگہ خطرہ ہی خطرہ ہے، تاہم اپنے دین اسلام کو بچانے کے لیے علیحدہ گھر ہی اس انسان کے لیے بہتر ہے جو شہرت اور نمودونمائش کا طالب نہ ہو، بلکہ صرف گناہوں سے محفوظ رہنا مقصود ہو، نیز جمعہ، جماعت اور دیگر فرائض اسلام بھی ترک نہ کرے۔
(2)
واضح رہے کہ فتنوں سے مراد ایسے حالات ہیں کہ لوگوں سے ملنے کی صورت میں انسان کے دین کو خطرہ ہو، بصورت دیگر اپنے ماحول اور معاشرے میں رہنا ہی بہتر ہے جیسا کہ حدیث میں ہے:
جو مومن لوگوں سے ملتا جلتا ہے اور ان سے پہنچنے والی تکلیفوں پر صبر کرتا ہے وہ اس مومن سے زیادہ ثواب حاصل کر لیتا ہے جو لوگوں سے ملتا جلتا نہیں اور نہ ان سے پہنچنے والی تکلیفوں پر صبر ہی کرتا ہے۔
(سنن ابن ماجة، الفتن، حدیث: 4032) (3)
لوگوں سے میل جول میں اچھے برے ہر قسم کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے۔
معاشرے میں برائی زیادہ ہو جائے تب بھی الگ تھلگ ہو جانا اچھا نہیں بلکہ معاشرے میں رہ کر اصلاح کی کوشش کرنا ضروری ہے۔
اس کے علاوہ تیمارداری کا ثواب، سلام کرنے اور صلہ رحمی کا اجر اسی صورت میں ممکن ہے جب انسان معاشرے میں رہے گا۔
واللہ أعلم
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6495   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.