الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: فرائض یعنی ترکہ کے حصوں کے بیان میں
The Book of Al-Farad (The Laws of Inheritance)
28. بَابُ مَنِ ادَّعَى أَخًا أَوِ ابْنَ أَخٍ:
28. باب: جو کسی شخص کے بارے میں اپنا بھائی یا بھتیجا ہونے کا دعویٰ کرے۔
(28) Chapter. Whoever claims that somebody is his brother or his nephew.
حدیث نمبر: Q6765
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
nn
‏‏‏‏ اس باب میں حدیث نہیں ہے۔

حدیث نمبر: 6765
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا الليث، عن ابن شهاب، عن عروة، عن عائشة رضي الله عنها، انها قالت:" اختصم سعد بن ابي وقاص، وعبد بن زمعة في غلام، فقال سعد: هذا يا رسول الله، ابن اخي عتبة بن ابي وقاص، عهد إلي انه ابنه انظر إلى شبهه، وقال عبد بن زمعة: هذا اخي يا رسول الله، ولد على فراش ابي من وليدته، فنظر رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى شبهه فراى شبها بينا بعتبة، فقال: هو لك يا عبد بن زمعة، الولد للفراش، وللعاهر الحجر، واحتجبي منه يا سودة بنت زمعة، قالت: فلم ير سودة قط".(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّهَا قَالَتْ:" اخْتَصَمَ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ، وَعَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ فِي غُلَام، فَقَالَ سَعْدٌ: هَذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، ابْنُ أَخِي عُتْبَةَ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، عَهِدَ إِلَيَّ أَنَّهُ ابْنُهُ انْظُرْ إِلَى شَبَهِهِ، وَقَالَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ: هَذَا أَخِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، وُلِدَ عَلَى فِرَاشِ أَبِي مِنْ وَلِيدَتِهِ، فَنَظَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى شَبَهِهِ فَرَأَى شَبَهًا بَيِّنًا بِعُتْبَةَ، فَقَالَ: هُوَ لَكَ يَا عَبْدُ بْنَ زَمْعَةَ، الْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ، وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ، وَاحْتَجِبِي مِنْهُ يَا سَوْدَةُ بِنْتَ زَمْعَةَ، قَالَتْ: فَلَمْ يَرَ سَوْدَةَ قَطُّ".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے لیث نے بیان کیا، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عروہ نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ سعد بن ابی وقاص اور عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہا کا ایک لڑکے کے بارے میں جھگڑا ہوا۔ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! یہ میرے بھائی عتبہ بن ابی وقاص کا لڑکا ہے، اس نے مجھے وصیت کی تھی کہ یہ اس کا لڑکا ہے آپ اس کی مشابہت اس میں دیکھئیے اور عبد بن زمعہ نے کہا کہ میرا بھائی ہے یا رسول اللہ! میرے والد کے بستر پر ان کی لونڈی سے پیدا ہوا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکے کی صورت دیکھی تو اس کی عتبہ کے ساتھ صاف مشابہت واضح تھی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عبد! لڑکا بستر والے کا ہوتا ہے اور زانی کے حصہ میں پتھر ہیں اور اے سودہ بنت زمعہ! (ام المؤمنین رضی اللہ عنہا) اس لڑکے سے پردہ کیا کر چنانچہ پھر اس لڑکے نے ام المؤمنین کو نہیں دیکھا۔

Narrated `Aisha: Sa`d bin Abi Waqqas and 'Abu bin Zam`a had a dispute over a boy. Sa`d said, "O Allah's Apostle! This (boy) is the son of my brother, `Utba bin Abi Waqqas who told me to be his custodian as he was his son. Please notice to whom he bears affinity." And 'Abu bin Zam`a said, "This is my brother, O Allah's Apostle! He was born on my father's bed by his slave girl." Then the Prophet looked at the boy and noticed evident resemblance between him and `Utba, so he said, "He (the toy) is for you, O 'Abu bin Zam`a, for the boy is for the owner of the bed, and the stone is for the adulterer. Screen yourself before the boy, O Sauda bint Zam`a." `Aisha added: Since then he had never seen Sauda.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 8, Book 80, Number 757


   صحيح البخاري2533عائشة بنت عبد اللهإن عتبة بن أبي وقاص عهد إلى أخيه سعد بن أبي وقاص أن يقبض إليه ابن وليدة زمعة قال عتبة إنه ابني فلما قدم رسول الله زمن الفتح أخذ سعد ابن وليدة زمعة فأقبل به إلى رسول الله وأقبل معه بعبد بن زمعة فقال سعد يا رسول الله
   صحيح البخاري2218عائشة بنت عبد اللههو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش للعاهر الحجر احتجبي منه يا سودة بنت زمعة فلم تره سودة قط
   صحيح البخاري2421عائشة بنت عبد اللههو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش احتجبي منه يا سودة
   صحيح البخاري6749عائشة بنت عبد اللههو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش للعاهر الحجر
   صحيح البخاري2745عائشة بنت عبد اللههو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش للعاهر الحجر لسودة بنت زمعة احتجبي منه
   صحيح البخاري6765عائشة بنت عبد اللههو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش للعاهر الحجر
   صحيح البخاري6817عائشة بنت عبد اللههو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش احتجبي منه يا سودة
   صحيح البخاري7182عائشة بنت عبد اللههو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش للعاهر الحجر لسودة بنت زمعة احتجبي منه لما رأى من شبهه بعتبة فما رآها حتى لقي الله
   صحيح البخاري2053عائشة بنت عبد اللهالولد للفراش للعاهر الحجر
   صحيح مسلم3613عائشة بنت عبد اللههو لك يا عبد الولد للفراش للعاهر الحجر احتجبي منه يا سودة بنت زمعة
   سنن أبي داود2273عائشة بنت عبد اللهالولد للفراش للعاهر الحجر احتجبي عنه يا سودة
   سنن النسائى الصغرى3514عائشة بنت عبد اللهالولد للفراش للعاهر الحجر احتجبي منه يا سودة بنت زمعة
   سنن النسائى الصغرى3517عائشة بنت عبد اللهالولد للفراش احتجبي منه يا سودة
   سنن ابن ماجه2004عائشة بنت عبد اللههو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش احتجبي عنه يا سودة
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم360عائشة بنت عبد اللهالولد للفراش وللعاهر الحجر
   مسندالحميدي240عائشة بنت عبد اللههو لك يا عبد بن زمعة الولد للفراش واحتجبي منه يا سودة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 360  
´بچہ صاحب بستر کا ہے`
«. . . قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الولد للفراش وللعاهر الحجر . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عبد بن زمعہ! یہ تمہارے سپرد ہے، اولاد اسی کی شمار ہو گی جس کے بستر پر پیدا ہو، اور زانی کے لئے پتھر (سنگسار کرنا) ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 360]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 6749، من حديث مالك به ورواه مسلم 1457 من حديث ابن شهاب الزهري به]

تفقه:
➊ ایک آدمی کی ایک عورت سے شادی ہوئی پھر اس کے (نو مہینے) بعد اس عورت کا بچہ یا بچی پیدا ہوئی۔ یہ بچہ یا بچی اس آدمی کے بستر پر پیدا ہوئی ہے لہٰذا اس حدیث کی رو سے ثابت ہوا کہ یہ اسی آدمی کا بچہ یا بچی ہے الا یہ کہ باپ اس کا انکار کر دے یا کوئی شرعی قرینہ پایا جائے۔
● بعض لوگ کہتے ہیں کہ فلاں شخص فلاں آدمی کا بیٹا ہے، اس کا ثبوت تقلید کرنے سے ہی ملتا ہے۔‏‏‏‏ ان لوگوں کا یہ قول باطل ہے کیونکہ بیٹے یا بیٹی کا ثبوت اس صحیح حدیث (اور دوسری احادیث) سے ملتا ہے۔ جب نکاح ثابت ہو جائے تو اولاد خود بخود ثابت ہو جاتی ہے جو اس نکاح کے بعد باپ کے بستر پر پیدا ہوئی ہے۔ باپ کے بستر سے مراد یہ ہے کہ وہ فلاں عورت کا شوہر ہے۔
➋ احتیاط کرنا اور مشتبہ اشیاء سے بچنا افضل ہے۔ نبی کریم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے: «دَعْ مَا يَرِيبُكَ إِلَى مَا لَا يَرِيبُكَ» جس چیز کے بارے میں تمہیں شک و شبہ ہو تو اسے چھوڑ دو اور جس چیز کے بارے میں شک و شبہ نہ ہو (یقین ہو) اسے لے لو۔ [سنن الترمذي: 2518 وسنده صحيح، وقال الترمذي: هٰذا حديث صحيح و صححه ابن خزيمة: 2348 وابن حبان، الموارد:512 والحاكم 13/2 والذهبي]
➌ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں امہات المومنین اور صحابہ کرام ہر وقت پیش پیش اور مستعد رہتے تھے۔ رضی اللہ عنہم اجمعین
➍ بغیر کسی شری قرینے کے تمام نصوص شرعیہ کے ظاہر پر عمل ہو گا۔
➎ زنا کی سزا رجم (سنگسار / پتھر مار مار کر مار دینا) ہے بشرطیکہ زنا کرنے والا شادی شدہ ہو۔ «الوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ» والی حدیث متواتر ہے۔ دیکھئے: [قطف الازهار المتناثره فى الاخبار المتواتره 82 و نظم المتناثر من الحديث المتواتر 181]
● اسی طرح یہ بھی متواتر ہے کہ ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کو زنا کی وجہ سے سنگسار کیا گیا تھا۔ دیکھئے: [قطف الازهار 83 ولفظ الآلي المتناثره فى الأحاديث المتواتره 47 ونظم المتناثر 182]
◄ ان کے علاوہ اور بھی بہت سی احادیث ہیں لہٰذا ثابت ہوا کہ شادی شدہ زانی کو سزائے رجم دینا متواتر، قطعی اور یقینی احادیث سے ثابت ہے۔ بعض منکرین حدیث کا سزائے رجم کا انکار کرنا باطل اور مردود ہے۔ نیز دیکھئے: [الموطأ حديث: 54، البخاري: 6633, 6634]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 41   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2004  
´بچے کا حقدار بستر والا (شوہر) ہے اور پتھر کا مستحق زانی۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ عبد بن زمعہ اور سعد رضی اللہ عنہما دونوں زمعہ کی لونڈی کے بچے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جھگڑا لے گئے، سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! میرے بھائی (عتبہ بن ابی وقاص) نے مجھے وصیت کی ہے کہ جب میں مکہ جاؤں تو زمعہ کی لونڈی کے بچے کو دیکھوں، اور اس کو لے لوں، اور عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ میرا بھائی اور میرے باپ کی لونڈی کا بیٹا ہے، میرے باپ کے بستر پہ پیدا ہوا ہے، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچہ کی مشابہت عتبہ سے پائی تو فرمایا: عبد۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 2004]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
دور جاہلیت میں کسی کی لونڈی سے ناجائز تعلق قائم کرنا برا نہیں سمجھا جاتا تھا۔
اسلام میں صرف اپنی بیوی اور اپنی مملوکہ سے صنفی تعلق قائم کیا جاسکتا ہے۔
باقی ہر قسم کا صنفی تعلق قابل سزا جرم ہے۔ (دیکھئے: سورۃ مومنون، آیت: 5، 6، 7)
جس طرح بیوی سے پیدا ہونے والا لڑکا مرد کا بیٹا ہوتا ہے، اسی طرح اپنی مملوکہ لونڈی سے پیدا ہونے والا لڑکا بھی مرد کا آزاد بیٹا ہوتاہے، غلام نہیں۔

(3)
جاہلیت میں ناجائز تعلقات کے نتیجے میں پیدا ہونے والا بچہ اسی شخص کا بیٹا سمجھا جاتا تھا جس کے تعلقات کے نتیجے میں وہ پیدا ہوا۔
جاہلیت کے اسی رواج کے مطابق حضرت سعد بن ابی وقاص، زمعہ کی لونڈی سے پیدا ہونےوالے بچے کو اپنے بھا ئی کا بچہ قرار دیتے ہوئے اسے اپنی کفالت میں رکھنا چاہتے تھے۔

(4)
حضرت عبد بن زمعہ کا موقف یہ تھا کہ وہ بچہ قانونی طور پر ان کا بھائی ہے کیونکہ ان کے والد کی لونڈی کا بیٹا ہے، قطع نظر اس کے کہ اس کا حقیقی باپ کوئی بھی ہو۔

(5)
  بچے کی ظاہری شکل و شباہت سے یہی ثابت ہورہا تھا کہ وہ حضرت سعد کے بھائی سے پیدا ہوا ہے لیکن قانونی طور پر وہ حضرت عبد بن زمعہ کا بھائی قرار پایا۔

(6)
چونکہ واضح ہورہاتھا کہ وہ لڑکا حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کا قانونی بھائی ہونے کے باوجود اصل میں بھائی نہیں، اس لیے رسول اللہﷺ نے ام المومنین حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کو اس سے پردہ کرنے کا حکم دیا۔

(7)
  بعض اوقات ایک مسئلے کے دو پہلو ہوتے ہیں جس کی وجہ سے اس کے دو مختلف حکم مرتب ہوتےہیں۔
ایک معاملے میں ایک پہلو کو ترجیح دی جاتی ہے اور دوسرے معاملے میں دوسرے پہلو کو، جیسے اس لڑکے کو زمعہ کا بیٹا قرار دیے جانے کے باوجود اس کی بہن حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کو اس سے پردہ کرنے کا حکم دیا گیا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2004   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2273  
´بچہ صاحب فراش کا ہو گا (یعنی جس کی بیوی یا لونڈی ہو گی بچہ اسی کو ملے گا)۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سعد بن ابی وقاص اور عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہما دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں زمعہ کی لونڈی کے بیٹے کا جھگڑا لے آئے، سعد رضی اللہ عنہ کہنے لگے: میرے بھائی عتبہ نے مجھے وصیت کی تھی کہ جب میں مکہ جاؤں تو زمعہ کی لونڈی کے بچے کو دیکھوں تو اس کو لے لوں کیونکہ وہ انہیں کا بیٹا ہے، اور عبد بن زمعہ رضی اللہ عنہ کہنے لگے: یہ میرا بھائی ہے کیونکہ میرے والد کی لونڈی کا بیٹا ہے، اور میرے والد کے بستر پر اس کی ولادت ہوئی ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2273]
فوائد ومسائل:

چونکہ یہ معاملات جاہلیت کے تھے اور وہ لوگ اس انداز کے اعمال میں ملوث تھے تو ان بچوں سے بھی کوئی عار نہ سمجھتے تھے مگر اسلام نے یہ قائدہ قانون دیا ہے۔
کہ بچہ بستر والے کا ہوتا ہے۔
مذکورہ واقعہ میں بچے کی شکل سے نمایاں تھا کہ یہ ولد الزنا ہےاور عتبہ کا لڑکا ہے مگر قاعدہ اور اصول کو ترجیح دی گئی اور اسے صاحب فراش کے ساتھ ملحق کردیا گیا۔
قانونئ اعتبار سے یہ اگرچہ حضرت سودہ کا بھائی بنا مگر دعوی اور شکل وصورت زانی کے ساتھ ملتی تھی اس لیے اس کا نسب مشتبہ ٹھرا۔
تو نبی ﷺ نے حضرت سودہ رضی اللہ عنہ کو پردے کا حکم دیا کیونکہ اس کا بھائی ہونا مشکوک تھا۔
اگرچہ قاعدے کی رو سے ان کے خاندان کا فرد بنا دیا گیا تھا۔


(وللعاهرِ الحجرُ) کا ایک ترجمہ زانی کے لیے محرومی ہے اس صورت میں جیم پر زبر کے بجائے سکون یعنی جزم آئے گی۔
مطلب دونوں صورتوں میں یہی ہوگا کہ اولاد کا مستحق زانی نہیں ہوگا بلکہ اس کے حصے میں سزا آئے گی۔
حد رجم یا سو کوڑے اور بچے سے وہ محروم ہی رہے گا۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2273   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6765  
6765. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے فرمایا: سعد بن ابی وقاص اور عبدبن زمعہ ؓ کا ایک لڑکے کے متعلق جھگڑا ہوا۔ سعد ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! یہ لڑکا میرے بھائی عتبہ بن ابی وقاص کا بیٹا ہے۔ اس نے مجھے وصیت کی تھی وہ اس کا بیٹا ہے۔ اس نے مجھے وصیت کی تھی کہ وہ اس کا بیٹا ہے۔ آپ اس کی شکل و صورت پر نظر فرمائیں۔ عبد بن زمعہ ؓ نے کہا: اللہ کے رسول! یہ میرا بھائی ہے۔ میرے والد کے بستر پر ان کی لونڈی سے پیدا ہوا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے لڑکے کی شکل وصورت دیکھی تو اس کی عتبہ سے واضح طور پر مشابہت تھی، چنانچہ آپ نے فرمایا: اے عبد بن زمعہ! یہ لڑکا آپ کے لیے ہے کیونکہ بچہ بستر والے کا ہوتا ہے اور زانی کے لیے پتھر ہیں۔ اور اسے سودہ بنت زمعہ! تم اس لڑکے سے پردہ کرو۔ چنانچہ پھر اس لڑکے نے حضرت سودہ ؓ کو نہیں دیکھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6765]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے اس لڑکے کے متعلق اپنا بھتیجا ہونے کا دعویٰ کیا جبکہ عبد بن زمعہ نے اس کے متعلق اپنے بھائی ہونے کا دعویٰ کیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فراش کو بنیاد بنا کر اس بیٹے کا الحاق عبد بن زمعہ سے کر دیا اور واضح مشابہت کی وجہ سے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کو اس سے پردہ کرنے کا حکم دیا۔
(2)
بہرحال دعویٰ کرنے سے نسب ثابت نہیں ہوتا، چنانچہ جب کوئی شخص فوت ہو جائے اور ایک بیٹا چھوڑ جائے اور اس کا کوئی دوسرا وارث نہ ہو، پھر بیٹا کسی کے متعلق اقرار کرے کہ فلاں اس کا بھائی ہے تو امام مالک رحمہ اللہ اور اہل کوفہ کے نزدیک اس اقرار سے اس کا نسب ثابت نہیں ہوگا اور نہ اسے وراثت سے حصہ ہی دیا جائے گا۔
امام شافعی رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ بیٹا اپنے والد کے قائم مقام ہے، لہٰذا اس کا اقرار ایسا ہے جیسے میت نے زندگی میں اس کا اقرار کیا تھا لیکن پہلا موقف زیادہ قرین قیاس ہے کیونکہ کسی کو اپنا بھائی کہنا باپ کی طرف اس کے بیٹا ہونے کی نسبت کرنا ہے، حالانکہ غیر کی طرف کسی کو منسوب کرنا جائز نہیں۔
ہاں اس کے قرائن موجود ہوں تو دوسری بات ہے۔
اس صورت میں کوئی قرینہ نہیں ہے جس کی بنا پر بھائی کے اقرار سے کسی کو باپ کا بیٹا ثابت کر دیا جائے۔
(عمدة القاري: 47/16)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 6765   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.