الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مضبوطی سے تھامے رہنا
The Book of Holding Fast To The Qur’An and The Sunna
5. بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ التَّعَمُّقِ وَالتَّنَازُعِ فِي الْعِلْمِ وَالْغُلُوِّ فِي الدِّينِ وَالْبِدَعِ:
5. باب: کسی امر میں تشدد اور سختی کرنا۔
(5) Chapter. What is disliked of going deeply into and arguing about (religious) knowledge, and exaggerating in matter of religion, and of inventing heresies.
حدیث نمبر: 7304
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا آدم، حدثنا محمد بن عبد الرحمن بن ابي ذئب، حدثنا الزهري، عن سهل بن سعد الساعدي، قال: جاء عويمر العجلاني إلىعاصم بن عدي، فقال: ارايت رجلا وجد مع امراته رجلا فيقتله اتقتلونه به؟ سل لي يا عاصم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فساله؟ فكره النبي صلى الله عليه وسلم المسائل وعابها، فرجع عاصم، فاخبره ان النبي صلى الله عليه وسلم: كره المسائل، فقال عويمر: والله لآتين النبي صلى الله عليه وسلم، فجاء وقد انزل الله تعالى القرآن خلف عاصم، فقال له: قد انزل الله فيكم قرآنا، فدعا بهما، فتقدما فتلاعنا، ثم قال عويمر: كذبت عليها يا رسول الله إن امسكتها، ففارقها، ولم يامره النبي صلى الله عليه وسلم بفراقها، فجرت السنة في المتلاعنين، وقال النبي صلى الله عليه وسلم:" انظروها فإن جاءت به احمر قصيرا مثل وحرة، فلا اراه إلا قد كذب، وإن جاءت به اسحم اعين ذا اليتين، فلا احسب إلا قد صدق عليها، فجاءت به على الامر المكروه".(مرفوع) حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي ذِئْبٍ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ، قَالَ: جَاءَ عُوَيْمِرٌ الْعَجْلَانِيُّ إِلَىعَاصِمِ بْنِ عَدِيٍّ، فَقَالَ: أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا فَيَقْتُلُهُ أَتَقْتُلُونَهُ بِهِ؟ سَلْ لِي يَا عَاصِمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَهُ؟ فَكَرِهَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسَائِلَ وَعَابَهَا، فَرَجَعَ عَاصِمٌ، فَأَخْبَرَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَرِهَ الْمَسَائِلَ، فَقَالَ عُوَيْمِرٌ: وَاللَّهِ لَآتِيَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ وَقَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى الْقُرْآنَ خَلْفَ عَاصِمٍ، فَقَالَ لَهُ: قَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ فِيكُمْ قُرْآنًا، فَدَعَا بِهِمَا، فَتَقَدَّمَا فَتَلَاعَنَا، ثُمَّ قَالَ عُوَيْمِرٌ: كَذَبْتُ عَلَيْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ أَمْسَكْتُهَا، فَفَارَقَهَا، وَلَمْ يَأْمُرْهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِفِرَاقِهَا، فَجَرَتِ السُّنَّةُ فِي الْمُتَلَاعِنَيْنِ، وَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" انْظُرُوهَا فَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَحْمَرَ قَصِيرًا مِثْلَ وَحَرَةٍ، فَلَا أُرَاهُ إِلَّا قَدْ كَذَبَ، وَإِنْ جَاءَتْ بِهِ أَسْحَمَ أَعْيَنَ ذَا أَلْيَتَيْنِ، فَلَا أَحْسِبُ إِلَّا قَدْ صَدَقَ عَلَيْهَا، فَجَاءَتْ بِهِ عَلَى الْأَمْرِ الْمَكْرُوهِ".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ابی ذئب نے کہا، ہم سے زہری نے، ان سے سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ عویمر عجلانی، عاصم بن عدی کے پاس آیا اور کہا اس شخص کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی دوسرے مرد کو پائے اور اسے قتل کر دے، کیا آپ لوگ مقتول کے بدلہ میں اسے قتل کر دیں گے؟ عاصم! میرے لیے آپ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھ دیجئیے۔ چنانچہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا لیکن آپ نے اس طرح کے سوال کو ناپسند کیا اور معیوب جانا۔ عاصم رضی اللہ عنہ نے واپس آ کر انہیں بتایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کے سوال کو ناپسند کیا ہے۔ اس پر عویمر رضی اللہ عنہ بولے کہ واللہ! میں خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤں گا خیر عویمر آپ کے پاس آئے اور عاصم کے لوٹ جانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کی آیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا کہ تمہارے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن نازل کیا ہے، پھر آپ نے دونوں (میاں بیوی) کو بلایا۔ دونوں آگے بڑھے اور لعان کیا۔ پھر عویمر نے کہا کہ یا رسول اللہ! اگر میں اسے اب بھی اپنے پاس رکھتا ہوں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں جھوٹا ہوں چنانچہ اس نے فوری اپنی بیوی کو جدا کر دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جدا کرنے کا حکم نہیں دیا تھا۔ پھر لعان کرنے والوں میں یہی طریقہ رائج ہو گیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دیکھتے رہو اس کا بچہ لال لال پست قد بامنی کی طرح کا پیدا ہو تو میں سمجھتا ہوں کہ وہ عویمر ہی کا بچہ ہے۔ عویمر نے عورت پر جھوٹا طوفان باندھا اور اور اگر سانولے رنگ کا بڑی آنکھ والا بڑے بڑے چوتڑ والا پیدا ہو، جب میں سمجھوں گا کہ عویمر سچا ہے پھر اس عورت کا بچہ اس مکروہ صورت کا یعنی جس مرد سے وہ بدنام ہوئی تھی، اسی صورت کا پیدا ہوا۔

Narrated Sahl bin Sa`d As-Sa`idi: 'Uwaimir Al-`Ajlani came to `Asim bin `Adi and said, "If a man found another man with his wife and killed him, would you sentence the husband to death (in Qisas,) i.e., equality in punishment)? O `Asim! Please ask Allah's Apostle about this matter on my behalf." `Asim asked the Prophet but the Prophet disliked the question and disapproved of it. `Asim returned and informed 'Uwaimir that the Prophet disliked that type of question. 'Uwaimir said, "By Allah, I will go (personally) to the Prophet." 'Uwaimir came to the Prophet when Allah had already revealed Qur'anic Verses (in that respect), after `Asim had left (the Prophet ). So the Prophet said to 'Uwaimir, "Allah has revealed Qur'anic Verses regarding you and your wife." The Prophet then called for them, and they came and carried out the order of Lian. Then 'Uwaimir said, "O Allah's Apostle! Now if I kept her with me, I would be accused of telling a lie." So 'Uwaimir divorced her although the Prophet did not order him to do so. Later on this practice of divorcing became the tradition of couples involved in a case of Li'an. The Prophet said (to the people). "Wait for her! If she delivers a red short (small) child like a Wahra (a short red animal). then I will be of the opinion that he ('Uwaimir) has told a lie but if she delivered a black big-eyed one with big buttocks, then I will be of the opinion that he has told the truth about her." 'Ultimately she gave birth to a child that proved the accusation. (See Hadith No. 269, Vol. 6)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 92, Number 407


   صحيح البخاري4745سهل بن سعدأنزل الله القرآن فيك وفي صاحبتك أمرهما رسول الله بالملاعنة بما سمى الله في كتابه فلاعنها ثم قال يا رسول الله إن حبستها فقد ظلمتها طلقها فكانت سنة لمن كان بعدهما في المتلاعنين ثم قال رسول الله انظروا فإن جاءت به
   صحيح البخاري4746سهل بن سعدقضي فيك وفي امرأتك
   صحيح البخاري5259سهل بن سعدأنزل الله فيك وفي صاحبتك فاذهب فأت بها قال سهل فتلاعنا وأنا مع الناس عند رسول الله فلما فرغا قال عويمر كذبت عليها يا رسول الله إن أمسكتها طلقها ثلاثا قبل أن يأمره رسول الله
   صحيح البخاري7304سهل بن سعدانظروها فإن جاءت به أحمر قصيرا مثل وحرة فلا أراه إلا قد كذب وإن جاءت به أسحم أعين ذا أليتين فلا أحسب إلا قد صدق عليها فجاءت به على الأمر المكروه
   صحيح البخاري5308سهل بن سعدأنزل فيك وفي صاحبتك فاذهب فأت بها قال سهل فتلاعنا وأنا مع الناس عند رسول الله فلما فرغا من تلاعنهما قال عويمر كذبت عليها يا رسول الله إن أمسكتها طلقها ثلاثا قبل أن يأمره رسول الله
   صحيح البخاري5309سهل بن سعدقضى الله فيك وفي امرأتك قال فتلاعنا في المسجد وأنا شاهد فلما فرغا قال كذبت عليها يا رسول الله إن أمسكتها طلقها ثلاثا قبل أن يأمره رسول الله حين فرغا من التلاعن فارقها عند النبي فقال ذاك تفريق بين كل متلاعنين
   صحيح مسلم3743سهل بن سعدنزل فيك وفي صاحبتك فاذهب فأت بها قال عويمر كذبت عليها يا رسول الله إن أمسكتها طلقها ثلاثا قبل أن يأمره رسول الله قال ابن شهاب فكانت سنة المتلاعنين
   سنن أبي داود2245سهل بن سعدأنزل فيك وفي صاحبتك قرآن فاذهب فأت بها قال سهل فتلاعنا وأنا مع الناس عند رسول الله فلما فرغا قال عويمر كذبت عليها يا رسول الله إن أمسكتها طلقها عويمر ثلاثا قبل أن يأمره النبي فكانت تلك سنة المتلاعنين
   سنن أبي داود2251سهل بن سعدفرق بينهما رسول الله حين تلاعنا
   سنن أبي داود2248سهل بن سعدأبصروها فإن جاءت به أدعج العينين عظيم الأليتين فلا أراه إلا قد صدق
   سنن النسائى الصغرى3496سهل بن سعدأنزل الله فيك وفي صاحبتك فأت بها فجاء بها فتلاعنا فقال يا رسول الله والله لئن أمسكتها لقد كذبت عليها فارقها قبل أن يأمره رسول الله بفراقها فصارت سنة المتلاعنين
   سنن النسائى الصغرى3431سهل بن سعدنزل فيك وفي صاحبتك فاذهب فأت بها فلما فرغ عويمر قال كذبت عليها يا رسول الله إن أمسكتها طلقها ثلاثا قبل أن يأمره رسول الله
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم536سهل بن سعدانزل فيك وفي صاحبتك فاذهب فات بها
   بلوغ المرام940سهل بن سعدكذبت عليها يا رسول الله إن امسكتها فطلقها ثلاثا قبل ان يامره

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 536  
´غیر واقع شدہ یعنی فرضی مسائل پوچھنے سے اجتناب کرنا `
«. . . ان عويمرا العجلاني جاء إلى عاصم بن عدي الانصاري، فقال له: ارايت يا عاصم لو ان رجلا وجد مع امراته رجلا ايقتله فتقتلونه ام كيف يفعل؟ . . .»
۔۔۔عویمر العجلانی رضی اللہ عنہ عاصم بن عدی الانصاری رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے کہا: اے عاصم! آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر کوئی آدمی اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو دیکھے؟ کیا وہ اسے قتل کر دے، تو آپ اس (قاتل) کو قتل کر دیں گے؟ یا وہ کیا کرے؟۔۔۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 536]

تخریج الحدیث:
[الموطأ رواية يحييٰ بن يحييٰ 566/2، 567 ح 1232، ك 29 ب 13، ح 34، التمهيد 183/6 - 185، الاستذكار: 1152 ● أخرجه البخاري 5259، ومسلم 1492، من حديث مالك به]
تفقہ:
شریعت میں لعان یہ ہے کہ خاوند چار دفعہ یہ قسم کھائے کہ میں اپنی بیوی کی طرف زنا کی نسبت کرنے یعنی اسے زنا سے متہم کرنے میں سچا ہوں اور پانچویں قسم یہ ہو کہ وہ کہے اگر وہ اپنے اس دعوے میں جھوٹا ہو تو وہ خدا کی لعنت کا مستحق ہو، پھر بیوی چار دفعہ خاوند کے جھوٹا ہونے پر قسم کھائے اور اس کی پانچویں قسم یہ ہو کہ اگر وہ سچا ہو تو وہ (بیوی) خدا کے غضب کی مستحق ہو یہ کہنے پر وہ حد زنا سے بری ہو جائے گی۔ [القاموس الوحيد ص 1478]
➋ لعان کا حکم قرآن مجید میں سورۃ النور میں نازل ہوا ہے۔ ديكهئے: [آيت: 6، 7]
➌ اس حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ لعان کے بعد خاوند بیوی میں خود بخود تفرقہ یعنی جدائی نہیں ہوتی بلکہ طلاق کے بعد جدائی ہوتی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «باب اللعان و من طلق بعد اللعان» لعان کا باب اور جو شخص لعان کے بعد طلاق دے۔ [كتاب الطلاق باب: 29 قبل ح 5308]
➍ واقع شدہ مسئلہ پوچھنے میں شرمانا نہیں چاہئے اور غیر واقع شدہ یعنی فرضی مسائل پوچھنے سے ہمیشہ اجتناب کرنا چاہئے۔
➎ لعان کے بعد شرعی ثبوت کے بغیر فریقین پر حد جاری نہیں ہو گی۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 6   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 940  
´لعان کا بیان`
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے لعان کرنے والوں کے قصہ میں مروی ہے کہ جب دونوں لعان سے فارغ ہو گئے تو مرد بولا اے اللہ کے رسول! اور اگر میں اب اسے روک لوں گویا میں نے اس پر جھوٹا الزام لگایا ہے پھر اس نے اس سے پہلے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے حکم ارشاد فرماتے، تین طلاقیں دے دیں۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 940»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الطلاق، باب اللعان، حديث:5308، ومسلم، اللعان، حديث:1492.»
تشریح:
اس مرد نے اپنی لعان شدہ بیوی کو تین طلاقیں اس لیے دیں کہ اسے علم نہیں تھا کہ لعان بذات خود ہمیشہ کی جدائی کا موجب ہے‘ چنانچہ اس نے بیوی کو بذریعۂ طلاق ہی حرام کرنا چاہا‘ لہٰذا طلاق لغو ہوئی‘ کیونکہ طلاق اپنے مقام پر واقع ہی نہیں ہوئی۔
اگر ہم کہیں کہ جدائی محض لعان سے ہو جاتی ہے تو یہ ظاہر بات ہے، اور اگر کہیں کہ جدائی حاکم (اور عدالت) کے ذریعے سے واقع ہوتی ہے تو پھر یہ تو طے شدہ بات ہے کہ لعان کے بعد نکاح کے باقی رہنے کا کوئی امکان رہتا ہے نہ اس کے ہمیشہ رہنے کی کوئی سبیل ہی‘ بلکہ اس نکاح کو ختم کرنا اور عورت کو اس مرد پر ہمیشہ کے لیے حرام قرار دینا واجب ہوتا ہے‘ پس اس سے ثابت ہوا کہ تین طلاقیں محض مقصد لعان کو مؤکد کرنے کے لیے تھیں‘ اس لیے ایسے نکاح‘ جسے ہمیشہ کے لیے ختم کرنا مقصود ہوتا ہے‘ میں بیک وقت تین طلاقیں نافذ کرنے سے یہ ہر گز لازم نہیں آتا کہ جس نکاح کی بقا اور دوام مطلوب ہے اس میں بھی ایسا کرنا درست اور جائز ہے‘ لہٰذا ان لوگوں کا استدلال باطل ہوا جو یہ کہتے ہیں کہ اس حدیث میں بیک وقت تین طلاقیں دینے اور ان کے واقع ہو جانے کا جواز موجود ہے۔
اور جب یہ طلاق غیرت و حمیت کی بنا پر دی گئی جبکہ ایسے موقع پر اس کا اظہار مطلوب بھی ہے اور قابل ستائش و تعریف بھی ‘ تو نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طلاق کے لغو ہونے کی اطلاع دینے کے لیے صرف لَا سَبِیلَ لَکَ عَلَیْھَا تیرا اس عورت پر کوئی حق نہیں کہنے پر اکتفا فرمایا جیسا کہ مسلم (۱۴۹۳)میں ہے۔
اس کا مطلب یہ تھا کہ اب تیرا اس عورت پر کوئی حق باقی نہیں رہا‘ لہٰذا تیری طلاق واقع نہیں ہوگی بلکہ لغو ٹھہرے گی‘ اسی لیے آپ اس پر ناراض و غضبناک نہیں ہوئے جس طرح اس شخص پر ہوئے تھے جس کا قصہ محمود بن لبید نے بیان کیا ہے جو کہ طلاق کے باب میں (حدیث:۹۱۸ کے تحت) گزر چکا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 940   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2245  
´لعان کا بیان۔`
سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عویمر بن اشقر عجلانی، عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ سے آ کر کہنے لگے: عاصم! ذرا بتاؤ، اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس کسی (اجنبی) شخص کو پا لے تو کیا وہ اسے قتل کر دے پھر اس کے بدلے میں تم اسے بھی قتل کر دو گے، یا وہ کیا کرے؟ میرے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھو، چنانچہ عاصم رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلہ میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بغیر ضرورت) اس طرح کے سوالات کو ناپسند فرمایا اور اس کی اس قدر برائی کی کہ عاصم رضی اللہ عنہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات گراں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2245]
فوائد ومسائل:
حضرت عويمر رضي الله عنه کا طلاق دینا گیرت اور غضب کی بناء پر تھا نہ کہ رسول اللہ ﷺ کے فرمان سے۔
(اس مسئلے کی وضاحت آگے حدیث نمبر 2250کے فائدے میں آرہی ہے۔
)

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2245   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7304  
7304. سیدنا سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے،انہوں نے کہا: سیدنا عویمر عجلانی ؓ سیدنا عاصم بن عدی ؓ کے پاس آئے اور کہا: اس شخص کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ مرد کو پائے اور اس سے قتل کر دیں گے؟ اے عاصم! آپ رسول اللہ ﷺ سے میرے لیے یہ مسلہ دریافت کریں۔ انہوں نے آپ ﷺ سے اس کے متعلق پوچھا تو نبی ﷺ نے اس طرح کے سوالات کو ناپسند فرمایا اور معیوب خیال کیا۔ سیدنا عاصم ؓ نے واپس آکر انہیں بتایا کہ نبی ﷺ نے اس طرح کے سوالات کو ناپسند فرمایا ہے۔ سیدنا عویمر ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! میں خود نبی ﷺ کے پاس جاتا ہوں۔ پھر وہ آئے جبکہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا عاصم ؓ کے واپس جانے کے بعد قرآن کی آیات آپ پر نازل کر دی تھیں۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: تمہارے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن نازل کیا ہے۔ پھر آپ نے دونوں (میاں بیوی) کو بلایا۔ وہ دونوں آئے اور لعان کیا۔ پھر عویمر نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7304]
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے سولات کو برا جانا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 7304   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7304  
7304. سیدنا سہل بن سعد ؓ سے روایت ہے،انہوں نے کہا: سیدنا عویمر عجلانی ؓ سیدنا عاصم بن عدی ؓ کے پاس آئے اور کہا: اس شخص کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ مرد کو پائے اور اس سے قتل کر دیں گے؟ اے عاصم! آپ رسول اللہ ﷺ سے میرے لیے یہ مسلہ دریافت کریں۔ انہوں نے آپ ﷺ سے اس کے متعلق پوچھا تو نبی ﷺ نے اس طرح کے سوالات کو ناپسند فرمایا اور معیوب خیال کیا۔ سیدنا عاصم ؓ نے واپس آکر انہیں بتایا کہ نبی ﷺ نے اس طرح کے سوالات کو ناپسند فرمایا ہے۔ سیدنا عویمر ؓ نے کہا: اللہ کی قسم! میں خود نبی ﷺ کے پاس جاتا ہوں۔ پھر وہ آئے جبکہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا عاصم ؓ کے واپس جانے کے بعد قرآن کی آیات آپ پر نازل کر دی تھیں۔ آپ ﷺ نے ان سے فرمایا: تمہارے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن نازل کیا ہے۔ پھر آپ نے دونوں (میاں بیوی) کو بلایا۔ وہ دونوں آئے اور لعان کیا۔ پھر عویمر نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:7304]
حدیث حاشیہ:

اس طرح کا ایک واقعہ حضرت ہلال بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیش آیا جب انھوں نے اپنی بیوی کو شریک بن سحماء سے متہم کیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ہلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےفرمایا:
گواہ لاؤ بصورت دیگر تمھاری پشت پر حد قذف لگے گی۔
آخر کار ان کے درمیان لعان ہوا۔
لعان کی تفصیل سورہ نور آیت 6 تا 9۔
میں بیان ہوئی ہے 2۔
لعان کے بعد مرد طلاق دے یا نہ دے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہمیشہ کے لیے جدائی خود بخود عمل میں آ جاتی ہے۔
مرد اپنی بیوی سے حق مہر یا دیگر اخراجات کی واپسی کا مطالبہ نہیں کر سکتا۔
لعان کے بعد دوران عدت میں عورت کا نان ونفقہ یا رہائش وغیرہ مرد کے ذمے نہیں ہوتی۔
پیدا ہونے والا بچہ ماں کی طرف منسوب ہو گا اور وہی اس کا وارث ہو گا۔
چنانچہ اس قسم کے مسائل اور سوالات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند فرمایا:
اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسے بیان کیا ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 7304   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.