الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں («صفة الصلوة»)
The Book of Adhan (Sufa-tus-Salat)
103. بَابُ يُطَوِّلُ فِي الأُولَيَيْنِ وَيَحْذِفُ فِي الأُخْرَيَيْنِ:
103. باب: عشاء کی پہلی دو رکعات لمبی اور آخری دو رکعات مختصر کرنی چاہئیں۔
(103) Chapter. Prolonging the first two Raka and shortening the last two.
حدیث نمبر: 770
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا سليمان بن حرب، قال: حدثنا شعبة، عن ابي عون، قال: سمعت جابر بن سمرة، قال: قال عمر لسعد: لقد شكوك في كل شيء حتى الصلاة، قال:" اما انا فامد في الاوليين واحذف في الاخريين، ولا آلو ما اقتديت به من صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: صدقت ذاك الظن بك او ظني بك".(مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي عَوْنٍ، قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ سَمُرَةَ، قَالَ: قَالَ عُمَر لِسَعْدٍ: لَقَدْ شَكَوْكَ فِي كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى الصَّلَاةِ، قَالَ:" أَمَّا أَنَا فَأَمُدُّ فِي الْأُولَيَيْنِ وَأَحْذِفُ فِي الْأُخْرَيَيْنِ، وَلَا آلُو مَا اقْتَدَيْتُ بِهِ مِنْ صَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: صَدَقْتَ ذَاكَ الظَّنُّ بِكَ أَوْ ظَنِّي بِكَ".
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے ابوعون محمد بن عبداللہ ثقفی سے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے جابر بن سمرہ سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ امیرالمؤمنین عمر رضی اللہ عنہ نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ کی شکایت کوفہ والوں نے تمام ہی باتوں میں کی ہے، یہاں تک کہ نماز میں بھی۔ انہوں نے کہا کہ میرا عمل تو یہ ہے کہ پہلی دو رکعات میں قرآت لمبی کرتا ہوں اور دوسری دو میں مختصر جس طرح میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی تھی اس میں کسی قسم کی کمی نہیں کرتا۔ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ سچ کہتے ہو۔ تم سے امید بھی اسی کی ہے۔

Narrated Jabir bin Samura: `Umar said to Sa`d, "The people complained against you in everything, even in prayer." Sa`d replied, "Really I used to prolong the first two rak`at and shorten the last two and I will never shorten the prayer in which I follow Allah's Apostle." `Umar said, "You are telling the truth and that is what I think a tout you."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 12, Number 737


   صحيح البخاري770جابر بن سمرةأمد في الأوليين وأحذف في الأخريين
   صحيح البخاري758جابر بن سمرةأركد في الأوليين وأحذف في الأخريين
   صحيح البخاري755جابر بن سمرةأركد في الأوليين وأخف في الأخريين
   صحيح مسلم1016جابر بن سمرةأركد بهم في الأوليين وأحذف في الأخريين
   صحيح مسلم1018جابر بن سمرةأمد في الأوليين وأحذف في الأخريين
   سنن أبي داود803جابر بن سمرةأمد في الأوليين وأحذف في الأخريين
   سنن النسائى الصغرى1004جابر بن سمرةأركد في الأوليين وأحذف في الأخريين
   مسندالحميدي72جابر بن سمرةأما والله ما كنت آلو بهم صلاة رسول الله صلى الله عليه وسلم في الظهر والعصر أركد في الأوليين وأحذف في الأخريين

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 755  
´امام اور مقتدی کے لیے قرآت کا واجب ہونا`
«. . . شَكَا أَهْلُ الْكُوفَةِ سَعْدًا إِلَى عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَعَزَلَهُ وَاسْتَعْمَلَ عَلَيْهِمْ عَمَّارًا فَشَكَوْا حَتَّى ذَكَرُوا أَنَّهُ لَا يُحْسِنُ يُصَلِّي، فَأَرْسَلَ إِلَيْهِ، فَقَالَ: يَا أَبَا إِسْحَاقَ، إِنَّ هَؤُلَاءِ يَزْعُمُونَ أَنَّكَ لَا تُحْسِنُ تُصَلِّي، قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ: أَمَّا أَنَا وَاللَّهِ فَإِنِّي كُنْتُ أُصَلِّي بِهِمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ . . .»
. . . اہل کوفہ نے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے شکایت کی۔ اس لیے عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو مغزول کر کے عمار رضی اللہ عنہ کو کوفہ کا حاکم بنایا، تو کوفہ والوں نے سعد کے متعلق یہاں تک کہہ دیا کہ وہ تو اچھی طرح نماز بھی نہیں پڑھا سکتے۔ چنانچہ عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو بلا بھیجا۔ آپ نے ان سے پوچھا کہ اے ابواسحاق! ان کوفہ والوں کا خیال ہے کہ تم اچھی طرح نماز نہیں پڑھا سکتے ہو۔ اس پر آپ نے جواب دیا کہ اللہ کی قسم! میں تو انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی طرح نماز پڑھاتا تھا . . . [صحيح البخاري/أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ: 755]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے بڑے دقیق لفظوں سے یہ اشارہ فرمایا کہ سورہ فاتحہ پڑھنا امام، مقتدی، حضر، سفر چاہے جہری نماز ہو یا سری نماز ہو سب میں پڑھنا واجب ہے دلیل کے طور پر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی جو طویل حدیث کا ذکر فرمایا ہے اس میں سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے یہ الفاظ تھے:
➊ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی اور اپنی نماز میں کوتاہی نہیں کرتا میں ان کو اسی طرح نماز پڑھاتا جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم پڑھتے۔
➋ عشاء کی نماز میں پہلی دو رکعتوں کو لمبا کرتا اور بعد کی دو رکعتوں کو ہلکا کرتا۔
یہاں سے باب اور حدیث میں مناسبت کچھ یوں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھاتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء وغیرہ کی نماز میں سورة الفاتحہ پڑھتے اور صحابی سیدنا سعد رضی اللہ عنہ بھی یہی فرماتے ہیں کہ میں وہی کرتا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے یعنی وہ بھی سورة الفاتحہ پڑھتے اور اس کو بھی یاد رکھا جائے کہ عشاء کی نماز جہری ہے جب اس میں سورة الفاتحہ پڑھنا ثابت ہوا تو سری نماز میں سورة الفاتحہ پڑھنا بالاولیٰ ثابت ہو گا، اس کے علاوہ سورة الفاتحہ پڑھنے کے حکم کو سیدنا سعد رضی اللہ عنہ مطلق لے رہے ہیں کہ ہر نماز میں چاہے وہ مقتدی ہو یا امام لہٰذا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔

فائدہ:
➊ مذکورہ بالا حدیث سے امام کا چاروں رکعتوں میں قرأت کرنے کا ثبوت موجود ہے۔
➋ خصوصاً سورۃ الفاتحہ پڑھنے کا چاہے وہ نماز جہری ہو یا سری
➌ کوفہ والوں کی شرارتیں اور بے ایمانی کے معاملات مخفی نہیں۔ صحابی رسول سیدنا سعید رضی اللہ عنہ پر انہوں نے الزامات لگائے جو عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں۔
➍ سعد رضی اللہ عنہ مستجاب الدعوات تھے کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دعا دی تھی:
«اللهم استجب لسعد» [رواه الطبراني بطريق الشعبي]
اے اللہ! سعد جب دعا کرے تو اس کی دعا قبول فرما۔
➎ حضر اور سفر میں قرأت کا کرنا مشروع ہے۔
➏ اگر کسی سردار کی خلیفہ کے پاس شکایت آئے تو اسے معزول کرنا جائز ہے۔
➐ اس حدیث سے تحقیق کرنا بھی ثابت ہوا کیونکہ سعد رضی اللہ عنہ جہاں کے امیر تھے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے وہاں کے لوگوں کو بھیج کر تحقیق کروائی۔
➑ ظالم پر بددعا کرنا بھی جائز ہوا جب کہ اس سے دین میں نقصان ہو۔
اسی باب کے ذیل میں امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک اور حدیث کا ذکر فرمایا:دیکھئیے: حدیث صحیح بخاری [757]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 191   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 803  
´بعد کی دونوں رکعتیں ہلکی پڑھنے کا بیان۔`
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے سعد رضی اللہ عنہ سے کہا: لوگوں (یعنی اہل کوفہ) نے آپ کی ہر چیز میں شکایت کی ہے حتیٰ کہ نماز کے بارے میں بھی، سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: میں پہلی دونوں رکعتیں لمبی کرتا ہوں اور پچھلی دونوں رکعتیں مختصر پڑھتا ہوں، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کے طریقہ نماز کی) پیروی کرنے میں کوتاہی نہیں کرتا اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے آپ سے یہی توقع تھی۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 803]
803۔ اردو حاشیہ:
امام بخاری رحمہ اللہ کا اس حدیث سے استدلال یہ ہے کہ نماز کی ہر رکعت میں قرأت واجب ہے۔ دیکھئے: «باب وجوب القرأت الامام والماموم فى الصلواة كلها . . . الخ» [سنن ابی داود حديث 755]
اس سے پچھلی دو رکعتو ں میں پہلی دو رکعتوں کے مقابلے میں تخفیف کا اثبات ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 803   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 770  
770. حضرت جابر بن سمرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ حضرت عمر ؓ نے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے فرمایا: اہل کوفہ نے آپ کے متعلق ہر معاملہ حتی کہ نماز کے متعلق بھی شکایت کی ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے جواب دیا: میں پہلی دو رکعات میں طوالت اور آخری دو رکعات میں اختصار کرتا ہوں۔ اور جب سے میں نے رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز کی اقتدا کی ہے کبھی اس کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کی۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: آپ نے سچ کہا۔ میرا بھی آپ کے متعلق یہی گمان تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:770]
حدیث حاشیہ:
پہلی دورکعات میں قرات طویل کرنا اوردوسری دورکعات میں مختصرکرنا یعنی صرف سورۃ فاتحہ پر کفایت کرنایہی مسنون طریقہ ہے۔
حضرت عمرؓ نے حضرت سعد ؓ کا بیان سن کر اظہاراطمینان فرمایا مگر کوفہ کے حالات کے پیش نظر حضرت سعدؓ کو وہاں سے بلا لیا۔
جو حضرت عمر ؓ کی کمال دوراندیشی کی دلیل ہے۔
بعض مواقع پر ذمہ داروں کو ایسا اقدام کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 770   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:770  
770. حضرت جابر بن سمرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ حضرت عمر ؓ نے حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے فرمایا: اہل کوفہ نے آپ کے متعلق ہر معاملہ حتی کہ نماز کے متعلق بھی شکایت کی ہے۔ حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ نے جواب دیا: میں پہلی دو رکعات میں طوالت اور آخری دو رکعات میں اختصار کرتا ہوں۔ اور جب سے میں نے رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نماز کی اقتدا کی ہے کبھی اس کی ادائیگی میں کوتاہی نہیں کی۔ حضرت عمر ؓ نے فرمایا: آپ نے سچ کہا۔ میرا بھی آپ کے متعلق یہی گمان تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:770]
حدیث حاشیہ:
(1)
پہلی دو رکعات میں قیام کے وقت سورۂ فاتحہ کے ساتھ دوسری سورت کو بھی ملایا جاتا ہے، اس لیے دوسری دو رکعات کے مقابلے میں پہلی دو رکعات طویل ہوں گی۔
دیگر روایات میں صلاۃ عشاء یا پچھلے وقت کی دو نمازوں (ظہر وعصر)
کے الفاظ ہیں، اس لیے امام بخاری ؒ نے انھی روایات کی طرف اشارہ کرکے اپنے مدعیٰ کو ثابت کیا ہے یا پھر ظہر اور عصر کے ساتھ عشاء کا الحاق کرکے اپنے موقف کو مضبوط کیا ہے، کیونکہ ان تینوں نمازوں کی چار چار رکعات ہوتی ہیں۔
(فتح الباري: 325/2) (2)
حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ صبح اور ظہر وعصر کی پہلی رکعت میں طوالت اختیار کرتے تھے۔
حضرت ابو قتادہ کہتے ہیں:
ہمارے گمان کے مطابق رسول اللہ ﷺ یہ چاہتے تھے کہ لوگوں کو پہلی رکعت مل جائے۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 800،799)
اب بھی لوگوں کے لیے یہ سہولت ہونی چاہیے، یعنی اگر انھیں پہلی رکعت ملنے کی توقع ہوتو پہلی رکعت کو طویل کرنا بہتر ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 770   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.