الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: اذان کے مسائل کے بیان میں («صفة الصلوة»)
The Book of Adhan (Sufa-tus-Salat)
121. بَابُ حَدِّ إِتْمَامِ الرُّكُوعِ وَالاِعْتِدَالِ فِيهِ وَالاِطْمَأْنِينَةِ:
121. باب: رکوع پوری طرح کرنے کی اور اس پر اعتدال و طمانیت کی حد۔
(121) Chapter. And what is said regarding the limit of the completion of bowing and of keeping the back straight and the calmness with which it is performed.
حدیث نمبر: Q792
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقال ابو حميد في اصحابه: ركع النبي صلى الله عليه وسلم، ثم هصر ظهره.وَقَالَ أَبُو حُمَيْدٍ فِي أَصْحَابِهِ: رَكَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ هَصَرَ ظَهْرَهُ.
‏‏‏‏ ابوحمید رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا، پھر اپنی پیٹھ پوری طرح جھکا دی۔

حدیث نمبر: 792
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا بدل بن المحبر، قال: حدثنا شعبة، قال: اخبرني الحكم، عن ابن ابي ليلى، عن البراء، قال:" كان ركوع النبي صلى الله عليه وسلم وسجوده وبين السجدتين، وإذا رفع راسه من الركوع ما خلا القيام والقعود قريبا من السواء".(مرفوع) حَدَّثَنَا بَدَلُ بْنُ الْمُحَبَّرِ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي الْحَكَمُ، عَنْ ابْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ الْبَرَاءِ، قَالَ:" كَانَ رُكُوعُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسُجُودُهُ وَبَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ مَا خَلَا الْقِيَامَ وَالْقُعُودَ قَرِيبًا مِنَ السَّوَاءِ".
ہم سے بدل بن محبر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھے حکم نے ابن ابی لیلیٰ سے خبر دی، انہوں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رکوع و سجود، دونوں سجدوں کے درمیان کا وقفہ اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو تقریباً سب برابر تھے۔ سوا قیام اور تشہد کے قعود کے۔

Narrated Al-Bara: The bowing, the prostration the sitting in between the two prostrations and the standing after the bowing of the Prophet but not qiyam (standing in the prayer) and qu`ud (sitting in the prayer) used to be approximately equal (in duration).
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 12, Number 758


   صحيح البخاري801براء بن عازبركوع النبي وسجوده وإذا رفع رأسه من الركوع وبين السجدتين قريبا من السواء
   صحيح البخاري820براء بن عازبسجود النبي وركوعه وقعوده بين السجدتين قريبا من السواء
   صحيح البخاري792براء بن عازبركوع النبي وسجوده وبين السجدتين وإذا رفع رأسه من الركوع ما خلا القيام والقعود قريبا من السواء
   صحيح مسلم1057براء بن عازبقيامه فركعته فاعتداله بعد ركوعه فسجدته فجلسته بين السجدتين فسجدته فجلسته ما بين التسليم والانصراف قريبا من السواء
   جامع الترمذي279براء بن عازبإذا ركع وإذا رفع رأسه من الركوع وإذا سجد وإذا رفع رأسه من السجود قريبا من السواء
   سنن أبي داود854براء بن عازبقيامه كركعته وسجدته واعتداله في الركعة كسجدته وجلسته بين السجدتين وسجدته ما بين التسليم والانصراف قريبا من السواء
   سنن أبي داود852براء بن عازبسجوده وركوعه وقعوده وما بين السجدتين قريبا من السواء
   سنن النسائى الصغرى1333براء بن عازبقيامه وركعته واعتداله بعد الركعة فسجدته فجلسته بين السجدتين فسجدته فجلسته بين التسليم والانصراف قريبا من السواء
   سنن النسائى الصغرى1066براء بن عازبركوعه وإذا رفع رأسه من الركوع وسجوده وما بين السجدتين قريبا من السواء

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 792  
´رکوع پوری طرح کرنے کی اور اس پر اعتدال و طمانیت کی حد`
«. . . كَانَ رُكُوعُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسُجُودُهُ وَبَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ مَا خَلَا الْقِيَامَ وَالْقُعُودَ قَرِيبًا مِنَ السَّوَاءِ . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رکوع و سجود، دونوں سجدوں کے درمیان کا وقفہ اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو تقریباً سب برابر تھے۔ سوا قیام اور تشہد کے قعود کے . . . [صحيح البخاري/أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ: 792]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
باب اور حدیث میں مناسبت یہ ہے کہ رکوع اور سجود اور قومہ اور جلسہ آپس میں برابر ہوں ایک طریق میں یہ ہے قومہ بہت طول کرتے تھے یعنی سارے رکن رکوع، سجدہ، قومہ وغیرہ سب اطمینان سے ہوا کرتے تھے تو اس میں رکوع کا حکم بھی شامل ہو گیا کیوں کہ جب رکوع میں اطمنان حاصل ہوا تو لازماً پیٹھ بھی برابر ہو گئی یہیں سے باب اور حدیث میں مناسبت ہے۔

◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں!
اس حدیث کے بعض طرق میں جن کو امام مسلم رحمہ اللہ نے نکالا ہے اعتدال لمبا کرنے کا ذکر ہے۔ تو اس سے تمام ارکان کا لمبا ہونا ثابت ہوا۔

◈ امام عبداللہ بن سالم البصری الشافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
شاید کے امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب کے ذریعہ اس روایت کی طرف اشارہ فرمایا ہو جس کے الفاظ ابوداؤد میں ہیں کہ گھٹنے پر ہتھیلیاں رکھیں اور انگلیوں کو کھول دیں (یعنی رکوع میں) پھر رکوع کیا کہ پیٹھ کو جھکا لیا نہ سر کو جھکایا نہ بلند کیا (بلکہ رکوع میں سر کو بالکل پیٹھ کے برابر رکھا) پس اسی میں «استواء الظهر» پیٹھ برابر کرنے کا اشارہ موجود ہے۔ [ضياء الساري، ج8، ص136]

فائده:
اس حدیث سے یہ واضح ہوا کہ رکوع، سجود، قومہ اور جلسہ ان سب کی میعاد برابر تھی اور قومہ، قیام اور التحیات یہ تینوں رکن برابر تھے یہاں غور طلب مسئلہ یہ ہے کہ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے قومہ اور قیام کا جداگانہ نام لیا جس سے واضح ہوتا ہے کہ قومہ قیام نہیں ہے۔ سیدنا براء رضی اللہ عنہ نے جس طرح سجدوں کے لئے صرف سجدہ کا ذکر کیا تو معلوم ہوتا ہے کہ تمام سجدے نام اور ہیئت کے اعتبار سے برابر ہیں لیکن قیام کا نام الگ لیا اور قومہ کا تو لہٰذا قومہ قیام کے احکامات میں داخل نہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 196   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 852  
´رکوع سے اٹھ کر کھڑے رہنے اور دونوں سجدوں کے بیچ میں بیٹھنے کی مقدار کا بیان۔`
براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رکوع، سجدہ اور دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنا سب قریب قریب برابر ہوتے تھے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 852]
852۔ اردو حاشیہ:
«قُعُودُهُ، وَمَا بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ» اس جملے میں نسخوں کا اختلاف ہے۔ منذری میں ہے «كان سجوده وركوعه وما بين السجدتين» ایک دوسرے نسخے میں «قعوده» کے بعد واؤ عاطفہ نہیں ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 852   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 854  
´رکوع سے اٹھ کر کھڑے رہنے اور دونوں سجدوں کے بیچ میں بیٹھنے کی مقدار کا بیان۔`
براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو (اور ابوکامل کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو) حالت نماز میں بغور دیکھا، تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام کو آپ کے رکوع اور سجدے کی طرح، اور رکوع سے آپ کے سیدھے ہونے کو آپ کے سجدے کی طرح، اور دونوں سجدوں کے درمیان آپ کے بیٹھنے کو، اور سلام پھیرنے اور نمازیوں کی طرف پلٹنے کے درمیان بیٹھنے کو، پھر دوسرے سجدہ سے قریب قریب برابر پایا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اور مسدد کی روایت میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رکوع اور دونوں رکعتوں کے درمیان آپ کا اعتدال پھر آپ کا سجدہ پھر دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنا اور پھر دوسرا سجدہ پھر آپ کا سلام پھیرنے اور لوگوں کی طرف چہرہ کرنے کے درمیان بیٹھنا، یہ سب تقریباً برابر ہوتے تھے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 854]
854۔ اردو حاشیہ:
➊ سنن ابوداؤد کے بعض نسخوں میں اس حدیث کے آخر میں یہ الفاظ بھی ملتے ہیں۔ «واعتدله بين الركعتين فسجدته فجلسته بين التسليم والانصراف قريبا من السواء» اور رکوع اور سجدوں کے مابین اعتدال (قومہ)، پھر سجدہ اور سلام اور پھرنے کے مابین بیٹھنا تقریباً برابر ہوتے تھے۔
➋ حدیث کے الفاظ کی روایت میں قدرے اختلاف ہے۔ ان الفاظ کی توجیہ یہ ہے کہ «سجدته ما بين التسليم والانصراف» سے سجدہ سہو مراد ہو سکتا ہے۔ اور «واعتدله بين الركعتين» میں «ركعتين» سے ممکن ہے «علي سبيل التغليب» رکوع اور سجدہ مراد ہو۔ [بذل المجهود]
«فسجدته ما بين التسليم والانصراف» سے آخری رکعت کا آخری یعنی دوسرا سجدہ بھی مراد ہو سکتا ہے۔
➌ رکوع، قومہ، سجدہ، بین السجدتین اور بعد سلام بیٹھنے میں اطمینان ہونا چاہیے اور حسب طول قرأت ان ارکان کو بھی مناسب طول دینا مشروع و مسنون ہے بالکل برابری مراد نہیں ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 854   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1066  
´رکوع سے اٹھنے اور سجدہ کرنے کے درمیان قیام کی مقدار کا بیان۔`
براء بن عازب رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رکوع کرنا، اور رکوع سے سر اٹھانا اور سجدہ کرنا، اور دونوں سجدوں کے درمیان ٹھہرنا، تقریباً برابر برابر ہوتا تھا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1066]
1066۔ اردو حاشیہ: یہ حدیث ان حضرات کے لیے لمحۂ فکریہ ہے جو رکوع کے بعد قومہ (کھڑا ہونا) اور دو سجدوں کے درمیان جلسہ (بیٹھنا)میں ٹھہرنا اور دعائیں پڑھنا مکروہ سمجھتے ہیں۔ نماز تو وہی ہے جو سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ زیادہ سے زیادہ مطابقت رکھتی ہو، نہ کہ فقہی موشگافیوں سے نماز کا سکون اور حسن ہی زائل ہو جائے اور نماز اٹھک بیٹھک اور چونچیں مارنے کی شبیہ بن جائے۔ أعاذنا اللہ منه۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 1066   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 279  
´رکوع اور سجدے سے سر اٹھاتے وقت پیٹھ سیدھی کرنے کا بیان۔`
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رکوع کرتے، جب رکوع سے سر اٹھاتے، جب سجدہ کرتے اور جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو آپ کی نماز تقریباً برابر برابر ہوتی تھی ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 279]
اردو حاشہ:
1؎:
یہ حدیث اس بات پر صریحاً دلالت کرتی ہے کہ رکوع کے بعد سیدھے کھڑا ہونا اور دونوں سجدوں کے درمیان سیدھا بیٹھنا ایک ایسا رکن ہے جسے کسی بھی حال میں چھوڑنا صحیح نہیں،
بعض لوگ سیدھے کھڑے ہوئے بغیر سجدے کے لیے جھک جاتے ہیں،
اسی طرح دونوں سجدوں کے درمیان بغیر سیدھے بیٹھے دوسرے سجدے میں چلے جاتے ہیں اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ رکوع اور سجدے کی طرح ان میں تسبیحات کا اعادہ اور ان کا تکرار مسنون نہیں ہے تو یہ دلیل انتہائی کمزور ہے کیونکہ نص کے مقابلہ میں قیاس ہے جو درست نہیں،
نیز رکوع کے بعد جو ذکر مشروع ہے وہ رکوع اور سجدے میں مشروع ذکر سے لمبا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 279   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 792  
792. حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کا رکوع، سجدہ، سجدوں کے درمیان بیٹھنا اور رکوع کے بعد قومہ یہ سب تقریباً برابر ہوتے تھے، البتہ قیام اور تشہد کچھ طویل ہوتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:792]
حدیث حاشیہ:
قیام سے مراد قرات کا قیام ہے اور تشہد کا قعود، لیکن باقی چار چیزیں یعنی رکوع اور سجدہ اور دونوں سجدوں کے بیچ میں قعدہ اور رکوع کے بعد قومہ یہ سب قریب قریب برابر ہوتے۔
حضرت انس ؓ کی روایت میں ہے کہ آپ رکوع سے سر اٹھا کر اتنی دیر تک کھڑے رہتے کہ کہنے والا کہتا آپ بھول گئے ہیں۔
حدیث کی مطابقت ترجمہ باب سے اس طرح ہے کہ اس سے رکوع میں دیر تک ٹھہرنا ثابت ہوتا ہے۔
تو باب کا ایک جزو یعنی اطمینان اس سے نکل آیا اور اعتدال یعنی رکوع کے بعد سیدھا کھڑا ہونا وہ بھی اس روایت سے ثابت ہوچکا ہے۔
حافظ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کے بعض طریقوں میں جن کو مسلم نے نکالا ہے اعتدال لمبا کرنے کا ذکر ہے تو اس سے تمام ارکان کا لمبا کرنا ثابت ہوگیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 792   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:792  
792. حضرت براء بن عازب ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کا رکوع، سجدہ، سجدوں کے درمیان بیٹھنا اور رکوع کے بعد قومہ یہ سب تقریباً برابر ہوتے تھے، البتہ قیام اور تشہد کچھ طویل ہوتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:792]
حدیث حاشیہ:
(1)
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ لکھتے ہیں کہ امام شافعی ؒ کے نزدیک اعتدالِ ارکان کی تین اقسام ہیں:
٭ قیام اور تشہد میں ٹھہرنا۔
یہ مناسب حد تک طویل ہونا چاہیے کہ نمازی کو دیکھ کر کہا جا سکے کہ وہ کسی خاص چیز میں مصروف ہے۔
٭ رکوع و سجود میں ٹھہرنا۔
یہ پہلی قسم سے کم ہونا چاہیے، البتہ حالت انتقال سے زیادہ توقف معلوم ہو۔
٭ قومہ اور دو سجدوں کے درمیان ٹھہرنا۔
یہ ہلکا ہونا چاہیے ایسا معلوم ہو کہ حالت انتقال میں ہے۔
(2)
شاہ صاحب کی مذکورہ تفصیل احادیث میں ذکر کردہ تفصیل کے خلاف ہے۔
قومہ اور دو سجدوں کے درمیان ٹھہرنے کے متعلق حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو قیام فرماتے، اتنی دیر کھڑے رہتے کہ کہنے والا کہتا کہ شاید آپ بھول گئے ہیں۔
اور دونوں سجدوں کے درمیان اتنی دیر بیٹھتے کہ کہنے والا کہتا کہ شاید آپ بھول گئے ہیں۔
(صحیح البخاري، الأذان، حدیث: 821)
اسی طرح رکوع و سجود کی طوالت کا ذکر بھی احادیث میں آیا ہے، البتہ قیام میں تنوع ہوتا تھا۔
بعض اوقات دوران سفر میں آپ نے صبح کی نماز میں معوذتین بھی پڑھی ہیں۔
اور بعض اوقات طویل قراءت شروع فرمائی لیکن کسی بچے کے روزے کی آواز سنائی دی تو رکوع کر دیا۔
صحیح مسلم میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا قیام و قعود اور مذکورہ چاروں چیزیں برابر ہوتی تھیں۔
معلوم ہوتا ہے کہ یہ رواۃ حدیث کا تصرف ہے کیونکہ تسویہ صرف چار ہی میں ہے۔
واللہ أعلم۔
(3)
اس مقام پر ایک اعتراض ہے کہ مذکورہ روایت سے عنوان ثابت نہیں ہوتا کیونکہ عنوان اتمام رکوع کی حد بیان کرنا ہے جبکہ حدیث میں ایک دوسرے کی مساوات کا ذکر ہے، اس مساوات سے اعتدال ثابت نہیں ہوتا؟ اس کا جواب علامہ سندھی نے یہ دیا ہے کہ بعض امور کا حکم خارج سے معلوم ہوتا ہے۔
اس مقام پر بھی اعتدال کی مقدار خارج سے معلوم ہو گی کیونکہ دیگر روایات میں رکوع اور سجود کی تسبیحات کا ذکر ہے جن سے اعتدال کی مقدار کا پتہ چلتا ہے، پھر ان امور کا ایک دوسرے کے مساوی ہونا بھی ایک حد ہے۔
(4)
حافظ ابن حجر ؒ عنوان سے حدیث کی مطابقت ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ اس حدیث سے رکوع، سجدہ، قومہ اور دو سجدوں کے درمیان بیٹھنے کی مساوات ثابت ہوتی ہے اور صحیح مسلم کی کچھ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ قومہ طویل ہوتا تھا تو اس سے تمام ارکان کا طویل ہونا ثابت ہو گیا کیونکہ ان میں مساوات کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
(فتح الباري: 357/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 792   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.