● صحيح البخاري | 815 | عبد الله بن عباس | يسجد على سبعة أعظم ولا يكف ثوبه ولا شعره |
● صحيح البخاري | 812 | عبد الله بن عباس | أسجد على سبعة أعظم على الجبهة وأشار بيده على أنفه واليدين والركبتين وأطراف القدمين ولا نكفت الثياب والشعر |
● صحيح البخاري | 810 | عبد الله بن عباس | نسجد على سبعة أعظم ولا نكف ثوبا ولا شعرا |
● صحيح البخاري | 816 | عبد الله بن عباس | أسجد على سبعة لا أكف شعرا ولا ثوبا |
● صحيح البخاري | 809 | عبد الله بن عباس | يسجد على سبعة أعضاء ولا يكف شعرا ولا ثوبا الجبهة واليدين والركبتين والرجلين |
● صحيح مسلم | 1097 | عبد الله بن عباس | يسجد على سبع ونهي أن يكفت الشعر والثياب |
● صحيح مسلم | 1099 | عبد الله بن عباس | أسجد على سبع ولا أكفت الشعر ولا الثياب الجبهة والأنف واليدين والركبتين والقدمين |
● صحيح مسلم | 1095 | عبد الله بن عباس | يسجد على سبعة ونهي أن يكف شعره وثيابه |
● صحيح مسلم | 1098 | عبد الله بن عباس | أسجد على سبعة أعظم الجبهة وأشار بيده على أنفه واليدين والرجلين وأطراف القدمين ولا نكفت الثياب ولا الشعر |
● صحيح مسلم | 1096 | عبد الله بن عباس | أسجد على سبعة أعظم ولا أكف ثوبا ولا شعرا |
● جامع الترمذي | 273 | عبد الله بن عباس | يسجد على سبعة أعظم ولا يكف شعره ولا ثيابه |
● سنن أبي داود | 890 | عبد الله بن عباس | يسجد على سبعة آراب |
● سنن أبي داود | 889 | عبد الله بن عباس | يسجد على سبعة ولا يكف شعرا ولا ثوبا |
● سنن النسائى الصغرى | 1116 | عبد الله بن عباس | يسجد على سبعة أعظم ونهي أن يكف الشعر والثياب |
● سنن النسائى الصغرى | 1097 | عبد الله بن عباس | أسجد على سبعة لا أكف الشعر ولا الثياب الجبهة والأنف واليدين والركبتين والقدمين |
● سنن النسائى الصغرى | 1098 | عبد الله بن عباس | أسجد على سبعة أعظم على الجبهة وأشار بيده على الأنف واليدين والركبتين وأطراف القدمين |
● سنن النسائى الصغرى | 1099 | عبد الله بن عباس | يسجد على سبع ونهي أن يكفت الشعر والثياب على يديه وركبتيه وأطراف أصابعه |
● سنن النسائى الصغرى | 1094 | عبد الله بن عباس | أن يسجد على سبعة أعضاء ولا يكف شعره ولا ثيابه |
● سنن النسائى الصغرى | 1114 | عبد الله بن عباس | أمرت أن أسجد على سبعة ولا أكف شعرا ولا ثوبا |
● سنن ابن ماجه | 1040 | عبد الله بن عباس | أمرت أن لا أكف شعرا ولا ثوبا |
● سنن ابن ماجه | 883 | عبد الله بن عباس | أسجد على سبعة أعظم |
● سنن ابن ماجه | 884 | عبد الله بن عباس | أمرت أن أسجد على سبع ولا أكف شعرا ولا ثوبا |
● بلوغ المرام | 234 | عبد الله بن عباس | امرت ان اسجد على سبعة اعظم: على الجبهة - واشار بيده إلى انفه - واليدين والركبتين واطراف القدمين |
● مسندالحميدي | 500 | عبد الله بن عباس | أن النبي صلى الله عليه وسلم أمر أن يسجد منه على سبع ونهي أن يكف شعره أو ثيابه |
● مسندالحميدي | 501 | عبد الله بن عباس | أمر النبي صلى الله عليه وسلم أن يسجد منه على سبع على يديه، وركبتيه، وأطراف أصابعه، وجبهته، ونهى إن شاء الله أن يكف الشعر والثياب |
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 234
´نماز کی صفت کا بیان`
«. . . وعن ابن عباس رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «أمرت أن أسجد على سبعة أعظم: على الجبهة - وأشار بيده إلى أنفه - واليدين والركبتين وأطراف القدمين» . متفق عليه. . . .»
”. . . سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” مجھے سات ہڈیوں (اعضاء) پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔“ اپنے دست مبارک سے اشارہ کر کے فرمایا ” پیشانی و ناک پر اور دونوں ہاتھوں اور دونوں گھٹنوں اور دونوں قدموں پر۔“ (بخاری و مسلم) . . .“ [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/باب صفة الصلاة: 234]
لغوی تشریح:
«أُمِرْتُ» صیغہ مجہول ہے۔ حکم صادر فرمانے والا اللہ تعالیٰ ہے۔
«أَعْظُمٍ» ”ظا“ پر ضمہ ہے، «عَظْمٌ» کی جمع ہے۔ اور ناک کی جانب اشارہ اس بات کی دلیل ہے کہ پیشانی اصل ہے اور ناک اس کے تابع ہے۔ حدیث مذکور اس پر دلالت کرتی ہے کہ مذکورہ بالا سات اعضاء پر اکٹھے سجدہ کرنا واجب ہے، اس لیے کہ امر وجوب کے لیے آتا ہے۔
فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پیشانی اور ناک دونوں مل کر ایک عضو ہے۔ اگر انہیں الگ الگ عضو شمار کیا جائے تو یہ آٹھ اعضاء بن جاتے ہیں، اس لیے ان دونوں کو ایک ہی عضو شمار کیا جانا چاہیے۔ امام مالک، امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہم اللہ تینوں امام اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے شاگردان رشید: امام ابویوسف اور امام محمد رحمہما اللہ بھی اس کے قائل ہیں کہ اگر کوئی شخص صرف پیشانی یا صرف ناک زمین پر رکھ کر سجدہ کرے تو یہ سجدہ ناتمام متصور ہو گا بلکہ اسے سجدہ ہی شمار نہیں کیا جائے گا۔ اس کے برعکس امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ دونوں الگ الگ عضو ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک عضو اگر زمین پر رکھا گیا تو سجدہ ہو جائے گا اور کسی قسم کا کوئی نقص نہیں رہے گا۔ لیکن ایک تو یہ اکثریت کے خلاف ہے کیونکہ تین امام اور دو مزید حنفی امام ایک طرف اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تنہا ایک طرف۔ پھر یہ مذکورہ بالا حدیث کے بھی خلاف ہے، اس لیے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی رائے کمزور ہے۔
➋ مصنف ابن ابی شیبہ میں سیدنا عکرمہ رحمہ اللہ سے مرسلاً مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر ایک ایسے نمازی کے پاس سے ہوا جس کی ناک زمین پر نہیں لگ رہی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کسی کی پیشانی اور ناک زمین پر نہ لگے اس کی تو نماز ہی نہیں ہوتی۔“ [المصنف لابن ابي شيبه: 2356، رقم: 2695] یعنی ناک اور پیشانی دونوں کا حالت سجدہ میں زمین پر لگنا ضروری ہے۔ خلاصہ گفتگو یہ ہے کہ سجدہ ساتوں اعضاء پر کیا جانا چاہیے ورنہ سجدہ صحیح نہیں ہو گا۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 234
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 889
´اعضائے سجود کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے سات اعضاء پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ حماد بن زید کی روایت میں ہے: تمہارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سات اعضاء پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اور یہ کہ آپ نہ بال سمیٹیں اور نہ کپڑا۔“ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 889]
889۔ اردو حاشیہ:
سجدے میں اپنے سر یا داڑھی کے بالوں کو مٹی سے بچاتے ہوئے سمیٹنا درست نہیں اور ایسے ہی کپڑوں کو بھی نہیں سمیٹنا چاہیے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 889
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1094
´کتنے اعضاء پر سجدہ کرے؟`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا کہ آپ سات اعضاء ۱؎ پر سجدہ کریں، اور اپنے بال اور کپڑے نہ سمیٹیں ۲؎۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1094]
1094۔ اردو حاشیہ:
➊ سات اعضاء، یعنی دو ہاتھ، دو گھٹنے، دو پاؤں اور چہرہ، یعنی پیشانی (ناک سمیت) یہ سب اعضاء زمین پر لگنے چاہئیں۔ تھوڑی دیر کے لیے کوئی عضو کسی وجہ سے اٹھ جائے تو الگ بات ہے۔ مجموعی طور پر سجدہ ان سات اعضاء کے ساتھ ہونا چاہیے۔
➋ سجدے میں جاتے وقت بال یا کپڑوں کو مٹی سے بچانے کے لیے اکٹھا نہیں کرنے چاہئیں بلکہ انہیں زمین پر لگنے دیں۔ اس سے عاجزی پیدا ہو گی، تکبر کی نفی ہو گی، نیز وہ بھی سجدہ کرتے ہیں، اکٹھا کرنے سے ان کا سجدہ نہیں ہو گا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 1094
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1097
´ناک پر سجدہ کرنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ سات اعضاء: پیشانی اور ناک، دونوں ہتھیلی، دونوں گھٹنے، اور دونوں پیر پر سجدہ کروں، اور بال اور کپڑے نہ سمیٹوں۔“ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1097]
1097۔ اردو حاشیہ: اس حدیث میں ماتھا اور ناک ایک عضو شمار کیے گئے ہیں۔ گویا دونوں مل کر ایک عضو بنتے ہیں کیونکہ دونوں ایک عضو، یعنی چہرے کے اجزا ہیں، لہٰذا دونوں کو زمین پر لگنا چاہیے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک دونوں میں سے کسی ایک کا لگنا کافی ہے کیونکہ کوئی عضو بھی مکمل تو لگ نہیں سکتا، کچھ حصہ ہی لگتا ہے۔ جب یہ دونوں ایک عضو ہیں تو پھر ان دونوں میں سے کسی ایک کا کچھ حصہ لگنا کافی ہے مگر احادیث اس موقف کی تائید نہیں کرتیں۔ صحیح بات یہی ہے کہ دونوں کو لگنا چاہیے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 1097
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث883
´نماز میں سجدے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے سات ہڈیوں پر سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔“ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 883]
اردو حاشہ:
”سات ہڈیوں“ سے مراد جسم کےسات اعضاء ہیں جن کی وضاحت اگلی حدیث میں ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 883