الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: جمعہ کے بیان میں
The Book of Al-Jumuah (Friday)
11. بَابُ الْجُمُعَةِ فِي الْقُرَى وَالْمُدْنِ:
11. باب: گاؤں اور شہر دونوں جگہ جمعہ درست ہے۔
(11) Chapter. To offer the Salat-ul-Jumuah [prayer and Khutba (religious talk)] in villages and towns.
حدیث نمبر: 892
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن المثنى، قال: حدثنا ابو عامر العقدي، قال: حدثنا إبراهيم بن طهمان، عن ابي جمرة الضبعي، عن ابن عباس، انه قال:" إن اول جمعة جمعت بعد جمعة في مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم في مسجد عبد القيس بجواثى من البحرين".(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ، عَنْ أَبِي جَمْرَةَ الضُّبَعِيِّ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ قَالَ:" إِنَّ أَوَّلَ جُمُعَةٍ جُمِّعَتْ بَعْدَ جُمُعَةٍ فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَسْجِدِ عَبْدِ الْقَيْسِ بِجُوَاثَى مِنْ الْبَحْرَيْنِ".
ہم سے محمد بن مثنی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابوعامر عقدی نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے ابراہیم بن طہمان نے بیان کیا، ان سے ابوجمرہ نضر بن عبدالرحمٰن ضبعی نے، ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے، آپ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کے بعد سب سے پہلا جمعہ بنو عبدالقیس کی مسجد میں ہوا جو بحرین کے ملک جواثی میں تھی۔

Narrated Ibn `Abbas: The first Jumua prayer which was offered after a Jumua prayer offered at the mosque of Allah's Apostle took place in the mosque of the tribe of `Abdul Qais at Jawathi in Bahrain.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 13, Number 17


   صحيح البخاري4371عبد الله بن عباسأول جمعة جمعت بعد جمعة جمعت في مسجد رسول الله في مسجد عبد القيس بجواثى
   صحيح البخاري892عبد الله بن عباسأول جمعة جمعت بعد جمعة في مسجد رسول الله في مسجد عبد القيس بجواثى من البحرين
   سنن أبي داود1068عبد الله بن عباسأول جمعة جمعت في الإسلام بعد جمعة جمعت في مسجد رسول الله بالمدينة لجمعة جمعت بجواثاء قرية من قرى البحرين

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1068  
´دیہات (گاؤں) میں جمعہ پڑھنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہتے ہیں اسلام میں مسجد نبوی میں جمعہ قائم کئے جانے کے بعد پہلا جمعہ قریہ جواثاء میں قائم کیا گیا، جو علاقہ بحرین ۱؎ کا ایک گاؤں ہے، عثمان کہتے ہیں: وہ قبیلہ عبدالقیس کا ایک گاؤں ہے ۲؎۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1068]
1068۔ اردو حاشیہ:
ظاہر ہے کہ یہ عمل صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم ہی سے شروع کیا تھا، وہ لوگ عبادات کے معاملے میں بہت ہی محتاط ہوا کرتے تھے اور وہ زمانہ نزول وحی کا تھا۔ اگر یہ عمل ناجائز ہوتا تو یقیناًً وحی کے ذریعے سے کوئی ہدایت نازل کر دی جاتی۔ جواثاء کی مسجد کے آثار بھی موجود ہیں، چھوٹی سی جگہ میں ہے اور صرف دو صفوں کا دالان ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1068   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:892  
892. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کی مسجد کے بعد پہلا جمعہ بنو عبدالقیس کی مسجد میں شروع ہوا جو ملک بحرین کے جواثیٰ مقام میں تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:892]
حدیث حاشیہ:
(1)
واضح رہے کہ "جواثی" بحرین کے دیہاتوں میں سے ایک دیہات تھا جیسا کہ دیگر روایات میں ہے۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4371 وسنن أبي داود، حدیث: 1068)
حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے اس عنوان کے تحت ان لوگوں کی تردید کی ہے جو نماز جمعہ کو شہروں کے ساتھ خاص کر کے دیہاتوں میں اقامت جمعہ کا انکار کرتے ہیں جن میں سرفہرست احناف ہیں۔
جن کی دلیل ابن ابی شیبہ (535/2)
میں منقول سیدنا علی ؓ کا موقوف اثر ہے۔
اس کے برعکس حضرت عمر ؓ کے متعلق ابن ابی شیبہ (537/2)
میں صحیح سند کے ساتھ مروی ہے کہ انہوں نے اہل بحرین کو لکھا تھا کہ تم جہاں کہیں بھی ہو اقامت جمعہ کا اہتمام کرو۔
یہ عموم شہروں اور دیہاتوں دونوں کو شامل ہے۔
اس کے علاوہ حضرت لیث بن سعد ؓ سے بھی مروی ہے کہ وہ ہر شہر اور دیہات جہاں اہل اسلام کے چند افراد ہوں اقامت جمعہ کے قائل تھے، چنانچہ اہل مصر اور اس کے آس پاس رہنے والے حضرت عمر اور حضرت عثمان ؓ کے حکم سے جمعہ ادا کرتے تھے اور وہاں صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم بھی ہوا کرتے تھے۔
حضرت عبداللہ بن عمر ؓ مکہ اور مدینہ کے درمیان بسنے والے لوگوں کو جمعہ پڑھتے دیکھتے تو کوئی اعتراض نہ کرتے تھے۔
(فتح الباري: 489/2) (2)
بعض مؤرخین نے "جواثی" کے متعلق لکھا ہے کہ یہ آبادی ایک شہر پر مشتمل تھی جبکہ امام بخاری ؒ نے اپنی صحیح کے ایک دوسرے مقام پر اس کے دیہات ہونے کی صراحت کی ہے۔
(صحیح البخاري، المغازي، حدیث: 4371)
یہ بھی ممکن ہے کہ جب اس مقام پر جمعہ پڑھنے کا اہتمام ہوا تو یہ ایک گاؤں تھا پھر آبادی کے بڑھنے سے ایک شہر کی صورت اختیار کر گیا۔
جیسا کہ حافظ ابن حجر ؒ نے اس کی صراحت کی ہے۔
(فتح الباري: 489/2)
واضح رہے کہ قبیلۂ عبدالقیس نے وہاں رسول اللہ ﷺ کے حکم ہی سے اقامت جمعہ کا اہتمام کیا تھا کیونکہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اپنی طرف سے نزول وحی کے زمانے میں کسی شرعی کام کا اہتمام نہیں کرتے تھے۔
اگر یہ اقدام ناجائز ہوتا تو بذریعۂ وحی ضرور انہیں متنبہ کر دیا جاتا۔
اس کے علاوہ حضرت اسعد بن زرارہ ؓ نے (لفظ کی سمجھ نہیں آ رہی)
کے علاقے میں بنو بیاضہ کی بستی (لفظ کی سمجھ نہیں آ رہی)
میں جمعہ قائم کیا تھا۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 1069)
یہ بستی مدینہ منورہ سے ایک میل کے فاصلے پر تھی۔
دیہاتوں میں جمعہ پڑھنے کی سب سے بڑی دلیل ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَىٰ ذِكْرِ اللَّـهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ﴾ (الجمعة: 9: 62)
اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو تم اللہ کے ذکر کی طرف چلے آؤ اور خریدوفروخت کو ترک کر دو۔
یہ آیت کریمہ تمام اہل ایمان کے لیے عام ہے، خواہ وہ شہری ہوں یا دیہاتی۔
الغرض اسلام نے جمعہ کی ادائیگی کے لیے کسی خاص جگہ کی پابندی نہیں لگائی۔
اس کے متعلق جو شرائط بیان کی جاتی ہے وہ سب خود ساختہ ہیں۔
اقامت جمعہ کے متعلق شیخ الحدیث مولانا عبیداللہ رحمانی ؒ نے بڑا جامع تبصرہ کیا ہے، فرماتے ہیں، اہل علم نے اقامت جمعہ کے محل کے متعلق اختلاف کیا ہے۔
امام ابو حنیفہ اور ان کے متبعین کا خیال ہے کہ جمعہ صرف مصر جامع ہی میں صحیح ہے، جبکہ امام شافعی، امام مالک اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ فرماتے ہیں کہ شہروں اور دیہاتوں غرضیکہ ہر جگہ جائز اور صحیح ہے۔
امام ابو حنیفہ نے اس حدیث کو بطور دلیل پیش کیا ہے کہ جمعہ اور عید صرف مصر جامع میں صحیح ہے لیکن امام احمد بن حنبل ؒ نے اس روایت کے مرفوع ہونے کو ضعیف قرار دیا ہے۔
امام ابن حزم نے اس کا موقوف ہونا صحیح تسلیم کیا ہے، یعنی یہ حضرت علی ؓ کا قول ہے۔
چونکہ یہ موقوف ہے اور اس میں اجتہاد کی کافی گنجائش ہے، اس لیے اس روایت کو بطور دلیل پیش نہیں کیا جا سکتا، نیز اس روایت سے سورۂ جمعہ کی آیت جو مطلق ہے اس کا مقید ہونا لازم آتا ہے جو اصول کے اعتبار سے صحیح نہیں۔
(مرعاة المفاتیح: 288/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 892   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.