الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
کتاب: ایمان کے بیان میں
The Book of Belief (Faith)
3. بَابُ أُمُورِ الإِيمَانِ:
3. باب: ایمان کے کاموں کا بیان۔
(3) Chapter. (What is said) regarding the deeds of faith.
حدیث نمبر: Q9
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
وقول الله تعالى: {ليس البر ان تولوا وجوهكم قبل المشرق والمغرب ولكن البر من آمن بالله واليوم الآخر والملائكة والكتاب والنبيين وآتى المال على حبه ذوي القربى واليتامى والمساكين وابن السبيل والسائلين وفي الرقاب واقام الصلاة وآتى الزكاة والموفون بعهدهم إذا عاهدوا والصابرين في الباساء والضراء وحين الباس اولئك الذين صدقوا واولئك هم المتقون}. وقوله: {قد افلح المؤمنون} الآية.وَقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {لَيْسَ الْبِرَّ أَنْ تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَالْمَلاَئِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلاَةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ أُولَئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ}. وَقَوْلِهِ: {قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ} الآيَةَ.
‏‏‏‏ اور اللہ پاک کے اس فرمان کی تشریح کہ نیکی یہی نہیں ہے کہ تم (نماز میں) اپنا منہ پورب یا پچھم کی طرف کر لو بلکہ اصلی نیکی تو اس انسان کی ہے جو اللہ (کی ذات و صفات) پر یقین رکھے اور قیامت کو برحق مانے اور فرشتوں کے وجود پر ایمان لائے اور آسمان سے نازل ہونے والی کتاب کو سچا تسلیم کرے۔ اور جس قدر نبی رسول دنیا میں تشریف لائے ان سب کو سچا تسلیم کرے۔ اور وہ شخص مال دیتا ہو اللہ کی محبت میں اپنے (حاجت مند) رشتہ داروں کو اور (نادار) یتیموں کو اور دوسرے محتاج لوگوں کو اور (تنگ دست) مسافروں کو اور (لاچاری) میں سوال کرنے والوں کو اور (قیدی اور غلاموں کی) گردن چھڑانے میں اور نماز کی پابندی کرتا ہو اور زکوٰۃ ادا کرتا ہو اور اپنے وعدوں کو پورا کرنے والے جب وہ کسی امر کی بابت وعدہ کریں۔ اور وہ لوگ جو صبر و شکر کرنے والے ہیں تنگ دستی میں اور بیماری میں اور (معرکہ) جہاد میں یہی لوگ وہ ہیں جن کو سچا مومن کہا جا سکتا ہے اور یہی لوگ درحقیقت پرہیزگار ہیں۔ یقیناً ایمان والے کامیاب ہو گئے۔ جو اپنی نمازوں میں خشوع خضوع کرنے والے ہیں اور جو لغو باتوں سے برکنار رہنے والے ہیں اور وہ جو زکوٰۃ سے پاکیزگی حاصل کرنے والے ہیں۔ اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں سوائے اپنی بیویوں اور لونڈیوں سے کیونکہ ان کے ساتھ صحبت کرنے میں ان پر کوئی الزام نہیں۔ ہاں جو ان کے علاوہ (زنا یا لواطت یا مشت زنی وغیرہ سے) شہوت رانی کریں ایسے لوگ حد سے نکلنے والے ہیں۔ اور جو لوگ اپنی امانت و عہد کا خیال رکھنے والے ہیں اور جو اپنی نمازوں کی کامل طور پر حفاظت کرتے ہیں یہی لوگ جنت الفردوس کی وراثت حاصل کر لیں گے پھر وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔


Aur Allah paak ke is farmaan ki tashreeh ke neki yahi nahi hai ke tum (namaz mein) apna munh poorab ya pachchim ki taraf kar lo balke asli neki to us insaan ki hai jo Allah (ki zaat o safhaat) par yaqeen rakhe aur qiyamat ko barhaq maane aur farishton ke wujood par imaan laaye aur aasman se naazil hone waali kitaab ko sachcha tasleem kare. Aur jis qadr Nabi Rasool duniya mein tashreef laaye un sab ko sachcha tasleem kare. Aur woh shakhs maal deta ho Allah ki mohabbat mein apne (haajatmand) rishtedaaron ko aur (naadaar) yateemon ko aur doosre mohtaaj logon ko aur (tangdast) musaafiron ko aur (laachaari) mein sawaal karne waalon ko aur (qaidi aur ghulamon ki) gardan chudaane mein aur namaz ki paabandi karta ho aur zakaat ada karta ho aur apne wa’don ko poora karne waale jab woh kisi amr ki baabat wada karein. Aur woh log jo sabr-o-shukr karne waale hain tangdasti mein aur beemari mein aur (ma’arka) jihaad mein yahi log woh hain jin ko sachcha momin kaha jaa sakta hai aur yahi log dar-haqeeqat parhezgaar hain. Yaqeenan imaan waale kamyaab ho gaye. Jo apni namaazon mein khushoo’ khuzoo’ karne waale hain aur jo laghw baaton se barkinaar rahne waale hain aur woh jo zakaat se pakeezgi karne waale hain. Aur jo apni sharamgaahon ki hifaazat karne waale hain siwaaye apni biwiyon aur laundiyon se kiunki un ke saath sohbat karne mein un par koi ilzaam nahi. Haan jo un ke alawah (zina ya liwatat ya mushtzani waghera se) shehwat-raani karein aise log hadd se nikalne waale hain. Aur jo log apni amanat-o-ahed ka khayaal rakhne waale hain aur jo apni namaazon ki kaamil taur par hifaazat karte hain yahi log Jannat-ul-Firdous ki wiraasat haasil kar lenge phir woh us mein hamesha rahenge.

حدیث نمبر: 9
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن محمد، قال: حدثنا ابو عامر العقدي، قال: حدثنا سليمان بن بلال، عن عبد الله بن دينار، عن ابي صالح، عن ابي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" الإيمان بضع وستون شعبة، والحياء شعبة من الإيمان".(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْه، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الْإِيمَانُ بِضْعٌ وَسِتُّونَ شُعْبَةً، وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الْإِيمَانِ".
ہم سے بیان کیا عبداللہ بن محمد جعفی نے، انہوں نے کہا ہم سے بیان کیا ابوعامر عقدی نے، انہوں نے کہا ہم سے بیان کیا سلیمان بن بلال نے، انہوں نے عبداللہ بن دینار سے، انہوں نے روایت کیا ابوصالح سے، انہوں نے نقل کیا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انہوں نے نقل فرمایا جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان کی ساٹھ سے کچھ اوپر شاخیں ہیں۔ اور حیاء (شرم) بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔


Hum se bayan kiya Abdullah bin Muhammad Jo’fi ne, unhon ne kaha hum se bayan kiya Abu Amir Aqadi ne, unhon ne kaha hum se bayan kiya Sulaiman bin Bilal ne, unhon ne Abdullah bin Dinaar se, unhon ne riwayat kiya Abu Saleh se, unhon ne naqal kiya Abu Hurairah Radhiallahu Anhu se, unhon ne naqal farmaaya janab Nabi Kareem Sallallahu Alaihi Wasallam se Aap Sallallahu Alaihi Wasallam ne farmaaya ke Imaan ki saath (60) se kuch upar shaakhen hain. Aur haya (sharm) bhi Imaan ki aik shaakh hai.

Narrated Abu Huraira: The Prophet said, "Faith (Belief) consists of more than sixty branches (i.e. parts). And Haya (This term "Haya" covers a large number of concepts which are to be taken together; amongst them are self respect, modesty, bashfulness, and scruple, etc.) is a part of faith."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 2, Number 9


   صحيح البخاري9عبد الرحمن بن صخرالإيمان بضع وستون شعبة الحياء شعبة من الإيمان
   صحيح مسلم152عبد الرحمن بن صخرالإيمان بضع وسبعون شعبة والحياء شعبة من الإيمان
   صحيح مسلم153عبد الرحمن بن صخرالإيمان بضع وسبعون أو بضع وستون شعبة فأفضلها قول لا إله إلا الله وأدناها إماطة الأذى عن الطريق الحياء شعبة من الإيمان
   جامع الترمذي2614عبد الرحمن بن صخرالإيمان بضع وسبعون بابا فأدناها إماطة الأذى عن الطريق وأرفعها قول لا إله إلا الله
   سنن أبي داود4676عبد الرحمن بن صخرالإيمان بضع وسبعون أفضلها قول لا إله إلا الله وأدناها إماطة العظم عن الطريق الحياء شعبة من الإيمان
   سنن النسائى الصغرى5008عبد الرحمن بن صخرالإيمان بضع وسبعون شعبة الحياء شعبة من الإيمان
   سنن النسائى الصغرى5009عبد الرحمن بن صخرالإيمان بضع وسبعون شعبة أفضلها لا إله إلا الله وأوضعها إماطة الأذى عن الطريق الحياء شعبة من الإيمان
   سنن ابن ماجه57عبد الرحمن بن صخرالإيمان بضع وستون أو سبعون بابا أدناها إماطة الأذى عن الطريق وأرفعها قول لا إله إلا الله الحياء شعبة من الإيمان
   مشكوة المصابيح5عبد الرحمن بن صخرالإيمان بضع وسبعون شعبة فافضلها: قول لا إله إلا الله وادناها: إماطة الاذى عن الطريق والحياة شعبة من الايمان
   المعجم الصغير للطبراني48عبد الرحمن بن صخر بني الإسلام على خمس : شهادة أن لا إله إلا الله ، وإقام الصلاة ، وإيتاء الزكاة ، وحج البيت ، وصوم رمضان

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 9  
´ایمان کوئی جامد چیز نہیں بلکہ اس کی مختلف شاخیں ہیں`
«. . . عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الْإِيمَانُ بِضْعٌ وَسِتُّونَ شُعْبَةً، وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الْإِيمَانِ . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان کی ساٹھ سے کچھ اوپر شاخیں ہیں۔ اور حیاء (شرم) بھی ایمان کی ایک شاخ ہے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 9]

لغوی توضیح:
«بِضْعٌ» تین سے نو تک کا عدد۔
«شُعْبَة» شاخ، حصہ

فہم الحدیث:
معلوم ہوا کہ ایمان کوئی جامد چیز نہیں بلکہ اس کی مختلف شاخیں ہیں اور ان شاخوں کی کمی بیشی کے اعتبار سے ایمان میں بھی کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ ایک روایت میں کلمہ «لا اله الا الله» کو ایمان کی اعلی ترین شاخ اور راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانے کو ایمان کی ادنیٰ ترین شاخ قرار دیا گیا ہے۔ [مسلم: كتاب الايمان: باب بيان عدد شعب الايمان 35]
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایمان میں قلبی اعمال کے ساتھ ساتھ بدنی اعمال بھی شامل ہیں۔ حیاء بھی ایمان کی ایک شاخ ہے اور خیر و برکت کا باعث ہے، یہی وجہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں نے پہلی نبوت کے کلام میں سے جو کچھ پایا ہے اس میں سے یہ بھی ہے کہ جب تو حیاء نہ کرے تو جو چاہے کر۔ [بخارى: كتاب أحاديث الأنبباء: باب حديث الغار: 3484، ابو داود: 4797، ابن ماجه: 4183]
رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ایک روایت میں ہے کہ آپ مخصوص حجرے میں موجود کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیادار تھے۔ [أخرجه البخاري: 3562، أخرجه مسلم: 232]
واضح رہے کہ جو حیاء قابل تعریف ہے وہ ایسی حیاء ہے جو معاصی سے روکے، لیکن جو حیاء نیکیوں اور واجبات پر عمل سے ہی روک دے مثلاً اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ سے یا اہل علم سے شرعی مسائل و احکام دریافت کرنے سے شرم محسوس ہو تو یہ حیاء قابل مذمت ہے، قابل تعریف نہیں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرمایا کرتی تھیں کہ بہترین عورتیں انصار کی عورتیں ہیں کیونکہ انہیں دین کے مسائل سیکھنے سے حیا نہیں روکتی۔ [حسن: صحيح ابن ماجه: كتاب الطهارة وسننها 642]
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث\صفحہ نمبر: 21   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 9  
´اصل نیکیاں تو ایمان راسخ، عقائد صحیحہ اور اعمال صالحہ`
«. . . عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الْإِيمَانُ بِضْعٌ وَسِتُّونَ شُعْبَةً، وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الْإِيمَانِ . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایمان کی ساٹھ سے کچھ اوپر شاخیں ہیں۔ اور حیاء (شرم) بھی ایمان کی ایک شاخ ہے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 9]

تشریح:
حضرت ا میر المحدثین علیہ الرحمۃ سابق میں بنیادی چیزیں بیان فرما چکے اب فروع کی تفصیل پیش کرنا چاہتے ہیں۔ اسی لیے باب میں «امور الايمان» کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ مرجیہ کی تردید کرنا بھی مقصود ہے۔ کیونکہ پیش کردہ قرآنی آیات کریمہ میں سے پہلی آیت میں بعض امور ایمان گنائے گئے ہیں اور دوسری آیتوں مین ایمان والوں کی چند صفات کا ذکر ہے۔ پہلی آیت سورۃ بقرہ کی ہے جس میں دراصل اہل کتاب کی تردید مقصود ہے۔ جنہوں نے تحویل قبلہ کے وقت مختلف قسم کی آواز یں اٹھائی تھیں۔ نصاریٰ کا قبلہ مشرق تھا اور یہود کا مغرب۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں سولہ یا سترہ ماہ بیت المقدس کو قبلہ قرار دیا، پھر مسجد الحرام کو آپ کا قبلہ قرار دیا گیا اور آپ نے ادھر منہ پھیر لیا۔ اس پر مخالفین نے اعتراضات شروع کئے۔ جن کے جواب میں اللہ پاک نے یہ آیت شریفہ نازل فرمائی اور بتلایا کہ مشرق یا مغرب کی طرف منہ کرکے عبادت کرنا ہی بالذات کوئی نیکی نہیں ہے۔ اصل نیکیاں تو ایمان راسخ، عقائد صحیحہ اور اعمال صالحہ معاشرتی پاک زندگی اور اخلاق فاضلہ ہیں۔

حافظ ابن حجر نے عبدالرزاق سے بروایت مجاہد حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے یہ نقل کیا ہے کہ انہو ں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایمان کے بارے میں سوال کیا تھا۔ آپ نے جواب میں آیت شریفہ «ليس البر ان تولو ا وجوهكم قبل المشرق والمغرب ولكن البر من آمن بالله واليوم الآخره والملائكةوالكتٰب والنبيين واٰتي المال على حبه ذوي القربي ٰ واليتمي والمساكين وابن السبيل والسائلين وفي الرقاب واقام الصلٰوة واتٰي الزكٰوة والموفون بعهدهم اذا عاهدوا والصٰبرين فى الباساءوالضراءو حين الباس اولٰئك الذين صدقوا واولٰئك هم المتقون» [البقرہ: 177] ترجمہ اوپر باب میں لکھا جا چکا ہے۔

آیات میں عقائد صحیحہ وایمان راسخ کے بعد ایثار، مالی قربانی، صلہ رحمی،حسن معاشرت، رفاہ عام کو جگہ دی گئی ہے۔ اس کے بعد اعمال اسلام نماز، زکوٰۃ کا ذکر ہے۔ پھر اخلاق فاضلہ کی ترغیب ہے۔ اس کے بعد صبر واستقلال کی تلقین ہے۔ یہ سب کچھ «بر» کی تفسیر ہے۔ معلوم ہوا کہ جملہ اعمال صالحہ واخلاق فاضلہ ارکان اسلام میں داخل ہیں۔ اور ایمان کی کمی وبیشی بہر حال وبہر صورت قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ مرجیہ جو اعمال صالحہ کو ایمان سے الگ اور بیکا ر محض قرار دیتے ہیں اور نجات کے لیے صرف ایمان کو کافی جانتے ہیں۔ ان کا یہ قول سراسر قرآن و سنت کے خلاف ہے۔

سورۃ مومنون کی آیات یہ ہیں «بسم الله الرحمٰن الرحيم قد افلح المومنون الذين هم فى صلاتهم خٰشعون والذين هم عن اللغومعرضون والذين هم للزكوة فٰعلون والذين هم لفروجهم حٰفظون الا عليٰ ازواجهم اوما ملكت ايمانهم فانهم غير ملومين فمن ابتغيٰ وراءذلك فاولٰئك هم العٰدون والذين هم لامٰنٰتهم وعهدهم رٰعون والذين هم عليٰ صلاتهم يحافظون اولٰئك هم الوارثون الذين يرثون الفردوس هم فيها خٰلدون» [المؤمنون: 11-1]
اس پیرایہ میں یہ بیان دوسرا اختیار کیا گیا ہے۔ مقصد ہر دو آیات کا ایک ہی ہے۔ ہاں اس میں بذیل اخلاق فاضلہ، عفت، عصمت شرم و حیا کو بھی خاص جگہ دی گئی ہے۔ اس جگہ سے آیت کا ارتباط اگلی حدیث سے ہو رہا ہے جس میں حیا کو بھی ایمان کی ایک شاخ قرار دیا گیا ہے۔

حضرت امام نے یہاں ہر دو آیت کے درمیان واؤ عاطفہ کا استعمال نہیں فرمایا۔ مگر بعض نسخوں میں واؤ عاطفہ اور بعض میں و قول اللہ کا اضافہ بھی ملتا ہے۔ اگر ان نسخوں کو نہ لیا جائے تو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے یہ وجہ بیان فرمائی کہ حضرت الامام پہلی آیت کی تفسیر میں «المتقون» کے بعد اس آیت کو بلا فصل اس لیے نقل کر رہے ہیں۔ تاکہ متقون کی تفسیر اس آیت کو قرار دے دیا جائے۔ مگر ترجیح واؤ عاطفہ اور و قول اللہ کے نسخوں کو حاصل ہے۔

آیات قرآنی کے بعد حضرت امام نے حدیث نبوی کو نقل فرمایا اور اشارتاً بتلایا کہ امور ایمان ان ہی کو کہا جانا چاہیے جو پہلے کتاب اللہ سے اور پھر سنت رسول سے ثابت ہوں۔ حدیث میں ایمان کو ایک درخت سے تشبیہ دیکر اس کی ساٹھ سے کچھ اوپر شاخیں بتلائی گئی ہیں۔ اس میں بھی مرجیہ کی صاف تردید مقصود ہے جو ایمان سے اعمال صالحہ کو بے جوڑ قرار دیتے ہیں۔ حالانکہ کی درخت کی جڑمیں اور اس کی ڈالیوں میں ایک ایسا قدرتی ربط ہے کہ ان کو باہمی طور پر بے جوڑ بالکل نہیں کہا جا سکتا۔ جڑ قائم ہے تو ڈالیاں اور پتے قائم ہیں۔ جڑ سوکھ رہی ہے تو ڈالیاں اور پتے بھی سوکھ رہے ہیں۔ ہو بہو ایمان کی یہی شان ہے۔ جس کی جڑ کلمہ طیبہ «لا اله الا الله» ہے۔ اور جملہ اعمال صالحہ اور اخلاق فاضلہ وعقائد راسخہ اس کی ڈالیاں ہیں۔ اس سے ایمان واعمال صالحہ کا باہمی لازم ملزوم ہونا اور ایمان کا گھٹنا اور بڑھنا ہر دو امور ثابت ہیں۔

بعض روایت میں «بضع وستون» کی جگہ «بضع وسبعون» ہے اور ایک روایت میں «اربع وستون» ہے۔ اہل لغت نے «بضع» کا اطلاق تین اور نو کے درمیان عدد پر کیا ہے۔ کسی نے اس کا اطلاق ایک اور چار تک کیا ہے، روایت میں ایمان کی شاخون کی تحدید مراد نہیں بلکہ کثیر مراد ہے۔ علامہ طیبی رحمہ اللہ کا یہی قول ہے۔ بعض علماء تحدید مراد لیتے ہیں۔ پھر «ستون» (60) اور «سبعون» (70) اور زائد «سبعون» کو ترجیح دیتے ہیں۔ کیونکہ زائد میں ناقص بھی شامل ہو جاتا ہے۔ بعض حضرات کے نزدیک «ستون» (60) ہی متیقن ہے۔ کیونکہ مسلم شریف میں بروایت عبداللہ بن دینار جہاں «سبعون» کا لفظ آیا ہے بطریق شک واقع ہوا ہے۔

«والحياء شعبة من الايمان» میں تنوین تعظیم کے لیے ہے۔ حیا طبیعت کے انفعال کو کہتے ہیں۔ جو کسی ایسے کام کے نتیجہ میں پیدا ہو جو کام عرفاً شرعاً مذموم، برا، بےحیائی سے متعلق سمجھا جاتا ہو۔ حیا وشرم ایمان کا اہم ترین درجہ ہے۔ بلکہ جملہ اعمال خیرات کا مخزن ہے۔ اسی لیے فرمایا گیا «اذا لم تستحي فاصنع ما شئت» جب تم شرم و حیا کو اٹھا کر طاق پر رکھ دو پھر جو چاہو کرو۔ کوئی پابندی باقی نہیں رہ سکتی۔

امام بیہقی رحمہ اللہ نے حدیث ہذا کی تشریح میں مستقل ایک کتاب شعب الایمان کے نام سے مرتب فرمائی ہے۔ جس میں ستر سے کچھ زائد امور ایمان کو مدلل ومفصل بیان فرمایا ہے۔ ان کے علاوہ امام ابو عبداللہ حلیمی نے فوائد المنہاج میں اور اسحاق ابن قرطبی نے کتاب النصائح میں اور امام ابو حاتم نے وصف الایمان و شعبہ میں اور دیگر حضرات نے بھی اپنی تصنیفات میں ان شاخوں کو معمولی فرق کے ساتھ بیان کیا ہے۔

علامہ ابن حجر رحمہ اللہ نے ان سب کو اعمال قلب (دل کے کام) اعمال لسان (زبان کے کام) اعمال بدن (بدن کے کام) پر تقسیم فرما کر اعمال قلب کی 24 شاخیں اور اعمال لسان کی سات شاخیں اور اعمال بدن کی 38 شاخیں بالتفصیل ذکر کی ہیں۔ جن کا مجموعہ 69 بن جاتا ہے۔ روایت مسلم میں ایمان کی اعلیٰ شاخ کلمہ طیبہ «لااله الا الله» اور ادنیٰ شاخ «اماطة الاذي عن الطريق» بتلائی گئی ہے۔ اس میں تعلق باللہ اور خدمت خلق کا ایک لطیف اشارہ ہے۔ گویا دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ تب ایمان کامل حاصل ہوتا ہے۔ خدمت خلق میں راستوں کی صفائی، سڑکوں کی درستگی کو لفظ ادنیٰ سے تعبیر کیا گیا۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ خدمت خلق کا مضمون بہت ہی وسیع ہے۔ یہ تو ایک معمولی کام ہے جس پر اشارہ کیا گیا ہے۔ ایمان باللہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت سے شروع ہو کر اس کی مخلوق پر رحم کرنے اور مخلوق کی ہر ممکن خدمت کرنے پر جا کر مکمل ہوتا ہے۔ اس شعر کے یہی معنی ہیں

❀ خدا رحم کرتا نہیں اس بشر پر ٭ نہ ہو درد کی چوٹ جس کے جگر پر
❀ کرو مہربانی تم اہل زمیں پر ٭ خدا مہربان ہوگا عرش بریں پر
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 9   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 5  
´ایمان، دل اور زبان کے اقرار کے ساتھ اعمال کا نام ہے`
«. . . ‏‏‏‏وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " الْإِيمَانُ بضع وَسَبْعُونَ شُعْبَة فأفضلها: قَول لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَدْنَاهَا: إِمَاطَةُ الْأَذَى عَن الطَّرِيق والحياة شُعْبَة من الايمان " . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان کی شاخیں ستر سے زیادہ ہیں سب سے اعلیٰ درجہ کی شاخ «لا اله الا الله» کہنا ہے، اور سب سے ادنیٰ شاخ، تکلیف دہ چیزوں کا راستہ سے دور کر دینا ہے، اور شرم ایمان کی ایک شاخ ہے۔ . . . [مشكوة المصابيح/كِتَاب الْإِيمَانِ: 5]

تخریج الحدیث:
[صحيح بخاري 9]،
[صحيح مسلم 153،152 واللفظه له]

فقہ الحدیث
➊ عربی لغت میں «بضع» کا لفظ: تین سے لے کر نو تک کے عدد پر بولا جاتا ہے۔ [القاموس الوحيد 169/1]
➋ بعض روایات میں ساٹھ سے زائد درجوں کا ذکر آیا ہے [صحيح بخاري: 9] ایک روایت میں چونسٹھ [الترمذي: 2614ب، احمد 379/2 ح 8913 وسنده صحيح، والقول بشذوذه قول شاذ] اور دوسری روایت میں بہتر [72] کا عدد آیا ہے۔ [صحيح ابن حبان، الاحسان 202/1 ح 181، وقال: بخبر غريب غريب، دوسرا نسخه 407/1 ح 181 وقال شعيب الأرناووط: أسناده صحيح عليٰ شرطهما]
بعض علماء کہتے ہیں کہ یہاں تحدید (حد بندی) مراد نہیں بلکہ کثرت مراد ہے، اور بعض علماء کہتے ہیں کہ یہ سب الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائے ہیں جو کہ راویوں نے یاد رکھے ہیں، یہاں تین باتیں ملحوظ خاطر ہیں:
اول: یہ درجات مختلف لوگوں کے احوال سے ہیں، مثلاً انبیاء، صحابہ، تابعین، تبع تابعین، شہداء، صدیقین و صالحین کے ستر سے زائد درجے ہیں، اسی طرح علماء اور عوام کے درجات میں بھی فرق ہے۔
دوم: بعض علماء کے نزدیک ایمان کے ان درجات میں سے بعض درجوں کی آگے ایک دو شاخیں ہیں، اس لحاظ سے جب ساٹھ سے زیادہ کا عدد بولا جائے گا تو اصل درجات مراد ہوں گے اور اگر ستر سے زیادہ کا عدد بولا جائے گا تو بعض درجات کی شاخیں بھی شامل ہوں گی۔
سوم: بعض کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں ساٹھ سے زائد درجات اور احادیث مطہرہ میں ستر سے زائد درجات کا ذکر موجود ہے، لہٰذا جب ساٹھ کا لفظ بولا جائے گا تو کتاب اللہ کے درجے مراد ہوں گے اور ستر کے لفظ سے کتاب و سنت، دونوں کے درجات مراد ہوں گے۔ «والله اعلم»
➌ عینی حنفی نے ایمان کے ستتر 77 درجات کے نام لکھ کر شرح صحیح بخاری میں جمع کر دیے ہیں۔ [عمدةالقاري 128/1۔ 129 ح 9]
➍ ایمان کے ان درجات کے نام بالتفصیل معلوم ہونا ضروری نہیں ہے، بلکہ یہی کافی ہے کہ آدمی قرآن و حدیث و اجماع پر ایمان رکھے۔ ایک مسلمان جب راستے سے ہڈی وغیرہ اٹھا کر راستہ صاف کر رہا ہوتا ہے تو یہ ایمان کا ایک درجہ ہے، اگرچہ اسے یہ علم بھی نہ ہو اور وہ اسے نیکی کا ایک معمولی کام ہی سمجھتا ہو۔
➎ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایمان، دل اور زبان کے اقرار کے ساتھ اعمال کا نام ہے۔ اسی پر تمام اہل حق کا اجماع ہے۔
◈ شیخ عبدالقادرجیلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وتعتقد أن الايمان قول باللسان و معرفة بالجنان و عمل بالأر كان، يزيد بالطاعة وينقص بالعصيان»
اور یہ عقیدہ رکھو کہ ایمان ① زبان کے ساتھ اقرار ② دل کے ساتھ یقین ③ اور ارکان کے ساتھ عمل کا نام ہے ④ اطاعت سے زیادہ ہوتا ہے ⑤ اور نافرمانی سے کم ہوتا ہے۔ [غنية الطالبين 109/1]
◈ تقریباً یہی کلام و مفہوم شرح السنۃ للبغوی [39/1 ح 19] وغیرہ میں لکھا ہوا ہے۔
◈ قاضی عبدالرحمٰن دیوبندی صاحب فرماتے ہیں:
اور میری آخری تحقیق یہ ہے کہ حنفیہ بھی اعمال کو ایمان کا جزء مانتے ہیں۔ [فضل الباري شرح اردو صحيح بخاري 317/1، از افادات شبير احمد عثماني]
➏ ایمان کے مختلف درجے ہیں، لہٰذا یہ زیادہ بھی ہوتا ہے اور کم بھی ہوتا ہے۔
سیدنا عمیر بن حبیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایمان زیادہ ہوتا ہے اور کم (بھی) ہوتا ہے۔ [كتاب الايمان لابن ابي شيبه: 14 وسنده صحيح، الحديث: 23/2 توضيح الاحكام]
امام مالک، سفیان ثوری، سفیان بن عیینہ، ابن جریج اور معمر کہتے تھے کہ ایمان قول و عمل  (کا نام) ہے، زیادہ ہوتا ہے اور کم ہوتا ہے۔ [كتاب الشريعة للآجري ص 119 ح 243، وسنده صحيح]
یہی عقیدہ امام احمد بن حنبل، اوزاعی اور وکیع وغیرہم سے ثابت ہے۔ [الشريعة ص120، 119، باسانيد صحيحه]
➐ حیا کا ذکر یہاں بطور خاص اس لئے کیا گیا ہے کہ یہ ایمان کا ایک اہم ترین درجہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «الحياء لا ياتي إلا بخير» حیا نیکی کے علاوہ کچھ بھی نہیں لاتی۔ [صحيح بخاري: 6117 و صحيح مسلم: 156]
ایک روایت میں ہے «الحياء خير كله» ساری خیر (نیکی) حیا ہے۔ [صحيح مسلم 37/61 وترقيم دارالسلام: 157]
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إذا لم تستح فاصنع ما شئت» اگر تیرے اندر حیا نہیں تو جو مرضی ہے کر۔ [صحيح بخاري: 6120]
➑ اس روایت میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر نہیں، مگر ثبوت شئی کے بعد اس کا عدم ذکر، نفی کی دلیل نہیں ہوتا، دوسرے یہ کہ لا الٰہ الا اللہ کا لازمی تقاضا یہی ہے کہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) پر ایمان لایا جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد، آپ پر ایمان کے بغیر لا الٰہ الا اللہ مکمل ہی نہیں ہوتا۔
   اضواء المصابیح فی تحقیق مشکاۃ المصابیح، حدیث\صفحہ نمبر: 5   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث57  
´ایمان کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان کے ساٹھ یا ستر سے زائد شعبے (شاخیں) ہیں، ان میں سے ادنی (سب سے چھوٹا) شعبہ ۱؎ تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹانا ہے، اور سب سے اعلیٰ اور بہتر شعبہ «لا إله إلا الله» اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں کہنا ہے، اور شرم و حیاء ایمان کی ایک شاخ ہے ۲؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 57]
اردو حاشہ:
(1)
ایمان کی مثال ایک درخت کی سی ہے، توحید و رسالت پر ایمان اس کی جڑ ہے اور اعمال صالحہ شاخیں اور دنیوی اور اخروی فوائد اس کے پھل ہیں، اگر درخت کی جڑ باقی نہ رہے تو درخت بھی قائم نہیں رہ سکتا، البتہ اگر کوئی شاخ کٹ جائے تو درخت پھر بھی قائم رہتا ہے اگرچہ ناقص ہو جاتا ہے۔
اسی طرح گناہوں سے ایمان میں نقص پیدا ہوتا ہے اور نیکیوں سے ایمان کی تکمیل و ترقی ہوتی ہے۔

(2)
سبھی نیکیاں ایمان کی شاخیں ہیں لیکن سب سے اہم کلمہ توحید لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ کا زبان سے اقرار ہے کیونکہ اسی کے نتیجے میں اسے ایمان کے دیگر فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔
زبان کے ساتھ اقرار کے بغیر ایمان معتبر نہیں۔

(3)
کسی نیکی کو معمولی سمجھ کر نظر انداز کرنا درست نہیں کیونکہ مومن کے دل میں نیکی کی خواہش ایمان ہی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے، اس لیے وہ ایمان کی شاخ ہے۔

(4)
حیا ایمان کی ایک اہم شاخ ہے کیونکہ اس کی وجہ سے انسان بہت سے گناہوں سے بچ جاتا ہے، البتہ اس سے وہ بے جا حیا مراد نہیں جو انسان کو دینی مسائل پوچھنے سے، علم حاصل کرنے سے یا نیکی کا کوئی اور کام کرنے سے روک دے۔

(5)
ایمان میں زبانی اعمال بھی شامل ہیں اور قلبی اعمال بھی اور دوسرے اعضاء جوارح سے انجام دیے جانے والے اعمال بھی مثلا لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ کا اقرار زبان کا عمل ہے، اس پر یقین رکھنا دل کا عمل ہے اور راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹا دینا دیگر اعضاء کا عمل ہے۔
یہ سب ایمان کی شاخیں اور اس کے اجزاء ہیں۔

(6)
ہر وہ عمل اچھا اور مطلوب ہے جس سے عام انسانوں کو فائدہ پہنچے۔
ضرروی نہیں کہ وہ فائدہ صرف مسلمانوں تک محدود ہو، بشرطیکہ اس سے اسلام کے کسی اور حکم کی مخالفت نہ ہوتی ہو۔

(7)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایمان کے کئی جزء ہیں اور جس چیز کے اجزاء ہوتے ہیں اس چیز میں کمی و بیشی ضررو ہوتی ہے، لہذا ایمان میں بھی کمی بیشی ہوتی ہے۔

(8)
ایمان کی ان شاخوں پر عمل کے اعتبار سے جس قدر مومن مضبوط ہو گا اس کا ایمان بھی زیادہ ہو گا اور جس قدر کمزور ہو گا اس کا ایمان بھی اسی قدر کم ہو گا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 57   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2614  
´ایمان کے کامل ہونے اور اس میں کمی و زیادتی کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان کی تہتر شاخیں (ستر دروازے) ہیں۔ سب سے کم تر راستے سے تکلیف دہ چیز کا دور کر دینا ہے، اور سب سے بلند «لا إلہ الا اللہ» کا کہنا ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الإيمان/حدیث: 2614]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
معلوم ہواکہ عمل کے حساب سے ایمان کے مختلف مراتب و درجات ہیں،
یہ بھی معلوم ہواکہ ایمان اور عمل ایک دوسرے کے لازم و ملزوم ہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2614   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4676  
´ارجاء کی تردید کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان کی ستر سے کچھ زیادہ شاخیں ہیں، ان میں سب سے افضل لا إله إلا الله کہنا، اور سب سے کم تر راستے سے ہڈی ہٹانا ہے ۲؎، اور حیاء ایمان کی ایک شاخ ہے ۳؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4676]
فوائد ومسائل:
1: سلف صالحین یعنی صحابہ اور تابعین نے نزدیک ایمان زبان کے قول، دل کی حقیقی تصدیق اور اعضاء کے اعمال کا نام ہے، شیخ محی الدین کا قول ہے: یہ بات واضح اور راجح ہے کہ زیادہ سے زیادہ غور وفکر اور واضح سے واضح تر دلیل کی وجہ سے تصدیق قلب میں زیادتی ہوتی ہے، جب صدیقیت حاصل ہو تو اس کا ایمان دوسروں سے زیادہ اور مضبوط ہوتا ہے۔
تصدیق قلب کا عمل ہے باقی اعضاء کے عمل بھی زیادہ کم ہوں گے تو یہ ایمان کی کمی یا اضافے کا سبب ہوں گے، کیونکہ عمل ایمان کے کمال میں شامل ہے۔
سلف صالحین کے نزدیک دیگر اعضاء (اعضائے ظاہری) کے عمل کمال ایمان کی شرط ہیں، البتہ معتزلہ کے نزدیک یہ اعمال ایمان کی صحت کی شرط ہیں۔
(فتح الباري،کتاب الإیمان)
2: سو جو کوئی جس قدر شرعی اعمال بجا لائے اسی قدر اس کا ایمان کا مل ہوتا جائے گا ورنہ اسی قدر ناقص رہے گا۔
جب آپ نے ایمان کے مدارج بیان فرمائے ہیں تو مرجہ کا یہ قول کیسے صحیح ہو سکتا ہے کہ ایمان کم وپیش نہیں ہوتا۔

3: سب سے افضل اوراعلی عمل «لا إله إلا الله» (توحید) کا قرارہے اور محمد رسول ؐ کی رسالت کا اقرار اس کا لازمی حصہ ہے، کیونکہ توحید وہی معتبر ہے جو رسول ؐ نے بتائی ہے لہذا جو شخص رسالت کا منکر ہو اس کی توحید بھی معتبر نہیں، جیسے کی درج ذیل حدیث میں وضاحت آرہی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4676   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:9  
9. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی اکرم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺنے فرمایا: ایمان کی ساٹھ سے کچھ زیادہ شاخیں ہیں اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:9]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے امورایمان کی وضاحت کے لیے پہلے قرآنی آیات کا حوالہ دیا پھر حدیث نبوی کا ذکر فرمایا۔
اس کامطلب یہ ہے کہ امورایمان وہ چیزیں ہوسکتی ہیں جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہوں، نیز اس حدیث میں ایمان کو درخت سے تشبیہ دے کر اس کی ساٹھ سے کچھ اوپر شاخوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔
اس درخت کی جڑ کلمہ طیبہ لا إله إلا الله ہے۔
اس کے علاوہ دیگر امور ایمان اس کی شاخیں ہیں۔
اس سے مرجیہ کی تردید مقصود ہے جو ایمان سے اعمال صالحہ کو بے تعلق قراردیتے ہیں حالانکہ درخت کی جڑ اور اس کی ٹہنیوں کے درمیان ایک قدرتی ربط ہوتا ہے کہ ان کو باہمی طور پر بے جوڑ نہیں کہا جاسکتا۔
جڑ قائم ہے تو پتے اور ٹہنیاں بھی قائم ہیں، اگر جڑ تازہ نہیں تو پتے اور ٹہنیاں بھی مرجھا جاتی ہیں۔
شجر ایمان کی جڑ عقیدہ توحید ہے اور اعمال صالحہ و اخلاق فاضلہ اس کے برگ وبار ہیں۔
اس حدیث سے ایمان اور اعمال صالحہ کا باہمی تعلق اور ایمان کی کمی بیشی ہردو امور ثابت ہوتےہیں۔

ایک روایت میں ہے کہ ان شعبوں میں سب سے اعلیٰ شعبہ لا إله إلا الله کہنا ہے اور سب سے ادنیٰ، راستے سے تکلیف دہ چیز کا ہٹانا ہے۔
(صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 153(35)
اس روایت سے ادنیٰ اور اعلیٰ کی تعيین تو ہوگئی لیکن فروع ایمان کی اصل تعداد متعین نہیں ہوئی۔
اس کے متعلق امام ابن حبان فرماتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ(مذکورہ)
حدیث کا معنی سمجھنا چاہا اور میں نے طاعات کو شمار کرنا شروع کیا تو وہ حدیث میں بیان کردہ تعداد سے زائد تھیں، پھر میں نے احادیث کے اعتبار سے نظر ڈالی اور صرف ان اعمال کو شمار کیا جن پر ایمان کا اطلاق کیا گیا تھا توتعداد کم رہی، پھرقرآن کریم میں بیان کردہ ان اعمال کو گنا جن پر ایمان کا لفظ بولا گیا تھا تو تعداد پھر بھی کم رہی، آخر کار قرآن وحدیث کی وہ نیکیاں شمار کیں جو ایمان کے ساتھ مذکور تھیں اور مکررات کو حذف کردیا تو تعداد 69 نکلی جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔
(شرح الکرماني: 84/1)

امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے مستقل ایک کتاب "شعب الایمان" کو مرتب فرمایا ہے جو مطبوع ہے۔
اس میں انہوں نے امور ایمان کو بڑی تفصیل سے بیان کیا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امور ایمان کو اعمال قلب، اعمال لسان اور اعمال بدن پر تقسیم کرتے ہوئے اعمال قلب کی چوبیس (24)
شاخیں، اعمال لسان کی سات (7)
اور اعمال بدن کی اڑتیس(38)
شاخیں تفصیل سے بیان فرمائی ہیں جن کا مجموعہ 69 بن جاتا ہے۔
(فتح الباري: 73/1)
لیکن ان تمام شاخوں کی بنیاد ایک ہی چیز ہے یعنی علم وعمل سے اپنے نفس کی تہذیب بایں طور کی جائے کہ اس کی دنیا وآخرت باعث رشک ہو، وہ اس طرح کہ صداقت حق کا عقیدہ رکھے اورعمل وکردار میں سلامت روی اور مستقل مزاجی اختیار کرے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ﴾ جن لوگوں نے کہا ہمارا پروردگار اللہ ہے،پھر اس پر قائم رہے تو ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمزدہ ہوں گے۔
(الأحقاف 46: 13)
حدیث میں ہے کہ سفیان بن عبداللہ ثقفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپ مجھے کوئی ایسی جامع بات بتائیں کہ آپ کے بعد مجھے کسی سے پوچھنے کی ضرورت نہ رہے۔
آپ نےفرمایا:
کہہ:
میں اللہ پر ایمان لایا، پھر اس پر استقامت اختیارکر۔
(صحیح مسلم، الإیمان، حدیث 159(38)

حیا طبیعت کے انکسار کا نام ہے جو کسی ایسے خیال یا فعل کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے جوعرفاً یا شرعاً مذموم سمجھا جاتا ہو، یعنی ایسا کام نہ کیا جائے جس کے کرنے سے شرعی سبکی ہو۔
یہی وہ شرعی حیا ہے، جو انسان کو اللہ کی بندگی اور حقوق کی ادائیگی پر آمادہ کرتی ہے۔
یہی حیا انسان کو برے کاموں سے روکتی ہے حدیث میں ہے کہ حیا خیر کی چیز ہے اور خیر ہی کو لاتی ہے۔
(صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 156(37)
حدیث میں اس قسم کی حیا کو ایمان کی شاخ قراردیاگیاہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حیا کاخصوصیت کے ساتھ اس لیے ذکر فرمایا ہے کہ جو اخلاق حسنہ ایمان کے لیے مبادی کی حیثیت رکھتے ہیں ان میں حیا بھی ہے بلکہ حیا ایمان کا سرچشمہ ہے کیونکہ انسان جب اپنے وجود اور اپنی صفات کمال پر غور کرتا ہے تو اسے اللہ پر ایمان لانا پڑتا ہے۔
اگرانسان ان انعامات واحسانات کے باوجود، جو اللہ نے اس پر فرمائے ہیں، اللہ کی ذات پر ایمان نہیں لاتا تو یہ اس کی بہت بڑی بے حیائی ہے، گویا ان احسانات کے پیش نظر اللہ پر ایمان لانا حیا ہی کا نتیجہ ہے۔
یعنی حیا پہلے ایمان کا سبب بنی، ایمان لانے کے بعد پھر ایمان کی مضبوطی کا ذریعہ ثابت ہوئی کیونکہ انعامات کا مسلسل شکریہ ادا کرتے رہنا بھی حیا ہی کا نتیجہ ہے۔
اس بنا پر صفت حیا کا خصوصیت کے ساتھ ذکر فرمایا، نیز (شُعْبةٌ)
میں تنوین تعظیم کے لیے ہے، گویا عبارت یوں ہے:
اَلـحَيَاءُ شُعْبَةٌ عَظِيمَةُ حیا ایمان کا بڑا شعبہ ہے یعنی حیا ایک ایسا شعبہ ہے جس پر بہت سے شعبے مرتب ہوتے ہیں بلکہ حیا ان کے وجود کا سبب بنتی ہے۔
حدیث میں اس کی افادیت کو ایک دوسرے انداز سے بیان کیا گیا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
جب تم میں حیا نہیں ہے تو جو چاہو کرتے رہو۔
(صحیح البخاري، الأدب، حدیث: 6120)
بے حیا باش وہرچہ خواہی کن۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 9   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.