الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
بلوغ المرام کل احادیث 1359 :حدیث نمبر
بلوغ المرام
نماز کے احکام
नमाज़ के नियम
4. باب ســترة المصــلي
4. نمازی کے سترے کا بیان
४. “ सुतरह ” ( कोई चीज़ नमाज़ी और आगे से गुज़रने वालों के बीच आड़ के लिए रखना )
حدیث نمبر: 184
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب Hindi
وعن ابي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏إذا صلى احدكم إلى شيء يستره من الناس فاراد احد ان يجتاز بين يديه،‏‏‏‏ فليدفعه فإن ابى فليقاتله،‏‏‏‏ فإنما هو شيطان» .‏‏‏‏ متفق عليه. وفي رواية: «‏‏‏‏فإن معه القرين» .‏‏‏‏وعن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: «‏‏‏‏إذا صلى أحدكم إلى شيء يستره من الناس فأراد أحد أن يجتاز بين يديه،‏‏‏‏ فليدفعه فإن أبى فليقاتله،‏‏‏‏ فإنما هو شيطان» .‏‏‏‏ متفق عليه. وفي رواية: «‏‏‏‏فإن معه القرين» .‏‏‏‏
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی سترہ قائم کر کے نماز پڑھنے لگے اور کوئی آدمی اس کے سامنے (یعنی سترہ اور نمازی کے درمیان فاصلہ) سے گزرنے لگے تو (نمازی کو چاہیئے کہ) وہ اسے روکنے کی کوشش کرے اگر وہ (گزرنے والا پھر بھی) باز نہ آئے تو اس سے لڑائی کرے کیونکہ وہ شیطان (بصورت انسان) ہے۔ (بخاری و مسلم) اور ایک روایت میں ہے کہ اس کے ساتھ اس کا ساتھی (شیطان) ہے۔
हज़रत अबु सईद ख़ुदरी रज़िअल्लाहुअन्ह रिवायत करते हैं कि रसूल अल्लाह सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने फ़रमाया ’’ जब तुम में से कोई सुतरह खड़ा कर के नमाज़ पढ़ने लगे और कोई आदमी उस के सामने (यानी सुतरह और नमाज़ी के बीच में) से गुज़रने लगे तो (नमाज़ी को चाहिए कि) वह उसे रोकने की कोशिश करे अगर वह (गुज़रने वाला फिर भी) बाज़ न आए तो उस से लड़ाई करे क्यूंकि वह शैतान है । (इंसान की शक्ल में) ‘‘ (बुख़ारी और मुस्लिम)
और एक रिवायत में है कि उस के साथ उस का साथी (शैतान) है ।

تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الصلاة، باب يرد المصلي من مربين يديه، حديث:509، ومسلم، الصلاة، باب منع الماربين يدي المصلي، حديث:505، وانظر حديث:506، وفيه (فإن معه القرين) لكن من حديث عبدالله بن عمر.»

Narrated Abu Sa'id al-Khudri (RA): Allah's Messenger (ﷺ) said: "If one of you prays towards an object separating him from the people and someone tries to pass (between him and the object) in front of him, let him turn him away but if he refuses he should fight him for he is a devil." [Agreed upon]. In another narration: "for there is a Satan with him."
USC-MSA web (English) Reference: 0


حكم دارالسلام: صحيح

   صحيح البخاري509سعد بن مالكإذا صلى أحدكم إلى شيء يستره من الناس فأراد أحد أن يجتاز بين يديه يدفعه فإن أبى فليقاتله فإنما هو شيطان
   صحيح البخاري3274سعد بن مالكإذا مر بين يدي أحدكم شيء وهو يصلي فليمنعه فإن أبى فليمنعه إن أبى فليقاتله فإنما هو شيطان
   صحيح مسلم1129سعد بن مالكإذا صلى أحدكم إلى شيء يستره من الناس فأراد أحد أن يجتاز بين يديه يدفع في نحره فإن أبى فليقاتله فإنما هو شيطان
   صحيح مسلم1128سعد بن مالكإذا كان أحدكم يصلي فلا يدع أحدا يمر بين يديه وليدرأه ما استطاع إن أبى فليقاتله فإنما هو شيطان
   سنن أبي داود697سعد بن مالكإذا كان أحدكم يصلي فلا يدع أحدا يمر بين يديه وليدرأه ما استطاع إن أبى فليقاتله فإنما هو شيطان
   سنن أبي داود700سعد بن مالكإذا صلى أحدكم إلى شيء يستره من الناس فأراد أحد أن يجتاز بين يديه يدفع في نحره فإن أبى فليقاتله فإنما هو الشيطان
   سنن النسائى الصغرى4866سعد بن مالكإذا كان أحدكم في صلاة فأراد إنسان يمر بين يديه فيدرؤه ما استطاع إن أبى فليقاتله فإنه شيطان
   سنن النسائى الصغرى758سعد بن مالكإذا كان أحدكم يصلي فلا يدع أحدا أن يمر بين يديه إن أبى فليقاتله
   سنن ابن ماجه954سعد بن مالكإذا صلى أحدكم فليصل إلى سترة ليدن منها ولا يدع أحدا يمر بين يديه إن جاء أحد يمر فليقاتله فإنه شيطان
   بلوغ المرام184سعد بن مالكإذا صلى احدكم إلى شيء يستره من الناس فاراد احد ان يجتاز بين يديه،‏‏‏‏ فليدفعه فإن ابى فليقاتله،‏‏‏‏ فإنما هو شيطان
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم131سعد بن مالكإذا كان احدكم يصلي فلا يدع احدا يمر بين يديه وليدراه ما استطاع، فإن ابى فليقاتله، فإنما هو شيطان
   المعجم الصغير للطبراني183سعد بن مالك فى المار بين يدي المصلي : إن أبى فرده ، فإن أبى فقاتله ، فإنما هو شيطان

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 184  
´نمازی کے سامنے سے گزرنا جب کہ اس نے سترہ قائم کیا ہو مکروہ ہے`
«. . . وعن ابي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏إذا صلى احدكم إلى شيء يستره من الناس فاراد احد ان يجتاز بين يديه،‏‏‏‏ فليدفعه فإن ابى فليقاتله،‏‏‏‏ فإنما هو شيطان . . .»
. . . سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی سترہ قائم کر کے نماز پڑھنے لگے اور کوئی آدمی اس کے سامنے (یعنی سترہ اور نمازی کے درمیان فاصلہ) سے گزرنے لگے تو (نمازی کو چاہیئے کہ) وہ اسے روکنے کی کوشش کرے اگر وہ (گزرنے والا پھر بھی) باز نہ آئے تو اس سے لڑائی کرے کیونکہ وہ شیطان (بصورت انسان) ہے . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 184]

لغوی تشریح:
«يَجْتَازُ» گزرتا ہے۔
«بَيْنَ يَدَيْهِ» اس کے آگے سے، سامنے سے، یعنی نمازی اور قائم شدہ سترے کی درمیانی جگہ سے گزرتا ہے۔ بظاہر دونوں حکم، یعنی دفع کرنا اور لڑنا وجوب پر دلالت کرتے ہیں۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ واجب نہیں، مندوب ہیں۔
«فَإِنَّمَا هُوَ شَيْطَانٌ» اس کا یہ عمل شیطان کے اکسانے سے ہے۔
«اَلْقَرِينَ» ساتھی، مراد وہ شیطان ہے جو ہر لمحہ انسان کے ساتھ چمٹا رہتا ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ شیطان اس گزرنے والے کو اس کام پر اکساتا اور ابھارتا رہتا ہے تاکہ نمازی حصول برکت اور رحمت سے محروم رہ جائے۔

فوائد و مسائل:
➊ نمازی کے سامنے سے گزرنا جب کہ اس نے سترہ قائم کیا ہو مکروہ ہے اور گزرنے والے کو روکنا واجب ہے یا مستحب و مندوب۔
➋ ظاہر یہ کے نزدیک تو زور اور شدت کے ساتھ اسے روکنا واجب ہے۔ انہوں نے حدیث کے ظاہر الفاظ سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے اور یہی حدیث ان کی دلیل ہے۔ باقی سب کے نزدیک یہ مستحب ہے۔
➌ نمازی، گزرنے والے کو اشارے سے روکنے کی کوشش کرے، اس کے باوجود اگر وہ گزرنے پر بضد ہو تو ذرا سختی سے دھکا دے کر روکے، پھر بھی وہ باز نہ آئے تو اسے مارے۔
➍ یہ اسی صورت میں ہے جبکہ نمازی نے اپنے سامنے سترہ قائم کر رکھا ہو۔ اگر سترہ قائم نہیں تو پھر اس نمازی کا قصور ہے۔
➎ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دوران نماز میں اتنے عمل سے نماز نہیں ٹوٹتی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 184   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 131  
´نمازی اپنے سامنے سے کسی کو گزرنے نہ دے`
«. . . عن ابى سعيد الخدري ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إذا كان احدكم يصلي فلا يدع احدا يمر بين يديه وليدراه ما استطاع، فإن ابى فليقاتله، فإنما هو شيطان . . .»
. . . سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی آدمی نماز پڑھے تو اپنے سامنے سے کسی کو گزرنے نہ دے، جتنی استطاعت ہو اسے ہٹائے پھر اگر وہ انکار کرے تو اس سے جنگ کرے کیونکہ یہ شیطان ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 131]

[وأخرجه مسلم 505، من حديث ما لك به]
تفقه:
➊ نمازی کے آگے سترہ رکھنا واجب ہے یا سنت؟ اس میں علماءکا اختلاف ہے اور ان یہی ہے کہ سترہ واجب نہیں بلکہ سنت ہے۔ دیکھئے [التمهيد 193/4]
● مسند البزار میں حدیث ہے کہ نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر سترے کے نماز پڑھی ہے۔ [شرح صحيح بخاري لابن بطال ج2 ص175] اس روایت کی سند حسن لذاتہ ہے اور شواہد کے ساتھ یہ صحیح ہے۔
● معلوم ہوا کہ جن احادیث میں سترے کے ساتھ نماز پڑھنے یا سترے کے بغیر نماز نہ پڑھنے کا علم ہے وہ استحباب پرمحمول ہیں۔
● عروہ بن زبیر رحمہ اللہ سترے کے بغیر نماز پڑھتے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه: 278/1 ح 2871 وسندہ صحیح]
➋ اگر کوئی شخص سترہ رکھ کر نماز پڑھ رہا ہو تو سترے کے اندر سے گزرنا کبیرہ گناہ ہے۔
➌ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ رات کو جب نماز میں سترہ نہ ملتا تو وہ کسی آدی کو ستر ہ بنا لیتے اور فرماتے: میری طرف پیٹھ پھیر کر بیٹھ جاؤ۔ [مصنف ابن ابي شيبه: 279/1 ح 2878 وسنده صحيح]
➍ اس پراجماع ہے کہ امام کا سترہ مقتدیوں کے لئے کافی ہوتا ہے۔
➎ سيدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما کسی نمازی کے سامنے سے گزرتے اور نہ کسی نمازی کو گزرنے دیتے تھے۔ [الموطأ 155/1 ح 365 وسنده صحيح]
➏ نیز دیکھئے [الموطأ امام مالك ح 422، البخاري 510، ومسلم 507]
➐ مسجد میں سترہ رکھنا جائز ہے۔ مشہورتا بعی اور ثقہ امام یحیی بن ابی کثیر رحمہ الله فرماتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو مسجد حرام میں دیکھا، آپ لاٹھی گاڑ کر اس کی طرف نماز پڑھ رہے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه: 277/1 ح 2853 وسنده صحيح]
➑ مشہور تابعی امام شعبی رحمہ الله اپنا کوڑا (زمین پر) ڈال کر اس کی طرف نماز پڑھتے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبه: 278/1 ح 2864 وسنده حسن] معلوم ہوا کہ سترے کی بلندی کے لئے کوئی حد ضروری نہیں ہے تا ہم مرفوع احادیث کے پیش نظر بہتر یہی ہے کہ سواری کے کجاوے جتنا (یعنی کم از کم ایک فٹ بلند) سترہ ہو۔ واللہ اعلم
➒ نماز میں ضروری عمل جائز ہے اگرچہ عمل کثیر ہی کیوں نہ ہو بشرطیکہ شریعت میں اس کی دلیل ہو۔
➓ نماز میں خشوع کی بڑی اہمیت ہے لہٰذا اس کو باقی رکھنے کا اہتمام کرنا چاہئے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 175   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 700  
´نمازی کو حکم ہے کہ وہ اپنے سامنے سے گزرنے والے کو روکے۔`
ابوصالح کہتے ہیں میں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کو جو کچھ کرتے ہوئے دیکھا اور سنا، وہ تم سے بیان کرتا ہوں: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ مروان کے پاس گئے، تو عرض کیا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: جب تم میں سے کوئی شخص کسی چیز کو (جسے وہ لوگوں کے لیے سترہ بنائے) سامنے کر کے نماز پڑھے، پھر کوئی اس کے آگے سے گزرنا چاہے تو اسے چاہیئے کہ سینہ پر دھکا دے کر اسے ہٹا دے، اگر وہ نہ مانے تو اس سے لڑے (یعنی سختی سے دفع کرے) کیونکہ وہ شیطان ہے۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: سفیان ثوری کا بیان ہے کہ میں نماز پڑھتا ہوں اور کوئی آدمی میرے سامنے سے اتراتے ہوئے گزرتا ہے تو میں اسے روک دیتا ہوں، اور کوئی ضعیف العمر کمزور گزرتا ہے تو اسے نہیں روکتا۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب السترة /حدیث: 700]
700۔ اردو حاشیہ:
لڑائی کرنے کا مطلب، ہاتھ کے ذریعے سے گزرنے والے کو زور سے روکنا ہے۔ حضرت سفیان ثوری رحمہ اللہ ایک تابعی ہیں، یہ ان کا عمل ہے، اس عمل کی ان کے نزدیک کیا وجہ تھی؟ وہ انہوں نے بیان نہیں کی، اس لیے حدیث کی رُو سے ہر گزرنے والے کو ہاتھ کے ذریعے سے روکنا چاہیے، چاہے کوئی تکبر سے گزرنے والا ہو یا وہ ضعیف ہو۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 700   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 758  
´نمازی اور سترہ کے درمیان گزرنے کی شناعت کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی نماز پڑھ رہا ہو تو اپنے سامنے سے کسی کو گزرنے نہ دے، اگر وہ نہ مانے تو اسے سختی سے دفع کرے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 758]
758 ۔ اردو حاشیہ: نما ز میں اپنے سامنے سترہ ضرور رکھنا چاہیے۔ سترہ نہ رکھنے کی صورت میں اگر کوئی آگے سے گزرے تو گزرنے والا اور نمازی دونوں گناہ گار ہوں گے اور اگر سترہ ہو تو آگے سے گزرا جا سکتا ہے، البتہ اگر کوئی شخص سترہ اور نمازی کے درمیان سے گزرنے کی کوشش کرے تو نمازی کا فرض ہے کہ اسے روکے۔ باز نہ آئے تو اسے دھکا بھی دے سکتا ہے، البتہ دھیگاعشتی پر نہ آئے کہ یہ نماز کے منافی ہے۔ بعض حضرات نے ظاہر الفاظ سے استدلال کرتے ہوئے دھینگاعشتی کو بھی جائز قرار دیا ہے گر یاد رہنا چاہیے کہ اس قسم کے الفاظ کی دلالت موقع محل کی محتاج ہوتی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 758   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث954  
´نمازی کے سامنے سے جو چیز گزرنے لگے اس کو ممکن حد تک روکنے کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی نماز پڑھے تو سترہ کی جانب پڑھے، اور اس سے قریب کھڑا ہو، اور کسی کو اپنے سامنے سے گزرنے نہ دے، اگر کوئی گزرنا چاہے تو اس سے لڑے ۱؎ کیونکہ وہ شیطان ہے ۲؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 954]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اگر نمازی ایسی جگہ نماز پڑھے جہاں اسے خیال ہوکہ کوئی آگے سے گزر سکتا ہے تو اسے سترہ ضرور رکھ لینا چاہیے۔

(2)
دیوار یا ستون بھی سترہ بن سکتا ہے۔

(3)
نمازی اور سترے کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ نہیں ہونا چاہیے۔
ورنہ سترے کا مقصد فوت ہوجائےگا۔

(4)
اگر کوئی شخص نمازی اور سترے کے درمیان سے گزرنا چاہے تو اسے اشارے سے روکنا چاہیے نہ رکے تو سختی سے روکنا چاہیے۔
اگردھکا دینا پڑے تو اس طرح ہی روک دے، لڑنے، سے یہی مراد ہے۔

(5)
گزرنے والے کو شیطان کہنے کا مطلب یہ ہے كه وہ شیطان کے بہکانے کی وجہ سے یہ کام کر رہا ہے یا مطلب یہ ہے کہ اس کے ساتھ شیطان ہے جو اسے گزرنے پرمجبور کر رہا ہے جیسے کہ اگلی روایت میں ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 954   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.