الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
بلوغ المرام کل احادیث 1359 :حدیث نمبر
بلوغ المرام
جنازے کے مسائل
जनाज़े के नियम
1. (أحاديث في الجنائز)
1. (جنازے کے متعلق احادیث)
१. “ जनाज़े के बारे में हदीसें ”
حدیث نمبر: 449
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب Hindi
وعن ابي هريرة رضي الله عنه: ان النبي صلى الله عليه وآله وسلم نعى النجاشي في اليوم الذي مات فيه وخرج بهم إلى المصلى فصف بهم وكبر عليه اربعا. متفق عليه.وعن أبي هريرة رضي الله عنه: أن النبي صلى الله عليه وآله وسلم نعى النجاشي في اليوم الذي مات فيه وخرج بهم إلى المصلى فصف بهم وكبر عليه أربعا. متفق عليه.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کی خبر وفات اسی روز دی جس روز وہ فوت ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو لے کر جنازہ گاہ کی طرف تشریف لے گئے۔ صف بندی کروائی اور اس پرچار تکبیریں کہیں۔ (بخاری و مسلم)
हज़रत अबु हुरैरा रज़िअल्लाहुअन्ह से रिवायत है कि नबी करीम सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम ने नजाशी की मौत की ख़बर उसी दिन दी जिस दिन उसकी मौत हुई थी । आप सल्लल्लाहु अलैहि वसल्लम सहाबा कराम रज़ी अल्लाह अन्हुम को उस जगह लेगए जहां नमाज़ जनाज़ा पढ़नी थी । सफ़ बंदी करवाई और उस पर चार तकबीरें कहीं । (बुख़ारी और मुस्लिम)

تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري، الجنائز، باب الرجل ينعيٰ إلي أهل الميت بنفسه، حديث:1245، ومسلم، الجنائز، باب في التكبير علي الجنائز، حديث:951.»

Abu Hurairah (RAA) narrated that the Messenger of Allah (ﷺ) informed the people about the death of Negus the day he died. He took them out to the place of prayer, to offer the funeral prayer for him. He arranged them in rows, and made Takbir four times.’ Agreed upon.
USC-MSA web (English) Reference: 0


حكم دارالسلام: صحيح

   صحيح البخاري3880عبد الرحمن بن صخرنعى لهم النجاشي صاحب الحبشة في اليوم الذي مات فيه استغفروا لأخيكم
   صحيح البخاري1318عبد الرحمن بن صخرنعى النبي إلى أصحابه النجاشي صفوا خلفه كبر أربعا
   صحيح البخاري1327عبد الرحمن بن صخراستغفروا لأخيكم
   صحيح البخاري1333عبد الرحمن بن صخرنعى النجاشي في اليوم الذي مات فيه وخرج بهم إلى المصلى صف بهم كبر عليه أربع تكبيرات
   صحيح البخاري1245عبد الرحمن بن صخرنعى النجاشي في اليوم الذي مات فيه خرج إلى المصلى صف بهم كبر أربعا
   صحيح مسلم2204عبد الرحمن بن صخرنعى للناس النجاشي في اليوم الذي مات فيه خرج بهم إلى المصلى كبر أربع تكبيرات
   صحيح مسلم2205عبد الرحمن بن صخرنعى لنا رسول الله النجاشي صاحب الحبشة في اليوم الذي مات فيه استغفروا لأخيكم
   جامع الترمذي1022عبد الرحمن بن صخرصلى على النجاشي كبر أربعا
   سنن أبي داود3204عبد الرحمن بن صخرنعى للناس النجاشي في اليوم الذي مات فيه خرج بهم إلى المصلى فصف بهم كبر أربع تكبيرات
   سنن النسائى الصغرى2044عبد الرحمن بن صخراستغفروا لأخيكم
   سنن النسائى الصغرى2043عبد الرحمن بن صخراستغفروا له
   سنن النسائى الصغرى1880عبد الرحمن بن صخرنعى لهما النجاشي صاحب الحبشة اليوم الذي مات فيه استغفروا لأخيكم
   سنن ابن ماجه1534عبد الرحمن بن صخرالنجاشي قد مات فخرج رسول الله وأصحابه إلى البقيع صفنا خلفه تقدم رسول الله فكبر أربع تكبيرات
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم222عبد الرحمن بن صخر نعى للناس النجاشي فى اليوم الذى مات فيه، وخرج بهم إلى المصلى، فصف بهم وكبر اربع تكبيرات
   بلوغ المرام449عبد الرحمن بن صخرنعى النجاشي في اليوم الذي مات فيه وخرج بهم إلى المصلى فصف بهم وكبر عليه اربعا
   مسندالحميدي1053عبد الرحمن بن صخراستغفروا له

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 222  
´لوگوں کو میت کی اطلاع دینا جائز ہے`
«. . . ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نعى للناس النجاشي فى اليوم الذى مات فيه، وخرج بهم إلى المصلى، فصف بهم وكبر اربع تكبيرات»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو نجاشی رضی اللہ عنہ کی وفات کی اطلاع اس دن دی جس دن وہ (نجاشی) فوت ہوئے اور آپ صحابہ کرام کے ساتھ جنازہ گاہ تشریف لے گئے پھر آپ نے ان کی صفیں بنائیں اور چار تکبیریں کہیں۔ (نجاشی) فوت ہوئے اور آپ صحابہ کرام کے ساتھ جنازہ گاہ تشریف لے گے پھر آپ نے ان کی صفیں بنائیں اور چار تکبیریں کہیں۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 222]

تخریج الحدیث:
[الموطأ رواية يحيٰ بن يحيٰ 226/1، 227، ح 533، ك 16 ب 5 ح 14، التمهيد 324/6، الاستذكار: 490 و أخرجه البخاري 1245، ومسلم 951، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ لوگوں کو میت کی اطلاع دینا جائز ہے۔ دیکھئے: [فتح الباري 116/3]
● سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کی وفات کی اطلاع مدینے کے ارد گرد والی بستیوں تک پہنچانے کا حکم دیا تھا۔ [المعجم الكبير للطبراني 239/4 ح 4242، السنن الكبريٰ للبيهقي 74/4 وسنده صحيح]
➋ ایک روایت میں میت کی اطلاع دینے سے منع کیا گیا ہے۔ [سنن الترمذي: 986 وقال: هٰذا حديث حسن]
● لیکن یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ بلال بن یحییٰ کی سیدنا حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ سے ملاقات ثابت نہیں ہے۔
● اگر یہ روایت صحیح بھی ہوتی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اہل جاہلیت کی طرح گلی کوچوں میں چیخ چیخ کر موت کا اعلان کرنا ممنوع ہے۔ دیکھئے: [ماهنامه الحديث حضرو 20/11] اور [كتاب الجنائز للمباركپوري ص 18]
➌ نمازِ جنازہ میں چار تکبیریں کہنا بہتر ہے لیکن پانچ تکبیریں بھی جائز ہیں جیسا کہ [صحيح مسلم 957/72 (2216)] سے ثابت ہے۔
➍ نماز جنازہ مسجد سے باہر پڑھنا بہتر ہے جبکہ مسجد میں پڑھنا بھی جائز ہے۔
➎ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو دور کی خبریں بذریعہ وحی بتا دیتا تھا۔
➏ اگر کوئی شرعی عذر ہو تو غائبانہ نماز جنازہ جائز ہے۔
➐ نماز جنازہ میں جفت یا طاق صفوں کی کوئی شرط نہیں ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جنازہ پڑھائی اور آپ کے پیچھے دو صفیں تھیں۔ [صحيح مسلم: 952، دارالسلام: 2209]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 14   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 449  
´موت کی اطلاع دینا اور غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے کا جواز`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کی خبر وفات اسی روز دی جس روز وہ فوت ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو لے کر جنازہ گاہ کی طرف تشریف لے گئے۔ صف بندی کروائی اور اس پرچار تکبیریں کہیں۔ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 449]
فائدہ: اس حدیث سے کسی کو موت کی اطلاع دینا ثابت ہو رہا ہے اور غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے کا جواز بھی معلوم ہو رہا ہے، تاہم یہ مسئلہ آج تک علماء کے مابین مختلف فیہ چلا آ رہا ہے۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ ہر ایک میت کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی جا سکتی ہے حتی کہ بعض نے تو یہاں تک کہا ہے کہ آدمی کو چاہیے کہ ہر شام کو نماز جنازہ پڑھے اور نیت یہ کرے کہ ہر اس مسلمان کی نماز جنازہ ہے جو آج روئے زمین پر فوت ہوا ہے۔ کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ ہر ایک کی غائبانہ نماز جنازہ جائز نہیں، صرف اس شخص کی غائبانہ پڑھی جائے جس کے بارے میں یہ معلوم ہو کہ اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی گئی۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اور شیخ ابن عثیمین رحمہ الله نے اسی قول کو راجح قرار دیا ہے، جبکہ ایک تیسرے گروہ کا کہنا ہے کہ ہر اس شخص کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی جائے جس نے علم نافع وغیرہ کی صورت میں مسلمانوں پر احسان کیا ہو، تاہم اس مسئلے کی بابت ہمارے نزدیک راجح اور اقرب الی الصواب بات درج ذیل باتوں کو ملحوظ رکھنا ہے۔
❀ فوت ہونے والا اچھی شہرت اور سیاسی، مذہبی اور علمی حیثیت کا حامل ہو، ہر چھوٹے بڑے کی نماز جنازہ غائبانہ طور پر پڑھنا غیر مسنون ہے۔
❀ غائبانہ نماز جنازہ کی ادائیگی میں سیاسی یا مالی مفادات وابستہ نہ ہوں، صرف اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی مطلوب ہو۔
❀ اس کے لیے اعلانات، اشتہارات اور بینر وغیرہ لگانا، مخصوص علمائے کرام یا مذہبی و سیاسی قائدین سے نماز جنازہ پڑھوانا، نیز انتظار اور اسی قسم کے دیگر ذرائع ابلاغ کو استعمال کرنا، جیسا کہ آج کل ہمارے ہاں یہ وبا عام ہے، شرعی طور پر محل نظر ہے، لہٰذا اس کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔
❀ غائبانہ نماز جنازہ کے موقع پر تقاریر یا خطابات کا بھی قطعاً اہتمام نہ ہو، ایسا کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت نہیں۔ بصورت دیگر فوت ہونے والے شخص کے لیے صرف دعا کرنا ہی زیادہ بہتر معلوم ہوتا ہے کہ اسے اپنی خصوصی دعاوں میں یاد رکھا جائے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
❀ غائبانہ نماز جنازہ کا طریقہ وہی ہے جو میت سامنے ہونے کی صورت میں نماز جنازہ کا ہے۔ وضاحت:
نجاشی رحمہ الله نون پر فتحہ اور جیم مخفف ہے۔ حبشہ کے بادشاہ ہے جیسا کہ روم کے بادشاہ کو قیصر اور ایران کے بادشاہ کو کسریٰ کہتے تھے۔ نجاشی کا اصل نام اصحمہ بن ابحر تھا۔ کفار مکہ کے فتنے سے اپنے دین کو بچانے کے لیے مسلمانوں نے اسی بادشاہ کے دور میں حبشہ کی جانب ہجرت کی تھی۔ اسے نبی صلى الله عليه وسلم نے 6 ہجری کے آخر میں یا محرم 7 ہجری میں عمرو بن امیہ ضمری رضی اللہ عنہ کے ذریعے سے خط لکھ کر، اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ اس نے آپ کے مکتوب گرامی کو بوسہ دیا، اسے اپنی آنکھوں سے بھی لگایا، پھر اپنے تخت شاہی سے نیچے اتر آیا اور حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر اسلام قبول کر لیا اور نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو یہ ساری صورتحال تحریر کر کے بھجوا دی۔ 9 ہجری کے بعد رجب میں غزوہ تبوک کے بعد وفات پائی، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے نائب کو بھی اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ بہت سے لوگوں کو ان دونوں خطوط کے بارے میں میں التباس و اختلاط ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 449   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1534  
´نجاشی کی نماز جنازہ کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نجاشی کا انتقال ہو گیا ہے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مقبرہ بقیع کی طرف گئے، ہم نے صف باندھی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے، پھر آپ نے چار تکبیریں کہیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1534]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
حضرت نجاشی رحمۃ اللہ علیہ حبشہ کے بادشاہ تھے ان کا نام اصحمہ تھا۔ (صحیح البخاري،  مناقب الأنصار، باب موت النجاشی، حدیث: 3879)
 حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے نجاشی کی وفات 8 یا 9 ہجری لکھی ہے۔
اور فرمایا ہے کہ اکثر علماء کے نزدیک ان کی وفات 9 ہجری میں ہوئی ہے۔
دیکھئے: (فتح الباري، 240/7، حدیث: 3877)

(2)
مذکورہ حدیث سے غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے کا جواز معلوم ہوتا ہے تاہم یہ مسئلہ آج تک علماء کے مابین مختلف فیہ چلا آرہا ہے۔
بعض علماء کہتے ہیں کہ ہر ایک میت کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی جاسکتی ہے حتیٰ کہ بعض نے تو یہاں تک کہا ہے کہ آدمی کوچاہیے کہ ہرشام کو نماز جنازہ پڑھے اور نیت یہ کرے کہ ہر اس مسلمان کی نماز جنازہ ہے۔
جو آج روئے زمین پر فوت ہوا ہے۔
کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ ہر ایک کی غائبانہ نماز جنازہ جائز نہیں۔
صرف اسی شخص کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی جائے۔
جس کے بارے میں یہ معلوم ہوکہ اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی گئی۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ ابن عثمین رحمۃ اللہ علیہ نے اسی قول کوراحج قراردیا ہے۔
جبکہ ایک تیسرے گروہ کا کہنا ہے کہ ہراس شخص کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی جائے جس نے علم نافع وغیرہ کی صورت میں مسلمانوں پر احسان کیاہو۔
تاہم اس مسئلے کی بابت ہمارے نزدیک راحج اور اقرب الی الصواب بات درج ذیل باتوں کو ملحوظ رکھنا ہے۔

٭ فوت ہونے والا اچھی شہرت اور سیاسی مذہبی اور علمی حیثیت کا حامل ہو۔
ہرچھوٹے بڑے کی نماز جنازہ غائبانہ طور پر پڑھناغیر مسنون ہے۔

٭ غائبانہ نماز جنازہ کی ادایئگی میں سیاسی یا مالی مفادات وابستہ نہ ہوں۔
صرف اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی مطلوب ہو۔

٭  اس کے لئے اعلانات کرنا، شتہارات اور بینرز وغیرہ لگانا مخصوص علمائے کرام یا مذہبی وسیاسی قائدین سے نماز جنازہ پڑھوانا نیز انتظار اور اسی قسم کے دیگر ذرائع ابلاغ کو استعمال کرنا جیسا کہ آج کل ہمارے ہاں یہ وبا عام ہے۔
شرعی طور پر محل نظر ہے لہٰذا اس کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے۔
غائبانہ نماز جنازہ کے موقع پرتقاریر یا خطابات کا بھی قطعاً اہتمام نہ ہو ایسا کرنا رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین سے ثابت نہیں۔
بصورت دیگر فوت ہونے والے شخص کےلئے صرف دعا کرنا ہی زیادہ بہتر معلوم ہوتا ہے کہ اسے اپنی خصوصی دعاؤں میں یاد رکھا جائے۔
واللہ أعلم بالصواب۔

(3)
غائبانہ نماز جنازہ کا طریقہ وہی ہے جو میت سامنے ہونے کی صورت میں ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1534   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3204  
´جو مسلمان مشرکین کے علاقے میں فوت ہو جائے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (حبشہ کا بادشاہ) نجاشی ۱؎ جس دن انتقال ہوا اسی دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی موت کی اطلاع مسلمانوں کو دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کو لے کر عید گاہ کی طرف نکلے، ان کی صفیں بنائیں اور چار تکبیروں کے ساتھ نماز (جنازہ) پڑھی ۲؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3204]
فوائد ومسائل:
جب کسی صاحب علم یا فضل یا اہم شخصیت کی دوسرے شہر یا ملک میں وفات ہوجائے۔
تو اس کی نماز جنازہ غائبانہ پڑھنی جائز ہے۔
اسی طرح قبر پر نماز جنازہ بھی ایک اعتبار سے نماز جنازہ غائبانہ ہی ہے مگر اسے (غائبانہ نماز جنازہ کو)عام مسلمانوں کے لئے عام کردینا بھی درست نہیں۔
(تفصیل کےلئے دیکھئے۔
نیل الاوطار باب الصلواۃ علی الغائب)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3204   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.