الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
نماز کے احکام و مسائل
38. باب اعْتِدَالِ أَرْكَانِ الصَّلاَةِ وَتَخْفِيفِهَا فِي تَمَامٍ:
38. باب: نماز میں تمام ارکان اعتدال سے پورا کرنے اور نماز کو ہلکا کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1057
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا حامد بن عمر البكراوي ، وابو كامل فضيل بن حسين كلاهما، عن ابي عوانة ، قال حامد، حدثنا ابو عوانة، عن هلال بن ابي حميد ، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، عن البراء بن عازب ، قال: " رمقت الصلاة مع محمد صلى الله عليه وسلم، فوجدت قيامه، فركعته، فاعتداله بعد ركوعه، فسجدته، فجلسته بين السجدتين، فسجدته، فجلسته ما بين التسليم والانصراف قريبا من السواء ".وحَدَّثَنَا حَامِدُ بْنُ عُمَرَ الْبَكْرَاوِيُّ ، وَأَبُو كَامِلٍ فُضَيْلُ بْنُ حُسَيْنٍ كلاهما، عَنْ أَبِي عَوَانَةَ ، قَالَ حَامِدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ هِلَالِ بْنِ أَبِي حُمَيْدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ ، قَالَ: " رَمَقْتُ الصَّلَاةَ مَعَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَوَجَدْتُ قِيَامَهُ، فَرَكْعَتَهُ، فَاعْتِدَالَهُ بَعْدَ رُكُوعِهِ، فَسَجْدَتَهُ، فَجَلْسَتَهُ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ، فَسَجْدَتَهُ، فَجَلْسَتَهُ مَا بَيْنَ التَّسْلِيمِ وَالِانْصِرَافِ قَرِيبًا مِنَ السَّوَاءِ ".
ہلال بن ابی حمید نے عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ سے اور انہوں نے حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں (پڑھی جانے والی) نماز کو غور سے دیکھا تو میں نے آپ کے قیام، رکوع، رکوع کے بعد اعتدال اور آپ کے سجدے، دونوں سجدوں کے درمیان جلسے (بیٹھنا) اور آپ کے دوسرے سجدے اور اس کے بعد سلام اور رخ پھیرنے کے درمیان وقفے کو تقریبا برابر پایا۔
حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پر غور کیا تو میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کے قیام، رکوع، رکوع کے بعد قومہ میں اعتدال، آپصلی اللہ علیہ وسلم کے سجدہ، دونوں سجدوں کے درمیان کے جلسہ، دوسرے سجدہ اور سلام پھیرنے کے بعد رخ پھیرنے کے لیے بیٹھنے کو تقریباً برابر پایا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 471

   صحيح البخاري801براء بن عازبركوع النبي وسجوده وإذا رفع رأسه من الركوع وبين السجدتين قريبا من السواء
   صحيح البخاري820براء بن عازبسجود النبي وركوعه وقعوده بين السجدتين قريبا من السواء
   صحيح البخاري792براء بن عازبركوع النبي وسجوده وبين السجدتين وإذا رفع رأسه من الركوع ما خلا القيام والقعود قريبا من السواء
   صحيح مسلم1057براء بن عازبقيامه فركعته فاعتداله بعد ركوعه فسجدته فجلسته بين السجدتين فسجدته فجلسته ما بين التسليم والانصراف قريبا من السواء
   جامع الترمذي279براء بن عازبإذا ركع وإذا رفع رأسه من الركوع وإذا سجد وإذا رفع رأسه من السجود قريبا من السواء
   سنن أبي داود854براء بن عازبقيامه كركعته وسجدته واعتداله في الركعة كسجدته وجلسته بين السجدتين وسجدته ما بين التسليم والانصراف قريبا من السواء
   سنن أبي داود852براء بن عازبسجوده وركوعه وقعوده وما بين السجدتين قريبا من السواء
   سنن النسائى الصغرى1333براء بن عازبقيامه وركعته واعتداله بعد الركعة فسجدته فجلسته بين السجدتين فسجدته فجلسته بين التسليم والانصراف قريبا من السواء
   سنن النسائى الصغرى1066براء بن عازبركوعه وإذا رفع رأسه من الركوع وسجوده وما بين السجدتين قريبا من السواء

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 792  
´رکوع پوری طرح کرنے کی اور اس پر اعتدال و طمانیت کی حد`
«. . . كَانَ رُكُوعُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسُجُودُهُ وَبَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ، وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنَ الرُّكُوعِ مَا خَلَا الْقِيَامَ وَالْقُعُودَ قَرِيبًا مِنَ السَّوَاءِ . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رکوع و سجود، دونوں سجدوں کے درمیان کا وقفہ اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو تقریباً سب برابر تھے۔ سوا قیام اور تشہد کے قعود کے . . . [صحيح البخاري/أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ: 792]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
باب اور حدیث میں مناسبت یہ ہے کہ رکوع اور سجود اور قومہ اور جلسہ آپس میں برابر ہوں ایک طریق میں یہ ہے قومہ بہت طول کرتے تھے یعنی سارے رکن رکوع، سجدہ، قومہ وغیرہ سب اطمینان سے ہوا کرتے تھے تو اس میں رکوع کا حکم بھی شامل ہو گیا کیوں کہ جب رکوع میں اطمنان حاصل ہوا تو لازماً پیٹھ بھی برابر ہو گئی یہیں سے باب اور حدیث میں مناسبت ہے۔

◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں!
اس حدیث کے بعض طرق میں جن کو امام مسلم رحمہ اللہ نے نکالا ہے اعتدال لمبا کرنے کا ذکر ہے۔ تو اس سے تمام ارکان کا لمبا ہونا ثابت ہوا۔

◈ امام عبداللہ بن سالم البصری الشافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
شاید کے امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب کے ذریعہ اس روایت کی طرف اشارہ فرمایا ہو جس کے الفاظ ابوداؤد میں ہیں کہ گھٹنے پر ہتھیلیاں رکھیں اور انگلیوں کو کھول دیں (یعنی رکوع میں) پھر رکوع کیا کہ پیٹھ کو جھکا لیا نہ سر کو جھکایا نہ بلند کیا (بلکہ رکوع میں سر کو بالکل پیٹھ کے برابر رکھا) پس اسی میں «استواء الظهر» پیٹھ برابر کرنے کا اشارہ موجود ہے۔ [ضياء الساري، ج8، ص136]

فائده:
اس حدیث سے یہ واضح ہوا کہ رکوع، سجود، قومہ اور جلسہ ان سب کی میعاد برابر تھی اور قومہ، قیام اور التحیات یہ تینوں رکن برابر تھے یہاں غور طلب مسئلہ یہ ہے کہ سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے قومہ اور قیام کا جداگانہ نام لیا جس سے واضح ہوتا ہے کہ قومہ قیام نہیں ہے۔ سیدنا براء رضی اللہ عنہ نے جس طرح سجدوں کے لئے صرف سجدہ کا ذکر کیا تو معلوم ہوتا ہے کہ تمام سجدے نام اور ہیئت کے اعتبار سے برابر ہیں لیکن قیام کا نام الگ لیا اور قومہ کا تو لہٰذا قومہ قیام کے احکامات میں داخل نہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ»
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 196   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 852  
´رکوع سے اٹھ کر کھڑے رہنے اور دونوں سجدوں کے بیچ میں بیٹھنے کی مقدار کا بیان۔`
براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رکوع، سجدہ اور دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنا سب قریب قریب برابر ہوتے تھے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 852]
852۔ اردو حاشیہ:
«قُعُودُهُ، وَمَا بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ» اس جملے میں نسخوں کا اختلاف ہے۔ منذری میں ہے «كان سجوده وركوعه وما بين السجدتين» ایک دوسرے نسخے میں «قعوده» کے بعد واؤ عاطفہ نہیں ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 852   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 854  
´رکوع سے اٹھ کر کھڑے رہنے اور دونوں سجدوں کے بیچ میں بیٹھنے کی مقدار کا بیان۔`
براء بن عازب رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو (اور ابوکامل کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو) حالت نماز میں بغور دیکھا، تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام کو آپ کے رکوع اور سجدے کی طرح، اور رکوع سے آپ کے سیدھے ہونے کو آپ کے سجدے کی طرح، اور دونوں سجدوں کے درمیان آپ کے بیٹھنے کو، اور سلام پھیرنے اور نمازیوں کی طرف پلٹنے کے درمیان بیٹھنے کو، پھر دوسرے سجدہ سے قریب قریب برابر پایا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اور مسدد کی روایت میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رکوع اور دونوں رکعتوں کے درمیان آپ کا اعتدال پھر آپ کا سجدہ پھر دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنا اور پھر دوسرا سجدہ پھر آپ کا سلام پھیرنے اور لوگوں کی طرف چہرہ کرنے کے درمیان بیٹھنا، یہ سب تقریباً برابر ہوتے تھے۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 854]
854۔ اردو حاشیہ:
➊ سنن ابوداؤد کے بعض نسخوں میں اس حدیث کے آخر میں یہ الفاظ بھی ملتے ہیں۔ «واعتدله بين الركعتين فسجدته فجلسته بين التسليم والانصراف قريبا من السواء» اور رکوع اور سجدوں کے مابین اعتدال (قومہ)، پھر سجدہ اور سلام اور پھرنے کے مابین بیٹھنا تقریباً برابر ہوتے تھے۔
➋ حدیث کے الفاظ کی روایت میں قدرے اختلاف ہے۔ ان الفاظ کی توجیہ یہ ہے کہ «سجدته ما بين التسليم والانصراف» سے سجدہ سہو مراد ہو سکتا ہے۔ اور «واعتدله بين الركعتين» میں «ركعتين» سے ممکن ہے «علي سبيل التغليب» رکوع اور سجدہ مراد ہو۔ [بذل المجهود]
«فسجدته ما بين التسليم والانصراف» سے آخری رکعت کا آخری یعنی دوسرا سجدہ بھی مراد ہو سکتا ہے۔
➌ رکوع، قومہ، سجدہ، بین السجدتین اور بعد سلام بیٹھنے میں اطمینان ہونا چاہیے اور حسب طول قرأت ان ارکان کو بھی مناسب طول دینا مشروع و مسنون ہے بالکل برابری مراد نہیں ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 854   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1066  
´رکوع سے اٹھنے اور سجدہ کرنے کے درمیان قیام کی مقدار کا بیان۔`
براء بن عازب رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رکوع کرنا، اور رکوع سے سر اٹھانا اور سجدہ کرنا، اور دونوں سجدوں کے درمیان ٹھہرنا، تقریباً برابر برابر ہوتا تھا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب التطبيق/حدیث: 1066]
1066۔ اردو حاشیہ: یہ حدیث ان حضرات کے لیے لمحۂ فکریہ ہے جو رکوع کے بعد قومہ (کھڑا ہونا) اور دو سجدوں کے درمیان جلسہ (بیٹھنا)میں ٹھہرنا اور دعائیں پڑھنا مکروہ سمجھتے ہیں۔ نماز تو وہی ہے جو سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ زیادہ سے زیادہ مطابقت رکھتی ہو، نہ کہ فقہی موشگافیوں سے نماز کا سکون اور حسن ہی زائل ہو جائے اور نماز اٹھک بیٹھک اور چونچیں مارنے کی شبیہ بن جائے۔ أعاذنا اللہ منه۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 1066   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 279  
´رکوع اور سجدے سے سر اٹھاتے وقت پیٹھ سیدھی کرنے کا بیان۔`
براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رکوع کرتے، جب رکوع سے سر اٹھاتے، جب سجدہ کرتے اور جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو آپ کی نماز تقریباً برابر برابر ہوتی تھی ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 279]
اردو حاشہ:
1؎:
یہ حدیث اس بات پر صریحاً دلالت کرتی ہے کہ رکوع کے بعد سیدھے کھڑا ہونا اور دونوں سجدوں کے درمیان سیدھا بیٹھنا ایک ایسا رکن ہے جسے کسی بھی حال میں چھوڑنا صحیح نہیں،
بعض لوگ سیدھے کھڑے ہوئے بغیر سجدے کے لیے جھک جاتے ہیں،
اسی طرح دونوں سجدوں کے درمیان بغیر سیدھے بیٹھے دوسرے سجدے میں چلے جاتے ہیں اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ رکوع اور سجدے کی طرح ان میں تسبیحات کا اعادہ اور ان کا تکرار مسنون نہیں ہے تو یہ دلیل انتہائی کمزور ہے کیونکہ نص کے مقابلہ میں قیاس ہے جو درست نہیں،
نیز رکوع کے بعد جو ذکر مشروع ہے وہ رکوع اور سجدے میں مشروع ذکر سے لمبا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 279   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1057  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث میں آپﷺ کی مستقل عادت مبارکہ کو بیان نہیں کیا گیا کہ آپﷺ ہمیشہ قیام،
رکوع،
سجدہ،
دونوں سجدوں کے درمیان کا جلسہ اور سلام پھیرنے کے بعد مقتدیوں کی طرف رخ کرنے تک کا وقف رکھتے تھے۔
بلکہ بعض دفعہ آپﷺ نے ایسے بھی کیا ہے جبکہ آپﷺ نے قراءت انتہائی مختصر کی ہے،
مثلاً آپﷺ نے بعض دفعہ صبح کی نماز میں معوذتین کی قراءت بھی کی ہے تو ایسے اوقات میں تمام ارکان نماز میں فرق تھوڑا رہ جاتا ہے بالکل برابر نہیں ہوتے،
اس لیے صحابی نے قَرِیباً مِّنَ السَّواءِ کہا،
لیکن جب آپﷺ قراءت طویل کرتے تھے،
مثلاً آپﷺ نے صبح کی نماز میں سورۃ واقعہ،
یٰس،
ق کی تلاوت فرمائی ہے۔
ظہر میں الم تنزیل السجدہ،
لقمان،
ذاریات کی تلاوت فرمائی ہے اور شام کی نماز میں اعراف،
دخان،
طور اور مراسلات کی قراءت فرمائی ہے تو ایسے حالات میں،
رکوع وسجود اور قومہ وجلسہ قیام کے برابر کیسے ہو سکتے ہیں؟ یا اس حدیث کا مقصد یہ لینا ہو گا تمام ارکان میں آپﷺ تناسب کا لحاظ رکھتے تھے کہ اگر قراءت لمبی کرتے تو رکوع،
سجود اور قومہ وجلسہ بھی لمبا کرتے تھے،
یہ نہیں کہ قراءت تو طویل ہو اور باقی ارکان بہت مختصر ہوں جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔
(كَانَتْ صَلَاةُ رَسُوْلِ اللهِ صلى الله عليه وسلم مُتَقَارِبَةً)
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز میں تناسب ہوتا تھا۔
(یعنی تمام ارکان متناسب ہوتے تھے۔
اس لیے بعض دفعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قومہ اور جلسہ میں اتنی دیر ٹھہرے رہتے،
کہ مقتدیوں کو خیال ہوتا شاید آپﷺ بھول گئے ہیں)

۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 1057   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.