بسر بن سعید نے حضرت عبد اللہ بن انیس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " مجھے شب قدر دکھا ئی گئی پھر مجھے بھلا دی گئی۔اس کی صبح میں اپنے آپ کو دیکھتا ہوں کہ پانی اور مٹی میں سجدہ کر رہا ہوں۔کہا: تیئسویں رات ہم پر بارش ہوئی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھا ئی پھر آپ نے (رخ) پھیرا تو آپ کی پیشانی اور ناک پر پانی اور مٹی کے نشانات تھے، کہا: اور عبد اللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے (لیلۃالقدر) تیئیسویں ہے۔
حضرت عبداللہ بن انیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے شب قدر دکھائی گئی پھر بھلا دی گئی اور میں نے اس کی صبح اپنے آپ کو پانی اور مٹی میں سجدے کرتے دیکھا۔“ حضرت عبداللہ بن انیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں تیئسویں کی رات ہم پر بارش برسی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی آپصلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو پانی اور مٹی کا نشان آپصلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی اور ناک پر موجود تھا عبداللہ بن انیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہا کرتے تھے کہ شب قدر تیئسویں ہے۔
انزل ليلة ثلاث وعشرين فقلت لابنه كيف كان أبوك يصنع قال كان يدخل المسجد إذا صلى العصر فلا يخرج منه لحاجة حتى يصلي الصبح فإذا صلى الصبح وجد دابته على باب المسجد فجلس عليها فلحق بباديته
كنت في مجلس بني سلمة وأنا أصغرهم فقالوا من يسأل لنا رسول الله عن ليلة القدر وذلك صبيحة إحدى وعشرين من رمضان فخرجت فوافيت مع رسول الله صلاة المغرب ثم قمت بباب بيته فمر بي فقال ادخل فدخلت فأتي بعشائه فرآني أكف عنه من
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1379
´شب قدر کا بیان۔` عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں بنی سلمہ کی مجلس میں تھا، اور ان میں سب سے چھوٹا تھا، لوگوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمارے لیے شب قدر کے بارے میں کون پوچھے گا؟ یہ رمضان کی اکیسویں صبح کی بات ہے، تو میں نکلا اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مغرب پڑھی، پھر آپ کے گھر کے دروازے پر کھڑا ہو گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے اور فرمایا: ”اندر آ جاؤ“، میں اندر داخل ہو گیا، آپ کا شام کا کھانا آیا تو آپ نے مجھے دیکھا کہ میں کھانا تھوڑا ہونے کی وجہ سے کم کم کھا رہا ہوں، جب کھانے سے فارغ ہوئے تو فرمایا: ”مجھے میرا جوتا دو“، پھر آپ کھڑے ہوئے اور میں بھی آپ کے ساتھ کھڑا ہوا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لگتا ہے تمہیں مجھ سے کوئی کام ہے؟“، میں نے کہا: جی ہاں، مجھے قبیلہ بنی سلمہ کے کچھ لوگوں نے آپ کے پاس بھیجا ہے، وہ شب قدر کے سلسلے میں پوچھ رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”آج کون سی رات ہے؟“، میں نے کہا: بائیسویں رات، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہی شب قدر ہے“، پھر لوٹے اور فرمایا: ”یا کل کی رات ہو گی“ آپ کی مراد تیئسویں رات تھی۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب شهر رمضان /حدیث: 1379]
1379. اردو حاشیہ: ➊ بایئسویں کی رات اس اعتبار سے لیلۃ القدر ہوسکتی ہے۔ جیسا کہ آئندہ حدیث حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ (1381) میں ہے کہ اسے آخری دس راتوں میں تلاش کرو۔ آخری نویں۔ساتویں۔ اور پانچویں رات میں تلاش کرو۔ لہذا اگر مہینہ تیس راتوں کا ہوتو آخری نویں رات بایئسیویں تاریخ بنتی ہے۔ واللہ اعلم۔ ➋ استاد۔ معلم ومربی سے مسائل دریافت کرنے کا ادب۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1379
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2775
1
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ پانی اور مٹی والی علامت اکیسویں رات کی بیان کی ہے اور عبداللہ بن انیس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تئیسویں رات کی، معلوم ہوتا ہے اس نشانی کا ظہور مختلف اوقات میں مختلف طاق راتوں میں ہوا ہے۔