الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
حج کے احکام و مسائل
57. بَابُ جَوَازِ تَقْدِيمِ الذَّبْحِ عَلَي الرَّمْيِ ، وَالْحَلْقِ عَلَي الذَّبْح وَعَلَي الرِّمْيِ ، وَتَقْدِيمِ الطَّوَافِ عَلَيْهَا كُلِّهَا
57. باب: کنکریاں مارنے سے پہلے قربانی کرنے کا جواز، اور قربانی کرنے اور شیطان کو کنکریاں مارنے سے پہلے سر منڈا لینے کا جواز، اور طواف کو ان سب سے پہلے کرنے کا جواز۔
حدیث نمبر: 3156
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيى بن يحيى ، قال: قرات على مالك ، عن ابن شهاب ، عن عيسى بن طلحة بن عبيد الله ، عن عبد الله بن عمرو بن العاص ، قال: وقف رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع بمنى للناس يسالونه فجاء رجل، فقال: يا رسول الله، لم اشعر فحلقت قبل ان انحر فقال: " اذبح ولا حرج "، ثم جاءه رجل آخر، فقال: يا رسول الله، لم اشعر فنحرت قبل ان ارمي، فقال: " ارم ولا حرج "، قال: فما سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم، عن شيء قدم ولا اخر، إلا قال: " افعل ولا حرج ".حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ: وَقَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ بِمِنًى لِلنَّاسِ يَسْأَلُونَهُ فَجَاءَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَمْ أَشْعُرْ فَحَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَنْحَرَ فَقَالَ: " اذْبَحْ وَلَا حَرَجَ "، ثُمَّ جَاءَهُ رَجُلٌ آخَرُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَمْ أَشْعُرْ فَنَحَرْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ، فَقَالَ: " ارْمِ وَلَا حَرَجَ "، قَالَ: فَمَا سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ شَيْءٍ قُدِّمَ وَلَا أُخِّرَ، إِلَّا قَالَ: " افْعَلْ وَلَا حَرَجَ ".
امام مالک نے ابن شہاب سے انھوں نے عیسیٰ بن طلحہ بن عبید اللہ سے انھوں نے عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت کی انھوں نے کہا حجتہ الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں لوگوں کے لیے ٹھہرے رہے وہ آپ سے مسائل پوچھ رہے تھے ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول!!میں سمجھ نہ سکا (کہ پہلے کیا ہے) اور میں نے قربانی کرنے سے پہلے سر منڈوالیا ہے؟ آپ نے فرمایا ؛ (اب) قربانی کر لو کوئی حرج نہیں۔پھر ایک اور آدمی آیا اور کہنے لگا اے اللہ کے رسول!! مجھے پتہ نہ چلا اور میں نے رمی کرنے سے پہلے قربانی کر لی؟ آپ نے فرمایا: " (اب) رمی کر لو کوئی حرج نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی چیز کے متعلق جس میں تقدیم یا تا خیر کی گئی نہیں پو چھا گیا مگر آپ نے (یہی) فرمایا: " (اب) کر لو کوئی حرج نہیں۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع میں منیٰ میں لوگوں کے لیے ٹھہرے تاکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کر سکیں، ایک آدمی نے آ کر پوچھا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے لا علمی میں قربانی کرنے سے پہلے سر مونڈ لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: قربانی کر، کوئی حرج نہیں ہے۔ پھر دوسرے نے آ کر پوچھا، اے اللہ کے رسول مجھے پتہ نہیں تھا، میں نے کنکریاں مارنے سے پہلے قربانی کر لی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کنکریاں مار، کوئی حرج نہیں ہے۔ راوی کا بیان ہے، جس چیز کے بھی مقدم یا مؤخر (آگے پیچھے) کرنے کے بارے میں سوال کیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کرو، کوئی حرج نہیں ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1306

   صحيح البخاري83عبد الله بن عمروحلقت قبل أن أذبح فقال اذبح ولا حرج نحرت قبل أن أرمي قال ارم ولا حرج ما سئل النبي عن شيء قدم ولا أخر إلا قال افعل ولا حرج
   صحيح البخاري124عبد الله بن عمروارم ولا حرج حلقت قبل أن أنحر قال انحر ولا حرج ما سئل عن شيء قدم ولا أخر إلا قال افعل ولا حرج
   جامع الترمذي916عبد الله بن عمرواذبح ولا حرج نحرت قبل أن أرمي قال ارم ولا حرج
   صحيح مسلم3157عبد الله بن عمروافعلوا ذلك ولا حرج
   صحيح مسلم3156عبد الله بن عمروافعل ولا حرج
   صحيح مسلم3159عبد الله بن عمروافعل ولا حرج
   صحيح مسلم3161عبد الله بن عمروحلقت قبل أن أذبح قال فاذبح ولا حرج ذبحت قبل أن أرمي قال ارم ولا حرج
   صحيح مسلم3163عبد الله بن عمروافعلوا ولا حرج
   صحيح البخاري1736عبد الله بن عمروحلقت قبل أن أذبح قال اذبح ولا حرج نحرت قبل أن أرمي قال ارم ولا حرج ما سئل يومئذ عن شيء قدم ولا أخر إلا قال افعل ولا حرج
   صحيح البخاري1737عبد الله بن عمروافعل ولا حرج
   سنن أبي داود2014عبد الله بن عمرواصنع ولا حرج
   سنن ابن ماجه3051عبد الله بن عمروذبح قبل أن يحلق أو حلق قبل أن يذبح قال لا حرج
   صحيح البخاري6665عبد الله بن عمروافعل ولا حرج ما سئل يومئذ عن شيء إلا قال افعل ولا حرج
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم329عبد الله بن عمروافعل ولا حرج
   بلوغ المرام631عبد الله بن عمروافعل ولا حرج
   مسندالحميدي591عبد الله بن عمروارم ولا حرج

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 329  
´حج میں لازمی عمل بھول جائے یا ترک کر دے تو دم ضروری ہے`
«. . . قال: فما سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن شيء قدم ولا اخر إلا قال: افعل ولا حرج . . .»
. . . اس دن رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے جس چیز کے بارے میں پوچھا گیاجس میں تقدیم و تاخیر ہو گئی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی جواب دیا کہ کر لو اور کوئی حرج نہیں ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 329]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 83، 1736، ومسلم 1306، من حديث مالك به]

تفقه
➊ اگر لاعلمی کی وجہ سے کنکریاں مارنے یا قربانی کرنے میں کوئی تقدیم و تاخیر ہو جائے تو کوئی حرج نہیں ہے اور کوئی دم (بکری ذبح کرنا) واجب نہیں ہے۔
➋ علم ہونے کے بعد اگر کوئی لازمی عمل ترک ہو گیا تو دم دینا پڑے گا۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ارشاد ہے:
«من نسي من نسكه شيئًا أو تركه فليهرق دمًا»
جو شخص اپنے حج و عمرہ سے کوئی (لازمی) عمل بھول جائے یا ترک کر دے تو اس شخص پر دم ہے یعنی اسے بکری ذبح کر کے مساکین حرم میں تقسیم کرنی پڑے گی۔ [السنن الكبريٰ للبيهقي 5/30 وسنده صحيح، الموطأ للامام مالك 1/419 ح968 وسنده صحيح]
➌ ایک حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر کوئی حاجی قربانی والے دن (10 ذوالحجہ) شام سے پہلے طواف نہ کر سکے تو اس پر (احرام کی) ساری پابندیاں دوبارہ لوٹ آئیں گی یعنی اسے طواف زیارت تک دوبارہ احرام باندھنا پڑے گا۔ دیکھئے: [سنن ابي داؤد 1999 وسنده حسن وصححه ابن خزيمه 2958]
➍ اہل علم کو چاہئے کہ ایام حج (اور اس سے پہلے اور بعد) میں لوگوں کو کتاب و سنت اور دلائل شرعیہ کے مطابق علمی باتیں بتائیں۔
➎ اس پر اجماع ہے کہ حاجی اور عمرہ کرنے والا حالت احرام میں اپنے بال نہیں کاٹے گا اور نہ کٹوائے گا۔ اگر کسی شرعی عذر کی وجہ سے بال کٹوانے پڑے تو دم دینا پڑے گا۔
➏ جمرۂ عقبہ کو کنکریاں مارنے کے بعد سر کے بالوں کا حلق کرنا (منڈوانا) افضل ہے اور بال کترانا جائز ہے۔
➐ حج و عمرے کے تفصیلی مسائل کے لئے میری (مترجَم ومحقَق) کتاب حاجی کے شب وروز دیکھیں۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 66   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 124  
´رمی جمار کے وقت بھی مسائل دریافت کرنا جائز ہے`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ الْجَمْرَةِ وَهُوَ يُسْأَلُ، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، نَحَرْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ، قَالَ: ارْمِ وَلَا حَرَجَ، قَالَ آخَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، حَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَنْحَرَ، قَالَ: انْحَرْ وَلَا حَرَجَ، فَمَا سُئِلَ عَنْ شَيْءٍ قُدِّمَ وَلَا أُخِّرَ إِلَّا قَالَ: افْعَلْ وَلَا حَرَجَ . . .»
. . . عبداللہ بن عمرو سے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رمی جمار کے وقت دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا جا رہا تھا تو ایک شخص نے عرض کیا، یا رسول اللہ! میں نے رمی سے قبل قربانی کر لی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اب) رمی کر لو کچھ حرج نہیں ہوا۔ دوسرے نے کہا، یا رسول اللہ! میں نے قربانی سے پہلے سر منڈا لیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اب) قربانی کر لو کچھ حرج نہیں۔ (اس وقت) جس چیز کے بارے میں جو آگے پیچھے ہو گئی تھی، آپ سے پوچھا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہی جواب دیا (اب) کر لو کچھ حرج نہیں . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ السُّؤَالِ وَالْفُتْيَا عِنْدَ رَمْيِ الْجِمَارِ: 124]

تشریح:
(تعصب کی حد ہو گئی) امام بخاری قدس سرہ کا مقصد ظاہر ہے کہ رمی جمار کے وقت بھی مسائل دریافت کرنا جائز ہے۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو بھی سوالات کئے گئے «الدين يسر» کے تحت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تقدیم و تاخیر کو نظر انداز کرتے ہوئے فرما دیا کہ جو کام چھوٹ گئے ہیں ان کو اب کر لو، تو کوئی حرج نہیں ہے۔ بات بالکل سیدھی اور صاف ہے مگر تعصب کا برا ہو صاحب انوار الباری کو ہر جگہ یہی نظر آتا ہے کہ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ یہاں بھی محض احناف کی تردید کے لیے ایسا لکھ رہے ہیں۔ ان کے خیال ناقص میں گویا جامع صحیح از اول تا آخر محض احناف کی تردید کے لیے لکھی گئی ہے، آپ کے الفاظ یہ ہیں:
احقر (صاحب انوار الباری) کی رائے ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ حسب عادت جس رائے کو اختیار کرتے ہیں چونکہ بقول حضرت شاہ صاحب اسی کے مطابق احادیث لاتے ہیں اور دوسری جانب کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ اسی لیے ترتیب افعال حج کے سلسلہ میں چونکہ وہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی رائے سے مخالف ہیں اس لیے اپنے خیال کی تائید میں جگہ جگہ حدیث «الباب افعل ولاحرج» کو بھی لائے ہیں۔ [انوار الباري،جلد4،ص: 104]
معلوم ہوتا ہے کہ صاحب انوارالباری کو حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کے دل کا پورا حال معلو ہے، اسی لیے تووہ ان کے ضمیر پر یہ فتویٰ لگا رہے ہیں۔ اسلام کی تعلیم تھی کہ مسلمان آپس میں حسن ظن سے کام لیا کریں، یہاں یہ سوء ظن ہے۔ استغفراللہ۔

آگے صاحب انوارالباری مزید وضاحت فرماتے ہیں:
آج اس ہی قسم کے تشدّد سے ہمارے غیرمقلد بھائی اور حرمین شریفین کے نجدی علماء ائمہ حنفیہ کے خلاف محاذ بناتے ہیں، حنفیہ کو چڑانے کے لیے امام بخاری رحمہ اللہ کی یک طرفہ احادیث پیش کیا کرتے ہیں۔ [حواله مذكور]
صاحب انوارالباری کے اس الزام پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے قاعدہ ہے «المرء يقيس على نفسه» (انسان دوسروں کو بھی اپنے نفس پر قیاس کیا کرتا ہے) چونکہ اس تشدد اور چڑانے کا منظر کتاب انوار الباری کے بیشتر مقامات پر ظاہر و باہر ہے اس لیے وہ دوسروں کو بھی اسی عینک سے دیکھتے ہیں، حالانکہ واقعات بالکل اس کے خلاف ہیں۔ مقام صد شکر ہے کہ یہاں آپ نے اپنی سب سے معتوب جماعت اہل حدیث کو لفظ غیرمقلد بھائی سے تو یاد فرمایا۔ اللہ کرے کہ غیرمقلدوں کو یہ بھائی بنانا برادران یوسف کی نقل نہ ہو اور ہمارا تو یقین ہے کہ ایسا ہرگز نہ ہو گا۔ اللہ پاک ہم سب کو ناموس اسلام کی حفاظت کے لیے اتفاق باہمی عطا فرمائے۔ سہواً ایسے موقع پر اتنی تقدیم و تاخیر معاف ہے۔ حدیث کا یہی منشا ہے، حنفیہ کو چڑانا حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کا منشاء نہیں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 124   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 631  
´حج کا طریقہ اور دخول مکہ کا بیان`
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع میں ایک مقام پر کھڑے ہو گئے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات کرنے شروع کیے۔ کسی نے کہا کہ مجھے علم نہیں تھا اور میں نے قربانی سے پہلے حجامت بنوا لی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا قربانی کرو، کوئی حرج نہیں اور ایک آدمی نے عرض کیا مجھے معلوم نہیں تھا اور میں نے کنکریاں مارنے سے پہلے قربانی کر لی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا اب کنکریاں مار لے، کوئی حرج نہیں اس روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی عمل کے مقدم و مؤخر کرنے کے متعلق استفسار پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ اب کر لو، کوئی حرج نہیں۔ (بخاری و مسلم) [بلوغ المرام/حدیث: 631]
631لغوی تشریح:
«وقف فى حجة الوداع» دسویں ذی الحجہ کو زوال آفتاب کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر جمرہ کے پاس خطاب فرمانے کے لیے کھڑے ہوئے۔
«لم اشعر» «اشعر» میں عین پر ضمہ ہے۔ یعنی مجھے اس کا علم نہیں ہوا۔ میں سمجھ نہ سکا۔
«قدم ولا اخر» یہ دونوں باب تفعیل سے مجہول کے صیغے ہیں۔ یاد رہے کہ قربانی کے روز حجاج کرام کے ذمے چار کام بالترتیب انجام دینے ہوتے ہیں۔ پہلا کام جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنا، دوسرا قربانی کرنا، تیسرا سر منڈانا یا بال کٹوانا اور چوتھا طواف افاضہ۔ علماء کا اس پر تو اتفاق و اجماع ہے کہ یہ ترتیب شرعی طور پر مطلوب و مقصود ہے لیکن ان کے درمیان بعض معمولات کے آگے پیچھے ہونے کے جواز میں اختلاف ہے۔ اسے طرح یہ ترتیب آگے پیچھے ہونے پر وجوب دم میں بھی اختلاف ہے اور اس حدیث سے ان حضرات کی تائید ہوتی ہے جو تقدیم و تاخیر کے جواز کے قائل ہیں اور دم کے بھی قائل نہیں ہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 631   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3156  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اکثر فقہاء و محدثین کے نزدیک جن میں امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ،
اسحاق رحمۃ اللہ علیہ،
ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ اور محمد شامل ہیں کا مؤقف یہ ہے کہ قربانی کےدن چاروں کاموں میں ترتیب سنت ہے،
فرض یا واجب نہیں ہے،
اگر کوئی شخص اس ترتیب کو بھول جائے جو کام پہلے کا ہے اسے بعد میں اور جو بعد کا ہے اسے پہلے کر لے خواہ جان بوجھ کر یا بھول کر یا نہ جاننے کی وجہ سے اس پر کوئی گناہ یا قربانی نہیں ہے،
جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان:
کسی قسم کا حرج نہیں ہے۔
سے ثابت ہو رہا ہے،
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک بھی ترتیب سنت ہے اگر کوئی شخص بھول کر یا نا واقفیت کی بنا پر اسے الٹ دے تو اس کے ذمہ کوئی قربانی نہیں ہے،
لیکن اگر وہ جان بوجھ کر الٹے تو پھر امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے دوقول منقول ہیں ایک کی رو سے اس کے ذمے قربانی ہے اور دوسرے کی روسے قربانی نہیں ہے،
حضرت حسن بصری،
ابراہیم رحمۃ اللہ علیہ،
نخعی رحمۃ اللہ علیہ،
اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک مفرد کے لیے ان تمام کاموں میں ترتیب سنت ہے،
لیکن متمتع اور قارن کے لیے رمی،
قربانی اور حلق یا تقصیر کے درمیان ترتیب واجب ہے اس کے الٹ جانے کی صورت میں متمتع پر ایک اور قارن پر دو جانوروں کی قربانی ضروری ہے اور زفرکے نزدیک تین جانوروں کی قربانی کرنا ہو گی،
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اگر قربانی سے پہلے حجامت کرا لے تواس کے ذمہ قربانی نہیں ہے،
لیکن اگر رمی سے پہلے حجامت کرا لے تو اس کے ذمہ قربانی ہے،
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک اگر کوئی شخص کنکریاں مارنے سے پہلے طواف افاضہ کر لے تو ایک قول کی روسے طواف ہو جائے گا مگر اس کے ذمہ قربانی ہوگی۔
دوسرے قول کی روسے طواف افاضہ کا اپنے وقت پر اعادہ کرنا ہوگا۔
باقی آئمہ کے نزدیک طواف افاضہ ہو جائے گا قربانی یا اعادہ کی ضرورت نہیں ہے اصل بات یہ ہے جو کام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسے کیا ہے ہمیں ویسے ہی کرنا چاہیے اپنی یا کسی کی رائے کو اختیار نہیں کرنا چاہیے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 3156   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.