الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
حج کے احکام و مسائل
69. باب نَقْضِ الْكَعْبَةِ وَبِنَائِهَا:
69. باب: کعبہ کی عمارت توڑنا اور اس کی تعمیر کا بیان۔
حدیث نمبر: 3242
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيى بن يحيى ، قال: قرات على مالك ، عن ابن شهاب ، عن سالم بن عبد الله ، ان عبد الله بن محمد بن ابي بكر الصديق ، اخبر عبد الله بن عمر، عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " الم تري ان قومك حين بنوا الكعبة اقتصروا عن قواعد إبراهيم "، قالت: فقلت: يا رسول الله، افلا تردها على قواعد إبراهيم؟، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لولا حدثان قومك بالكفر لفعلت "، فقال عبد الله بن عمر: لئن كانت عائشة سمعت هذا من رسول الله صلى الله عليه وسلم ما ارى رسول الله صلى الله عليه وسلم ترك استلام الركنين اللذين يليان الحجر، إلا ان البيت لم يتمم على قواعد إبراهيم.حدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ ، أَخْبَرَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَلَمْ تَرَيْ أَنَّ قَوْمَكِ حِينَ بَنَوْا الْكَعْبَةَ اقْتَصَرُوا عَنْ قَوَاعِدِ إِبْرَاهِيمَ "، قَالَت: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَلَا تَرُدُّهَا عَلَى قَوَاعِدِ إِبْرَاهِيمَ؟، فقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْلَا حِدْثَانُ قَوْمِكِ بِالْكُفْرِ لَفَعَلْت "، فقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: لَئِنْ كَانَتْ عَائِشَةُ سَمِعَتْ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أُرَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَرَكَ اسْتِلَامَ الرُّكْنَيْنِ اللَّذَيْنِ يَلِيَانِ الْحِجْرَ، إِلَّا أَنَّ الْبَيْتَ لَمْ يُتَمَّمْ عَلَى قَوَاعِدِ إِبْرَاهِيمَ.
سالم بن عبد اللہ سے روایت ہے کہ عبد اللہ بن محمد بن ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہو ئے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " کیا تم نے نہیں دیکھا تمھا ری قوم نے جب کعبہ تعمیر کیا تو اسے حضرت ابرا ہیم ؑ کی بنیا دوں سے کم کر دیا۔کہا میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول!!کیا آپ اسے دوبارہ ابرا ہیمؑ کی بنیا دوں پر نہیں لو ٹا ئیں گے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اگر تمھا ری قوم کا زمانہ کفر قریب کا نہ ہو تا تو میں (ضرورایسا) کرتا۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا اگر یہ بات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی تو میں نہیں سمجھتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حطیم کے قریبی دونوں ارکان کا استلام اس کے علاوہ کسی اور وجہ سے ترک کیا (ہواصل وجہ یہ تھی) کہ بیت اللہ ابرا ہیم ؑ کی بنیا دوں پر پورا 0تعمیر) نہیں کیا گیا تھا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم نہیں ہے، تیری قوم نے جب کعبہ تعمیر کیا، اسے ابراہیمی بنیادوں سے کم کر دیا؟ تو میں نے کہا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ سلم! کیا آپ صلی اللہ علیہ سلم اسے ابراہیمی بنیادوں پر نہیں لوٹائیں گے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تیری قوم کفر سے نئی نئی نہ نکلی ہوتی تو میں یہ کام کر دیتا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، اگر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے واقعی یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے، (یعنی یقینا سنی ہے) تو میرے خیال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجر (حطیم) کے قریبی رکنوں کو استلام کرنا اس لیے چھوڑا ہے کہ بیت اللہ کی تعمیر مکمل طور پر ابراہیمی بنیادوں پر نہیں ہوئی تھی۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1333

   صحيح البخاري7243عائشة بنت عبد اللهقومك قصرت بهم النفقة قلت فما شأن بابه مرتفعا قال فعل ذاك قومك ليدخلوا من شاءوا ويمنعوا من شاءوا لولا أن قومك حديث عهدهم بالجاهلية فأخاف أن تنكر قلوبهم أن أدخل الجدر في البيت وأن ألصق بابه في الأرض
   صحيح البخاري1585عائشة بنت عبد اللهلولا حداثة قومك بالكفر لنقضت البيت ثم لبنيته على أساس إبراهيم قريشا استقصرت بناءه وجعلت له خلفا
   صحيح البخاري1586عائشة بنت عبد اللهلولا أن قومك حديث عهد بجاهلية لأمرت بالبيت فهدم أدخلت فيه ما أخرج منه وألزقته بالأرض وجعلت له بابين بابا شرقيا وبابا غربيا فبلغت به أساس إبراهيم فذلك الذي حمل ابن الزبير ما على هدمه
   صحيح البخاري1584عائشة بنت عبد اللهقومك قصرت بهم النفقة قلت فما شأن بابه مرتفعا قال فعل ذلك قومك ليدخلوا من شاءوا ويمنعوا من شاءوا لولا أن قومك حديث عهدهم بالجاهلية فأخاف أن تنكر قلوبهم أن أدخل الجدر في البيت وأن ألصق بابه بالأرض
   صحيح البخاري126عائشة بنت عبد اللهلولا قومك حديث عهدهم بكفر لنقضت الكعبة جعلت لها بابين باب يدخل الناس وباب يخرجون
   صحيح مسلم3248عائشة بنت عبد اللهلولا حدثان قومك بالكفر لنقضت البيت حتى أزيد فيه من الحجر إن قومك قصروا في البناء
   صحيح مسلم3249عائشة بنت عبد اللهقومك قصرت بهم النفقة قلت فما شأن بابه مرتفعا قال فعل ذلك قومك ليدخلوا من شاءوا ويمنعوا من شاءوا لولا أن قومك حديث عهدهم في الجاهلية فأخاف أن تنكر قلوبهم لنظرت أن أدخل الجدر في البيت وأن ألزق بابه بالأرض
   صحيح مسلم3244عائشة بنت عبد اللهلولا أن قومك حديثو عهد بشرك لهدمت الكعبة ألزقتها بالأرض وجعلت لها بابين بابا شرقيا وبابا غربيا وزدت فيها ستة أذرع من الحجر فإن قريشا اقتصرتها حيث بنت الكعبة
   صحيح مسلم3243عائشة بنت عبد اللهلولا أن قومك حديثو عهد بجاهلية لأنفقت كنز الكعبة في سبيل الله لجعلت بابها بالأرض ولأدخلت فيها من الحجر
   صحيح مسلم3242عائشة بنت عبد اللهألم تري أن قومك حين بنوا الكعبة اقتصروا عن قواعد إبراهيم أفلا تردها على قواعد إبراهيم لولا حدثان قومك بالكفر لفعلت
   صحيح مسلم3240عائشة بنت عبد اللهلولا حداثة عهد قومك بالكفر لنقضت الكعبة ولجعلتها على أساس إبراهيم قريشا حين بنت البيت استقصرت ولجعلت لها خلفا
   صحيح مسلم3246عائشة بنت عبد اللهقومك استقصروا من بنيان البيت لولا حداثة عهدهم بالشرك أعدت ما تركوا منه فإن بدا لقومك من بعدي أن يبنوه فهلمي لأريك ما تركوا منه فأراها قريبا من سبعة أذرع هذا
   صحيح مسلم3245عائشة بنت عبد اللهلولا أن الناس حديث عهدهم بكفر وليس عندي من النفقة ما يقوي على بنائه لكنت أدخلت فيه من الحجر خمس أذرع ولجعلت لها بابا يدخل الناس منه وبابا يخرجون منه
   جامع الترمذي876عائشة بنت عبد اللهصلي في الحجر إن أردت دخول البيت فإنما هو قطعة من البيت لكن قومك استقصروه حين بنوا الكعبة فأخرجوه من البيت
   جامع الترمذي875عائشة بنت عبد اللهلولا أن قومك حديثو عهد بالجاهلية لهدمت الكعبة جعلت لها بابين
   سنن أبي داود2028عائشة بنت عبد اللهصلي في الحجر إذا أردت دخول البيت فإنما هو قطعة من البيت لكن قومك اقتصروا حين بنوا الكعبة فأخرجوه من البيت
   سنن النسائى الصغرى2904عائشة بنت عبد اللهلولا حداثة عهد قومك بالكفر لنقضت البيت فبنيته على أساس إبراهيم جعلت له خلفا فإن قريشا لما بنت البيت استقصرت
   سنن النسائى الصغرى2913عائشة بنت عبد اللهلولا أن الناس حديث عهدهم بكفر وليس عندي من النفقة ما يقوي على بنائه لكنت أدخلت فيه من الحجر خمسة أذرع وجعلت له بابا يدخل الناس منه وبابا يخرجون منه
   سنن النسائى الصغرى2906عائشة بنت عبد اللهلولا أن قومك حديث عهد بجاهلية لأمرت بالبيت فهدم أدخلت فيه ما أخرج منه وألزقته بالأرض وجعلت له بابين بابا شرقيا وبابا غربيا فإنهم قد عجزوا عن بنائه فبلغت به أساس إبراهيم
   سنن النسائى الصغرى2915عائشة بنت عبد اللهإذا أردت دخول البيت فصلي ها هنا فإنما هو قطعة من البيت لكن قومك اقتصروا حيث بنوه
   سنن النسائى الصغرى2903عائشة بنت عبد اللهألم تري أن قومك حين بنوا الكعبة اقتصروا عن قواعد إبراهيم ألا تردها على قواعد إبراهيم لولا حدثان قومك بالكفر
   سنن النسائى الصغرى2905عائشة بنت عبد اللهلولا أن قومي حديث عهد بجاهلية لهدمت الكعبة جعلت لها بابين
   سنن ابن ماجه2955عائشة بنت عبد اللهعجزت بهم النفقة قلت فما شأن بابه مرتفعا لا يصعد إليه إلا بسلم قال ذلك فعل قومك ليدخلوه من شاءوا ويمنعوه من شاءوا لولا أن قومك حديث عهد بكفر مخافة أن تنفر قلوبهم لنظرت هل أغيره فأدخل فيه ما انتقص منه وجعلت بابه بالأرض

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 126  
´مصلحتاً کسی مستحب کام کو ترک کرنا`
«. . . قَالَ لِي ابْنُ الزُّبَيْرِ: كَانَتْ عَائِشَةُ تُسِرُّ إِلَيْكَ كَثِيرًا، فَمَا حَدَّثَتْكَ فِي الْكَعْبَةِ، قُلْتُ: قَالَتْ لِي: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا عَائِشَةُ، لَوْلَا قَوْمُكِ حَدِيثٌ عَهْدُهُمْ، قَالَ ابْنُ الزُّبَيْرِ: بِكُفْرٍ لَنَقَضْتُ الْكَعْبَةَ، فَجَعَلْتُ لَهَا بَابَيْنِ، بَابٌ يَدْخُلُ النَّاسُ وَبَابٌ يَخْرُجُونَ "، فَفَعَلَهُ ابْنُ الزُّبَيْرِ . . .»
. . . مجھ سے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا تم سے بہت باتیں چھپا کر کہتی تھیں، تو کیا تم سے کعبہ کے بارے میں بھی کچھ بیان کیا، میں نے کہا (ہاں) مجھ سے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک مرتبہ) ارشاد فرمایا تھا کہ اے عائشہ! اگر تیری قوم (دور جاہلیت کے ساتھ) قریب نہ ہوتی (بلکہ پرانی ہو گئی ہوتی) ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا یعنی زمانہ کفر کے ساتھ (قریب نہ ہوتی) تو میں کعبہ کو توڑ دیتا اور اس کے لیے دو دروازے بنا دیتا۔ ایک دروازے سے لوگ داخل ہوتے اور دوسرے دروازے سے باہر نکلتے، (بعد میں) ابن زبیر نے یہ کام کیا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ مَنْ تَرَكَ بَعْضَ الاِخْتِيَارِ مَخَافَةَ أَنْ يَقْصُرَ فَهْمُ بَعْضِ النَّاسِ عَنْهُ فَيَقَعُوا فِي أَشَدَّ مِنْهُ: 126]

تشریح:
قریش چونکہ قریبی زمانہ میں مسلمان ہوئے تھے، اسی لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احتیاطاً کعبہ کی نئی تعمیر کو ملتوی رکھا، حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہما نے یہ حدیث سن کر کعبے کی دوبارہ تعمیر کی اور ا س میں دو دروازے ایک شرقی اور ایک غربی جانب نکال دئیے، لیکن حجاج نے پھر کعبہ کو توڑ کر اسی شکل پر قائم کر دیا۔ جس پر عہد جاہلیت سے چلا آ رہا تھا۔ اس باب کے تحت حدیث لانے کا حضرت امام کا منشا یہ ہے کہ ایک بڑی مصلحت کی خاطر کعبہ کا توڑنا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ملتوی فرما دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر فتنہ و فساد پھیل جانے کا یا اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچ جانے کا اندیشہ ہو تو وہاں مصلحتاً کسی مستحب کام کو ترک بھی کیا جا سکتا ہے۔ سنت نبوی کا معاملہ الگ ہے۔ جب لوگ اسے بھول جائیں تو یقیناً اس سنت کے زندہ کرنے والوں کو سو شہیدوں کا ثواب ملتا ہے۔ جس طرح ہندوستانی مسلمان ایک مدت سے جہری نمازوں میں آمین بالجہر جیسی سنت نبوی کو بھولے ہوئے تھے کہ اکابر اہل حدیث نے ازسر نو اس سنت نبوی کو زندہ کیا اور کتنے لوگوں نے اس سنت کو رواج دینے میں بہت تکلیف برداشت کی، بہت سے نادانوں نے اس سنت نبوی کا مذاق اڑایا اور اس پر عمل کرنے والوں کے جانی دشمن ہو گئے، مگر ان بندگان مخلصین نے ایسے نادانوں کی باتوں کو نظر انداز کر کے سنت نبوی کو زندہ کیا، جس کے اثرمیں آج اکثر لوگ اس سنت سے واقف ہو چکے ہیں اور اب ہر جگہ اس پر عمل درآمد کیا جا سکتا ہے۔ پس ایسی سنتوں کا مصلحتاً ترک کرنا مناسب نہیں ہے۔ حدیث میں آیا ہے «من تمسك بسنتي عند فساد امتي فله اجر مائة» شہید جو کوئی فساد کے وقت میری سنت کو لازم پکڑے گا اس کو سو شہیدوں کا ثواب ملے گا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 126   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2955  
´طواف کعبہ حطیم سمیت کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حطیم کے متعلق سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ کعبہ ہی کا ایک حصہ ہے میں نے پوچھا: پھر لوگوں (کفار) نے اس کو داخل کیوں نہیں کیا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کے پاس خرچ نہیں رہ گیا تھا میں نے کہا: اس کا دروازہ اتنا اونچا کیوں رکھا کہ بغیر سیڑھی کے اس پر چڑھا نہیں جاتا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا تمہاری قوم کے لوگوں نے کیا تھا، تاکہ وہ جس کو چاہیں اندر جانے دیں اور جس کو چاہیں روک دیں، اور اگر تمہاری قوم کا زمانہ ابھی ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2955]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
خانہ کعبہ کی نئے سرے سے تعمیر رسول اللہ ﷺ کے منصب پر فائز ہونے سے پانچ سال پہلے کا واقعہ ہے۔

(2)
قریش میں زمانہ جاہلیت میں بھی حلال اور حرام کی تمیز موجود تھی لیکن عملی طور پر اس کا خیال بہت کم رکھا جاتا تھا۔
خانہ کعبہ کی تعمیر نو کے لیے قریش نے حلال مال خرچ کرنے کی شرط لگائی تھی لیکن حلال مال مکمل خانہ کعبہ کی تعمیر کے لیے کافی نہ ہوا تو انھوں نے حطیم والا حصہ تعمیر کے بغیر چھوڑدیا۔

(3)
مسجد کی تعمیر میں حلال کمائی سے حاصل کیا ہوا مال ہی خرچ کرنا چاہیے۔

(4)
حطیم چونکہ کعبہ کا حصہ ہے اس لیے طواف اس کے باہر سے کرنا چاہیےاگر کوئی شخص غلطی سے اس کے اندر سے گزرجائے تو وہ چکر شمار نہ کرے ورنہ طواف ناقص رہے گا۔

(5)
خانہ کعبہ کی عمارت کے بارے میں مولانا صفی الرحمن مبارک پوری ؒ نے جو تفصیلات بیان کی ہیں ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:

  خانہ کعبہ کی موجودہ بلندی پندرہ میٹر ہے۔
حجر اسود والی دیوار اور اس کے سامنے کی دیوار یعنی جنوبی اور شمالی دیواریں دس دس میٹر لمبی ہیں۔
حجر اسود مطاف کی زمین سے ڈیڑھ میٹر کی بلندی پر ہے۔
دروازہ زمین سے دو میٹر بلند ہے۔
چاروں طرف دیواروں کے ساتھ ساتھ ایک بڑھے ہوئے کرسی نما ضلعے کا گھیرا ہے۔
اسے شاذ ردان کہتے ہیں۔
اس کی اونچائی 35 سینٹی میٹر اور اوسط چوڑائی 30 سنٹی میٹر ہے۔
یہ بھی بیت اللہ کا حصہ ہے جسے قریش نے چھوڑدیا تھا۔ (الرحيق المختوم ص: 93)

(6)
بعض اوقات مصلحت کا خیال کرتے ہوئے افضل کام چھوڑ کر غیر افضل جائز کام کرلینا بہتر ہے۔
جب یہ خطرہ ہو کہ جائز کام کرنے سے کچھ نا مطلوب نتائج سامنے آئینگے جن کی تلافی مشکل ہوگی تو افضل کو ترک کیا جاسکتا ہے۔

(7)
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور حکومت میں کعبہ شریف کی تعمیر اس انداز سے کردی تھی جو رسول اللہﷺ کی خواہش تھی لیکن ان کی شہادت کے بعد کعبہ شریف کو دوبارہ پہلے انداز سے بنادیا گیا۔

(8)
۔
اگر کوئی شخص کعبہ کے اندر نماز پڑھنا چاہے تو اسے چاہیے کہ حطیم میں نماز پڑھ لے کیونکہ یہ خانہ کعبہ کا ایک حصہ ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2955   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 876  
´حطیم میں نماز پڑھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں: میں چاہتی تھی کہ بیت اللہ میں داخل ہو کر اس میں نماز پڑھوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے حطیم ۱؎ کے اندر کر دیا اور فرمایا: اگر تم بیت اللہ کے اندر داخل ہونا چاہتی ہو تو حطیم میں نماز پڑھ لو، یہ بھی بیت اللہ کا ایک حصہ ہے، لیکن تمہاری قوم کے لوگوں نے کعبہ کی تعمیر کے وقت اسے چھوٹا کر دیا، اور اتنے حصہ کو بیت اللہ سے خارج کر دیا۔ [سنن ترمذي/كتاب الحج/حدیث: 876]
اردو حاشہ:
1؎:
حطیم کعبہ کے شمالی جانب ایک طرف کا چھوٹا ہوا حصہ ہے جو گول دائرے میں دیوار سے گھیر دیا گیا ہے،
یہ بھی بیت اللہ کا ایک حصہ ہے اس لیے طواف اس کے باہر سے کرنا چاہئے،
اگر کوئی طواف میں حطیم کو چھوڑ دے اور اُس کے اندر سے آئے تو طواف درست نہ ہو گا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 876   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2028  
´حطیم میں نماز پڑھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میری خواہش تھی کہ میں بیت اللہ میں داخل ہو کر اس میں نماز پڑھوں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے حطیم میں داخل کر دیا، اور فرمایا: جب تم بیت اللہ میں داخل ہونا چاہو تو حطیم کے اندر نماز پڑھ لیا کرو کیونکہ یہ بھی بیت اللہ ہی کا ایک ٹکڑا ہے، تمہاری قوم کے لوگوں نے جب کعبہ تعمیر کیا تو اسی پر اکتفا کیا تو لوگوں نے اسے بیت اللہ سے خارج ہی کر دیا ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 2028]
فوائد ومسائل:
رسول اللہ ﷺ کی عمر مبارک کا پینتیسواں سال تھا کہ قریش نے بیت اللہ کی خستہ عمارت کو از سر نو تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا اور عہد کیا کہ اس میں صرف حلال رقم ہی صرف کریں گے۔
رنڈی کی اجرت۔
سود کی دولت۔
اور کسی کا ناحق لیا ہوا مال استعمال نہیں ہونے دیں گے۔
مگر حلال مال کی کمی پڑ گئی۔
تو انھوں نے شمال کی طرف سے کعبہ کی لمبائی تقریباً چھ ہاتھ کم کردی۔
یہی ٹکڑا حجر اور حطیم کہلاتا ہے۔
(الرحیق المختوم)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2028   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3242  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
بیت اللہ کی تعمیر مختلف ادوار میں ہوتی رہی ہے،
سب سے پہلی تعمیر فرشتوں نے کی،
پھر آدم علیہ السلام نے،
پھر حضرت شیث علیہ السلام،
طوفان نوح علیہ السلام میں یہ غرقاب ہو گیا اور اس کی بنیادیں بھی نظروں سے اوجھل ہو گئیں،
تو چوتھی دفعہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے باپ بیٹا ابراہیم علیہ السلام اور اسماعیل علیہ السلام نے اس کو نئے سرے سے تعمیر کیا،
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بعد بنو عمالقہ نے،
پھر بنو جرہم نے،
پھر قصی نے،
آٹھویں بار اس کو قریش نے تعمیر کیا،
اور اس تعمیر میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی شریک تھے،
حجراسود مقررہ جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے رکھا تھا،
لیکن چونکہ قریش نے اس کی تعمیر میں خالص حلال مال صرف کیا تھا اور وہ کم تھا اس لیے حطیم والا حصہ چھوڑ دیا گیا اور رکن یمانی اور رکن حجراسود کے سوا باقی دونوں رکن اپنی صحیح بنیادوں پر تعمیر نہ ہو سکے،
اس لیے بیت اللہ کا طواف حجر (حطیم)
کے اوپر سے کیا جاتا ہے لیکن اس طرف والے دونوں رکنوں کا ابراہیمی بنیادوں پر نہ ہونے کی وجہ سے استلام نہیں کیا جاتا،
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش تھی کہ کعبہ کو توڑ کر نئے سرے سے تعمیر کریں،
اور اس کی کرسی زمین کے قریب رکھیں تاکہ لوگ اس میں داخل ہو سکیں،
اور اس کے دو دروازے رکھیں تاکہ ایک سے لوگ داخل ہوں اور دوسرے سے باہر نکلیں اور آمدو رفت میں سہولت ہو جائے،
لیکن چونکہ قریش فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے تھے اس لیے خطرہ تھا کہ یہ نئی تعمیر ان کے لیے فتنہ اور آزمائش کا باعث بنے گی اور یہ چیز اس وقت کی دینی مصلحت کے خلاف تھی،
اس لیے آپ صلی اللہ علیہ سلم نے فتنہ و فساد سے بچنے کے لیے ایک اولیٰ اور بہتر کام کو ترک دیا،
اس لیے حکام کے لیے ضروری ہے کہ وہ عوام کے مصالح اور فوائد کا لحاظ رکھیں،
لیکن اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ وہ شرکیہ اور کفریہ افعال واعمال کا پیش خیمہ اور سبب بنتے رہیں۔
اس لیے اگر سعودی حکام نے پختہ قبروں اور مزاروں کو گرایا تھا تو یہ قابل تعریف کا م کیا تھا نہ کہ قابل مذمت کیا،
نماز کو چھوڑنا اور سودی کاروبار کرنا،
اور تصویر سازی کو اس لیے نظرانداز کیا جا سکتا ہے،
کہ مسلمانوں کی بہت بڑی اکثریت ناجائز کاموں کی مرتکب ہے،
اگر ان افعال بد پر ان کا مواخذہ شروع کیا جائے تو عوام میں تنفر،
توحش اور جذباتی ابال پیدا ہو گا،
اور وہ تمام حکومت کے خلاف ہو جائیں گے،
اس طرح اگر زکوٰۃ کے حصول،
حدود وتعزیرات شرعیہ کے اجراء،
اور دیگر احکام شرعیہ کے نفاذ میں کوئی رو رعایت نہیں کرنی چاہیے تو مزاروں اور قبروں پر گنبدوں کی تعمیر کے لیے رو رعایت کیوں برتی جائے،
اور ان کے گرانے پر اعتراض کیوں کیا جائے،
جبکہ یہ کام سعودی علماء کے نزدیک ناجائز ہیں،
اور شرک کا پیش خیمہ ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 3242   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.