الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
حج کے احکام و مسائل
The Book of Pilgrimage
82. باب تَحْرِيمِ مَكَّةَ وَصَيْدِهَا وَخَلاَهَا وَشَجَرِهَا وَلُقَطَتِهَا إِلاَّ لِمُنْشِدٍ عَلَى الدَّوَامِ:
82. باب: مکہ مکرمہ کے حرم ہونے اور اس کے شکار اور گھاس اور درخت اور گری پڑی چیز کی حرمت کا بیان سوائے اس کے جو گری پڑی چیز کا اعلان کرنے والا ہو۔
حدیث نمبر: 3302
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا إسحاق بن إبراهيم الحنظلي ، اخبرنا جرير ، عن منصور ، عن مجاهد ، عن طاوس ، عن ابن عباس ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الفتح: فتح مكة: " لا هجرة ولكن جهاد ونية، وإذا استنفرتم فانفروا، وقال يوم الفتح: فتح مكة: إن هذا البلد حرمه الله يوم خلق السماوات والارض، فهو حرام بحرمة الله إلى يوم القيامة، وإنه لم يحل القتال فيه لاحد قبلي، ولم يحل لي إلا ساعة من نهار، فهو حرام بحرمة الله إلى يوم القيامة، لا يعضد شوكه، ولا ينفر صيده، ولا يلتقط إلا من عرفها، ولا يختلى خلاها "، فقال العباس: يا رسول الله، إلا الإذخر، فإنه لقينهم ولبيوتهم، فقال: " إلا الإذخر "،حدثنا إِسْحَاقَ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ ، أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ طَاوُسٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْفَتْحِ: فَتْحِ مَكَّةَ: " لَا هِجْرَةَ وَلَكِنْ جِهَادٌ وَنِيَّةٌ، وَإِذَا اسْتُنْفِرْتُمْ فَانْفِرُوا، وَقَالَ يَوْمَ الْفَتْحِ: فَتْحِ مَكَّةَ: إِنَّ هَذَا الْبَلَدَ حَرَّمَهُ اللَّهُ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ، فَهُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَةِ اللَّهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَإِنَّهُ لَمْ يَحِلَّ الْقِتَالُ فِيهِ لِأَحَدٍ قَبْلِي، وَلَمْ يَحِلَّ لِي إِلَّا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ، فَهُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَةِ اللَّهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، لَا يُعْضَدُ شَوْكُهُ، وَلَا يُنَفَّرُ صَيْدُهُ، وَلَا يَلْتَقِطُ إِلَّا مَنْ عَرَّفَهَا، وَلَا يُخْتَلَى خَلَاهَا "، فقَالَ الْعَبَّاسُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِلَّا الْإِذْخِرَ، فَإِنَّهُ لِقَيْنِهِمْ وَلِبُيُوتِهِمْ، فقَالَ: " إِلَّا الْإِذْخِرَ "،
جریر نے ہمیں منصور سے خبر دی انھوں نے مجا ہد سے انھوں نے طاوس سے انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن فرمایا: "اب ہجرت نہیں ہے البتہ جہاد اور نیت باقی ہے اور جب تمھیں نفیر عام (جہاد میں حا ضری) کے لیے کہا جا ئے تو نکل پڑو۔اور آپ نے فتح مکہ کے دن فرمایا: بلا شبہ یہ شہر (ایسا) ہے جسے اللہ نے (اس وقت سے) حرمت عطا کی ہے جب سے اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا۔ یہ اللہ کی (عطا کردہ) حرمت (کی وجہ) سے قیامت تک کے لیے محترم ہے اور مجھ سے پہلے کسی ایک کے لیے اس میں لڑا ئی کو حلال قرار نہیں دیا کیا اور میرے لیے بھی دن میں سے ایک گھڑی کے لیے ہی اسے حلال کیا گیا ہے (اب) یہ اللہ کی (عطا کردہ) حرمت کی وجہ سے قیامت کے دن تک حرا م ہے اس کے کا ٹنے نہ کا ٹے جا ئیں اس کے شکار کو ڈرا کر نہ بھگا یا جا ئے کوئی شخص اس میں گری ہو ئی چیز کو نہ اٹھا ئے سوائے اس کے جو اس کا اعلا ن کرے، نیز اس کی گھا س بھی نہ کا ٹی جا ئے۔اس پر حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !سوائے اذخر (خوشبو دار گھا س) کے وہ ان کے لوہا روں اور گھروں کے لیے (ضروری) ہے تو آپ نے فرمایا: " سوائے اذخر کے۔"
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ فتح مکہ کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اب ہجرت کا حکم نہیں رہا، لیکن جہاد ہے، اور نیت، تو جب تمہیں جہاد کے لیے کوچ کرنے کو کہا جائے تو چل پڑو۔ اور فتح کے دن، فتح مکہ کے موقع پر فرمایا: یہ شہر اللہ تعالیٰ نے اس کو اس دن سے محترم قرار دیا ہے، جس دن آسمان و زمین کو پیدا کیا، لہذا اللہ تعالیٰ کے حکم سے قیامت تک کے لیے اس کا ادب و احترام ضروری ہے، اور مجھ سے پہلے اللہ نے کسی کو یہاں قتال کرنے کی اجازت نہیں دی، اور مجھے بھی دن کے تھوڑے سے وقت کے لیے وقتی اجازت دی گئی، (اور وقت ختم ہو جانے کے بعد) اب قیامت تک کے لیے اللہ تعالیٰ کے محترم قرار دینے سے اس کا ادب و احترام واجب ہے (اور ہر وہ اقدام اور عمل جو اس کے تقدس و احترام کے منافی ہے، حرام ہے) اس علاقہ کے خاردار درخت اور جھاڑ بھی نہ کاٹے اور نہ چھانٹیں جائیں، یہاں کے کسی قابل شکار جانور کو پریشان نہ کیا جائے، اور اگر کوئی گری پڑی چیز نظر آئے تو اس کو وہی اٹھائے جو اس کا اعلان اور تشہیر کرتا رہے، اور یہاں کی سبز گھاس نہ کاٹی اکھاڑی جائے۔ (اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا) حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اَذْخَرْ
ترقیم فوادعبدالباقی: 1353

   صحيح البخاري2783عبد الله بن عباسلا هجرة بعد الفتح
   صحيح البخاري3189عبد الله بن عباسلا هجرة لكن جهاد ونية إذا استنفرتم فانفروا هذا البلد حرمه الله يوم خلق السموات والأرض فهو حرام بحرمة الله إلى يوم القيامة لم يحل القتال فيه لأحد قبلي لم يحل لي إلا ساعة من نهار هو حرام بحرمة الله إلى يوم القيامة
   صحيح البخاري2825عبد الله بن عباسلا هجرة بعد الفتح لكن جهاد ونية إذا استنفرتم فانفروا
   صحيح البخاري3077عبد الله بن عباسلا هجرة لكن جهاد ونية
   صحيح البخاري1834عبد الله بن عباسلا هجرة لكن جهاد ونية
   صحيح مسلم4829عبد الله بن عباسلا هجرة لكن جهاد ونية
   صحيح مسلم3302عبد الله بن عباسلا هجرة لكن جهاد ونية
   جامع الترمذي1590عبد الله بن عباسلا هجرة بعد الفتح لكن جهاد ونية إذا استنفرتم فانفروا
   سنن أبي داود2480عبد الله بن عباسلا هجرة لكن جهاد ونية إذا استنفرتم فانفروا
   سنن النسائى الصغرى4175عبد الله بن عباسلا هجرة لكن جهاد ونية
   سنن ابن ماجه2773عبد الله بن عباسإذا استنفرتم فانفروا
   بلوغ المرام1085عبد الله بن عباس لا هجرة بعد الفتح ولكن جهاد ونية

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3189  
´دغا بازی کرنے والے پر گناہ خواہ وہ کسی نیک آدمی کے ساتھ ہو یا بےعمل کے ساتھ`
«. . . عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ لَا هِجْرَةَ وَلَكِنْ جِهَادٌ وَنِيَّةٌ وَإِذَا اسْتُنْفِرْتُمْ فَانْفِرُوا، وَقَالَ: يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ إِنَّ هَذَا الْبَلَدَ حَرَّمَهُ اللَّهُ يَوْمَ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ فَهُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَةِ اللَّهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَإِنَّهُ لَمْ يَحِلَّ الْقِتَالُ فِيهِ لِأَحَدٍ قَبْلِي، وَلَمْ يَحِلَّ لِي إِلَّا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ فَهُوَ حَرَامٌ بِحُرْمَةِ اللَّهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا يُعْضَدُ شَوْكُهُ وَلَا يُنَفَّرُ صَيْدُهُ وَلَا يَلْتَقِطُ لُقَطَتَهُ إِلَّا مَنْ عَرَّفَهَا وَلَا يُخْتَلَى خَلَاهُ، فَقَالَ الْعَبَّاسُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِلَّا الْإِذْخِرَ فَإِنَّهُ لِقَيْنِهِمْ وَلِبُيُوتِهِمْ، قَالَ: إِلَّا الْإِذْخِرَ . . .»
. . . عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن فرمایا تھا، اب (مکہ سے) ہجرت فرض نہیں رہی۔ البتہ جہاد کی نیت اور جہاد کا حکم باقی ہے۔ اس لیے جب تمہیں جہاد کے لیے نکالا جائے تو فوراً نکل جاؤ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن یہ بھی فرمایا تھا کہ جس دن اللہ تعالیٰ نے آسمان اور زمین پیدا کئے، اسی دن اس شہر (مکہ) کو حرم قرار دے دیا۔ پس یہ شہر اللہ کی حرمت کے ساتھ قیامت تک کے لیے حرام ہی رہے گا، اور مجھ سے پہلے یہاں کسی کے لیے لڑنا جائز نہیں ہوا۔ اور میرے لیے بھی دن کی صرف ایک گھڑی کے لیے جائز کیا گیا۔ پس اب یہ مبارک شہر اللہ تعالیٰ کی حرمت کے ساتھ قیامت تک کے لیے حرام ہے، اس کی حدود میں نہ (کسی درخت کا) کانٹا توڑا جائے، نہ یہاں کے شکار کو ستایا جائے، اور کوئی یہاں کی گری ہوئی چیز نہ اٹھائے سوا اس شخص کے جو (مالک تک چیز کو پہنچانے کے لیے) اعلان کرے اور نہ یہاں کی ہری گھاس کاٹی جائے۔ اس پر عباس رضی اللہ عنہ نے کہا، یا رسول اللہ! اذخر کی اجازت دے دیجئیے۔ کیونکہ یہ یہاں کے سناروں اور گھروں کی چھتوں پر ڈالنے کے کام آتی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا اذخر کی اجازت ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْجِزْيَةِ والموادعہ: 3189]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 3189 باب: «بَابُ إِثْمِ الْغَادِرِ لِلْبَرِّ وَالْفَاجِرِ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
ترجمۃ الباب میں امام بخاری رحمہ اللہ نے واضح فرمایا کہ دغا بازی (دھوکہ دہی) کرنا سخت گناہ ہے چاہے کوئی دغا بازی نیک آدمی کے ساتھ ہو یا گنہگار کے، مگر دغا باز ہر حال میں دغا بازی کے گناہ کا ارتکاب کرتا ہے۔ ترجمۃ الباب کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ نے جو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے حدیث نقل فرمائی ہے اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مکہ ایک حرمت والا شہر ہے اور وہاں کسی قسم کی لڑائی کرنا اللہ کے نزدیک حرام ہے، لیکن جب سیاق کی طرف نگاہ دوڑاتے ہیں تو مکہ والوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو عہد کیا تھا اسے توڑ ڈالا، لہذا مکہ والوں نے دغا کیا، بنو خزاعہ کے مقابلے میں انہوں نے بنو بکر والوں کی مدد کی تو اللہ تعالی نے اس جرم کی پاداش میں انہیں سخت ترین سزا دی کہ حرمت والے شہر مکہ میں بھی انہیں مار ڈالنے کی اجازت عطا کی، لہذا یہاں سے ان کا دغا باز ہونا ثابت ہوا اور انہیں سخت ترین سزا دی گئی کہ حرمت والے شہر میں لڑنے کی اجازت ایمان والوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے عطا کی گئی کیوں کہ وہ دغا باز تھے اور دغا بازی کبیرہ گناہ ہے، یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہے، اسی مناسبت کا ذکر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بھی فرماتے ہیں، آپ لکھتے ہیں:
«و يحتمل أن يكون أشار بذالك إلى ما وقع من سبب الفتح الذى ذكر فى الحديث و هو غدر قريش بخزاعة حلفاء النبى صلى الله عليه وسلم لما تحاربوا مع بني بكر حلفاء قريش، فأمرت قريش بني بكر و أعانوهم على خزاعة و بيوتهم فقتلوا منهم جماعة.» [فتح الباري، ج 6، ص: 350]
ابن المنیر رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:
«وجه مطابقة الترجمة لحديث مكة، أن النبى صلى الله عليه وسلم نص على أنها اختصت بالحرمة إلا فى الساعة المستثناه و ليس المراد حرمة قتل المؤمن البر فيها.» [المتواري، ص: 200]
ترجمۃ الباب سے مطابقت کی وجہ حدیث مکہ میں یہی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص فرمایا: مکہ کی حرمت کو سوائے اس استثنائی گھٹری میں (مکہ میں لڑنا جائز نہیں ہوا جس کا ذکر سابقہ اوراق میں کیا گیا) اور اس کی حرمت سے مراد یہ نہیں کہ مؤمن نیک آدمی کو اس میں قتل کیا جائے۔
فائدہ:
بعض منکرین حدیث مذکورہ بالا حدیث پر اشکال وارد کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: «لا هجرة و لكن جهاد و نية» یعنی ہجرت نہیں ہے لیکن جہاد اور نیت باقی ہے۔
ان لوگوں کا کہنا ہے کہ قرآن مجید قیامت تک ہجرت کو برقرار رکھتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:
« ﴿وَالَّذِينَ آمَنُوا مِنْ بَعْدُ وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا مَعَكُمْ فَأُولَئِكَ مِنْكُمْ﴾ » [الانفال: 75]
اور جو لوگ اس کے بعد ایمان لائے اور ہجرت کی اور تمہارے ساتھ ہو کر جہاد کیا پس یہ لوگ بھی تم میں سے ہیں۔
مندرجہ بالا آیت کو نقل کرنے کے بعد ان کا دعوی یہ ہے کہ حدیث جس میں ہجرت کے عمل کو ختم کر دیا گیا ہے وہ آیت کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابل عمل ہو گی۔
دراصل یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے جو کہ سرسری طور پر قرآن اور احادیث کا مطالعہ کے بعد پیدا ہوتی ہے۔
حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ہرگز یہ حکم نہیں ہے کہ ہجرت کا حکم منسوخ ہے، بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر غور کیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ہے، یعنی ان صحابہ کے لئے فتح مکہ کے بعد ہجرت کی فرضیت کو ساقط کیا تھا نہ کہ ہجرت کے حکم کو ساقط فرمایا گیا۔ اصول حدیث کا معروف قاعدہ ہے کہ ایک حدیث دوسری حدیث کی شرح کرتی ہے، بعض روایات کے مطابق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اسی مسئلے پر اختلاف پیدا ہوا، چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچی، خبادہ بن ابی امیہ فرماتے ہیں:
«أن رجلا من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم قال بعضهم أن الهجرة قد انقطعت فاختلفوا فى ذالك، قال: فانطلقت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلت: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم! أن أناسا يقولون، أن الهجرة قد انقطعت، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم أن الهجرة لا تنقطع ما كان الجهاد.» [مسند احمد، ج 27، ص: 142، صححه الحافظ ابن حجر رحمه الله فى الإصابة]
اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں سے بعضوں نے یہ کہا کہ ہجرت کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے، اس مسئلے میں (صحابہ میں) اختلاف ہوا تو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا اور میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! لوگ کہتے ہیں کہ ہجرت (کا حکم) منقطع ہو گیا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یقینا ہجرت (کا حکم) منقطع نہ ہو گا جب تک جہاد جاری رہے گا۔
امام الطحاوی رحمہ اللہ نے مشکل الآثار میں حدیث کا ذکر فرمایا کہ:
«لا تنقطع الهجرة ما قوتل الكفار.» [شرح مشكل الآثار للطحاوي، ج 7، رقم: 2631]
جب تک کفار سے قتال ہو گا تب تک ہجرت رہے گی۔
ان احادیث سے واضح ہوا کہ جب تک جہاد قائم رہے گا تب تک ہجرت کا حکم بھی باقی رہے گا، لہذا ہجرت نہیں ہے فتح مکہ کے بعد اس کا مطلب یہ ہے کہ جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے فتح مکہ کے روز ہجرت کی ان کے لئے ہجرت کی فرضیت ساقط ہو گئی، نہ کہ قیامت تک ہجرت کا حکم منقطع ہوا۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث\صفحہ نمبر: 469   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2773  
´عام اعلان جہاد کے وقت فوراً نکلنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تمہیں جہاد کے لیے نکلنے کا حکم دیا جائے تو فوراً نکل کھڑے ہو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2773]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جب کافروں سے جہاد کا موقع آئےتو اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جہاد میں عملی طور پر شریک ہونا چاہیے۔

(2)
ایک باقاعدہ اسلامی حکومت میں امیر کے حکم سے جہاد کیا جاتا ہے۔
لیکن اگر ایسی صورت حال نہ ہو اور کسی علاقے کے مسلمان کفار کے ظلم و ستم کا نشانہ بن رہے ہوں تو مسلمانوں کو خود منظم طور پر جہاد کرنا چاہیے۔
اس صورت میں امیر جہاد جس محاذ پر بھیجے جانا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2773   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1590  
´ہجرت کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن فرمایا: فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ہے لیکن جہاد اور نیت باقی ہے، اور جب تم کو جہاد کے لیے طلب کیا جائے تو نکل پڑو ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب السير/حدیث: 1590]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ مکہ سے خاص طور پر مدینہ کی طرف ہجرت نہیں ہے کیوں کہ مکہ اب دار السلام بن گیا ہے،
البتہ دار الکفر سے دار السلام کی طرف ہجرت تا قیامت باقی رہے گی جیسا کہ بعض احادیث سے ثابت ہے اور مکہ سے ہجرت کے انقطاع کے سبب جس خیر و بھلائی سے لوگ محروم ہو گئے اس کا حصول جہاد اور صالح نیت کے ذریعہ ممکن ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1590   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2480  
´کیا ہجرت ختم ہو گئی؟`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح (مکہ) کے دن فرمایا: اب (مکہ فتح ہو جانے کے بعد مکہ سے) ہجرت نہیں (کیونکہ مکہ خود دارالاسلام ہو گیا) لیکن جہاد اور (ہجرت کی) نیت باقی ہے، جب تمہیں جہاد کے لیے نکلنے کو کہا جائے تو نکل پڑو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2480]
فوائد ومسائل:
چونکہ فتح مکہ سے پہلے جہاں آدمی رہ رہا تھا۔
اسلام لانے کے بعد اسے وہاں سے مدینہ کو ہجرت کرنا واجب تھا۔
اور مکہ ان تمام جگہوں کا مرکز تھا۔
فتح مکہ کے بعد وہ دارالاسلام بن گیا۔
تو اس سے ہجرت کا کوئی معنی باقی نہ رہا۔
مگر باقی دنیا میں جہاں کہیں احوال دگرگوں ہو ں تو اپنے اسلام اور ایمان کی حفاظت کےلئے نقل مکانی مطلوب وماجور ہے۔
اور ایسے ہی جہاد بھی قیامت تک جاری ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2480   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3302  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
فتح مکہ سے پہلے،
جب مکہ پر اہل کفر اور شرک کا اقتدارتھا جو اسلام اور اہل اسلام کے جانی دشمن تھے،
مکہ میں رہ کر کسی مسلمان کے لیے اسلامی زندگی گزارنا تقریباً نا ممکن تھا۔
اور مدینہ جو اس وقت اسلامی مرکز روئے زمین پر اسلامی زندگی کی واحد تعلیم گاہ اور تربیت گاہ تھی،
اس میں مسلمانوں کی قوت مجتمع کرنا ضروری تھا،
ان حالات میں ہجرت فرض تھی،
اور بڑی فضیلت اور اہمیت کی حامل تھی۔
جب 8ھجری میں اللہ تعالیٰ نے مکہ معظمہ پر اسلامی اقتدار وغلبہ قائم کروا دیا،
تو پھر مکہ سے ہجرت کی ضرورت ختم ہو گئی،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ ہی کے دن اعلان کر دیا،
اب ہجرت کا حکم ختم ہو گیا،
اس لیے اب اپنے علاقے سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنا نہیں ہے،
لیکن اگر کوئی انسان ایسے علاقہ میں رہتا ہے جہاں اسلام اور اہل اسلام کو برداشت نہیں کیا جاتا،
اور اہل اسلام کا ایمان اور جان محفوظ نہیں ہے،
وہ اجتماعی طور پر اپنا دفاع نہیں کرسکتے بلکہ کفر اختیار کرنے پر مجبور ہیں،
تو پھر انہیں ایسے علاقہ کو چھوڑنا،
اگر ان کے لیے ممکن ہو،
انہیں کہیں پناہ مل سکتی ہو،
توا نہیں ایسے علاقہ سے ہجرت کرنا چاہیے،
اب عام لوگوں کے لیے ہجرت کی فضیلت وسعادت حاصل کرنے کا دروازہ بند ہو چکا ہے لیکن جہاد فی سبیل اللہ کا راستہ،
گناہوں اور برے اعمال سے باز آنے کا راستہ کھلا ہے۔
اور گناہوں اور منہیات کو چھوڑنے والے کوبھی،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجر کا نام دیا ہے۔
اسی طرح اللہ تعالیٰ کے احکام اور دین کی پابندی کی نیت اوربالخصوص اعلاء کلمۃ اللہ کی خاطر ہر قسم کی قربانی کی نیت سے انسان اپنے لیے سعادت وفضیلت حاصل کرسکتا ہے۔
دوسرا اعلان آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ شہر مکہ کی عظمت وحرمت دور قدیم سے چلی آ رہی ہے اور یہ محض رسم ورواج یا کسی فرد یا پنچایت اور حکومت کا فیصلہ نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہے،
اور قیامت تک کے لیے ہے،
اگرچہ اس کی حرمت کی تشہیر،
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کی ہے،
کیونکہ کعبہ کی تعمیر جدید انہوں نے کی اور اس وقت اس جگہ آبادی شروع ہوئی جو اب قیامت تک قائم رہے گی۔

اس ادب واحترام کا تقاضا ہے کہ حرم کی حدود میں بالاتفاق کسی جانور کا شکار کرنا یا شکار کو ڈرانا اور پریشان کرنا اور اس کا پیچھا کرنا ناجائز ہے۔
خواہ انسان احرام کی حالت میں ہو یا نہ ہو،
اور جمہور ائمہ کے نزدیک جو شخص حرم کی حدود میں شکار کرے گا،
اس کے ذمہ وہی فدیہ ہے جواحرام کی حالت میں شکار کرنے پر عائد ہوتا ہے۔
اس طرح اس پر بھی اجماع ہے کہ حرم کی حدود میں ہر اس درخت کا توڑنا اورکاٹنا ناجائز ہے جو قدرتی طور پر اُگا ہو،
البتہ اَذْخَرْ،
سبزیاں اورترکاریاں یا پھول جنہیں انسان اپنی محنت سے اگاتا ہے انہیں کاٹنا اور توڑنا جائز ہے،
اور جمہور ائمہ کے نزدیک ایسے درخت کا توڑنا اور کاٹنا بھی جائز ہے جسے انسان نے خود اپنی محنت سے اگایا ہو،
لیکن امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ایسے درخت کا کاٹنا بھی جائز نہیں ہے،
البتہ اس سے مسواک کاٹی جاسکتی ہے اورحنابلہ میں سے ابن قدامہ نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے قول کو ترجیح دی ہے۔
(المغنی ج5 ص 185۔
186)
(قتل وقتال کی بحث آ گے آ رہی ہے۔
)

   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 3302   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.