الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
رضاعت کے احکام و مسائل
2. باب تَحْرِيمِ الرَّضَاعَةِ مِنْ مَاءِ الْفَحْلِ:
2. باب: رضاعت کی حرمت میں مذکر کا اثر۔
حدیث نمبر: 3573
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني حرملة بن يحيى ، حدثنا ابن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، عن عروة ، ان عائشة ، اخبرته: انه جاء افلح اخ وابي القعيس يستاذن عليها، بعد ما نزل الحجاب، وكان ابو القعيس ابا عائشة من الرضاعة، قالت عائشة: فقلت: والله لا آذن لافلح حتى استاذن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإن ابا القعيس ليس هو ارضعني، ولكن ارضعتني امراته، قالت عائشة: فلما دخل رسول الله صلى الله عليه وسلم، قلت: يا رسول الله، إن افلح اخا ابي القعيس جاءني يستاذن علي، فكرهت ان آذن له حتى استاذنك، قالت: فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " ائذني له "، قال عروة: فبذلك كانت عائشة، تقول: حرموا من الرضاعة ما تحرمون من النسب.وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، حدثنا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عُرْوَةَ ، أَنَّ عَائِشَةَ ، أَخْبَرَتْهُ: أَنَّهُ جَاءَ أَفْلَحُ أَخُ وَأَبِي الْقُعَيْسِ يَسْتَأْذِنُ عَلَيْهَا، بَعْدَ مَا نَزَلَ الْحِجَابُ، وَكَانَ أَبُو الْقُعَيْسِ أَبَا عَائِشَةَ مِنَ الرَّضَاعَةِ، قَالَت عَائِشَةُ: فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَا آذَنُ لِأَفْلَحَ حَتَّى أَسْتَأْذِنَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِنَّ أَبَا الْقُعَيْسِ لَيْسَ هُوَ أَرْضَعَنِي، وَلَكِنْ أَرْضَعَتْنِي امْرَأَتُهُ، قَالَت عَائِشَةُ: فَلَمَّا دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَفْلَحَ أَخَا أَبِي الْقُعَيْسِ جَاءَنِي يَسْتَأْذِنُ عَلَيَّ، فَكَرِهْتُ أَنْ آذَنَ لَهُ حَتَّى أَسْتَأْذِنَكَ، قَالَت: فقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ائْذَنِي لَهُ "، قَالَ عُرْوَةُ: فَبِذَلِكَ كَانَتْ عَائِشَةُ، تَقُولُ: حَرِّمُوا مِنَ الرَّضَاعَةِ مَا تُحَرِّمُونَ مِنَ النَّسَبِ.
یونس نے مجھے ابن شہاب سے خبر دی، انہوں نے عروہ سے روایت کی، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں خبر دی کہ پردے کا حکم نازل ہونے کے بعد ابوقعیس کے بھائی افلح آئے، وہ ان کے پاس (گھر کے اندر) آنے کی اجازت چاہتے تھے۔ ابوقعیس حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی والد تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں افلح کو اجازت نہیں دوں گی حتیٰ کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے لوں۔ مجھے ابوقعیس نے تو دودھ نہیں پلایا (کہ اس کا بھائی میرا محرم بن جائے) مجھے تو ان کی بیوی نے دودھ پلایا تھا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! ابوقعیس کے بھائی افلح میرے پاس آئے تھے، وہ اندر آنے کی اجازت مانگ رہے تھے، مجھے اچھا نہ لگا کہ میں انہیں اجازت دوں یہاں تک کہ آپ سے اجازت لے لوں۔ (عروہ نے) کہا: حضرت (عائشہ رضی اللہ عنہا نے) کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "انہیں اجازت دے دیا کرو۔" عروہ نے کہا: اسی (حکم) کی وجہ سےحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہا کرتی تھیں: رضاعت کی وجہ سے وہ سب رشتے حرام ٹھہرا لو جنہیں تم نسب کی وجہ سے حرام ٹھہراتے ہو
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ان کے پاس ابو القعیس کا بھائی افلح پردے کا حکم نازل ہونے کے بعد آیا اور ان سے اندر آنے کی اجازت طلب کی، اور ابو القعیس حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا رضاعی باپ تھا، حضرت عائشہ نے جواب دیا، اللہ کی قسم! میں اس وقت تک افلح کو اجازت نہیں دوں گی، جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت نہ کر لوں، کیونکہ مجھے ابو القعیس نے تو دودھ نہیں پلایا بلکہ مجھے دودھ تو اس کی بیوی نے پلایا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، میں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ابو القعیس کا بھائی افلح میرے پاس آنے کی اجازت طلب کرنے آیا تھا، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھے بغیر اس کو اجازت دینا اچھا نہیں سمجھا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے آنے کی اجازت دے دو۔ عروہ رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں اس بنا پر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی تھیں، جن رشتوں کو نسب و ولادت سے حرام قرار دیتے ہو، ان رشتوں کو رضاعت سے بھی حرام قرار دو۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1445

   صحيح البخاري5103عائشة بنت عبد اللهأمرني أن آذن له
   صحيح البخاري4796عائشة بنت عبد اللهائذني له فإنه عمك تربت يمينك
   صحيح البخاري2644عائشة بنت عبد اللهصدق أفلح ائذني له
   صحيح البخاري6156عائشة بنت عبد اللهائذني له فإنه عمك تربت يمينك
   صحيح مسلم3575عائشة بنت عبد اللهإنه عمك فليلج عليك
   صحيح مسلم3571عائشة بنت عبد اللهأمرني أن آذن له علي
   صحيح مسلم3573عائشة بنت عبد اللهائذني له
   صحيح مسلم3580عائشة بنت عبد اللهليدخل عليك فإنه عمك
   صحيح مسلم3578عائشة بنت عبد اللههلا أذنت له تربت يمينك
   جامع الترمذي1148عائشة بنت عبد اللهإنه عمك فليلج عليك
   سنن أبي داود2057عائشة بنت عبد اللهإنه عمك فليلج عليك
   سنن النسائى الصغرى3316عائشة بنت عبد اللهائذني له
   سنن النسائى الصغرى3319عائشة بنت عبد اللهائذني له فإنه عمك
   سنن النسائى الصغرى3318عائشة بنت عبد اللهائذني له فإنه عمك
   سنن النسائى الصغرى3320عائشة بنت عبد اللهائذني له فإنه عمك
   سنن النسائى الصغرى3317عائشة بنت عبد اللهائذني له فإنه عمك
   سنن ابن ماجه1948عائشة بنت عبد اللهإنه عمك فأذني له
   سنن ابن ماجه1949عائشة بنت عبد اللهإنه عمك فليلج عليك
   المعجم الصغير للطبراني500عائشة بنت عبد اللهإيذني له فإنه عمك من الرضاعة
   المعجم الصغير للطبراني501عائشة بنت عبد اللهليدخل عليك عمك
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم374عائشة بنت عبد الله فامرني ان آذن له علي
   بلوغ المرام967عائشة بنت عبد اللهصنعت فامرني ان آذن له علي وقال إنه عمك
   مسندالحميدي231عائشة بنت عبد اللهإنه عمك فأذني له
   مسندالحميدي232عائشة بنت عبد اللهتربت يمينك هو عمك فأذني له

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 374  
´اسلام کے دور اول میں عورتوں کے لئے پردہ کرنا ضروری نہیں تھا`
«. . . انها اخبرته ان افلح اخا ابى القعيس جاء يستاذن عليها -وهو عمها من الرضاعة- بعد ان نزل الحجاب، قالت: فابيت ان آذن له. فلما جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم اخبرته بالذي صنعت فامرني ان آذن له علي . . .»
. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتایا: ابوالقعیس کے بھائی افلح جو کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی چچا تھے، انہوں نے پردے کی فرضیت کے بعد میرے (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے) پاس آنے کی اجازت چاہی تو میں نے اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا کہ میں نے یہ کہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں انہیں آنے کی اجازت دے دوں . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 374]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 5103، ومسلم 1445/3، من حديث مالك به، من رواية يحييٰ بن يحييٰ]

تفقه:
➊ اسلام کے دور اول میں عورتوں کے لئے پردہ کرنا ضروری نہیں تھا، بعد میں فرض ہوا۔
➋ نسبی اور رضاعی حرام رشتوں سے پردہ نہیں کیا جاتا بلکہ ان سے پردہ کیا جاتا ہے جن سے اصلاً نکاح جائز ہے۔
➌ رضاعی ماں حقیقی ماں کی طرح ہے لہٰذا حقیقی نسبی رشتوں کی طرح رضاعی رشتے بھی حرام ہیں۔
➍ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ دودھ پیتے بچے کی رضاعت دودھ کے پانچ گھونٹ پینے سے ثابت ہو جاتی ہے لیکن بڑے آدمی کی رضاعت میں اختلاف ہے۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اسے جائز سمجھتی تھیں جبکہ جمہور علماء کے نزدیک یہ جائز نہیں ہے جیسا کہ آنے والی حدیث سے بھی ثابت ہے۔ نیز دیکھئے: [التمهيد 260/8]
➎ امہات المؤمنین پردے کے وجوب کے بعد عام مومنوں سے پردہ کیا کرتی تھیں۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 39   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1949  
´دودھ مرد کی طرف سے ہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے رضاعی چچا آئے اور اندر آنے کی اجازت مانگنے لگے، تو میں نے ان کو اجازت دینے سے انکار کر دیا، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنے چچا کو اپنے پاس آنے دو، میں نے کہا: مجھے عورت نے دودھ پلایا ہے مرد نے نہیں!، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ تمہارے چچا ہیں انہیں اپنے پاس آنے دو۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1949]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
رضاعی رشتے جس طرح دودھ پلانے والی عورت کی طرف سے قائم ہوتے ہیں (رضاعی ماموں، رضاعی خالہ وغیرہ)
اسی طرح اس عورت کا خاوند دودھ پینے والے بچے کا باپ بن جاتا ہے اور اس کی طرف سے دودھ کے رشتے قائم ہوتے ہیں (رضاعی چچا، تایا، رضاعی پھوپھی وغیرہ)
۔

(2)
جو رشتے نسبی طور پر محرم ہیں وہ رضاعی طور پر بھی محرم ہیں لہٰذا ان رضاعی رشتہ داروں کا آپس میں پردہ نہیں اور ان کا باہم نکاح بھی جائز نہیں۔ (تفصیل کے لیے دیکھیئے، حدیث: 1937 کے فوائد)

(3)
اگر کسی مسئلہ میں شاگرد کو کوئی اشکال یا شبہ ہو تو استاد سے بیان کر دینا چاہیے اور استاد کو چاہیے کہ مناسب انداز سے اشکال دور کر دے۔

(4)
ہاتھ کو مٹی لگنے کے محاورہ سے اہل عرب فقر و مسکنت مراد لیتے ہیں تاہم تعجب کے موقع پر یہ جملہ بولنے سے بددعا مراد نہیں ہوتی۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1949   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 967  
´دودھ پلانے کا بیان`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ابوالقعیس کا بھائی افلح حجاب کے بعد سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہاں آنے کیلئے اجازت طلب کرتا رہا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا اپنا بیان ہے کہ میں نے انہیں اندر آنے کی اجازت نہ دی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے سارا واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا جو میں نے اس کے ساتھ کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں ان کو اپنے پاس آنے کی اجازت دے دیا کروں اور فرمایا کہ وہ تمہارا چچا ہے۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 967»
تخریج:
«أخرجه البخاري، النكاح، باب لبن الفحل، حديث:5103، ومسلم، الرضاع، باب تحريم الرضاعة من ماء الفحل، حديث:1445.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جس عورت کا دودھ پی لیا جائے اس کا شوہر دودھ پینے والے کے لیے بمنزلہ باپ ہوگا۔
اب جو رشتے ماں‘ باپ کی جانب سے حرام ہوتے ہیں وہ دودھ سے بھی حرام ہو جائیں گے۔
2.افلح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا رضاعی چچا اس لیے ہوا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ابوالقعیس کی بیوی کا دودھ پیا تھا۔
3.دودھ کی پیدائش میں مرد و عورت دونوں کے نطفے کا دخل ہوتا ہے‘ اس لیے رضاعت بھی دونوں کی جانب سے ہوئی اور اسی وجہ سے حرمت بھی ثابت ہوگئی۔
وضاحت: «افلح» ان کی کنیت ابوجعد اور نام افلح ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام تھے۔
اور ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام تھے۔
ان کے بھائی ابوالقعیس کا نام جعد تھا۔
اور ایک قول یہ ہے کہ وائل بن افلح اشعری ان کا نام تھا۔
اس طرح ان کے بھائی کا نام اور ان کے باپ کا نام ایک ہوا۔
معلوم رہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی چچے دو تھے۔
ایک تو ان کے والد ابوبکر رضی اللہ عنہ کا رضاعی بھائی تھا‘ جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہی میں فوت ہوگیا تھا‘ دوسرا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو دودھ پلانے والی کا دیور تھا۔
اس کا نام افلح تھا جو کہ ابوالقعیس کا بھائی تھااور ابوالقعیس حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا رضاعی باپ تھا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 967   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1148  
´دودھ کی نسبت مرد کی طرف ہو گی۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میرے رضاعی چچا آئے، وہ مجھ سے اندر آنے کی اجازت مانگ رہے تھے، تو میں نے انہیں اجازت دینے سے انکار کیا یہاں تک کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لے لوں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ تیرے پاس آ سکتے ہیں کیونکہ وہ تیرے چچا ہیں، اس پر انہوں نے عرض کیا: مجھے عورت نے دودھ پلایا ہے، مرد نے نہیں، تو آپ نے فرمایا: تیرے چچا ہیں، وہ تیرے پاس آ سکتے ہیں ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الرضاع/حدیث: 1148]
اردو حاشہ:
وضاخت:


1؎:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عورت کے دودھ پلانے سے جس مرد کا دودھ ہو (یعنی اس عورت کا شوہر) وہ بھی شیر خوار پر حرام ہو جاتا ہے اوراس سے بھی شیر خوار کا رشتہ قائم ہو جاتا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1148   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2057  
´مرد سے دودھ کا رشتہ۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے پاس افلح بن ابوقعیس آئے تو میں نے پردہ کر لیا، انہوں نے کہا: مجھ سے پردہ کر رہی ہو، میں تو تمہارا چچا ہوں؟ میں نے کہا: چچا کس طرح سے؟ انہوں نے کہا کہ تمہیں میرے بھائی کی بیوی نے دودھ پلایا ہے، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: مجھے عورت نے دودھ پلایا ہے نہ کہ مرد نے، پھر میرے یہاں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے سارا واقعہ آپ سے بیان کر دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ تمہارے چچا ہیں، وہ تمہارے پاس آ سکتے ہیں۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2057]
فوائد ومسائل:
دودھ پلانے والی رضاعی ماں ہوئی تو اس کا شوہر رضاعی باپ اور اس کا بھائی رضائی چچا ہوا جس طرح دودھ پلانے والی سے تعلق جڑتا ہے۔
ویسے ہی اس کے شوہر اور عزیزوں سے بھی جُڑ جاتا ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2057   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3573  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا قول ہے کہرضاعت سے وہ رشتے حرام ہو جاتے ہیں،
جو نسب سے حرام ہوتے ہیں۔
لیکن مؤطا اما مالک میں ان کا طرز عمل یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بہنوں اور بھتیجیوں نے جن بچیوں کو د ودھ پلایا تھا،
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ان کو تو اپنے پاس آنے کی اجازت دیتی تھیں لیکن ان کے بھائیوں کی بیویوں نے جن کو دودھ پلایا تھا وہ ان کے پاس نہیں آ سکتے تھے،
جس سے معلوم ہوتا ہے وہ رضاعت میں مرد کی تاثیر کی قائل نہ تھیں۔
اس کا جواب حافظ عبدالبرنے دیا ہے۔
اپنے محارم کو اپنے پاس آنے کی اجازت دینا ضروری نہیں ہے۔
عورت کو اختیار ہے اگر وہ کسی کو اجازت نہ دینا چاہے تو اجازت نہ دے۔
اورعلامہ باجی نے اس کے دو جواب دئیے ہیں: 1۔
یہ قول ان کی اپنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کردہ روایت کے منافی ہے (بلکہ اپنے بیان کردہ اصول کے بھی منافی ہے)
اس لیے یہ راوی کا وہم ہے۔

بہنوں اور بھتیجوں کی اولاد کو تو ہر صورت میں آنے کی اجازت دیتی تھیں۔
لیکن بھائیوں کی بیویوں کی صرف اس اولاد کو اجازت دیتی تھیں۔
جو ان کے بھائیوں کے نکاح میں آنے کے بعد کی ہے جن بچوں کو انہوں نے ان سے شادی سے پہلے دودھ پلایا تھا یا بڑی عمر کے ہونے کی صورت میں دودھ پلایا تھا ان کو اجازت نہیں دیتی تھیں،
حالانکہ وہ رضاعتِ کبیر کی قائل ہیں۔
اور حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کا خیال ہے یہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا محض تورع اور احتیاط کے طور پر کرتی تھیں،
جیسا کہ حضرت سودہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن زمعہ سے پردہ کا حکم دیا تھا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 3573   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.