الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
لعان کا بیان
The Book of Invoking Curses
حدیث نمبر: 3743
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا يحيي بن يحيي ، قال: قرات على مالك ، عن ابن شهاب : ان سهل بن سعد الساعدي ، اخبره: ان عويمرا العجلاني جاء إلى عاصم بن عدي الانصاري، فقال له: ارايت يا عاصم، لو ان رجلا وجد مع امراته رجلا ايقتله، فتقتلونه ام كيف يفعل؟ فسل لي عن ذلك يا عاصم، رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسال عاصم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فكره رسول الله صلى الله عليه وسلم المسائل وعابها، حتى كبر على عاصم، وما سمع من رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما رجع عاصم إلى اهله جاءه عويمر، فقال: يا عاصم، ماذا قال لك رسول الله صلى الله عليه وسلم؟، قال عاصم: لعويمر: لم تاتني بخير قد كره رسول الله صلى الله عليه وسلم المسالة التي سالته عنها، قال عويمر: والله لا انتهي حتى اساله عنها، فاقبل عويمر حتى اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم وسط الناس فقال: يا رسول الله، ارايت رجلا وجد مع امراته رجلا ايقتله، فتقتلونه ام كيف يفعل؟، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " قد نزل فيك وفي صاحبتك، فاذهب فات بها "، قال سهل: فتلاعنا وانا مع الناس عند رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلما فرغا، قال عويمر: كذبت عليها يا رسول الله، إن امسكتها، فطلقها ثلاثا قبل ان يامره رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال ابن شهاب: فكانت سنة المتلاعنين ".وحَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ : أَنَّ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ السَّاعِدِيَّ ، أَخْبَرَهُ: أَنَّ عُوَيْمِرًا الْعَجْلَانِيَّ جَاءَ إِلَى عَاصِمِ بْنِ عَدِيٍّ الْأَنْصَارِيِّ، فَقَالَ لَهُ: أَرَأَيْتَ يَا عَاصِمُ، لَوْ أَنَّ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا أَيَقْتُلُهُ، فَتَقْتُلُونَهُ أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ؟ فَسَلْ لِي عَنْ ذَلِكَ يَا عَاصِمُ، رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَ عَاصِمٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسَائِلَ وَعَابَهَا، حَتَّى كَبُرَ عَلَى عَاصِمٍ، ومَا سَمِعَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا رَجَعَ عَاصِمٌ إِلَى أَهْلِهِ جَاءَهُ عُوَيْمِرٌ، فَقَالَ: يَا عَاصِمُ، مَاذَا قَالَ لَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، قَالَ عَاصِمٌ: لِعُوَيْمِرٍ: لَمْ تَأْتِنِي بِخَيْرٍ قَدْ كَرِهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَسْأَلَةَ الَّتِي سَأَلْتُهُ عَنْهَا، قَالَ عُوَيْمِرٌ: وَاللَّهِ لَا أَنْتَهِي حَتَّى أَسْأَلَهُ عَنْهَا، فَأَقْبَلَ عُوَيْمِرٌ حَتَّى أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَسَطَ النَّاسِ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ رَجُلًا وَجَدَ مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا أَيَقْتُلُهُ، فَتَقْتُلُونَهُ أَمْ كَيْفَ يَفْعَلُ؟، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قَدْ نَزَلَ فِيكَ وَفِي صَاحِبَتِكَ، فَاذْهَبْ فَأْتِ بِهَا "، قَالَ سَهْلٌ: فَتَلَاعَنَا وَأَنَا مَعَ النَّاسِ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا فَرَغَا، قَالَ عُوَيْمِرٌ: كَذَبْتُ عَلَيْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ أَمْسَكْتُهَا، فَطَلَّقَهَا ثَلَاثًا قَبْلَ أَنْ يَأْمُرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: فَكَانَتْ سُنَّةَ الْمُتَلَاعِنَيْنِ ".
3743. ہمیں یحییٰ بن یحییٰ نے حدیث بیان کی، کہا: میں نے امام مالک کے سامنے قراءت کی کہ ابن شہاب سے روایت ہے، حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ تعالی عنہ نے انہیں خبر دی کہ عویمر عجلانی رضی اللہ تعالی عنہ حضرت عاصم بن عدی انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آئے اور ان سے کہا: عاصم! آپ کی کیا رائے ہے اگر کوئی آدمی اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو پائے کیا وہ اسے قتل کر دے، اس پر تو تم اسے (قصاصاً) قتل کر دو گے یا پھر وہ کیا کرے؟ عاصم! میرے لیے اس مسئلے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھئے۔ چنانچہ عاصم رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے (غیر پیش آمدہ) مسائل کو ناپسند فرمایا اور ان کی مذمت کی، یہاں تک کہ عاصم رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ سے جو بات سنی وہ انہیں بہت گراں گزری۔ جب عاصم رضی اللہ تعالی عنہ واپس اپنے گھر آئے تو عویمر رضی اللہ تعالی عنہ ان کے پاس آئے اور کہنے لگے: عاصم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے کیا فرمایا؟ عاصم رضی اللہ تعالی عنہ نے عویمر رضی اللہ تعالی عنہ سے کہا: تو میرے پاس بھلائی (کی بات) نہیں لایا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسئلے کو جس کے متعلق میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا، ناپسند فرمایا۔ عویمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! میں نہیں رکوں گا یہاں تک کہ میں (خود) اس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کر لوں۔ چنانچہ عویمر رضی اللہ تعالی عنہ لوگوں کی موجودگی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی حاضر ہوئے اور عرض کی: اللہ کے رسول! آپ کی اس آدمی کے بارے میں کیا رائے ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی (غیر) مرد کو پائے، کیا وہ اسے قتل کرے اور آپ (قصاصاً) اسے قتل کر دیں گے یا پھر وہ کیا کرے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے اور تمہاری بیوی کے بارے میں (قرآن) نازل ہو چکا ہے، تم جاؤ اور اسے لے کر آؤ۔ حضرت سہل رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: ان دونوں نے آپس میں لعان کیا، میں لوگوں کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا، جب وہ دونوں (لعان سے) فارغ ہوئے، عویمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا: اللہ کے رسول! اگر میں نے (اب) اس کو اپنے پاس رکھا تو (گویا) میں نے اس پر جھوٹ بولا تھا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم دینے سے پہلے ہی انہوں نے اسے تین طلاقیں دے دیں۔ ابن شہاب نے کہا: اس کے بعد یہی لعان کرنے والوں کا (شرعی) طریقہ ہو گیا-
حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ عویمر عجلانی رضی اللہ تعالی عنہ، حضرت عاصم بن عدی انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آئے اور ان سے پوچھا، اے عاصم! آپ مجھے بتائیں، اگر کوئی آدمی اپنی بیوی کے ساتھ کسی دوسرے مرد کو پائے تو کیا اسے قتل کر دے اور تم اسے (قاتل کو) قتل کر دو؟ یا وہ کیا کرے؟ تو آپ میری خاطر رسول اللہ سے پوچھ کر بتائیں، اے عاصم! تو عاصم رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا، آپ نے ایسے مسائل (جو ابھی پیش نہیں آئے) کے بارے میں پوچھنا ناپسند کیا، اور اس کی مذمت کی، حتی کہ عاصم نے جو کراہت و ناپسندیدگی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی، وہ اس پر شاق گزری، تو جب عاصم گھر واپس گئے تو ان کے پاس حضرت عویمر آئے، اور پوچھا، اے عاصم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو کیا جواب دیا؟ حضرت عاصم نے حضرت عویمر سے کہا، تو میرے لیے خیر کا سبب نہیں بنا، وہ مسئلہ جس کے بارے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ناپسند فرمایا۔ حضرت عویمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا، اللہ کی قسم! جب تک اس مسئلہ کے بارے میں، میں آپ سے دریافت نہ کر لوں، میں باز نہیں آؤں گا۔ تو حضرت عویمر چلے، حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لوگوں کے درمیان میں پہنچ گئے، اور پوچھا، اے اللہ کے رسول! آپ بتائیں، ایک آدمی دوسرے آدمی کو اپنی بیوی کے پاس پاتا ہے تو کیا اسے قتل کر دے تو آپ اس کو قتل کر دیں گے؟ یا وہ کیا کرے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے اور تمہاری بیوی کے بارے میں حکم نازل ہو چکا ہے، تم جا کر اسے لے آو۔ حضرت سہل رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں، تو ان دونوں نے لعان کیا، اور میں بھی لوگوں کے ساتھ، آپ کی مجلس میں حاضر تھا، تو جب میاں بیوی لعان سے فارغ ہو گئے، تو حضرت عویمر نے کہا، اے اللہ کے رسول! اگر اب میں اس کو اپنے پاس رکھوں، تو میں نے اس کے بارے میں جھوٹ بولا ہے، اس لیے پیش ازیں کے آپ اسے حکم دیتے اس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں، امام ابن شہاب کہتے ہیں، لعان کرنے والوں میں یہی طریقہ جاری ہو گیا (کہ لعان سے دونوں میں تفریق ہو جاتی ہے)۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1492

   صحيح البخاري4745سهل بن سعدأنزل الله القرآن فيك وفي صاحبتك أمرهما رسول الله بالملاعنة بما سمى الله في كتابه فلاعنها ثم قال يا رسول الله إن حبستها فقد ظلمتها طلقها فكانت سنة لمن كان بعدهما في المتلاعنين ثم قال رسول الله انظروا فإن جاءت به
   صحيح البخاري4746سهل بن سعدقضي فيك وفي امرأتك
   صحيح البخاري5259سهل بن سعدأنزل الله فيك وفي صاحبتك فاذهب فأت بها قال سهل فتلاعنا وأنا مع الناس عند رسول الله فلما فرغا قال عويمر كذبت عليها يا رسول الله إن أمسكتها طلقها ثلاثا قبل أن يأمره رسول الله
   صحيح البخاري7304سهل بن سعدانظروها فإن جاءت به أحمر قصيرا مثل وحرة فلا أراه إلا قد كذب وإن جاءت به أسحم أعين ذا أليتين فلا أحسب إلا قد صدق عليها فجاءت به على الأمر المكروه
   صحيح البخاري5308سهل بن سعدأنزل فيك وفي صاحبتك فاذهب فأت بها قال سهل فتلاعنا وأنا مع الناس عند رسول الله فلما فرغا من تلاعنهما قال عويمر كذبت عليها يا رسول الله إن أمسكتها طلقها ثلاثا قبل أن يأمره رسول الله
   صحيح البخاري5309سهل بن سعدقضى الله فيك وفي امرأتك قال فتلاعنا في المسجد وأنا شاهد فلما فرغا قال كذبت عليها يا رسول الله إن أمسكتها طلقها ثلاثا قبل أن يأمره رسول الله حين فرغا من التلاعن فارقها عند النبي فقال ذاك تفريق بين كل متلاعنين
   صحيح مسلم3743سهل بن سعدنزل فيك وفي صاحبتك فاذهب فأت بها قال عويمر كذبت عليها يا رسول الله إن أمسكتها طلقها ثلاثا قبل أن يأمره رسول الله قال ابن شهاب فكانت سنة المتلاعنين
   سنن أبي داود2245سهل بن سعدأنزل فيك وفي صاحبتك قرآن فاذهب فأت بها قال سهل فتلاعنا وأنا مع الناس عند رسول الله فلما فرغا قال عويمر كذبت عليها يا رسول الله إن أمسكتها طلقها عويمر ثلاثا قبل أن يأمره النبي فكانت تلك سنة المتلاعنين
   سنن أبي داود2251سهل بن سعدفرق بينهما رسول الله حين تلاعنا
   سنن أبي داود2248سهل بن سعدأبصروها فإن جاءت به أدعج العينين عظيم الأليتين فلا أراه إلا قد صدق
   سنن النسائى الصغرى3496سهل بن سعدأنزل الله فيك وفي صاحبتك فأت بها فجاء بها فتلاعنا فقال يا رسول الله والله لئن أمسكتها لقد كذبت عليها فارقها قبل أن يأمره رسول الله بفراقها فصارت سنة المتلاعنين
   سنن النسائى الصغرى3431سهل بن سعدنزل فيك وفي صاحبتك فاذهب فأت بها فلما فرغ عويمر قال كذبت عليها يا رسول الله إن أمسكتها طلقها ثلاثا قبل أن يأمره رسول الله
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم536سهل بن سعدانزل فيك وفي صاحبتك فاذهب فات بها
   بلوغ المرام940سهل بن سعدكذبت عليها يا رسول الله إن امسكتها فطلقها ثلاثا قبل ان يامره

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 536  
´غیر واقع شدہ یعنی فرضی مسائل پوچھنے سے اجتناب کرنا `
«. . . ان عويمرا العجلاني جاء إلى عاصم بن عدي الانصاري، فقال له: ارايت يا عاصم لو ان رجلا وجد مع امراته رجلا ايقتله فتقتلونه ام كيف يفعل؟ . . .»
۔۔۔عویمر العجلانی رضی اللہ عنہ عاصم بن عدی الانصاری رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے کہا: اے عاصم! آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر کوئی آدمی اپنی بیوی کے ساتھ کسی مرد کو دیکھے؟ کیا وہ اسے قتل کر دے، تو آپ اس (قاتل) کو قتل کر دیں گے؟ یا وہ کیا کرے؟۔۔۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 536]

تخریج الحدیث:
[الموطأ رواية يحييٰ بن يحييٰ 566/2، 567 ح 1232، ك 29 ب 13، ح 34، التمهيد 183/6 - 185، الاستذكار: 1152 ● أخرجه البخاري 5259، ومسلم 1492، من حديث مالك به]
تفقہ:
شریعت میں لعان یہ ہے کہ خاوند چار دفعہ یہ قسم کھائے کہ میں اپنی بیوی کی طرف زنا کی نسبت کرنے یعنی اسے زنا سے متہم کرنے میں سچا ہوں اور پانچویں قسم یہ ہو کہ وہ کہے اگر وہ اپنے اس دعوے میں جھوٹا ہو تو وہ خدا کی لعنت کا مستحق ہو، پھر بیوی چار دفعہ خاوند کے جھوٹا ہونے پر قسم کھائے اور اس کی پانچویں قسم یہ ہو کہ اگر وہ سچا ہو تو وہ (بیوی) خدا کے غضب کی مستحق ہو یہ کہنے پر وہ حد زنا سے بری ہو جائے گی۔ [القاموس الوحيد ص 1478]
➋ لعان کا حکم قرآن مجید میں سورۃ النور میں نازل ہوا ہے۔ ديكهئے: [آيت: 6، 7]
➌ اس حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ لعان کے بعد خاوند بیوی میں خود بخود تفرقہ یعنی جدائی نہیں ہوتی بلکہ طلاق کے بعد جدائی ہوتی ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «باب اللعان و من طلق بعد اللعان» لعان کا باب اور جو شخص لعان کے بعد طلاق دے۔ [كتاب الطلاق باب: 29 قبل ح 5308]
➍ واقع شدہ مسئلہ پوچھنے میں شرمانا نہیں چاہئے اور غیر واقع شدہ یعنی فرضی مسائل پوچھنے سے ہمیشہ اجتناب کرنا چاہئے۔
➎ لعان کے بعد شرعی ثبوت کے بغیر فریقین پر حد جاری نہیں ہو گی۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 6   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 940  
´لعان کا بیان`
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے لعان کرنے والوں کے قصہ میں مروی ہے کہ جب دونوں لعان سے فارغ ہو گئے تو مرد بولا اے اللہ کے رسول! اور اگر میں اب اسے روک لوں گویا میں نے اس پر جھوٹا الزام لگایا ہے پھر اس نے اس سے پہلے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے حکم ارشاد فرماتے، تین طلاقیں دے دیں۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 940»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الطلاق، باب اللعان، حديث:5308، ومسلم، اللعان، حديث:1492.»
تشریح:
اس مرد نے اپنی لعان شدہ بیوی کو تین طلاقیں اس لیے دیں کہ اسے علم نہیں تھا کہ لعان بذات خود ہمیشہ کی جدائی کا موجب ہے‘ چنانچہ اس نے بیوی کو بذریعۂ طلاق ہی حرام کرنا چاہا‘ لہٰذا طلاق لغو ہوئی‘ کیونکہ طلاق اپنے مقام پر واقع ہی نہیں ہوئی۔
اگر ہم کہیں کہ جدائی محض لعان سے ہو جاتی ہے تو یہ ظاہر بات ہے، اور اگر کہیں کہ جدائی حاکم (اور عدالت) کے ذریعے سے واقع ہوتی ہے تو پھر یہ تو طے شدہ بات ہے کہ لعان کے بعد نکاح کے باقی رہنے کا کوئی امکان رہتا ہے نہ اس کے ہمیشہ رہنے کی کوئی سبیل ہی‘ بلکہ اس نکاح کو ختم کرنا اور عورت کو اس مرد پر ہمیشہ کے لیے حرام قرار دینا واجب ہوتا ہے‘ پس اس سے ثابت ہوا کہ تین طلاقیں محض مقصد لعان کو مؤکد کرنے کے لیے تھیں‘ اس لیے ایسے نکاح‘ جسے ہمیشہ کے لیے ختم کرنا مقصود ہوتا ہے‘ میں بیک وقت تین طلاقیں نافذ کرنے سے یہ ہر گز لازم نہیں آتا کہ جس نکاح کی بقا اور دوام مطلوب ہے اس میں بھی ایسا کرنا درست اور جائز ہے‘ لہٰذا ان لوگوں کا استدلال باطل ہوا جو یہ کہتے ہیں کہ اس حدیث میں بیک وقت تین طلاقیں دینے اور ان کے واقع ہو جانے کا جواز موجود ہے۔
اور جب یہ طلاق غیرت و حمیت کی بنا پر دی گئی جبکہ ایسے موقع پر اس کا اظہار مطلوب بھی ہے اور قابل ستائش و تعریف بھی ‘ تو نبی ٔاکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طلاق کے لغو ہونے کی اطلاع دینے کے لیے صرف لَا سَبِیلَ لَکَ عَلَیْھَا تیرا اس عورت پر کوئی حق نہیں کہنے پر اکتفا فرمایا جیسا کہ مسلم (۱۴۹۳)میں ہے۔
اس کا مطلب یہ تھا کہ اب تیرا اس عورت پر کوئی حق باقی نہیں رہا‘ لہٰذا تیری طلاق واقع نہیں ہوگی بلکہ لغو ٹھہرے گی‘ اسی لیے آپ اس پر ناراض و غضبناک نہیں ہوئے جس طرح اس شخص پر ہوئے تھے جس کا قصہ محمود بن لبید نے بیان کیا ہے جو کہ طلاق کے باب میں (حدیث:۹۱۸ کے تحت) گزر چکا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 940   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2245  
´لعان کا بیان۔`
سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عویمر بن اشقر عجلانی، عاصم بن عدی رضی اللہ عنہ سے آ کر کہنے لگے: عاصم! ذرا بتاؤ، اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے پاس کسی (اجنبی) شخص کو پا لے تو کیا وہ اسے قتل کر دے پھر اس کے بدلے میں تم اسے بھی قتل کر دو گے، یا وہ کیا کرے؟ میرے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھو، چنانچہ عاصم رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سلسلہ میں سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بغیر ضرورت) اس طرح کے سوالات کو ناپسند فرمایا اور اس کی اس قدر برائی کی کہ عاصم رضی اللہ عنہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات گراں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2245]
فوائد ومسائل:
حضرت عويمر رضي الله عنه کا طلاق دینا گیرت اور غضب کی بناء پر تھا نہ کہ رسول اللہ ﷺ کے فرمان سے۔
(اس مسئلے کی وضاحت آگے حدیث نمبر 2250کے فائدے میں آرہی ہے۔
)

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2245   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3743  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
لعان:
ملاعنة اور تلاعنکا معنی ہوتا ہے،
خاوند بیوی کا ایک دوسرے پر لعنت بھیجنا اور شرعی طور پر اس کا معنی یہ ہے کہ ایک مرد اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگاتا ہے،
لیکن اس کے پاس کوئی چار گواہ نہیں ہیں تو وہ شرعی قاضی کے پاس جاتا ہے،
تو قاضی دونوں کو بلا کر تلقین ونصیحت کرتا ہے،
اگر دونوں اپنی اپنی بات پراصرار کریں،
تو پھر وہ ان سے گواہیاں لیتا ہے،
اور آغاز مرد سے کرتا ہے،
وہ چار بار کہتا ہے،
میں اللہ تعالیٰ کو اس بات پر گواہ بناتا ہوں کہ اس نے فلاں مرد سے زنا کیا ہے اور میں اس بات میں سچا ہوں اور پانچویں بار کہے گا،
اگر میں اس بات میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو،
اس کے بعد عورت چار بار الگ الگ کہے گی،
میں اللہ کو گواہ بناتی ہوں کہ میرا خاوند،
مجھ پر تہمت لگانے میں جھوٹا ہے اور پانچویں بار کہے گی،
اگر میرا خاوند اس تہمت لگانے میں سچا ہو تو مجھ پر اللہ کا غضب نازل ہو،
لعان سے وہ عورت،
اپنے خاوند سے جدا ہو جائے گی،
اور اب ان میں کسی صورت میں بھی نکاح کی گنجائش نہیں رہے گی اور اگر عورت حاملہ ہوتو بچہ عورت کی طرف منسوب ہو گا،
باپ کا وارث نہیں ہو گا اور نہ اس کی طرف منسوب ہو گا اور چونکہ گواہیوں کا آغاز مرد کرتا ہے اور اس کی حیثیت مضبوط ہے،
وہی لعان کرتا ہے اور اپنی پانچویں گواہی میں،
اپنے لیے لعنت کی بددعا کرتا ہے،
اس لیے،
اس شہادت کو لعان کا نام دیا گیا ہے،
اور لعان کا یہ واقعہ پہلی دفعہ شعبان 10ہجری میں پیش آیا ہے،
ائمہ احناف کے نزدیک لعان،
ان گواہیوں کا نام ہے جن کو اللہ کی قسم کے ذریعہ مؤکد کیا گیا ہے جن میں لعنت ہے اور ائمہ ثلاثہ مالک،
شافعی اور احمد کے نزدیک،
ان قسموں کا نام ہے جن کو شہادت کے لفظ سے مؤکد کیا گیا ہے۔
اس لیے اہلیت قسم ہونے کے سبب،
مسلمان اور اس کی کافر بیوی،
اور کافر میاں بیوی میں لعان ہو سکتا ہے،
لیکن احناف کے نزدیک اس کے لیے اہلیت شہادت کا ہونا ضروری ہے اور یہ اہلیت مسلمان،
بالغ،
عاقل،
اور ان کے بقول جس پر حد قذف نہ لگ چکی ہو،
پائی جاتی ہے۔
اس لیے صرف مسلمان میاں بیوی میں ہی مذکورہ شروط کی موجودگی میں لعان ہو سکے گا۔
فوائد ومسائل:

حضرت عاصم بن عدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ،
حضرت عویمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے باپ کے چچا زاد تھے اور عجلان قبیلہ کے سربراہ تھے،
اور عویمر کی بیوی حضرت عاصم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی یا بھتیجی تھی اس لیے عویمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سوال کے لیے ان کا انتخاب کیا۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سوال کو اس لیے ناپسند فرمایا کہ آپ سمجھتے تھے یہ واقعہ پیش نہیں آیا ہے،
اس لیے یہ سوال بلا ضرورت اور بلا محل ہے اور بلاوجہ کسی مسلمان مرد اور عورت کی پردہ ذری ہے اور اس سے بے حیائی کی اشاعت کا موقع پیدا ہوتا ہے۔
ہاں ایسا سوال جو کسی پیش آمدہ واقعہ کے بارے میں ہو محض تکلف اور بال کی کھال اتارنے کے لیے نہ ہو،
تو وہ پوچھنا چاہیے۔
اس لیے آپ ایسے سوالات کے بلا تکلف جو بات مرحمت فرماتے تھے۔
اس لیے جب عویمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا دیا کہ حضور میں اس سے دوچار ہو چکا ہوں تو یہ آیات نازل ہوئیں اور یہ واقعہ ہلال بن امیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ بھی پیش آ چکا تھا اس لیے اس نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا جیسا کہ آگے آ رہا ہے،
اس کے بعد ان آیات کا نزول ہوا تو جب دوبارہ عویمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے،
اس وقت آیات نازل ہو چکی تھیں،
اس لیے یہ آیات دونوں کے واقعہ پر چسپاں ہوتی ہیں کیونکہ وہ یکساں ہیں اس لیے دونوں کو سبب نزول ٹھہرانا درست ہے۔

حضرت عویمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا تصور یہ تھا کہ لعان کرنے سے میاں بیوی میں جدائی ہوتی،
اس لیے انھوں نے تفریق پیدا کرنے کی خاطر بیوی کو تین طلاقیں دے دیں،
اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر انکار اس لیے نہ کیا کہ اس کی ضرورت نہ تھی۔
اس لیے بعض حضرات کا یہ کہنا کہ لعان سے تفریق نہیں ہوتی،
جب تک کہ خاوند طلاق نہ دے،
درست نہیں ہے،
لعان ہی تفریق کا باعث ہے۔

لعان کا یہ واقعہ مسجد نبوی میں جمعہ کے دن عصر کے بعد ہوا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 3743   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.