صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح مسلم تفصیلات

صحيح مسلم
غلامی سے آزادی کا بیان
The Book of Emancipating Slaves
1ق. باب مَنْ أَعْتَقَ شِرْكًا لَهُ فِي عَبْدٍ:
1ق. باب: جو شخص اپناحصہ غلام میں سے آزاد کرے اس کا بیان۔
Chapter: One who frees his share of a slave
حدیث نمبر: 3770
Save to word اعراب
حدثنا يحيي بن يحيي ، قال: قلت لمالك : حدثك نافع ، عن ابن عمر ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من اعتق شركا له في عبد، فكان له مال يبلغ ثمن العبد قوم عليه قيمة العدل، فاعطى شركاءه حصصهم وعتق عليه العبد، وإلا فقد عتق منه ما عتق ".حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، قَالَ: قُلْتُ لِمَالِكٍ : حَدَّثَكَ نَافِعٌ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ أَعْتَقَ شِرْكًا لَهُ فِي عَبْدٍ، فَكَانَ لَهُ مَالٌ يَبْلُغُ ثَمَنَ الْعَبْدِ قُوِّمَ عَلَيْهِ قِيمَةَ الْعَدْلِ، فَأَعْطَى شُرَكَاءَهُ حِصَصَهُمْ وَعَتَقَ عَلَيْهِ الْعَبْدُ، وَإِلَّا فَقَدْ عَتَقَ مِنْهُ مَا عَتَقَ ".
3770. یحییٰ بن یحییٰ نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: میں نے امام مالک کو (حدیث سناتے ہوئے) کہا: آپ کو نافع نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کسی (مشترکہ) غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کیا، اور اس کے پاس اتنا مال ہے جو غلام کی قیمت کو پہنچتا ہے، تو اس کی منصفانہ قیمت لگائی جائے گی۔ اور اس کے شریکوں کو ان کے حصے دیے جائیں گے اور غلام (مکمل طور پر) اس کی طرف سے آزاد ہو جائے گا، ورنہ (اگر اس کے پاس بقیہ حصے کی قیمت ادا کرنے کی سکت نہ ہو تو) اس میں سے جتنا حصہ آزاد ہو گیا وہ اس کی طرف سے آزاد رہے گا۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے مشترکہ غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دیا، اور اس کے پاس اتنا مال ہے، جو غلام (کے باقی حصہ) کی قیمت ادا کر سکتا ہے، تو اس کی خاطر منصفانہ قیمت لگائی جائے گی، اور وہ اپنے حصہ داروں کو ان کے حصے (کی رقم) ادا کر دے گا، اور غلام اس کی طرف سے آزاد ہو جائے گا، اگر اس کے پاس قیمت نہ ہو، تو اس نے جتنا حصہ آزاد کیا ہے اتنا آزاد ہو گیا۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1501

   صحيح البخاري2491عبد الله بن عمرمن أعتق شقصا له من عبد أو شركا أو قال نصيبا كان له ما يبلغ ثمنه بقيمة العدل فهو عتيق إلا فقد عتق منه ما عتق
   صحيح البخاري2553عبد الله بن عمرمن أعتق نصيبا له من العبد فكان له من المال ما يبلغ قيمته يقوم عليه قيمة عدل وأعتق من ماله وإلا فقد عتق منه
   صحيح البخاري2522عبد الله بن عمرمن أعتق شركا له في عبد كان له مال يبلغ ثمن العبد قوم العبد عليه قيمة عدل فأعطى شركاءه حصصهم وعتق عليه العبد إلا فقد عتق منه ما عتق
   صحيح البخاري2521عبد الله بن عمرمن أعتق عبدا بين اثنين إن كان موسرا قوم عليه ثم يعتق
   صحيح البخاري2503عبد الله بن عمرمن أعتق شركا له في مملوك وجب عليه أن يعتق كله إن كان له مال قدر ثمنه يقام قيمة عدل ويعطى شركاؤه حصتهم ويخلى سبيل المعتق
   صحيح البخاري2523عبد الله بن عمرمن أعتق شركا له في مملوك عليه عتقه كله إن كان له مال يبلغ ثمنه إن لم يكن له مال يقوم عليه قيمة عدل فأعتق منه ما أعتق
   صحيح البخاري2524عبد الله بن عمرمن أعتق نصيبا له في مملوك أو شركا له في عبد كان له من المال ما يبلغ قيمته بقيمة العدل فهو عتيق
   صحيح البخاري2525عبد الله بن عمروجب عليه عتقه كله إذا كان للذي أعتق من المال ما يبلغ يقوم من ماله قيمة العدل يدفع إلى الشركاء أنصباؤهم ويخلى سبيل المعتق
   صحيح مسلم3770عبد الله بن عمرمن أعتق شركا له في عبد كان له مال يبلغ ثمن العبد قوم عليه قيمة العدل فأعطى شركاءه حصصهم وعتق عليه العبد إلا فقد عتق منه ما عتق
   صحيح مسلم4329عبد الله بن عمرمن أعتق عبدا بينه وبين آخر قوم عليه في ماله قيمة عدل لا وكس ولا شطط ثم عتق عليه في ماله إن كان موسرا
   صحيح مسلم4325عبد الله بن عمرمن أعتق شركا له في عبد كان له مال يبلغ ثمن العبد قوم عليه قيمة العدل فأعطى شركاءه حصصهم وعتق عليه العبد إلا فقد عتق منه ما عتق
   صحيح مسلم4326عبد الله بن عمرمن أعتق شركا له من مملوك عليه عتقه كله إن كان له مال يبلغ ثمنه فإن لم يكن له مال عتق منه ما عتق
   صحيح مسلم4327عبد الله بن عمرمن أعتق نصيبا له في عبد كان له من المال قدر ما يبلغ قيمته قوم عليه قيمة عدل إلا فقد عتق منه ما عتق
   صحيح مسلم4330عبد الله بن عمرمن أعتق شركا له في عبد عتق ما بقي في ماله إذا كان له مال يبلغ ثمن العبد
   جامع الترمذي1347عبد الله بن عمرمن أعتق نصيبا له في عبد كان له من المال ما يبلغ ثمنه فهو عتيق من ماله
   جامع الترمذي1346عبد الله بن عمرمن أعتق نصيبا أو قال شقصا أو قال شركا له في عبد كان له من المال ما يبلغ ثمنه بقيمة العدل فهو عتيق إلا فقد عتق منه ما عتق
   سنن أبي داود3943عبد الله بن عمرمن أعتق شركا من مملوك له عليه عتقه كله إن كان له ما يبلغ ثمنه إن لم يكن له مال عتق نصيبه
   سنن أبي داود3940عبد الله بن عمرمن أعتق شركا له في مملوك أقيم عليه قيمة العدل فأعطى شركاءه حصصهم وأعتق عليه العبد إلا فقد عتق منه ما عتق
   سنن أبي داود3946عبد الله بن عمرمن أعتق شركا له في عبد عتق منه ما بقي في ماله إذا كان له ما يبلغ ثمن العبد
   سنن أبي داود3947عبد الله بن عمرإذا كان العبد بين اثنين فأعتق أحدهما نصيبه إن كان موسرا يقوم عليه قيمة لا وكس ولا شطط ثم يعتق
   سنن النسائى الصغرى4702عبد الله بن عمرمن أعتق شركا له في عبد أتم ما بقي في ماله إن كان له مال يبلغ ثمن العبد
   سنن النسائى الصغرى4703عبد الله بن عمرمن أعتق شركا له في مملوك كان له من المال ما يبلغ ثمنه بقيمة العبد فهو عتيق من ماله
   سنن ابن ماجه2528عبد الله بن عمرمن أعتق شركا له في عبد أقيم عليه بقيمة عدل فأعطى شركاءه حصصهم إن كان له من المال ما يبلغ ثمنه وعتق عليه العبد إلا فقد عتق منه ما عتق
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم518عبد الله بن عمرمن اعتق شركا له فى عبد فكان له مال يبلغ ثمن العبد قوم عليه قيمة العدل فاعطى شركاءه حصصهم وعتق عليه، وإلا فقد عتق منه ما عتق
   بلوغ المرام1222عبد الله بن عمر من أعتق شركا له في عبد فكان له مال يبلغ ثمن العبد قوم عليه قيمة عدل فأعطي شركاؤه حصصهم وعتق عليه العبد وإلا فقد عتق منه ما عتق
   مسندالحميدي686عبد الله بن عمرأيما عبد كان بين اثنين فأعتق أحدهما نصيبه، فإن كان موسرا فإنه يقوم عليه بأعلى القيمة
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 3770 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3770  
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
عتق:
عتق کا لفظ مختلف معانی کےلیے استعمال ہوتا ہے،
کرم،
جمال،
شرف ونجابت،
آزادی اور حریت،
اور جب کہیں أَعْتَقَ العَبدَ فلان تو معنی ہوگا،
اس نے غلام کو آزاد کر دیا۔
(2)
شرك حصہ۔
فوائد ومسائل:
اسلام نے جنگی قیدیوں کو پہلے سے موجود اور ازواج پذیر،
نظریہ کے مطابق ان کی بہتری اور تعلیم تربیت کی خاطر ان کو غلام بنانے کی اجازت دی ہے لیکن ان کو یونانیوں رومیوں اور مغربی اقوام کے دستور کے مطابق ڈھورڈنگروں کی طرح نہیں رکھا اور ان کو شرف انسانیت سے محروم نہیں کیا،
ان کو شرف انسانی بخشا اور ان کے حقوق بیان کیے،
بلکہ ان کو بھائی قرار دیا،
ان سے حسن سلوک کی تعلیم دی،
آپﷺ نے فرمایا:
(أَكْرِمُوهُمْ كَرَامَةَ أَوْلادِكُمْ)
ان کو اپنی اولاد کی طرح عزت و شرف دو۔
اور فرمایا:
کوئی انسان عبدی (میراغلام)
امتی (میری لونڈی)
نہ کہے اور مملوک اپنے آقا کو ربی نہ کہے،
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی کے آخری سانس کے وقت فرمایا:
(الصَّلاَةَ وما مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ)
نماز اور اپنے مملوکوں کا دھیان رکھنا،
اس لیے مختلف طریقوں سے ان کو آزاد کرنے کی ترغیب دلائی،
اس اصول کے مطابق اگر کوئی مشترکہ غلام میں اپنا حصہ آزاد کرتا ہے اور اس کو باقی حصہ آزاد کرنے کی توفیق حاصل ہے تو اس کو یہی حکم دیا کہ وہ باقی حصہ بھی آزاد کرے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3770   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 518  
´مشترکہ غلام کی آزادی کا بیان`
«. . . 244- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: من أعتق شركا له فى عبد فكان له مال يبلغ ثمن العبد قوم عليه قيمة العدل فأعطى شركاءه حصصهم وعتق عليه، وإلا فقد عتق منه ما عتق. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص (مشترکہ) غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دے، پھر اس کا مال اگر غلام کی قیمت کے برابر ہو تو غلام کی قیمت کا حساب لگا کر اس کی ملکیت میں شریکوں کو ان کے حصے دیئے جائیں گے اور وہ غلام اس کی طرف سے آزاد ہو جائے گا ورنہ اتنا حصہ ہی اس میں سے آزاد ہو گا جو کہ آزاد ہوا ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 518]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 2522، ومسلم 1501، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ اسلام اس بات کی ترغیب دیتا ہے کہ غلاموں کو آزاد کیا جائے۔
➋ جس شخص نے کسی غلام میں اپنا حصہ آزاد کردیا تو یہ غلام اس شخص کی غلامی سے آزاد ہوجائے گا لیکن اگر کسی اور شخص کا حصہ باقی رہا تو یہ غلام دوسرے شخص کا غلام ہی رہے گا اِلا یہ کہ وہ بھی آزاد کردے۔
➌ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کسی غلام میں اپنا حصہ آزاد کیا تو اس کی پوری آزادی اسی کے ذمہ ہے بشرطیکہ اس کے پاس مال ہو ورنہ غلام کی قیمت لگائی جائے گی اور اس غلام سے کہا: جائے گا کہ وہ کوشش (مال جمع) کرکے اپنے آپ کو آزاد کروالے لیکن اس پر سختی نہ کی جائے۔ [صحيح بخاري: 2527، صحيح مسلم: 1503،]
➍ سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے اپنی موت کے وقت اپنے چھ غلاموں کو آزاد کردیا، ان کے علاوہ اس کا اور کوئی مال نہیں تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان غلاموں کو بلایا اور ان کے تین حصے کئے پھر قرعہ اندازی کرکے دو غلاموں کو آزاد کردیا اور چار کو غلامی میں برقرار رکھا۔ آپ نے (اس طریقے سے) آزاد کرنے والے شخص کی مذمت فرمائی۔ [صحيح مسلم: 1668، دارالسلام: 4335]
معلوم ہوا کہ مرنے والا صرف ایک ثلث (ایک تہائی) کی وصیت کر سکتا ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 244   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4702  
´مال لگائے بغیر تجارت میں حصہ دار بننے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ایک غلام میں اپنا حصہ آزاد کر دیا تو جتنا حصہ باقی ہے وہ بھی اسی کے مال سے آزاد ہو گا بشرطیکہ اس کے پاس غلام کی (بقیہ) قیمت بھر مال ہو ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4702]
اردو حاشہ:
اس روایت کی مناسبت اگلے باب سے ہے، الا یہ کہ اس باب کے معنیٰ یہ ہوں کہ شراکت مال، یعنی روپے پیسے کے علاوہ اور چیزوں میں بھی ہو سکتی ہے، مثلاً: غلام۔ پھر یہ حدیث اگلے باب سے متعلق بھی ہو سکتی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4702   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3940  
´جنہوں نے اس حدیث میں محنت کرانے کا ذکر نہیں کیا ان کی دلیل کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے رویت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص (مشترک) غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کر دے تو اس غلام کی واجبی قیمت لگا کر ہر ایک شریک کو اس کے حصہ کے مطابق ادا کرے گا اور غلام اس کی طرف سے آزاد ہو جائے گا اور اگر اس کے پاس مال نہیں ہے تو جتنا آزاد ہوا ہے اتنا ہی حصہ آزاد رہے گا۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب العتق /حدیث: 3940]
فوائد ومسائل:
آزاد کر نے والے کو ترغیب وتشویق دی گئی ہے کہ اگر وہ یہ مالی بوچھ برداشت کرسکتا ہے تو کر لے، اس میں بڑی فضیلت ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3940   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2528  
´ساجھے کا غلام ہو اور ساجھی دار اپنا حصہ آزاد کر دے تو ایسے غلام کا حکم۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص کسی غلام میں سے اپنے حصہ کو آزاد کر دے، تو کسی عادل شخص سے غلام کی قیمت لگوائی جائے گی، اور اس کے بقیہ شرکاء کے حصہ کی قیمت بھی اسے ادا کرنی ہو گی، بشرطیکہ اس کے پاس اس قدر مال ہو جتنی غلام کی قیمت ہے، اور اس طرح پورا غلام اس کی طرف سے آزاد ہو جائے گا، لیکن اگر اس کے پاس مال نہ ہو تو ایسی صورت میں بس اسی قدر غلام آزاد ہو گا جتنا اس نے آزاد کر دیا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب العتق/حدیث: 2528]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
انصاف کے ساتھ قیمت لگانے مطلب یہ ہے کہ یہ اندازہ کیا جائے کہ اس زمانے میں اس جگہ یہ غلام کتنی قیمت میں فروخت ہوسکتا ہے مثلاً:
اگر وہ آدھے غلام کا مالک تھا اور غلام کی قیمت کا اندازہ سو دینار ہے تو پچاس دینار اپنے دوسرے شریک یا شریکوں کو ادا کرکے باقی آدھا غلام بھی خرید کر آزاد کردے۔

(2)
مذکورہ مثال میں اگرآزاد کرنے والا پچاس دینار کی طاقت نہ رکھتا ہو تو یہ غلام آدھا آزاد سمجھا جائے گا اورآدھا غلام لہٰذا اگروہ قتل ہوجائے تو آدھی دیت (پچاس اونٹ)
لی جائے گئی اور غلام کی قیمت سے آدھی رقم بھی لی جائے گئی۔
اور جن معاملات میں اس طرح کی تقسیم ممکن نہیں تواسے غلام ہی تصور کیا جائے گا جس طرح نامکمل ادائیگی کرنے والے مکاتب کا حکم ہے۔
واللہ أعلم۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2528   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:686  
686- سالم بن عبداللہ اپنے والد کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: جو غلام دو آدمیوں کی ملکیت ہوان دونوں میں سے کوئی ایک شخص اپنے حصے کو آزاد کر دے۔ اگر وہ شخص خوشحال ہو، تو اس غلام کی منصفانہ طور پر کسی کمی بیشی کے بغیر مناسب قیمت لگائی جائے گی اور پھر وہ شخص اپنے ساتھی کو اس کے حصے کی تاوان کی رقم ادا کرے گا اوراس غلام کو (مکمل طور پر) آزاد کردے گا۔ سفیان کہتے ہیں:عمر و کو اس روایت کے اس طرح ہونے میں شک ہے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:686]
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ غلامی تقسیم ہوسکتی ہے۔ ایک غلام کئی لوگ مل کر خرید تے تھے۔ اگر کوئی اپنا حصہ آزاد کرنا چاہتا تو اس کا طریقہ یہ تھا کہ پہلے غلام کی صحیح قیمت تجویز کی جائے پھر اگر آزاد کر نے والا مال دار ہے تو باقی شرکاء کو ان کے حصص کے مطابق قیمت ادا کرے اس طرح وہ غلام مکمل طور پر آزاد ہوگا۔ اگر وہ شخص مال دار نہیں ہے تو پھر صرف اس کا حصہ آزاد ہوگا مکمل طور پر آزاد نہیں ہوگا۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 687   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4329  
حضرت سالم بن عبداللہ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ایسا غلام آزاد کیا، جو اس کے اور دوسرے فرد کے درمیان مشترک تھا، تو اس کی خاطر، اس کے مال سے منصفانہ ٹھیک ٹھیک قیمت لگائی جائے گی، نہ کم نہ زیادہ، پھر اس کی طرف سے اس کے مال سے آزاد ہو جائے گا، اگر آزاد کرنے والا مالدار ہو۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4329]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
وكس:
نقصان و خسارہ۔
(2)
شطط:
ظلم و جور یا زیادتی و اضافہ۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4329   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2491  
2491. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے مشترک غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کردیا اور اس کے پاس اتنا (مال) ہو جو منصفانہ قیمت کے مطابق اس غلام کی قیمت کے برابر ہوسکتا ہوتو وہ غلام آزاد ہے، بصورت دیگر اتنا آزاد ہوجائے گا جتنا اس نے آزاد کردیا۔ (راوی حدیث) ایوب نے کہا: اتنا آزاد ہوجائے گا جتنا اس نے آزاد کیا ہے۔ مجھے معلوم نہیں کہ نافع کا قول ہے یا نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2491]
حدیث حاشیہ:
یعنی سارے غلام کی غلامی کی حالت میں قیمت لگائیں گے یعنی جو حصہ آزاد ہوا اگر وہ بھی آزاد نہ ہوتا تو اس کی قیمت کیا ہوتی۔
اگر اتنا مال نہ ہو تو بس جتنا حصہ اس کا تھا اتنا ہی آزاد ہوا۔
عینی نے اس مسئلہ میں چودہ مذہب بیان کئے ہیں۔
لیکن امام احمد ؒ اور شافعی ؒ اور اسحاق ؒنے اسی حدیث کے موافق حکم دیا ہے اور حضرت امام ابوحنیفہ ؒ کہتے ہیں کہ ایسی صورت میں دوسرے شریک کو اختیار رہے گا خواہ اپنا حصہ بھی آزاد کردے خواہ غلام سے محنت مشقت کراکر اپنے حصہ کے دام وصول کرے۔
خواہ اگر آزاد کرنے والا مال دار ہو تو اپنے حصے کی قیمت اس سے بھرلے۔
پہلی اور دوسری صورت میں غلام کا ترکہ دونوں کو ملے گا اور تیسری صورت میں صرف آزاد کرنے والے کو۔
باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے کہ غلام کی ٹھیک ٹھیک قیمت لگاکر اس کے جملہ مالکوں پر اسے تقسیم کردیا جائے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2491   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2524  
2524. حضرت ابن عمر ؓ ہی سے ایک اور روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جس شخص نے مشترکہ غلام سے اپنا حصہ آزاد کردیا، اب اگر اس کامال اس (غلام) کی منصفانہ قیمت کو پہنچ جاتا ہے تو وہ آزاد ہوگا۔ نافع نے کہا: اگر مال نہیں ہے تو اتنا حصہ آزاد ہوگا جس قدر اس نے آزاد کیاہے۔ ایوب راوی کا کہنا ہے کہ مجھے معلوم نہیں کہ یہ بات نافع نے اپنی طرف سے کہی ہے یا حدیث کاحصہ ہے؟ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2524]
حدیث حاشیہ:
یعنی یہ عبارت والا فقد عتق منه ما عتق حدیث میں داخل ہے یا نافع کا قول ہے۔
مگر اور راویوں نے جیسے عبیداللہ اور مالک وغیرہ ہیں، اس فقرے کو حدیث میں داخل کیا ہے اور وہی راجح ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2524   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2553  
2553. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جس نے غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کردیا اور اس کے پاس اتنا مال بھی ہو کہ کسی عادل کی قیمت لگانے کے مطابق اس کی قیمت اداکی جاسکے تو اس کے مال سے پورا غلام آزاد کیاجائے، بصورت دیگر جتنا اس نے آزاد کیا اتنا ہی آزاد ہوگا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2553]
حدیث حاشیہ:
صرف وہی حصہ اس کی طرف سے آزاد ہورہے گا۔
اس حدیث کو اس لیے لائے کہ اس میں عبد کا لفظ غلام کے لیے آیا ہے۔
پس مجازاً غلام پر عبد بولا جاسکتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2553   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2523  
2523. حضرت ابن عمر ؓ سے ایک اور روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے اپنے مشترک غلام میں سے اپنا حصہ آزاد کردیا، پھر اگر اس کے پاس اتنا مال ہے جو غلام کی قیمت کو پہنچ جائے تو غلام کو مکمل طور پر آزاد کروانا اس کی ذمہ داری ہے۔ اوراگر اس کے پاس اتنا مال نہیں تو غلام کی عادلانہ قیمت لگائی جائےگی، پھر اس سے اتنا حصہ آزاد ہوگا جو اس نے آزاد کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2523]
حدیث حاشیہ:
اس مختصر روایت کو امام بیہقی ؒ نے بیان کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:
جس نے مشترک غلام سے اپنا حصہ آزاد کیا تو وہ غلام مکمل طور پر آزاد ہو جائے گا۔
(السنن الکبریٰ للبیھقي: 277/10)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2523   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2525  
2525. حضرت ابن عمر ؓ سے مزید روایت ہے کہ وہ شرکاء کے درمیان مشترک غلام یا لونڈی کے متعلق یہ فتویٰ دیتے تھے کہ ان میں سے کسی نے اپنا حصہ آزاد کردیاتو اس پر واجب ہے کہ وہ پورا غلام آزاد کرے، بشرط یہ کہ آزادکرنے والے کے پاس اتنا مال ہوجو اس کی قیمت کو پہنچ جائے۔ اس صورت میں غلام کی عادلانہ قیمت تجویز کی جائے گی اور شرکاء کو ان کے حصے حوالے کردیے جائیں گے (ان کے حصوں کے مطابق قیمت ادا کردی جائے گی۔) اورآزاد شدہ غلام کا راستہ چھوڑ دیا جائے گا۔ (اسے آزاد کردیاجائے گا۔)حضرت عمر ؓ اس فتوےکی بنیاد نبی کریم ﷺ کی حدیث قرار دیتے تھے۔ اس روایت کو لیث، ابن ابی ذئب، ابن اسحاق، جویریہ، یحییٰ بن سعید اور اسماعیل بن امیہ نے حضرت نافع سے، انھوں نے عبداللہ بن عمر ؓ سے، انھوں نے نبی کریم ﷺ سے مختصر طور پر بیان کیا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2525]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ کے بیان کردہ مسئلے میں بہت اختلاف ہے اور اس اختلاف کی بنیاد یہ ہے کہ آیا غلام کی آزادی قابل تقسیم ہے یا نہیں؟ امام بخاری ؒ کا موقف یہ ہے کہ آزادی کا تجزیہ ہو سکتا ہے۔
جب غلامی کا دور تھا تو کئی آدمی مل کر ایک غلام خرید لیتے تھے اب اگر کوئی اپنا حصہ آزاد کرنا چاہتا تو اس کے متعلق ضابطہ یہ تھا کہ پہلے غلام کی صحیح اور عادلانہ قیمت تجویز کی جائے پھر اپنا حصہ آزاد کرنے والا اگر مال دار ہے تو باقی شرکاء کو ان کے حصص کے مطابق قیمت ادا کرے، اس صورت میں وہ غلام مکمل طور پر آزاد ہو گا۔
اگر وہ شخص مال دار نہیں ہے تو پھر صرف اسی کا حصہ آزاد ہو گا، مکمل طور پر آزاد نہیں ہو گا۔
اس طرح اس کی آزادی تقسیم ہو سکتی ہے۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ آزادی تقسیم نہیں ہو سکتی بلکہ ایک حصہ آزاد کرنے سے وہ مکمل آزاد ہو جائے گا۔
اگر وہ صاحب حیثیت ہے تو اسے باقی حصوں کی قیمت کا تاوان دینا ہو گا۔
اگر صاحب حیثیت نہیں ہے تو غلام کو محنت مزدوری پر مجبور کیا جائے گا۔
اس پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اپنا حصہ آزاد کرنے والا تنگ دست ہو اور غلام بھی محنت مزدوری کے قابل نہ ہو تو پھر کیا کیا جائے گا؟ بہرحال ہمارے رجحان کے مطابق آزادی قابل تجزیہ ہے اور غلام کا کچھ حصہ آزاد اور کچھ حصہ غلام ہو سکتا ہے، اس میں کوئی اشکال نہیں۔
امام بخاری ؒ نے آئندہ باب میں اس کا مزید حل پیش فرمایا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2525   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.