الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
لین دین کے مسائل
17. باب كِرَاءِ الأَرْضِ:
17. باب: زمین کو کرایہ پر دینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3915
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا إسحاق بن منصور ، حدثنا عبيد الله بن عبد المجيد ، حدثنا رباح بن ابي معروف ، قال: سمعت عطاء ، عن جابر بن عبد الله ، قال: " نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن كراء الارض، وعن بيعها السنين، وعن بيع الثمر حتى يطيب ".وحَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ ، حَدَّثَنَا رَبَاحُ بْنُ أَبِي مَعْرُوفٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَطَاءً ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ كِرَاءِ الْأَرْضِ، وَعَنْ بَيْعِهَا السِّنِينَ، وَعَنْ بَيْعِ الثَّمَرِ حَتَّى يَطِيبَ ".
اسماعیل بن علیہ نے ہمیں ایوب سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابوزبیر سے، انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی۔۔ اسی کے مانند، البتہ انہوں نے یہ ذکر نہیں کیا کہ کئی سالوں کے لیے بیع کرنا ہی معاومہ ہے
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین کرائے پر دینے سے منع فرمایا ہے اور اس کو چند سال کے لیے بیچنے سے بھی، اور پھل کو پختہ (شیریں) ہونے سے پہلے بیچنے سے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1536

   صحيح البخاري2381جابر بن عبد اللهالمخابرة والمحاقلة عن المزابنة عن بيع الثمر حتى يبدو صلاحها لا تباع إلا بالدينار والدرهم إلا العرايا
   صحيح مسلم3919جابر بن عبد اللهيؤخذ للأرض أجر أو حظ
   صحيح مسلم3922جابر بن عبد اللهنهى عن المخابرة
   صحيح مسلم3915جابر بن عبد اللهكراء الأرض عن بيعها السنين عن بيع الثمر حتى يطيب
   صحيح مسلم3916جابر بن عبد اللهكراء الأرض
   صحيح مسلم3932جابر بن عبد اللهينهى عن المزابنة الحقول
   صحيح مسلم3913جابر بن عبد اللهالمحاقلة المزابنة المعاومة المخابرة عن الثنيا رخص في العرايا
   صحيح مسلم3910جابر بن عبد اللهالمخابرة والمحاقلة المزابنة عن بيع الثمرة
   صحيح مسلم3911جابر بن عبد اللهنهى عن المحاقلة المزابنة المخابرة تشترى النخل حتى تشقه
   صحيح مسلم3912جابر بن عبد اللهعن المزابنة المحاقلة المخابرة عن بيع الثمرة حتى تشقح
   صحيح مسلم3908جابر بن عبد اللهالمحاقلة المزابنة المخابرة عن بيع الثمر حتى يبدو صلاحه لا يباع إلا بالدينار والدرهم إلا العرايا
   جامع الترمذي1313جابر بن عبد اللهالمحاقلة المزابنة المخابرة المعاومة رخص في العرايا
   جامع الترمذي1290جابر بن عبد اللهالمحاقلة المزابنة المخابرة الثنيا إلا أن تعلم
   سنن أبي داود3404جابر بن عبد اللهالمحاقلة المزابنة المخابرة المعاومة
   سنن أبي داود3405جابر بن عبد اللهعن المزابنة المحاقلة عن الثنيا إلا أن يعلم
   سنن أبي داود3406جابر بن عبد اللهمن لم يذر المخابرة فليأذن بحرب من الله ورسوله
   سنن أبي داود3375جابر بن عبد اللهنهى عن المعاومة
   سنن النسائى الصغرى4637جابر بن عبد اللهالمحاقلة المزابنة المخابرة عن الثنيا إلا أن تعلم
   سنن النسائى الصغرى4554جابر بن عبد اللهنهى عن المخابرة المزابنة المحاقلة عن بيع الثمر حتى يطعم
   سنن النسائى الصغرى3913جابر بن عبد اللهنهى عن الحقل وهي المزابنة
   سنن النسائى الصغرى3909جابر بن عبد اللهكراء الأرض
   سنن النسائى الصغرى3910جابر بن عبد اللهنهى عن المخابرة المزابنة المحاقلة بيع الثمر حتى يطعم إلا العرايا
   سنن النسائى الصغرى3911جابر بن عبد اللهالمحاقلة المزابنة المخابرة عن الثنيا إلا أن تعلم
   سنن النسائى الصغرى3914جابر بن عبد اللهنهى عن المزابنة المخاضرة المخاضرة بيع الثمر قبل أن يزهو المخابرة بيع الكرم بكذا وكذا صاع
   سنن النسائى الصغرى4638جابر بن عبد اللهعن المحاقلة المزابنة المخابرة المعاومة والثنيا رخص في العرايا
   سنن النسائى الصغرى3952جابر بن عبد اللهالمخابرة والمحاقلة المزابنة
   سنن النسائى الصغرى4527جابر بن عبد اللهالمخابرة المزابنة المحاقلة يباع الثمر حتى يبدو صلاحه لا يباع إلا بالدنانير والدراهم رخص في العرايا
   سنن النسائى الصغرى4528جابر بن عبد اللهنهى عن المخابرة المزابنة المحاقلة بيع الثمر حتى يطعم إلا العرايا
   سنن ابن ماجه2266جابر بن عبد اللهالمحاقلة المزابنة
   بلوغ المرام672جابر بن عبد اللهنهى عن المحاقلة،‏‏‏‏ والمزابنة،‏‏‏‏ والمخابرة،‏‏‏‏ وعن الثنيا،‏‏‏‏ إلا ان تعلم
   المعجم الصغير للطبراني532جابر بن عبد الله عن الثنيا ، إلا أن يعلم ما هي
   مسندالحميدي1292جابر بن عبد اللهنهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن المخابرة

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1290  
´بیع میں استثناء کرنے کی ممانعت کا بیان۔`
جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محاقلہ، مزابنہ ۱؎ مخابرہ ۲؎ اور بیع میں کچھ چیزوں کو مستثنیٰ کرنے سے منع فرمایا ۳؎ الا یہ کہ استثناء کی ہوئی چیز معلوم ہو۔ [سنن ترمذي/كتاب البيوع/حدیث: 1290]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
محاقلہ اورمزابنہ کی تفسیرگزرچکی ہے دیکھئے حدیث نمبر(1224)

2؎:
مخابرہ کے معنیٰ مزارعت کے ہیں یعنی ثلث یا ربع پیداوار پر زمین بٹائی پر لینا،
یہ بیع مطلقاً ممنوع نہیں،
بلکہ لوگ زمین کے کسی حصہ کی پیداوارمزارع کے لیے اورکسی حصہ کی مالک زمین کے لیے مخصوص کرلیتے تھے،
ایسا کرنے سے منع کیا گیاہے،
کیونکہ بسا اوقات مزارع والا حصہ محفوظ رہتا اورمالک والا تباہ ہوجاتا ہے،
اورکبھی اس کے برعکس ہوجاتاہے،
اس طرح معاملہ باہمی نزاع اور جھگڑے تک پہنچ جاتاہے،
اس لیے ایساکرنے سے منع کیا گیاہے۔

3؎:
اس کی صورت یہ ہے کہ مثلاً کوئی کہے کہ میں اپنا باغ بیچتا ہوں مگر اس کے کچھ درخت نہیں دوں گا اور ان درختوں کی تعیین نہ کرے تو یہ درست نہیں کیو نکہ مستثنیٰ کئے ہوئے درخت مجہول ہیں۔
اوراگرتعیین کردے توجائز ہے جیساکہ اوپرحدیث میں اس کی اجازت موجودہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1290   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3375  
´کئی سال کے لیے پھل بیچ دینا منع ہے۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاومہ (کئی سالوں کے لیے درخت کا پھل بیچنے) سے روکا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ان میں سے ایک (یعنی ابو الزبیر) نے (معاومہ کی جگہ) «بيع السنين» کہا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب البيوع /حدیث: 3375]
فوائد ومسائل:

کسی باغ یا مخصوص درختوں کے پھل کوکئی سالوں کےلئے پیشگی فروخت کرنا منع ہے۔
کیونکہ معلوم نہیں کہ ان پر پھل آئے گا بھی یا نہیں۔
کم آئے گا یا زیادہ۔
لیکن بیع سلم (یا سلف) مختلف بیع ہے۔
اس میں خریدار بائع کو پیشگی رقم ادا کر دیتا ہے۔
کہ موسم آنے پر فلاں پھل یا فلاں جنس اس معیارکی اتنی مقدار میں مہیا کرنا ہوگی تو یہ جائز ہے کیونکہ یہ کسی خاص کھیت یا خاص درخت یا باغ کی پیداوار کا سودا نہیں ہوتا۔
بلکہ ایک خاص معیار کی جنس یا پھل کا سودا ہوتا ہے۔
جو کہیں سے بھی حاصل ہوسکتا ہے۔


اس وقت جو سودے ہوچکے تھے۔
اور آفات کی جگہ سے پیداوار میں نقصان ہوا تھا اس کی تلافی کرائی گئی اور آئندہ کےلئے پھل وغیرہ قابل استعمال ہونے کے بعد بیع کرنے کا حکم دیا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3375   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3915  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
زمین کسی کو کرایہ پر دینے کا مقصد ہے کسی کو کاشت کے لیے اجرت اور مزدوری پر دینا۔
زمین کاشت کے لیے دینے کی چار صورتیں بن سکتی ہیں۔

زمیندار،
مزارع یا کاشت کار کو زمین اس شرط پر دیتا ہے،
کہ میں اس زمین کے عوض،
پیداوار میں سے بیس من یا سو من لوں گا،
یہ صورت فقہاء کے نزدیک بالاتفاق ناجائز ہے۔
کیونکہ معلوم نہیں ہے کس قدر پیداوار حاصل ہو گی یا حاصل بھی ہو گی یا کسی آفت کا شکار ہو جائے گی۔
اس طرح اس میں غرر اور دھوکا ہے۔

زمیندار،
کاشت کار کو زمین اس شرط پر دیتا ہے کہ فلاں فلاں ایکڑ کی پیداوار میری ہو گی اور باقی تیری ہو گی،
اس طرح بہترین حصہ اپنے لیے رکھتا ہے،
یہ بھی بالاتفاق ممنوع ہے،
کیونکہ اس میں بھی غرر کا خطرہ ہے۔
معلوم نہیں،
زمین کا کون سا حصہ،
کسی آفت کا شکار ہو جائے اور اس سے پیداوار حاصل نہ ہو سکے،
یا کس حصہ میں کتنی پیداوار ہو گی۔

زمیندار مزارع کو زمین ٹھیکہ پر دے،
ٹھیکہ سونا،
چاندی،
کسی کرنسی یا کسی اور چیز کی متعین اور طے شدہ مقدار کی صورت میں ہو گا۔
بہرحال یہ طے ہے کہ یہ ٹھیکہ زمین سے حاصل ہونے والی پیداوار کا معینہ مقدار میں نہیں ہو گا۔
ائمہ اربعہ اور جمہور فقہاء کے نزدیک یہ صورت جائز ہے،
لیکن امام ربیعہ الرائے کے نزدیک ٹھیکہ صرف سونے،
چاندی کے عوض ہو گا اور کسی صورت میں جائز نہیں ہے،
اور امام مالک کے نزدیک غلہ و اناج کے سوا ہر چیز کے عوض جائز ہے،
امام شافعی،
امام ابو حنیفہ،
امام احمد،
صاحبین (ابو یوسف،
محمد)

اور جمہور کے نزدیک،
ہر چیز کے عوض جائز ہے۔
اس کی مقدار یا مالیت طے ہو گی،
لیکن حسن بصری،
امام طاؤس کے نزدیک زمین ٹھیکہ پر دینا جائز نہیں ہے۔
امام ابن حزم کا موقف بھی یہی ہے،
اور اس نے یہ موقف عطاء،
عکرمہ،
مجاہد،
شعبی،
ابن سیرین،
قاسم بن محمد اور مسروق رحمۃ اللہ علیہم کا قرار دیا ہے۔
لیکن ان تابعین کے بعد کے تمام ائمہ اور فقہاء کا ٹھیکہ کے جواز پر اتفاق ہے۔
اس لیے امام ابن قدامہ نے اپنی کتاب المغنی میں اس کو اجماعی مسئلہ قرار دیا ہے۔
(المغني،
ج: 5،
ص: 429،
مطبوعة ادارۃ البحوث العلمیة والافتاء سعودي عرب)

زمیندار،
کسان کو زمین بٹائی یا حصہ پر دے،
جس کو مزارعت کا نام دیا جاتا ہے کہ اس سے جو پیداوار حاصل ہو گی اس کا آدھا حصہ لوں گا۔
اس میں کمی و بیشی بھی ہو سکتی ہے،
جس کا مدار،
زمیندار کی طرف سے کسان کو فراہم کردہ سہولتوں پر ہے۔
اس کے بارے میں ائمہ کے مندرجہ ذیل اقوال ہیں۔
مزارعت پر زمین دینا بلا قید جائز ہے،
امام احمد،
امام ابو یوسف اور امام محمد کا یہی نظریہ ہے۔
ابن حزم کا بھی یہی موقف ہے۔
بہت سے صحابہ اور تابعین سے اس کا جواز ثابت ہے۔
بٹائی پر زمین دینا کسی صورت میں جائز نہیں ہے۔
امام ابو حنیفہ اور زفر کا یہی موقف ہے۔
عکرمہ،
نخعی اور مجاہد بھی اس کے قائل تھے،
اور امام صاحب مساقات کو بھی جائز نہیں سمجھتے۔
امام شافعی کے نزدیک مزارعت چند شرطوں کے ساتھ جائز ہے۔
پہلی شرط یہ ہے کہ یہ مساقات (باغبانی)
کے ضمن میں ہو۔
یعنی اصل میں باغ حصہ پر دیا ہے اور اس کے اندر کچھ زمین بھی ہے جس کو کاشت کیا جاتا ہے۔
(4)
مزارعت اور مساقات ایک ہی کسان کر رہا ہو۔
(5)
معاملہ بیک وقت اور مشترکہ طے ہوا ہو،
الگ الگ نہیں۔
(6)
باغ کے اندر کی زمین کسی اور کو دینا ممکن نہ ہو۔
(7)
زمین میں بیج،
زمیندار ڈالے گا،
وغیرہ۔
مزارعت،
مساقات کی ضمن میں ہو گی اور باغ کی زمین دو تہائی ہو گی اور کاشت کے لیے زمین ایک تہائی یا اس سے کم ہو گی۔
یہ امام مالک کا نظریہ ہے۔
صحیح بات یہ ہے کہ مزارعت اور مساقات دونوں جائز ہیں۔
احناف کا فتویٰ بھی صاحبین کے قول کے مطابق ہے اور امت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے لے کر آج تک اس پر عمل پیرا ہے۔
اور مزارعت سے جن حدیثوں میں منع کیا گیا ہے وہ مخصوص صورتیں ہیں جن میں غرر ہے،
جن کو ہم نے،
مزارعت کی پہلی اور دوسری صورت میں بیان کیا ہے۔
اور بعض مواقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑے بڑے زمینداروں کو،
جن کے پاس فالتو زمین تھی،
ان کو آپ نے ان لوگوں کے ساتھ جن کے پاس زمین نہیں تھی ہمدردی اور خیرخواہی اور ایثار و قربانی کا حکم دیا کہ تم فالتو زمین کاشت کے لیے انہیں دے دو،
جب ضرورت ہو تو اپنی زمین واپس لے لینا،
یہ دونوں باتیں کہ مزارعت کی مخصوص صورتیں منع ہیں۔
اور ہمدردی و خیرخواہی مطلوب ہے،
آنے والی حدیثوں سے ثابت ہو جائیں گی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 3915   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.