الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
امور حکومت کا بیان
13. باب الأَمْرِ بِلُزُومِ الْجَمَاعَةِ عِنْدَ ظُهُورِ الْفِتَنِ وَتَحْذِيرِ الدُّعَاةِ إِلَى الْكُفْرِ:
13. باب: فتنہ اور فساد کے وقت بلکہ ہر وقت مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ رہنا۔
حدیث نمبر: 4785
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني محمد بن سهل بن عسكر التميمي ، حدثنا يحيى بن حسان . ح وحدثنا عبد الله بن عبد الرحمن الدارمي ، اخبرنا يحيي وهو ابن حسان ، حدثنا معاوية يعني ابن سلام ، حدثنا زيد بن سلام ، عن ابي سلام ، قال: قال حذيفة بن اليمان : " قلت: يا رسول الله، إنا كنا بشر فجاء الله بخير فنحن فيه، فهل من وراء هذا الخير شر؟، قال: نعم، قلت: هل وراء ذلك الشر خير؟، قال: نعم، قلت: فهل وراء ذلك الخير شر؟، قال: نعم، قلت: كيف؟، قال: يكون بعدي ائمة لا يهتدون بهداي، ولا يستنون بسنتي، وسيقوم فيهم رجال قلوبهم قلوب الشياطين في جثمان إنس، قال: قلت: كيف اصنع يا رسول الله، إن ادركت ذلك؟، قال: تسمع وتطيع للامير، وإن ضرب ظهرك، واخذ مالك فاسمع واطع ".وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَهْلِ بْنِ عَسْكَرٍ التَّمِيمِيُّ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَسَّانَ . ح وحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ ، أَخْبَرَنَا يَحْيَي وَهُوَ ابْنُ حَسَّانَ ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ يَعْنِي ابْنَ سَلَّامٍ ، حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ سَلَّامٍ ، عَنْ أَبِي سَلَّامٍ ، قَالَ: قَالَ حُذَيْفَةُ بْنُ الْيَمَانِ : " قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا كُنَّا بِشَرٍّ فَجَاءَ اللَّهُ بِخَيْرٍ فَنَحْنُ فِيهِ، فَهَلْ مِنْ وَرَاءِ هَذَا الْخَيْرِ شَرٌّ؟، قَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ: هَلْ وَرَاءَ ذَلِكَ الشَّرِّ خَيْرٌ؟، قَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ: فَهَلْ وَرَاءَ ذَلِكَ الْخَيْرِ شَرٌّ؟، قَالَ: نَعَمْ، قُلْتُ: كَيْفَ؟، قَالَ: يَكُونُ بَعْدِي أَئِمَّةٌ لَا يَهْتَدُونَ بِهُدَايَ، وَلَا يَسْتَنُّونَ بِسُنَّتِي، وَسَيَقُومُ فِيهِمْ رِجَالٌ قُلُوبُهُمْ قُلُوبُ الشَّيَاطِينِ فِي جُثْمَانِ إِنْسٍ، قَالَ: قُلْتُ: كَيْفَ أَصْنَعُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ أَدْرَكْتُ ذَلِكَ؟، قَالَ: تَسْمَعُ وَتُطِيعُ لِلْأَمِيرِ، وَإِنْ ضُرِبَ ظَهْرُكَ، وَأُخِذَ مَالُكَ فَاسْمَعْ وَأَطِعْ ".
4785. ابوسلام سے روایت ہے، کہا: حضرت حذیفہ بن یمان نے کہا: میں نے عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم شر میں مبتلا تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں خیر عطا فرمائی، ہم اس خیر کی حالت میں ہیں، کیا اس خیر کے پیچھے شر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ میں نے عرض کی: کیا اس شر کے پیچھے خیر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ میں نے پوچھا: کیا اس خیر کے پیچھے پھر شر ہو گا؟ فرمایا: ہاں۔ میں نے پوچھا: وہ کس طرح ہو گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے بعد ایسے امام (حکمران اور رہنما) ہوں گے جو زندگی گزارنے کے میرے طریقے پر نہیں چلیں گے اور میری سنت کو نہیں اپنائیں گے اور جلد ہی ان میں ایسے لوگ کھڑے ہوں گے جن کی وضع قطع انسانی ہو گی، دل شیطانوں کے دل ہوں گے۔ (حضرت حذیفہ ؓ نے) کہا: میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! اگر میں وہ زمانہ پاؤں (تو کیا کروں)؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: امیر کا حکم سننا اور اس کی اطاعت کرنا، چاہے تمہاری پیٹھ پر کوڑے مارے جائیں اور تمہارا مال چھین لیا جائے پھر بھی سننا اور اطاعت کرنا۔
حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے کہا، یا رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم! ہم شر میں مبتلا تھے، تو اللہ خیر لے آیا اور ہم اس سے وابستہ ہیں، تو کیا اس خیر کے بعد شر ہو گا؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ میں نے پوچھا، کیا اس شر کے بعد بھی خیر کا دور ہو گا؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ میں نے دریافت کیا، کیا اس خیر کے بعد شر ہو گا؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں۔ میں نے کہا، کیا کیفیت ہو گی؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے بعد ایسے امام ہوں گے، جو میری ہدایت سے رہنمائی حاصل نہیں کریں گے، اور نہ میرا طریقہ اپنائیں گے اور ان میں ایسے افراد پیدا ہوں گے جن کے دل شیطانوں کے دل ہوں گے اور بدن انسانوں کے ہوں گے۔ میں نے پوچھا، اگر میں ان کو پا لوں، تو اے اللہ کے رسول! میں کیا کروں؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سننا اور امیر کی اطاعت کرنا، اگرچہ تیری پشت پر مار پڑے اور تیرا مال چھین لیا جائے، سن اور مان۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1847

   صحيح البخاري3606حذيفة بن حسيلهل بعد هذا الخير من شر قال نعم قلت وهل بعد ذلك الشر من خير قال نعم فيه دخن قلت وما دخنه قال قوم يهدون بغير هديي تعرف منهم وتنكر دعاة إلى أبواب جهنم
   صحيح البخاري7084حذيفة بن حسيلهل بعد هذا الخير من شر قال نعم هل بعد ذلك الشر من خير قال نعم وفيه دخن قلت وما دخنه قال قوم يهدون بغير هديي تعرف منهم وتنكر فهل بعد ذلك الخير من شر قال نعم دعاة على أبواب جهنم من أجابهم إليها قذفوه فيها صفهم لنا قال هم من جلدتنا ويتكلمون بألسنتنا قلت فما
   صحيح مسلم4785حذيفة بن حسيلهل من وراء هذا الخير شر قال نعم هل وراء ذلك الشر خير قال نعم هل وراء ذلك الخير شر قال نعم كيف قال يكون بعدي أئمة لا يهتدون بهداي ولا يستنون بسنتي وسيقوم فيهم رجال قلوبهم قلوب الشياطين في جثمان إنس كيف أصنع يا رسول الله إن أدركت ذلك قال تسمع وتطيع للأمير و
   صحيح مسلم4784حذيفة بن حسيلهل بعد هذا الخير شر قال نعم فقلت هل بعد ذلك الشر من خير قال نعم فيه دخن
   سنن أبي داود4244حذيفة بن حسيلأيكون بعده شر كما كان قبله قال نعم السيف إن كان لله خليفة في الأرض فضرب ظهرك وأخذ مالك فأطعه وإلا فمت وأنت عاض بجذل شجرة يخرج الدجال معه نهر ونار فمن وقع في ناره وجب أجره وحط وزره ومن وقع في نهره وجب وزره وحط أجره قيام الساعة
   سنن ابن ماجه3979حذيفة بن حسيلدعاة على أبواب جهنم من أجابهم إليها قذفوه فيها صفهم لنا قال هم قوم من جلدتنا يتكلمون بألسنتنا قلت فما تأمرني إن أدركني ذلك قال فالزم جماعة المسلمين وإمامهم فإن لم يكن لهم جماعة ولا إمام فاعتزل تلك الفرق كلها ولو أن تعض بأصل شجرة حتى يدركك الموت وأنت كذ
   سنن ابن ماجه3981حذيفة بن حسيلتكون فتن على أبوابها دعاة إلى النار فأن تموت وأنت عاض على جذل شجرة خير لك من أن تتبع أحدا منهم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3979  
´(فتنہ کے زمانہ میں) سب سے الگ تھلگ رہنے کا بیان۔`
حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جہنم کے دروازوں کی طرف بلانے والے پیدا ہوں گے، جو ان کے بلاوے پر ادھر جائے گا وہ انہیں جہنم میں ڈال دیں گے، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم سے ان کے کچھ اوصاف بتائیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ لوگ ہم ہی میں سے ہوں گے، ہماری زبان بولیں گے، میں نے عرض کیا: اگر یہ وقت آئے تو آپ مجھے کیا حکم فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم مسلمانوں کی جماعت اور امام کو لازم پکڑو، اور اگر اس وقت کوئی جماعت اور امام نہ ہو تو ان تمام فر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الفتن/حدیث: 3979]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
نبیﷺ کے بعد ہر دور میں ایسے افراد پیدا ہوتے رہتے ہیں جو باطل کی طرف دعوت دینے والے تھے اور عام لوگ ان کی چرب زبانی سے متاثر ہوکر ان کی بات مان لیتے تھے۔

(2)
خارجی معتزلہ شیعہ اور جہیمیہ وغیرہ فرقے صحابہ وتابعین کے دور میں پیدا ہوئے۔
صحابہ و تابعین نے ان کی تردید کی اور ان کے شبہات کا ازالہ کیا۔

(3)
اختلافات کے اس دور میں صحیح راستہ وہی تھا جس پر صحابہ کرام اور تابعین قائم تھے۔
بعد میں پيدا ہونے والے اختلافات میں بھی صحابہ وتابعین کا طرز عمل ہی قابل اتباع ہے۔

(4)
جماعت المسلمین سے مراد وہ مسلمان ہیں جو ان فرقوں سے الگ ہیں مثلاً:
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں ایک فرقہ ان کی محبت میں غلو کا شکار ہوا جیسے:
کیسانیہ اور دوسرے شیعہ فرقے۔
ایک فرقہ ان کی مخالفت میں حد سے بڑھ گیا مثلاً:
خارجی اور ناصبی۔
عام مسلمانوں ان دونوں سے الگ رہے انھوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کوخلیفہ راشد تسلیم کیا لیکن انھیں معصوم نہیں مانا ان کے لیے الله کے نور میں سے نور ہونے کا عقیدہ نہیں رکھا۔
یہی عام مسلمانوں جماعت المسلمین (مسلمانوں کی جماعت)
ہیں۔
علاوہ ازیں خروج و بغاوت کے زمانے میں خلیفہ وقت کے ساتھ رہنا بھی اسی کے مفہوم میں شامل ہے۔

(5)
مسلمانوں کے امام سے مراد وہ حکمران اور خلیفہ ہے جو اسلامی شریعت کی روشنی میں ان کے معاملات کا انتظام کرتا اور دوسرے فرائض انجام دیتا ہے مثلاً:
اسلامی سلطنت کی سر زمین کی حفاظت دشمن ملکوں کے خلاف جہاد زکاۃ وغیرہ کی وصولی اور تقسیم بیت المال کا دوسرا انتظام مجرموں کی گرفتاری اور سزا، مسلمانوں کے جھگڑوں میں فیصلے کرنا اور اس مقصد کے لیے قاضی او جج مقرر کرنا وغیرہ۔

(6)
بعض لوگوں نے مسلمانوں کی جماعت کا مصداق ایک خودساختہ جماعت کو قراردینے کی کوشش کی ہےحالانکہ جماعۃ المسلمین کا لفظ اسم علم کے طور پر استعمال نہیں ہوا۔
ورنہ نہ اِمَامَهم (ان کے امام)
کے بجائےاِمَامَها (اس جماعت کا امام)
فرمایا جاتا۔
جو امام مسلمانوں کا دفاع نہیں کرسکتا اور ان پر اسلامی شریعت نافذ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا اس کے ساتھ پیوستگی کا حکم ناقابل فہم ہے۔

(7)
فتنوں کے زمانے میں کسی پارٹی کے ساتھ مل کر دوسرے مسلمانوں کے جان ومال کو نقصان پہنچانا جائز نہیں البتہ خلیفۃ المسلمین کے ساتھ مل کر باغیوں کے خلاف جنگ کرنا اسلامی سلطنت کے دفاع اور قوت کے لیے ضروری ہے۔

(8)
دور حاضر میں مختلف مذہبی تنظیمیں صرف تعاون علي البر کی بنیاد پر قائم ہیں۔
ان کے ساتھ وابستگی یا عدم وابستگی کا تعلق اسلام کے بنیادی احکام سے نہیں۔
ان میں سی کسی ایک جماعت یا بیک وقت متعدد جماعتوں سے تعاون درست ہے جب تک وہ کوئی غلط کام نہ کریں۔
جو کام غلط ہو اس میں تعاون جائز نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 3979   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4244  
´فتنوں کا ذکر اور ان کے دلائل کا بیان۔`
سبیع بن خالد کہتے ہیں کہ تستر فتح کئے جانے کے وقت میں کوفہ آیا، وہاں سے میں خچر لا رہا تھا، میں مسجد میں داخل ہوا تو دیکھا کہ چند درمیانہ قد و قامت کے لوگ ہیں، اور ایک اور شخص بیٹھا ہے جسے دیکھ کر ہی تم پہچان لیتے کہ یہ اہل حجاز میں کا ہے، میں نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ تو لوگ میرے ساتھ ترش روئی سے پیش آئے، اور کہنے لگے: کیا تم انہیں نہیں جانتے؟ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ ہیں، پھر حذیفہ نے کہا: لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خیر کے متعلق پوچھتے تھے، اور میں آپ سے شر کے بارے میں پوچھا کرتا تھا، تو ل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الفتن والملاحم /حدیث: 4244]
فوائد ومسائل:
1) اللہ عزوجل کی عجیب حکمت ہے کہ وہ اپنے بندوں کے دلوں میں مختلف میلانات پیدا فرما دیتا ہے جس میں ان کے لیئے خیر اور برکت ہوتی ہے۔
عام صحابہ خیر کے متعلق سوال کرتے تھے تو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ شر کے متعلق دریافت کرتے تھے اس سے ان کے علاوہ اُمت کو بھی بہت فائدہ ہو ا۔

2) رسول اللہﷺ حالات کے مطابق ہر ایک کواسکے مناسبِ حال جواب ارشاد فرماتے تھے۔

3) جس شخص کو جس چیز کی رغبت ہو تی ہے وہ اس میں دوسروں سے فائق ہو جاتا ہے۔
چناچہ حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ رسول ا للہ ﷺ کے رازدان اور آیندہ کے بہت سے امور سے آگاہ تھے۔

4) فتنے میں تحفظ کے لیئے تلوار کا استعمال اسی صورت میں ہوگا جب خلیفۃ المسلمین یا مومن مخلص قائد جہاد کرے گا۔
اس صورت میں اہلِ ایمان پر لازم ہو گا کہ اسکا ساتھ دیں۔

5) اگر زمین میں مسلمان خلیفہ نہ ہو تو اپنے دین اور ایمان کی حفاظت کے لیئے جنگل میں اکیلے پڑے رہنا اور فتنہ پردازوں سے الگ رہنا واجب ہو گا خواہ کسی قدر مشقت آئے۔

6) دجال کی ظاہری آسائشیں درحقیقت ہلاکت ہون گی اور ظاہری ہلاکت آفرینیاں اہلِ ایمان کے لیئے باعثِ نجات ہونگی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4244   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4785  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
جُثْمَانِ:
جثة،
بدن وجسم۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 4785   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.