الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
قربانی کے احکام و مسائل
The Book of Sacrifices
5. باب بَيَانِ مَا كَانَ مِنَ النَّهْيِ عَنْ أَكْلِ لُحُومِ الأَضَاحِيِّ بَعْدَ ثَلاَثٍ فِي أَوَّلِ الإِسْلاَمِ وَبَيَانِ نَسْخِهِ وَإِبَاحَتِهِ إِلَى مَتَى شَاءَ:
5. باب: تین دن کے بعد قربانی کا گوشت کھانے سے ممانعت اور اس کے منسوخ ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 5103
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا إسحاق بن إبراهيم الحنظلي ، اخبرنا روح ، حدثنا مالك ، عن عبد الله بن ابي بكر ، عن عبد الله بن واقد ، قال: " نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن اكل لحوم الضحايا بعد ثلاث، قال عبد الله بن ابي بكر : فذكرت ذلك لعمرة ، فقالت: صدق, سمعت عائشة ، تقول: دف اهل ابيات من اهل البادية حضرة الاضحى زمن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ادخروا ثلاثا ثم تصدقوا بما بقي "، فلما كان بعد ذلك، قالوا: يا رسول الله، إن الناس يتخذون الاسقية من ضحاياهم ويجملون منها الودك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " وما ذاك؟ "، قالوا: نهيت ان تؤكل لحوم الضحايا بعد ثلاث، فقال: " إنما نهيتكم من اجل الدافة التي دفت فكلوا وادخروا وتصدقوا ".حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْحَنْظَلِيُّ ، أَخْبَرَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ وَاقِدٍ ، قَالَ: " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَكْلِ لُحُومِ الضَّحَايَا بَعْدَ ثَلَاثٍ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ : فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِعَمْرَةَ ، فَقَالَتْ: صَدَقَ, سَمِعْتُ عَائِشَةَ ، تَقُولُ: دَفَّ أَهْلُ أَبْيَاتٍ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ حَضْرَةَ الْأَضْحَى زَمَنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ادَّخِرُوا ثَلَاثًا ثُمَّ تَصَدَّقُوا بِمَا بَقِيَ "، فَلَمَّا كَانَ بَعْدَ ذَلِكَ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ النَّاسَ يَتَّخِذُونَ الْأَسْقِيَةَ مِنْ ضَحَايَاهُمْ وَيَجْمُلُونَ مِنْهَا الْوَدَكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَمَا ذَاكَ؟ "، قَالُوا: نَهَيْتَ أَنْ تُؤْكَلَ لُحُومُ الضَّحَايَا بَعْدَ ثَلَاثٍ، فَقَالَ: " إِنَّمَا نَهَيْتُكُمْ مِنْ أَجْلِ الدَّافَّةِ الَّتِي دَفَّتْ فَكُلُوا وَادَّخِرُوا وَتَصَدَّقُوا ".
عبد اللہ بن ابی بکر نے حضرت عبد اللہ بن واقد رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین (دن رات) کے بعد قربانیوں کے گو شت کھا نے سے منع فرمایا۔عبد اللہ بن ابی بکر نے کہا: میں نے یہ بات عمرہ (بنت عبد الرحمان بن سعد انصار یہ) کو بتا ئی عمرہ نے کہا: انھوں نے سچ کہا: میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بادیہ کے کچھ گھرانے (بھوک اور کمزوری کے سبب) آہستہ آہستہ چلتے ہو ئے جہاں لو گ قربانیوں کے لیے مو جو د تھے (قربان گا ہ میں) آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " تین دن تک کے لیے گو شت رکھ لو۔ جو باقی بچے (سب کا سب) صدقہ کر دو۔"دوبارہ جب اس (قربانی) کا مو قع آیا تو لو گوں نے عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !لو گ تو اپنی قربانی (کی کھا لوں) سے مشکیں بنا تے ہی اور اس کی چربی پگھلا کر ان میں سنبھال رکھتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " کیا مطلب؟" انھوں نے کہا: یہ (صورتحال ہم اس لیے بتا رہے ہیں کہ) آپ نے منع فرما یا تھا کہ تین دن کے بعد قربانی کا گو شت (وغیرہ استعمال نہ کیا جا ئے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " میں نے تو تمھیں ان خانہ بدوشوں کی وجہ سے منع کیا تھا جو اس وقت بمشکل آپا ئے تھے۔اب (قربانی کا گو شت) کھا ؤ رکھو اور صدقہ کرو۔"
عبداللہ بن واقد نے بتایا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانیوں کا گوشت تین دن کے بعد کھانے سے منع فرمایا، (ابن واقد کے شاگرد) عبداللہ بن ابی بکر کہتے ہیں، میں نے اس حدیث کا تذکرہ حضرت عمرہ سے کیا، تو اس نے کہا، اس نے سچ کہا، میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ بیان کرتے سنا، عید الاضحیٰ کے دن، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں کچھ بادیہ نشین گھرانے آئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین دن کے لیے ذخیرہ کر لو اور باقی صدقہ کر دو جب اس کے بعد عید آئی، صحابہ کرام نے عرض کی، اے اللہ کے رسول! لوگ اپنی قربانیوں سے مشکیزے بناتے ہیں اور ان سے چربی پگھلاتے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر کیا ہوا؟ انہوں نے عرض کیا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے قربانیوں کا گوشت تین دن کے بعد کھانے سے منع کر دیا ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تو بس آنے والے جماعت کی آمد کی خاطر منع کیا تھا، کھاؤ، ذخیرہ کرو اور صدقہ بھی کرو۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1971

   صحيح البخاري5423عائشة بنت عبد اللهتؤكل لحوم الأضاحي فوق ثلاث ما شبع آل محمد من خبز بر مأدوم ثلاثة أيام حتى لحق بالله
   صحيح البخاري5570عائشة بنت عبد اللهلا تأكلوا إلا ثلاثة أيام
   صحيح مسلم5103عائشة بنت عبد اللهعن أكل لحوم الضحايا بعد ثلاث
   سنن أبي داود2812عائشة بنت عبد اللهنهيت عن إمساك لحوم الضحايا بعد ثلاث نهيتكم من أجل الدافة التي دفت عليكم كلوا وتصدقوا وادخروا
   سنن النسائى الصغرى4436عائشة بنت عبد اللهنهيت للدافة التي دفت كلوا وادخروا وتصدقوا
   سنن ابن ماجه3159عائشة بنت عبد اللهعن لحوم الأضاحي لجهد الناس ثم رخص فيها
   سنن ابن ماجه1570عائشة بنت عبد اللهرخص في زيارة القبور
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم349عائشة بنت عبد الله نهى رسول الله عن اكل لحوم الضحايا بعد ثلاث

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 349  
´قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ کھایا جا سکتا ہے`
«. . . 309- وعن عبد الله بن أبى بكر عن عبد الله بن واقد أنه قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن أكل لحوم الضحايا بعد ثلاث، فقال عبد الله بن أبى بكر: فذكرت ذلك لعمرة بنت عبد الرحمن فقالت: صدق، سمعت عائشة زوج النبى صلى الله عليه وسلم تقول: دف ناس من أهل البادية حضرة الأضحى فى زمان رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ادخروا الثلاث وتصدقوا بما بقي، قالت: فلما كان بعد ذلك، قيل لرسول الله صلى الله عليه وسلم: يا رسول الله، لقد كان الناس ينتفعون بضحاياهم ويجملون منها الودك ويتخذون منها الأسقية، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: وما ذاك؟، أو كما قال، قالوا: يا رسول الله، نهيت عن إمساك لحوم الضحايا بعد ثلاث، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إنما نهيتكم من أجل الدافة التى دفت عليكم، فكلوا وتصدقوا وادخروا. . . .»
. . . عبداللہ بن واقد سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کا گوشت تین دن سے زیادہ کھانے سے منع فرمایا، عبداللہ بن ابی بکر (راوی حدیث) فرماتے ہیں کہ پھر میں نے اس بات کا ذکر عمرہ بنت عبدالرحمٰن (رحمہا اللہ) سے کیا تو انہوں نے کہا: اُس (عبداللہ بن واقد) نے سچ کہا:، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو فرماتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قربانی کے وقت کچھ (خانہ بدوش) لوگ مدینہ آ گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین دن (گوشت کا) ذخیرہ کرو اور باقی صدقہ کر دو۔ پھر اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا: یا رسول اللہ! لوگ اپنی قربانیوں سے فائدہ اٹھاتے تھے، چربی پگھلاتے اور (کھالوں کی) مشکیں بناتے تھے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا بات ہے؟ لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ! آپ نے تین دنوں سے زیادہ قربانیوں کا گوشت روکے رکھنے سے منع فرمایا ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمہیں ان لوگوں کی وجہ سے منع کیا تھا جو تمہارے پاس (مدینہ میں) آئے تھے۔ پس (اب) کھاؤ، صدقہ کرو اور ذخیرہ کرو . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 349]

تخریج الحدیث: [وأخرجه مسلم 1971، من حديث مالك به ● وفي روايته يحيي بن يحيي: للثلاث]
۔ تفقه
➊ علماء کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ تین دنوں سے زیادہ، قربانی کا گوشت کھانے اور ذخیر کرنے سے ممانعت والا حکم منسوخ ہے دیکھئے [التمهيد 216/3] ۔
➋ حافظ ابن عبد البر نے فرمایا کہ جس طرح قرآن میں ناسخ و منسوخ ہے اسی طرح حدیث میں بھی ناسخ و منسوخ ہے اور یہ اوامر ونواہی (احکام) میں تخفیف و مصالح وغیرہما کے لئے ہوتا ہے۔ اخبار سابقہ میں قطعاً نسخ نہیں ہوتا۔ روافض اور خوارج نے اس کا انکار کرکے یہود کی موافقت کی ہے اور یاد رہے کہ یہ بدأ کہتے ہیں یہ عقیدہ صریحاً کفر ہے۔
➌ ممانعت کے بعد جو حکم ہوتا ہے وہ اباحت پر محمول ہوتا ہے۔ [التمهيد 217/3]
لہٰذا اب یہ جائز ہے کہ ساری قربانی کا گوشت خود کھایا جائے یا سارا صدقہ کر دیا جائے یا پھر ذخیرہ کرلیا جائے۔ بعض علماء اس گوشت کے تین حصے کرنا پسند کرتے تے: ایک تہائی خود کھایا جائے، ایک تہائی صدقہ کردیا جائے اور ایک تہائی ذخیرہ کرلیا جائے لیکن پہلی بات راجح ہے۔ نیز دیکھئے [سورة الحج: 28، 36]
➍ حج کے علاہ دوسرے مقامات مثلاً مدینہ اور ساری زمین پر قربانی کرنا مسنون و مشروع ہے لہٰذ بعض منکرین حدیث کا یہ دعویٰ کہ قربانی حج کے ساتھ مخصوص ہے، غلط ہے۔
➎ بات کی تصدیق یا تحقیق کے لئے کسی دوسرے کے سامنے بیان کرنا نہ صرف جائز بلکہ بہتر امر ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 309   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1570  
´قبروں کی زیارت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کی اجازت دی ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1570]
اردو حاشہ:
فائده:
اجازت کا لفظ اسی لئے فرمایا ہے۔
کیونکہ نبی کریم ﷺ نے پہلے قبروں کی زیارت سے منع فرمایا تھا بعد میں اجازت دے دی جیسے کہ اگلی حدیث میں آرہا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1570   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5103  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
الدافة:
شہر میں آنے والی بادیہ نشین جماعت۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے ممانعت کا حکم قانونی حکم نہیں تھا،
یہ تو محض ایک وقتی اور عارضی ضرورت کے تحت اس مصلحت کی خاطر تھا کہ باہر سے آنے والے ضرورتمندوں کی ضرورت کو پورا کیا جا سکے،
اس لیے آپ نے صحابہ کرام کے اس سوال پر کہ ہم قربانیوں سے مشکیں بناتے تھے اور چربی پگھلاتے تھے،
تعجب کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا،
ما ذاك اب اس میں کیا حرج ہے یا پھر کیا ہوا،
اس لیے یہاں نسخ کا سوال نہیں ہے،
کیونکہ یہ فقہی یا قانونی حکم نہیں تھا،
ایک وقتی مصلحت کا تقاضا تھا اور اب بھی یہ مصلحت ہو،
کسی علاقہ یا شہر اور بستی میں قربانیوں کی تعداد کم ہو اور محتاج و ضرورت مند زیادہ ہوں،
تو اب بھی لوگوں کا اخلاقی فرض یہی ہو گا کہ زیادہ سے زیادہ گوشت صدقہ کیا جائے،
جمہور کے نزدیک صدقہ کرنے کا حکم استحبابی ہے،
جیسا کہ کھانے کا حکم استحبابی ہے،
اگرچہ بعض ائمہ کے نزدیک قربانی کے گوشت کا کچھ حصہ صدقہ کرنا فرض ہے اور کھانا بھی فرض ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 5103   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.