الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
سلامتی اور صحت کا بیان
11. باب تَحْرِيمِ إِقَامَةِ الإِنْسَانِ مِنْ مَوْضِعِهِ الْمُبَاحِ الَّذِي سَبَقَ إِلَيْهِ:
11. باب: کسی آدمی کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خود اس کی جگہ بیٹھنے کی حرمت کے بیان میں۔
حدیث نمبر: 5683
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا ليث . ح وحدثني محمد بن رمح بن المهاجر ، اخبرنا الليث ، عن نافع ، عن ابن عمر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " لا يقيمن احدكم الرجل من مجلسه ثم يجلس فيه ".وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ . ح وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحِ بْنِ الْمُهَاجِرِ ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، عن النبي صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَا يُقِيمَنَّ أَحَدُكُمُ الرَّجُلَ مِنْ مَجْلِسِهِ ثُمَّ يَجْلِسُ فِيهِ ".
لیث نے نا فع سے انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص کسی دوسرے کو اس کی جگہ سے نہ اٹھا ئے کہ پھر وہاں (خود) بیٹھ جائے"
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی آدمی کسی دوسرے آدمی کو اس کی جگہ سے اٹھا کر، اس کی جگہ میں نہ بیٹھے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 2177

   صحيح البخاري6270عبد الله بن عمرنهى أن يقام الرجل من مجلسه ويجلس فيه آخر ولكن تفسحوا وتوسعوا
   صحيح البخاري911عبد الله بن عمريقيم الرجل أخاه من مقعده ويجلس فيه
   صحيح البخاري6269عبد الله بن عمرلا يقيم الرجل الرجل من مجلسه ثم يجلس فيه
   صحيح مسلم5686عبد الله بن عمرلا يقيمن أحدكم أخاه ثم يجلس في مجلسه
   صحيح مسلم5683عبد الله بن عمرلا يقيمن أحدكم الرجل من مجلسه ثم يجلس فيه
   صحيح مسلم5684عبد الله بن عمرلا يقيم الرجل الرجل من مقعده ثم يجلس فيه ولكن تفسحوا وتوسعوا
   جامع الترمذي2749عبد الله بن عمرلا يقم أحدكم أخاه من مجلسه ثم يجلس فيه
   جامع الترمذي2750عبد الله بن عمرلا يقم أحدكم أخاه من مجلسه ثم يجلس فيه
   سنن أبي داود4828عبد الله بن عمرجاء رجل إلى رسول الله فقام له رجل من مجلسه فذهب ليجلس فيه فنهاه النبي
   بلوغ المرام1240عبد الله بن عمرلا يقيم الرجل الرجل من مجلسه ثم يجلس فيه ولكن تفسحوا وتوسعوا
   مسندالحميدي659عبد الله بن عمرلا يتناجى اثنان دون الثالث
   مسندالحميدي660عبد الله بن عمرلا يتناجى اثنان دون الثالث
   مسندالحميدي661عبد الله بن عمرلا يتناجى اثنان دون الثالث
   مسندالحميدي679عبد الله بن عمرلا يقيمن أحدكم الرجل من مجلسه ثم يجلس فيه، ولكن تفسحوا وتوسعوا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1240  
´کسی کو اٹھا کر اس کی جگہ پر مت بیٹھیں`
«وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏لا يقيم الرجل الرجل من مجلسه ثم يجلس فيه ولكن تفسحوا وتوسعوا . متفق عليه»
اور ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی آدمی دوسرے آدمی کو اس کی بیٹھنے کی جگہ سے نہ اٹھائے کہ پھر خود اس میں بیٹھ جائے لیکن کھل جاؤ اور کشادگی کر لو۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع/باب الأدب: 1240]
تخریج:
[بخاري: 6270]،
[مسلم، السلام 5684]،
[بلوغ المرام: 1239]
[تحفة الاشراف 220/6]

مفردات:
«تفسحوا» آپس میں کھل جاؤ تاکہ آنے والا بیٹھ جائے۔
«توسعوا» ایک دوسرے کے ساتھ مل جاؤ تا کہ آنے والے کے لئے جگہ نکل آئے قالہ ابن ابی جمرہ [فتح]
«لا يقيم» نفی کا صیغہ ہے مگر اس سے مراد نہی ہے خصوصاً اس لئے کہ صحیح مسلم میں «لا يقيمن» کے الفاظ ہیں یعنی ہرگز نہ اٹھائے۔

فوائد:
اس سے مراد یہ نہیں کہ کسی کی مخصوص جگہ میں یا اس کی ملکیت میں کوئی دوسرا آ کر بیٹھ جائے تو اسے اٹھانا جائز نہیں کیونکہ وہاں بلا اجازت بیٹھنا تو اس کے لئے جائز ہی نہیں۔ اس سے مراد وہ جگہیں ہیں جہاں بیٹھنا ہر مسلمان کے لئے جائز ہے، مثلاً مسجد، حکام کی مجالس، اہل علم کے حلقہ ہائے درس، بازار میں تجارت کے لئے کوئی جگہ، دستکاری کے لئے کوئی جگہ، تفریحی مقامات، منیٰ، مزدلفہ، عرفات وغیرہ میں جو شخص پہلے آ کر بیٹھ جائے کسی کے لئے جائز نہیں کہ اسے اٹھا کر خود بیٹھ جائے۔
➋ جو شخص کسی دوسرے کو اٹھا کر خود بیٹھتا ہے یا تو اس لئے یہ کام کرتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو اس پر ترجیح دے رہا ہے اور یہ بات مسلمان کے لائق نہیں ہے۔
«وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ» وہ اپنے آپ پر (دوسروں کو) ترجیح دیتے ہیں چاہے ان کو سخت حاجت ہو۔ [59-الحشر:9]
یا پھر تکبر کی وجہ سے ایسا کرتا ہے تو یہ اس سے بھی بدتر ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں تواضع کا حکم دیا ہے۔
➌ کسی شخص کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خود بیٹھنے کے نتیجے میں دلوں کے اندر دوری اور بغض پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔ جب کہ مومنوں کو باہمی محبت و اخوت کی تاکید کی گئی ہے۔
«لا يقيم» نہ اٹھائے کے لفظ سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص خود بخود اٹھ کر بیٹھنے کی پیشکش کرے تو وہاں بیٹھنا جائز ہے۔ البتہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس سے بھی اجتناب کرتے تھے اگر کوئی شخص ان کی خاطر اپنی جگہ سے اٹھتا تو وہ وہاں نہیں بیٹھتے تھے۔ [بخاري: 7470] مگر اہل علم نے ان کے اس عمل کو مزید احتیاط پر محمول کیا ہے کہ ممکن ہے وہ شخص خوش دلی سے نہ اٹھا ہو صرف شرم کی وجہ سے اٹھ کھڑا ہوا ہو۔
➎ اس حدیث میں سے پاگل اور بےوقوف مستثنیٰ ہیں اگر وہ مجلس علم کو خراب کر رہے ہوں یا مسجد کے ادب میں خلل انداز ہوں تو انہیں نکالنا درست ہے۔
«وَلا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ»
اور بیوقوفوں کو اپنا مال نہ دو۔
مجلس علم کا مقام مال سے بہت زیادہ ہے۔ جب بےوقوفوں کو اس بات سے روکا جا سکتا ہے کہ وہ مال کو خراب کریں تو انہیں علم کی دولت خراب کرنے سے کیوں نہیں روکا جائے گا۔
➏ جو شخص بدبودار چیز کھا کر مسجد میں آئے۔ یا کسی کو تکلیف دے اسے مسجد سے نکالنا جائز ہے۔ جائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے یہ سبزیاں تھوم، پیاز یا گندنا کھائی ہوں وہ ہماری مسجد کے قریب نہ آئے کیونکہ فرشتوں کو اس چیز سے تکلیف ہوتی ہے جس سے بنی آدم کو تکلیف ہوتی ہے۔ [مسلم عن جابر: مساجد 4]
عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک جمعہ کے خطبہ کے آخر میں فرمایا: لوگو تم یہ دو پودے کھاتے ہو جنہیں میں تو خبیث (برا) ہی سمجھتا ہوں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ مسجد میں کسی آدمی سے ان کی بو محسوس کرتے تو اس کے متعلق حکم دیتے تو اسے بقیع کی طرف نکال دیا جاتا۔ [مسلم: مساجد: 78]
حقے اور سگریٹ کی بدبو تو پیاز اور لہسن سے کئی گنا تکلیف دہ ہوتی ہے۔
   شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث\صفحہ نمبر: 36   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1240  
´ادب کا بیان`
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی آدمی کسی کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خود اس کی جگہ نہ بیٹھے۔ (اگر جگہ کی کمی ہو تو) کھل جاؤ اور کشادہ ہو جاؤ۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1240»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأستئذان، باب لا يقيم الرجل الرجل من مجلسه، حديث:6269، ومسلم، السلام، باب تحريم إقامة الإنسان من موضعه المباح الذي سبق إليه، حديث:2177.»
تشریح:
1. اس حدیث میں مجلسی آداب کی تعلیم دی گئی ہے کہ اگر مجلس میں جگہ کی کمی واقع ہو رہی ہے اور لوگوں کی آمد بدستور جاری ہے تو پہلے نشستوں پر بیٹھے ہوئے لوگ ذرا سکڑ جائیں‘ ایک دوسرے کے قریب ہو جائیں یا مجلس کے دائرے کو ذرا اور وسیع کر لیا جائے تاکہ آنے والے حضرات بھی بیٹھ سکیں‘ البتہ یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ایک آدمی کسی ضرورت کے پیش نظر اپنی نشست چھوڑ کر ذرا دیر کے لیے باہر جائے تو دوسرا اس کی جگہ پر قبضہ جما لے۔
2. یہ حکم ہر جگہ کے لیے یکساں ہے‘ خواہ مسجد میں ہو یا مجلس احباب میں یا کہیں دوسرے مقام پر۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 1240   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4828  
´ایک شخص دوسرے کے لیے اپنی جگہ سے اٹھے تو یہ کیسا ہے؟`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، تو ایک شخص اس کے لیے اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا تو وہ وہاں بیٹھنے چلا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے روک دیا۔ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4828]
فوائد ومسائل:
1) یہ ممانعت بھی احتیاط کے طور پر ہے تاکہ لوگ ایک دوسرے کی جگہ پر نہ بیٹھیں۔
ورنہ اگر کو ئی شخص احتراماَ کسی دوسرے کو اپنی جگہ بیٹھنے کی پیشکش کرتا ہے تو دیگر دلائل کی رُو سے اسکا جواز ہے۔

2) یہ رویت ہمارے فاضل محقق کے نزدیک ضعیف ہے، تاہم معنوی طور پر صحیح ہے جیسا کہ خود اُنھوں نے اپنی تحقیق میں بخاری و مسلم کی روایات کا حوالہ درج کرنے کے بعد یغني عنه یعنی بخاری اور مسلم کی روایات کفایت کرتی ہیں کہا ہے۔
علاوہ ازیں شیخ البانی ؒ نے بھی اسے حسن کہا ہے، تفصیل کے لیئے دیکھئے:(الصحٰحة، حديث: ٢٢٨)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 4828   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5683  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر انسان سب کی مشترکہ جگہ میں آ کر پہلے بیٹھ جاتا ہے تو اس کو وہاں سے اٹھانا اس کے جذبات و احساسات کو ٹھیس پہنچانا ہے،
اس لیے یہ جائز نہیں ہے،
لیکن اگر مفاد عامہ کی کوئی جگہ ایسی ہے جس کے بارے میں معلوم ہے کہ فلاں آدمی اس جگہ عام طور پر بیٹھتا ہے،
مثلا مسجد میں ایک جگہ بیٹھ کر کوئی عالم درس و تدریس کرتا ہے یا وعظ کرتا ہے یا فتویٰ دیتا ہے،
یا ایک جگہ کوئی اپنی ریڑھی لگاتا ہے تو پھر کسی دوسرے کو اس جگہ نہیں بیٹھنا چاہیے،
اگر کوئی ایسا کرے گا تو اس کو وہاں سے اٹھایا جا سکے گا،
صحیح موقف یہی ہے،
اگرچہ احناف کے نزدیک چونکہ یہ جگہ کسی کی ملکیت میں نہیں ہو سکتی،
اس لیے جو بھی پہلے آئے گا،
وہی اس جگہ بیٹھے گا،
عام طور پر پہلے آ کر بیٹھنے والا اگر کسی دن پہلے نہ آئے تو وہ پہلے آنے والے کو اٹھا نہیں سکے گا۔
ظاہر ہے یہ اخلاق اور مروت کے منافی ہے،
اگرچہ قانونی اور اصولی رو سے اس کی گنجائش ہے،
لیکن یہ عرف اور رواج کے منافی ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 5683   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.