الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
حیض کے احکام و مسائل
27. باب طَهَارَةِ جُلُودِ الْمَيْتَةِ بِالدِّبَاغِ:
27. باب: مردار کی کھال رنگنے سے پاک ہو جانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 815
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني إسحاق بن منصور ، وابو بكر بن إسحاق ، عن عمرو بن الربيع ، اخبرنا يحيى بن ايوب ، عن جعفر بن ربيعة ، عن ابي الخير حدثه، قال: حدثني ابن وعلة السبئي ، قال: " سالت عبد الله بن عباس، قلت: إنا نكون بالمغرب، فياتينا المجوس بالاسقية، فيها الماء والودك، فقال: اشرب، فقلت: اراي تراه، فقال ابن عباس : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " دباغه طهوره ".وحَدَّثَنِي إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ إِسْحَاق ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الرَّبِيعِ ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِيعَةَ ، عَنْ أَبِي الْخَيْرِ حَدَّثَهُ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ وَعْلَةَ السَّبَئيِّ ، قَالَ: " سَأَلْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ، قُلْتُ: إِنَّا نَكُونُ بِالْمَغْرِبِ، فَيَأْتِينَا الْمَجُوسُ بِالأَسْقِيَةِ، فِيهَا الْمَاءُ وَالْوَدَكُ، فَقَالَ: اشْرَبْ، فَقُلْتُ: أَرَأْيٌ تَرَاهُ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " دِبَاغُهُ طَهُورُهُ ".
۔ جعفر بن ربیعہ نے ابو خیر سے روایت کی، کہا: مجھ سے ابن وعلہ سبائی نے بیان کیا کہ میں نے عبد اللہ بن عباسؓ سے پوچھا: ہم مغرب میں ہوتے ہیں تو مجوسی ہمارے پاس پانی اور چربی کے مشکیزے لاتے ہیں۔ انہوں نے کہا: پی لیا کرو۔ میں نے پوچھا: کیا آپ اپنی رائےبتا رہے ہیں؟ ابن عباسؓ نے جواب دیا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سناے: اس کو رنگنا اس کو پاک کر دیتا ہے۔
ابن وعلہ سبائی سے روایت ہے کہ میں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے پوچھا، ہم مغرب میں رہتے ہیں، تو ہمارے پاس مجوسی پانی اور چربی کے مشکیزے لاتے ہیں تو انہوں نے کہا، پی لیا کرو، میں نے پوچھا، کیا آپ اپنی رائے سے بتا رہے ہیں؟ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے جواب دیا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اس کو رنگنا اس کو پاک کر دیتا ہے۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 366

   صحيح البخاري5532عبد الله بن عباسما على أهلها لو انتفعوا بإهابها
   صحيح البخاري5531عبد الله بن عباسهلا استمتعتم بإهابها قالوا إنها ميتة قال إنما حرم أكلها
   صحيح البخاري2221عبد الله بن عباسهلا استمتعتم بإهابها قالوا إنها ميتة قال إنما حرم أكلها
   صحيح البخاري1492عبد الله بن عباسهلا انتفعتم بجلدها قالوا إنها ميتة قال إنما حرم أكلها
   صحيح مسلم814عبد الله بن عباسدباغه طهوره
   صحيح مسلم812عبد الله بن عباسإذا دبغ الإهاب فقد طهر
   صحيح مسلم815عبد الله بن عباسدباغه طهوره
   صحيح مسلم806عبد الله بن عباسهلا أخذتم إهابها فدبغتموه فانتفعتم به فقالوا إنها ميتة فقال إنما حرم أكلها
   صحيح مسلم811عبد الله بن عباسألا انتفعتم بإهابها
   صحيح مسلم807عبد الله بن عباسهلا انتفعتم بجلدها قالوا إنها ميتة فقال إنما حرم أكلها
   صحيح مسلم809عبد الله بن عباسألا أخذوا إهابها فدبغوه فانتفعوا به
   صحيح مسلم810عبد الله بن عباسأخذتم إهابها فاستمتعتم به
   جامع الترمذي1728عبد الله بن عباسأيما إهاب دبغ فقد طهر
   جامع الترمذي1727عبد الله بن عباسألا نزعتم جلدها ثم دبغتموه فاستمتعتم به
   سنن أبي داود4120عبد الله بن عباسألا دبغتم إهابها واستنفعتم به
   سنن أبي داود4123عبد الله بن عباسإذا دبغ الإهاب فقد طهر
   سنن النسائى الصغرى4246عبد الله بن عباسأيما إهاب دبغ فقد طهر
   سنن النسائى الصغرى4247عبد الله بن عباسالدباغ طهور
   سنن النسائى الصغرى4244عبد الله بن عباسألا انتفعتم بإهابها
   سنن النسائى الصغرى4243عبد الله بن عباسألا أخذتم إهابها فدبغتم فانتفعتم
   سنن النسائى الصغرى4242عبد الله بن عباسألا دفعتم إهابها فاستمتعتم به
   سنن النسائى الصغرى4266عبد الله بن عباسلو انتفعوا بإهابها
   سنن النسائى الصغرى4241عبد الله بن عباسلو نزعوا جلدها فانتفعوا به قالوا إنها ميتة قال
   سنن النسائى الصغرى4240عبد الله بن عباسهلا انتفعتم بجلدها قالوا يا رسول الله إنها ميتة فقال رسول الله إنما حرم أكلها
   سنن النسائى الصغرى4239عبد الله بن عباسلو انتفعت بإهابها قالوا إنها ميتة فقال إنما حرم الله أكلها
   سنن ابن ماجه3610عبد الله بن عباسهلا أخذوا إهابها فدبغوه فانتفعوا به فقالوا يا رسول الله إنها ميتة قال إنما حرم أكلها
   سنن ابن ماجه3609عبد الله بن عباسأيما إهاب دبغ فقد طهر
   بلوغ المرام16عبد الله بن عباس‏‏‏‏إذا دبغ الإهاب فقد طهر
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم33عبد الله بن عباسإذا دبغ الإهاب فقد طهر
   المعجم الصغير للطبراني125عبد الله بن عباس أيما إهاب دبغ ، فقد طهر
   مسندالحميدي317عبد الله بن عباسما على أهل هذه لو أخذوا إهابها فدبغوه، فانتفعوا به
   مسندالحميدي492عبد الله بن عباسأيما إهاب دبغ فقد طهر
   مسندالحميدي498عبد الله بن عباسما على أهل هذه لو أخذوا إهابها فدبغوه وانتفعوا به

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 16  
´دباغت (رنگائی) کے بعد ہر قسم کا چمڑا پاک ہو جاتا ہے`
«. . . قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏إذا دبغ الإهاب فقد طهر . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جب کچے چمڑے کو (مسالہ لگا کر) رنگ دیا جائے تو وہ پاک ہو جاتا ہے . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 16]

لغوی تشریح:
«دُبِغَ» «دِبَاغ» سے ماخوذ ہے۔ «دُبِغَ» صیغۂ مجہول ہے۔ اس کا مطلب ہے: چمڑے کی رطوبت اور دیگر فضلات (گندگیوں) کو خشک کرنا اور جو چیز اس کی بدبو اور خرابی کی موجب ہو اسے زائل کرنا۔
«اَلْإِهَابُ» بروزن «اَلْكِتَابُ» ۔ مطلق چمڑے کے لیے استعمال ہوتا ہے یا پھر اس چمڑے کو بھی کہتے ہیں جسے ابھی تک رنگا نہ گیا ہو۔
«أَيُّمَا إِهَابٍ دُبِغَ» باقی ماندہ الفاظ حدیث یہ ہیں: «فَقَدْ طَهُرَ» اور «أَيُّمَا» عمومیت کا مفہوم ادا کرتا ہے، اس لیے اس میں تمام چمڑے شامل ہیں۔

فوائد و مسائل:
➊ یہ حدیث ہر قسم اور ہر نوع کے حیوانات کے چمڑوں کو شامل ہے، البتہ خنزیر، یعنی سور کا چمڑا بالاتفاق اس سے مستثنیٰ ہے اور اکثریت کے نزدیک کتے کا چمڑا بھی مستثنیٰ ہے اور محققین علماء کے نزدیک ان تمام جانوروں کا چمڑا بھی مستثنیٰ ہے جو غیر مأکول اللحم ہیں، یعنی جن کا گوشت کھایا نہیں جاتا۔
➋ حدیث مذکور سے معلوم ہوتا ہے کہ دباغت (رنگائی) کے بعد ہر قسم کا چمڑا پاک ہو جاتا ہے، وہ چمڑا خواہ حلال جانور کا ہو یا حرام کا، جانور خواہ شرعی طریقے سے ذبح کیا گیا ہو یا خود اپنی طبعی موت مرا ہو۔ اس اصول عمومی کے باوجود بعض جانور ایسے ہیں جن کے چمڑے کو دباغت کے باوجود پاک قرار نہیں دیا گیا، مثلاً: خنزیر کا چمڑا، اسے نجس عین ہونے کی بنا پر پاک قرار نہیں دیا گیا اور انسان کا چمڑا، اسے بھی بوجہ اس کی کرامت و بزرگی اور شرف کے حرام ٹھہرایا گیا ہے تاکہ بےقدری سے اسے محفوظ رکھا جائے۔
➌ بعض لوگوں کی رائے ہے کہ خنزیر اور کتے پر اگر تکبیر پڑھ کر انہیں ذبح کیا جائے تو اس صورت میں وہ بھی پاک ہو جاتا ہے جبکہ یہ رائے صحیح نہیں ہے۔ اسی طرح احناف کا کتے کے چمڑے کو دباغت کے بعد پاک قرار دینا بھی صائب و صحیح رائے پر مبنی نہیں ہے۔
➍ یہ ذہن نشین رہے کہ جن جانوروں کے چمڑے دباغت کے بعد پاک ہو جاتے ہیں ان کے سینگ، بال، دانت اور ہڈیاں وغیرہ کام میں لائی جا سکتی ہیں، نیز ان کی تجارت بھی کی جا سکتی ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 16   
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 33  
´مردار کی کھال سے دباغت کے بعد فائدہ اٹھانا`
«. . . عن عبد الله بن عباس ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: إذا دبغ الإهاب فقد طهر . . .»
. . . سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب چمڑے کو دباغت دی جائے تو وہ پاک ہو جاتا ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 33]

تخریج الحدیث: [وأخرجه مسلم 366/105، من حديث ما لك به .]
تفقه:
➊ حلال جانوروں کی جلد کو اہاب کہتے ہیں۔ مشہور نحوی امام ابوالحسن النضر بن شمیل المازنی البصری رحمہ اللہ (متوفی 203ھ) نے فرمایا: اونٹ، گائے اور بکریوں کی کھال کو اہاب اور درندوں کی کھال کوجلد کہاجاتا ہے۔ مسائل الامام احمد اسحاق بن راہوی اولیه اسحاق بن منصور الکوسج 215/1 فقرہ: 477 وسندہ صحیح)
● تقریباً یہی بات اختصار کے ساتھ امام اسحاق بن راہویہ نے کہی ہے۔ (ایضاً: 477) نیز ملاحظ فرمائیں لسان العرب (مادة: أهب)
◄ معلوم ہوا کہ حلال جانوروں کی کھالیں دباغت سے پاک ہو جاتی ہیں۔ واضح رہے کہ اس سے درندے مثلاً کتے وغیرہ مراد نہیں ہیں۔ درندوں کی کھالوں کی ممانعت کے لئے دیکھئے الموطأ ح:52
➋ مزيد فقہی فوائد کے لئے دیکھئے الموطأ حدیث:52
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 182   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1727  
´دباغت کے بعد مردار جانوروں کی کھال کے استعمال کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک بکری مر گئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکری والے سے کہا: تم نے اس کی کھال کیوں نہ اتار لی؟ پھر تم دباغت دے کر اس سے فائدہ حاصل کرتے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب اللباس/حدیث: 1727]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
معلوم ہواکہ مردہ جانور کی کھال سے فائدہ دباغت (پکانے) کے بعد ہی اٹھایا جاسکتا ہے،
اور ان روایتوں کوجن میں دباغت (پکانے) کی قید نہیں ہے،
اسی دباغت والی روایت پر محمول کیاجائے گا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1727   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 815  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
أَسْقِيَة:
سقاء،
کی جمع ہے۔
چمڑے کے مشکیزہ کو کہتے ہیں۔
(2)
دَبَاغَت:
ہر اس چیز سے جائز ہے جو کھال کی رطوبت کو خشک کرکے،
اس کی بدبو کو زائل کردے،
اور کھال سڑنے گلنے سے محفوظ ہوجائے۔
فوائد ومسائل:
احادیث مذکورہ بالا میں صرف جائز حیوانات کا یا مجوسیو،
کے مشکیزوں کا تذکرہ ہے حلال جانور کی کھال کے دباغت سے پاک ہونے میں کوئی اختلاف نہیں حلت و حرمت سے قطع نظر عمومی طور پر آئمہ کے مختلف نظریات ہیں (1)
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک سور اور کتے کے سواہر ایک مردہ جانور کی کھال اندر اور باہر سے پاک ہو جاتی ہے اس لیے اس میں خشک اور تر ہر قسم کی چیز رکھی جا سکتی ہے۔
(2)
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا مشہور قول یہ ہے دباغت سے کسی مردہ جانور کی کھال پاک نہیں ہوتی۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی طرف یہی قول منسوب ہے۔
(3)
امام اوزاعی رحمۃ اللہ علیہ،
ابن المبارک رحمۃ اللہ علیہ اور اسحٰق بن راہویہ رحمۃ اللہ علیہ کا نظریہ یہ ہے کہ صرف حلال جانور کی کھال رنگنے سے پاک ہوتی ہے حرام جانور کی کھال پاک نہیں ہوتی۔
(4)
امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک خنزیر کے سوا ہر مردار جانور کی کھال رنگنے سے پاک ہو جاتی ہے۔
(5)
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا دوسرا قول یہ ہے رنگنے سے سب کھالیں پاک ہو جاتی ہیں،
مگر صرف باہر سے،
اندر سے نہیں اس لیے ان میں کوئی تر چیز نہیں ڈالی جا سکتی۔
(6)
ہر جانور کی کھال اندر اور باہر سے رنگنے سے پاک ہو جاتی ہے امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ اور داؤد ظاہری کا یہی موقف ہے۔
(7)
بلا رنگے ہوئے ہی مرد ہ جانور کی کھال سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے امام زہری رحمۃ اللہ علیہ اور بعض شافعیوں کا یہی نظریہ ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث\صفحہ نمبر: 815   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.