الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
Marriage (Kitab Al-Nikah)
49. باب مَا جَاءَ فِي الْعَزْلِ
49. باب: عزل کا بیان۔
Chapter: Regarding ’Azl (Withdrawing Before Ejaculation).
حدیث نمبر: 2172
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا القعنبي، عن مالك، عن ربيعة بن ابي عبد الرحمن، عن محمد بن يحيى بن حبان، عن ابن محيريز، قال: دخلت المسجد فرايت ابا سعيد الخدري، فجلست إليه فسالته عن العزل، فقال ابو سعيد: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة بني المصطلق، فاصبنا سبيا من سبي العرب فاشتهينا النساء واشتدت علينا العزبة واحببنا الفداء فاردنا ان نعزل، ثم قلنا: نعزل ورسول الله صلى الله عليه وسلم بين اظهرنا قبل ان نساله عن ذلك، فسالناه عن ذلك، فقال:" ما عليكم ان لا تفعلوا، ما من نسمة كائنة إلى يوم القيامة إلا وهي كائنة".
(مرفوع) حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنْ ابْنِ مُحَيْرِيزٍ، قَالَ: دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ فَرَأَيْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ، فَجَلَسْتُ إِلَيْهِ فَسَأَلْتُهُ عَنِ الْعَزْلِ، فَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ بَنِي الْمُصْطَلِقِ، فَأَصَبْنَا سَبْيًا مِنْ سَبْيِ الْعَرَبِ فَاشْتَهَيْنَا النِّسَاءَ وَاشْتَدَّتْ عَلَيْنَا الْعُزْبَةُ وَأَحْبَبْنَا الْفِدَاءَ فَأَرَدْنَا أَنْ نَعْزِلَ، ثُمَّ قُلْنَا: نَعْزِلُ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَظْهُرِنَا قَبْلَ أَنْ نَسْأَلَهُ عَنْ ذَلِكَ، فَسَأَلْنَاهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ:" مَا عَلَيْكُمْ أَنْ لَا تَفْعَلُوا، مَا مِنْ نَسَمَةٍ كَائِنَةٍ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ إِلَّا وَهِيَ كَائِنَةٌ".
عبداللہ بن محیریز کہتے ہیں کہ مسجد میں داخل ہوا تو میں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کو دیکھا اور ان کے پاس بیٹھ گیا، ان سے عزل کے متعلق سوال کیا، تو آپ نے جواب دیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم راہ غزوہ بنی مصطلق میں نکلے تو ہمیں کچھ عربی لونڈیاں ہاتھ لگیں، ہمیں عورتوں کی خواہش ہوئی اور عورتوں سے الگ رہنا ہم پر گراں گزرنے لگا ہم ان لونڈیوں کو فدیہ میں لینا چاہ رہے تھے اس لیے حمل کے ڈر سے ہم ان سے عزل کرنا چاہ رہے تھے، پھر ہم نے اپنے (جی میں) کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان موجود ہیں تو آپ سے اس بارے میں پوچھنے سے پہلے ہم عزل کریں (تو یہ کیونکر درست ہو گا) چنانچہ ہم نے آپ سے اس بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ نہ کرو تو تمہارا کیا نقصان ہے؟ قیامت تک جو جانیں پیدا ہونے والی ہیں وہ تو ہو کر رہیں گی۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/البیوع 109 (2229)، العتق 13 (2542)، المغازی 32 (4138)، النکاح 96 (5210)، القدیر 6 (6603)، التوحید 18 (7409)، صحیح مسلم/النکاح 22 (1438)، (تحفة الأشراف: 4111)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الکبری/العتق (5044)، مسند احمد (3/63، 68، 72، 88) (صحیح)» ‏‏‏‏

Muhairiz said “I entered the mosque and saw Abu Saeed Al Khudri. I sat with him and asked about withdrawing the penis (while having intercourse). Abu Saeed said We went out with the Messenger of Allah ﷺ on the expedition to Banu Al Mustaliq and took some Arab women captive and we desired the women for we were suffering from the absence of our wives and we wanted ransom, so we intended to withdraw the penis (while having intercourse with the slave women). But we asked ourselves “can we draw the penis when the Messenger of Allah ﷺ is among us before asking him about it? So we asked him about it. He said “it does not matter if you do not do it, for very soul that is to be born up to the Day of Resurrection will be born. ”
USC-MSA web (English) Reference: Book 11 , Number 2167


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2542) صحيح مسلم (1438)

   صحيح البخاري6603سعد بن مالكأوإنكم لتفعلون ذلك لا عليكم أن لا تفعلوا فإنه ليست نسمة كتب الله أن تخرج إلا هي كائنة
   صحيح البخاري2229سعد بن مالكلا عليكم أن لا تفعلوا ذلكم فإنها ليست نسمة كتب الله أن تخرج إلا هي خارجة
   صحيح البخاري5210سعد بن مالكما من نسمة كائنة إلى يوم القيامة إلا هي كائنة
   صحيح البخاري2542سعد بن مالكما عليكم أن لا تفعلوا ما من نسمة كائنة إلى يوم القيامة إلا وهي كائنة
   صحيح البخاري7409سعد بن مالكما عليكم أن لا تفعلوا فإن الله قد كتب من هو خالق إلى يوم القيامة
   صحيح البخاري4138سعد بن مالكعن العزل خرجنا مع رسول الله في غزوة بني المصطلق فأصبنا سبيا من سبي العرب فاشتهينا النساء واشتدت علينا العزبة وأحببنا العزل فأردنا أن نعزل وقلنا نعزل ورسول الله بين أظهرنا قبل أن نسأله فسألناه عن ذلك فقال
   صحيح مسلم3546سعد بن مالكما من نسمة كائنة إلى يوم القيامة إلا هي كائنة
   صحيح مسلم3547سعد بن مالكلا عليكم أن لا تفعلوا فإنما هو القدر
   صحيح مسلم3554سعد بن مالكما من كل الماء يكون الولد وإذا أراد الله خلق شيء لم يمنعه شيء
   صحيح مسلم3549سعد بن مالكلا عليكم أن لا تفعلوا ذاكم فإنما هو القدر
   صحيح مسلم3544سعد بن مالكلا عليكم أن لا تفعلوا ما كتب الله خلق نسمة هي كائنة إلى يوم القيامة إلا ستكون
   صحيح مسلم3550سعد بن مالكلا عليكم أن لا تفعلوا ذاكم فإنما هو القدر
   صحيح مسلم3553سعد بن مالكليست نفس مخلوقة إلا الله خالقها
   جامع الترمذي1138سعد بن مالكلم يفعل ذلك أحدكم
   سنن أبي داود2170سعد بن مالكلم يفعل أحدكم ولم يقل فلا يفعل أحدكم فإنه ليست من نفس مخلوقة إلا الله خالقها
   سنن أبي داود2172سعد بن مالكما عليكم أن لا تفعلوا ما من نسمة كائنة إلى يوم القيامة إلا وهي كائنة
   سنن أبي داود2171سعد بن مالككذبت يهود لو أراد الله أن يخلقه ما استطعت أن تصرفه
   سنن النسائى الصغرى3329سعد بن مالكلا عليكم أن لا تفعلوا فإنما هو القدر
   سنن ابن ماجه1926سعد بن مالكأو تفعلون لا عليكم أن لا تفعلوا فإنه ليس من نسمة قضى الله لها أن تكون إلا هي كائنة
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم359سعد بن مالكما عليكم ان لا تفعلوا، ما من نسمة كائنة إلى يوم القيامة إلا وهى كائنة
   بلوغ المرام878سعد بن مالك كذبت اليهود ،‏‏‏‏ لو أراد الله أن يخلقه ما استطعت أن تصرفه
   المعجم الصغير للطبراني492سعد بن مالك العزل ، فقال : لا عليكم أن لا تفعلوا ، فإنما هو القدر
   مسندالحميدي764سعد بن مالكفلم يفعل ذلك أحدكم
   مسندالحميدي765سعد بن مالك

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 359  
´عزل مع الکراہت جائز ہے`
«. . . عن ابن محيريز انه قال: دخلت المسجد فرايت ابا سعيد الخدري فجلست إليه فسالته عن العزل، فقال ابو سعيد الخدري . . .»
. . . ابن محیریز (تابعی) سے روایت ہے کہ میں مسجد میں داخل ہوا تو سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کو دیکھا پھر میں ان پاس بیٹھ گیا اور عزل کے بارے میں پوچھا . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 359]

تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 2542، من حديث مالك، ومسلم 125/1438، من حديث ربيعه بن أبى عبدالرحمٰن به]
تفقه:
➊ عزل سے مراد یہ ہے کہ شرمگاہ میں دخول کے بعد انزال اندر نہ کیا جائے بلکہ شرمگاہ سے باہر انزال کیا جائے۔ یہ عزل مع الکراہت جائز ہے۔ کراہت کی دلیل وہ احادیث ہیں جن میں عزل کی ممانعت ہے۔
➋ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ عزل نہیں کرتے تھے اور عزل کو ناپسند کرتے تھے۔ [موطأ امام مالك 2/595 ح1303، وسنده صحيح] جبکہ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ عزل کرتے تھے۔ [ايضاً ح1301، وهو حديث صحيح]
➌ اگر کسی شخص کی لونڈی اس سے حالتِ حمل میں ہے تو مسلمانوں کا اجماع ہے کہ اسے بیچنا جائز نہیں ہے۔ [التمهيد 3/136]
➍ تقدیر برحق ہے اور ہر چیز اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے۔
➎ تمام معاملات میں قرآن وحدیث کی طرف رجوع کرنے میں ہی نجات اور کامیابی ہے۔
➏ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں یا حدیثِ رسول کے مقابلے میں اجتہاد وقیاس کی قطعاً گنجائش نہیں ہے۔
➐ ان احادیث میں ضبطِ ولادت کی دلیل نہیں ہے، اس لئے کہ عزل لونڈیوں سے کیا جاتا تھا جن سے اولاد مطلوب نہیں ہوتی بخلاف آزاد عورتوں کے کہ ان سے اولاد مطلوب ہے۔
➑ بغیر شرعی عذر کے شادی سے انکار کرنا فطرت سے جنگ ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 161   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2172  
´عزل کا بیان۔`
عبداللہ بن محیریز کہتے ہیں کہ مسجد میں داخل ہوا تو میں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کو دیکھا اور ان کے پاس بیٹھ گیا، ان سے عزل کے متعلق سوال کیا، تو آپ نے جواب دیا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم راہ غزوہ بنی مصطلق میں نکلے تو ہمیں کچھ عربی لونڈیاں ہاتھ لگیں، ہمیں عورتوں کی خواہش ہوئی اور عورتوں سے الگ رہنا ہم پر گراں گزرنے لگا ہم ان لونڈیوں کو فدیہ میں لینا چاہ رہے تھے اس لیے حمل کے ڈر سے ہم ان سے عزل کرنا چاہ رہے تھے، پھر ہم نے اپنے (جی میں) کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان موجود ہیں تو آپ سے اس بارے میں پوچھنے سے پہلے ہم عزل کریں (تو یہ کیو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2172]
فوائد ومسائل:

عزل ایک ناپسندیدہ عمل ہے مگر مباح ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔
نبیﷺ کا فرمان قابل توجہ ہے۔
آپ نے فرمایا: اگر نہ کرو تو تم پر کوئی حرج نہیں۔
یہ نہیں فرمایا کہ اگر کرو تو تم پر کوئی حرج نہیں۔
یعنی کراہت کے ساتھ اس کا جواز باقی رکھا تاکہ ناگزیر قسم کی صورت میں اسے اختیار کرنے کی گنجائش باقی رہے۔
عزل کی یہ صورت عہد رسالت و عہد صحابہ میں رائج تھی جسے کراہت کے ساتھ جائز رکھا گیا۔
لیکن آج کل اس کے متبادل کئی صورتیں نکل آئی ہیں۔
جیسے ساتھی (کنڈومز) کا استعمال۔


بعض دوائیں یا انجکشن جن کے استعمال سے کچھ مدت تک حمل قرار نہیں پاتا۔


عورتوں کے رحم کا آپریشن جس کے بعد عورت حاملہ نہیں ہوتی۔


نس بندی جس میں مرد کے آلہ تناسل کا آپریشن کرکے اسے بارآور کرنے کی صلاحیت سے محروم کر دیا جاتا ہے۔
پہلی دو صورتیں عارضی ہیں (عزل حمل سے بچنے کا ایک طریقہ ہے) اس لیے یہ دونوں طریقے حسب ضرورت جائز ہوں گے۔
جیسے عورت کی صحت کمزور ہو اور مزید ولادت اس کی جان کے لیے خطرے کا باعث ہو۔
اس قسم کی صورت میں دونوں طریقوں میں سے کوئی سا طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔
لیکن اس کا مقصد عورت کے حسن وجمال کی حفاظت ہو یا بچوں کو کھلانے پلانے اور ان کی تعلیم و تربیت کا خوف ہوتو اس قسم کے مقاصد کے لیے ان دونوں عارضی طریقوں کا بھی اختیار کرنا ناجائز ہوگا۔
اور تیسرا اور چوتھا طریقہ جس میں مستقل طور پر حاملہ ہونے یا حاملہ کرنے کا سد باب کر دیا جاتا ہے یکسر حرام ناجائز اور اللہ کی تخلیق کو بدلنا ہے۔
اس کا جواز کسی بھی صورت میں نہیں ہے۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2172   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2170  
´عزل کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عزل ۱؎ کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا: تم میں سے کوئی ایسا کیوں کرتا ہے؟ (یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا کہ وہ ایسا نہ کرے)، کیونکہ اللہ تعالیٰ جس نفس کو پیدا کرنا چاہتا ہے تو وہ اسے پیدا کر کے ہی رہے گا ۲؎۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: قزعہ، زیاد کے غلام ہیں۔ [سنن ابي داود/كتاب النكاح /حدیث: 2170]
فوائد ومسائل:
مباشرت کرتے وقت مرد اپنی منی عورت کی فرج میں نکالنے کی بجائے باہر نکالے اسے عزل کہتے ہیں۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2170   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1926  
´عزل کا بیان۔`
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عزل کے بارے میں پوچھا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم لوگ ایسا کرتے ہو؟ ایسا نہ کرنے میں تمہیں کوئی نقصان نہیں ہے، اس لیے کہ جس جان کو اللہ تعالیٰ نے پیدا ہونا مقدر کیا ہے وہ ضرور پیدا ہو گی۔‏‏‏‏ ۱؎ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1926]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
عزل کا مطلب ہے عورت سے جماع کرتے وقت جب انزال ہونے لگے تو پیچھے ہٹ جائے تاکہ حمل ٹھہرنے کا اندیشہ نہ رہے۔

(2)
لونڈیوں سے اس لیے عزل کیا جاتا ہے کہ ان کے ہاں اولاد نہ ہو کیونکہ اولاد ہونے کے بعد اگر لونڈی کو بیچا جائے تو اس کا بچہ پہلے مالک کے پاس رہ جائے گا۔
اس طرح ماں بیٹے میں جدائی ہو جائے گی جو نامناسب ہے۔

(3)
اگر نہ کرو تو کوئی حرج نہیں۔
اس میں اشارہ ہے کہ اجتناب بہتر ہے تاہم سختی سے منع نہیں کیا گیا بلکہ صحیحین میں حضرت جابر سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں عزل کیا کرتے تھے اور قرآن نازل ہو رہا تھا۔ (صحیح البخاري، النکاح، باب العزل، حدیث: 5209، وصحیح مسلم، النکاح، باب حکم العزل، حدیث: 1440)

 یعنی ہم نبی اکرم ﷺ کے عہد میں بھی ایسا کرتے تھے اور اگر یہ فعل حرام ہوتا تو اللہ تعالیٰ بذریعہ وحی اس سے منع فرما دیتا۔
بنا بریں علمائے کرام اس کی بابت لکھتے ہیں کہ آزاد عورت سے اس کی اجازت کے بغیر عزل نہ کیا جائے کیونکہ اسے اولاد پیدا کرنے کا حق ہے، لہٰذا اگر عورت بیماری یا کمزوری کی وجہ سے حمل وولادت کی مشقت برداشت نہ کرسکتی ہو تو عزل کیا جا سکتا ہے، نیز مانع حمل گولیوں کا بھی بالکل یہی حکم ہے۔
فضیلۃ الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمة الله عليه  اس کی بابت یوں لکھتے ہيں کہ عورتوں کو درج ذیل دو شرطوں کے بغیر مانع حمل گولیاں استعمال نہیں کرنی چاہییں:

(ا)
عورت کو اس کی واقعی ضرورت ہو، مثلا:
وہ بیمار ہو اور ہر سال حمل کی متحمل نہ ہو سکتی ہویا بے حد لاغر اور کمزور ہو یا کچھ اور ایسے موانع ہوں جن کی وجہ سے ہر سال حمل ہونا اس کے لیے جان لیوا اور نقصان دہ ہو۔

(ب)
شوہر نے اسے اس کی اجازت دے دی ہو کیونکہ شوہر کا یہ حق ہے کہ بیوی اس کے لیے اولاد پیدا کرے، علاوہ ازیں ان گولیوں کے استعمال کے لیے طبيب سے یہ مشورہ کرنا بھی ضروری ہے کہ ان کا استعمال نقصان دہ تو نہیں لہٰذا جب یہ دونوں شرطیں پوری ہو جائیں تو پھر ان گولیوں کے استعمال میں کوئی حرج نہیں لیکن ایسی گولیاں استعمال نہ کی جائیں جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے مانع حمل ہوں کیونکہ یہ قطع نسل کے مترادف ہو گا جو کہ کبیرہ گناہ ہے۔
تفصیل کے لیے دیکھیئے:
(فتاوی اسلامیہ، (اردو)
: 3؍215، 216 مطبوعہ دارالسلام)


(4)
خاندنی منصوبہ بندی کا موجودہ تصور یہ ہے کہ زیادہ بچے ہوں گے تو ان کا خرچ برداشت کرنا اور دیکھ بھال کرنا مشکل ہو گا۔
یہ ایک غلط تصور ہے۔
جاہلیت میں جو لوگ اس ڈر سے بچوں کو قتل کر دیتے تھے ان کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ ۖ نَّحْنُ نَرْ‌زُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ ۚ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئًا كَبِيرً‌ا﴾ (بنی اسرائیل: 31)
اور مفلسی کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرو۔
ان کو بھی ہم ہی رزق دیتے ہیں اور تمہیں بھی۔
یقیناً ان کا قتل کبیرہ گناہ ہے۔
مغرب کے عیسائی ممالک مسلمانوں کو اس کی ترغیب اس لیے دیتے ہیں کہ وہ مسلمانوں کی افرادی قوت میں اضافے سے خوف زدہ ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ وہ خود اپنے لوگوں کو زیادہ بچے پیدا کرنے کی ترغیب دینے لگے ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1926   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 878  
´عورتوں (بیویوں) کے ساتھ رہن سہن و میل جول کا بیان`
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے کہا، اے اللہ کے رسول! میری ایک لونڈی ہے۔ میں اس سے عزل کرتا ہوں اور اس کا حاملہ ہونا مجھے پسند نہیں اور میں وہی چاہتا ہوں جو مرد چاہتے ہیں۔ یہودی کہتے ہیں کہ عزل تو چھوٹا زندہ درگور کرنا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہود نے جھوٹ بولا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ اسے پیدا کرنا چاہے تو اسے تو پھیر نہیں سکتا۔ اسے احمد، ابوداؤد نے روایت کیا ہے اور یہ الفاظ ابوداؤد کے ہیں نسائی اور طحاوی نے بھی اسے روایت کیا ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 878»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، النكاح، باب ما جاء في العزل، حديث:2171، والنسائي، النكاح، حديث:3329، وأحمد:3 /33، والطحاوي في مشكل الآثار:2 /372، وحديث البيهقي(7 /230)يغني عنه.»
تشریح:
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ نے کہا ہے: جس چیز میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کو جھوٹا قرار دیا ہے وہ ان کا یہ خیال ہے کہ عزل کی صورت میں حمل کا تصور ہی نہیں اور انھوں نے اسے‘ زندہ درگور کرنے کے ذریعے سے نسل کو قطع کرنے کے مقام پر رکھا ہے۔
مگر میں ان کے اس نظریے اور خیال کی تکذیب کرتا ہوں اور خبر دیتا ہوں کہ عزل حمل کو ہرگز نہیں روک سکتا جب اللہ تعالیٰ اسے پیدا کرنا چاہے۔
اور جب اس کا ارادہ ہی تخلیق کا نہ ہو تو پھر وہ حقیقت میں زندہ درگور کرنا ہی نہیں۔
حدیث جدامہ میں بھی اسے خفیہ زندہ درگور کرنے کا نام اس لیے دیا گیا ہے کہ مرد حمل سے فرار کا راستہ اختیار کرتے ہوئے عزل کرتا ہے۔
اسی بنا پر اس کے ارادے اور قصد کو زندہ درگور کرنے کے قائم مقام قرار دیا گیا ہے۔
لیکن ان دونوں میں فرق ہے کہ زندہ درگور تو براہ راست ایک ظاہر عمل ہے اور اس میں قصد اور فعل دونوں جمع ہوتے ہیں مگر عزل کا تعلق صرف قصد و ارادے سے ہے، اسی وجہ سے اسے وأد خفی کہا گیا ہے۔
اس سے دونوں احادیث میں تطبیق بھی ہوئی اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جدامہ کی حدیث عزل کی تحریم پر دلالت نہیں کرتی‘ اس میں صرف کراہت و ناپسندیدگی کا اظہار ہے کیونکہ اس میں تقدیر کا مقابلہ ہوتا ہے اور عزل کرنے والا اپنی تدبیر کے ذریعے سے تقدیر کو رد کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
دور جدید کے جو ڈاکٹر رگ کاٹ کر قوت تولید کو قطع کر دیتے ہیں تاکہ نسل کو محدود کر دیا جائے گو قوت جماع باقی رہنے دیتے ہیں‘ تو اسے عزل پر قطعاً قیاس نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ان دونوں کے درمیان بہت فرق ہے۔
عزل تو وقتی اور ظنی سبب ہے بلکہ منع حمل کے لیے درحقیقت یہ سبب ہے ہی نہیں۔
اس کے باوجود عازل خود مختار ہے اگر چاہے تو یہ فعل کرے اور چاہے اسے ترک کرے۔
اور جہاں تک رگ تولید کو کاٹ دینے کا تعلق ہے تو وہ ایسا سبب ہے جو قطعی اور دائمی ہے۔
اس رگ کے کٹ جانے کے بعد مرد کا اختیار باقی نہیں رہتا‘ نیز اس میں اللہ کی تخلیق کو بدل دینا‘ جسمانی نظام کو تبدیل کر دینا اور بعض قوتوں کے عمل کو بے کار کر دینا ہے۔
اور رگ تولید کو کاٹنے کا یہ عمل کینسر جیسے مہلک مرض میں مبتلا کر دینے کا سبب بن جاتا ہے جو کہ کٹی ہوئی رگ کی جگہ‘ دل اور پھیپھڑے وغیرہ تک سرایت کر جاتا ہے۔
ہر باخبر آدمی اس کے برے نتائج اوراثرات کو خوب جانتا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 878   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1138  
´عزل کی کراہت کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عزل کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا: تم میں سے کوئی ایسا کیوں کرتا ہے؟۔‏‏‏‏ ابن ابی عمر نے اپنی حدیث میں یہ اضافہ کیا ہے: اور آپ نے یہ نہیں کہا کہ تم میں سے کوئی ایسا نہ کرے، اور ان دونوں نے اپنی حدیث میں یہ بھی کہا ہے کہ جس جان کو بھی اللہ کو پیدا کرنا ہے وہ اسے پیدا کر کے ہی رہے گا۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب النكاح/حدیث: 1138]
اردو حاشہ:
وضاخت:


1؎:
عزل کے جواز اور عدم جواز کی بابت حتمی بات یہ ہے کہ یہ ہے تو جائز مگر نامناسب کام ہے،
خصوصاً جب عزل کے باوجود کبھی نطفہ رحم کے اندر چلا ہی جاتاہے،
اور حمل ٹھہر جاتا ہے۔
تو کیوں خواہ مخواہ یہ عمل کیا جائے۔
واللہ اعلم۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1138   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.