الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
Fasting (Kitab Al-Siyam)
29. باب فِي الرُّخْصَةِ فِي ذَلِكَ
29. باب: روزے کی حالت میں سینگی (پچھنا) لگوانے کی اجازت کا بیان۔
Chapter: Regarding The Allowance For That.
حدیث نمبر: 2373
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا حفص بن عمر، حدثنا شعبة، عن يزيد بن ابي زياد، عن مقسم، عن ابن عباس، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم"احتجم وهو صائم محرم".
(مرفوع) حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ مِقْسَمٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"احْتَجَمَ وَهُوَ صَائِمٌ مُحْرِمٌ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگی (پچھنا) لگوایا، آپ روزے سے تھے اور احرام باندھے ہوئے تھے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الصیام 61 (777)، سنن ابن ماجہ/الصیام 18 (1682)، (تحفة الأشراف: 6495)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/215، 222، 286) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کے راوی یزید ضعیف ہیں)

وضاحت:
۱؎: حالت احرام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے ہوں، یہ بات بعید از قیاس ہے، یہی یزید بن ابی زیاد کے ضعیف ہونے کی دلیل ہے، ہاں کبھی روزے کی حالت میں، اور کبھی احرام کی حالت میں بچھنا لگوانا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے، صحیح بخاری کے الفاظ ہیں «احتجم وهو صائم، واحتجم وهو محرم» (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگی (پچھنا) لگوائی جبکہ آپ روزے سے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگی لگوائی جبکہ آپ محرم تھے)

Narrated Abdullah ibn Abbas: The Messenger of Allah ﷺ had himself cupped when he was fasting and wearing ihram (pilgrim garb).
USC-MSA web (English) Reference: Book 13 , Number 2367


قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
ترمذي (777)
يزيد بن أبي زياد: ضعيف
والحديث السابق (الأصل: 2372) يغني عنه
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 88

   صحيح البخاري5701عبد الله بن عباساحتجم النبي في رأسه وهو محرم من وجع كان به بماء يقال له لحي جمل
   صحيح البخاري2278عبد الله بن عباساحتجم النبي أعطى الحجام أجره
   صحيح البخاري5694عبد الله بن عباساحتجم النبي وهو صائم
   صحيح البخاري5695عبد الله بن عباساحتجم النبي وهو محرم
   صحيح البخاري2279عبد الله بن عباساحتجم النبي أعطى الحجام أجره
   صحيح البخاري5691عبد الله بن عباساحتجم أعطى الحجام أجره استعط
   صحيح البخاري2103عبد الله بن عباساحتجم النبي أعطى الذي حجمه
   صحيح البخاري1938عبد الله بن عباساحتجم وهو محرم واحتجم وهو صائم
   صحيح البخاري1835عبد الله بن عباساحتجم رسول الله وهو محرم
   صحيح البخاري1939عبد الله بن عباساحتجم النبي وهو صائم
   صحيح مسلم2885عبد الله بن عباساحتجم وهو محرم
   صحيح مسلم5749عبد الله بن عباساحتجم أعطى الحجام أجره استعط
   صحيح مسلم4041عبد الله بن عباساحتجم أعطى الحجام أجره استعط
   صحيح مسلم4042عبد الله بن عباسحجم النبي عبد لبني بياضة أعطاه النبي أجره كلم سيده فخفف عنه من ضريبته
   جامع الترمذي839عبد الله بن عباساحتجم وهو محرم
   جامع الترمذي777عبد الله بن عباساحتجم فيما بين مكة والمدينة وهو محرم صائم
   جامع الترمذي776عبد الله بن عباساحتجم وهو صائم
   جامع الترمذي775عبد الله بن عباساحتجم رسول الله وهو محرم صائم
   سنن أبي داود3423عبد الله بن عباساحتجم رسول الله أعطى الحجام أجره
   سنن أبي داود2372عبد الله بن عباساحتجم وهو صائم
   سنن أبي داود1835عبد الله بن عباساحتجم وهو محرم
   سنن أبي داود2373عبد الله بن عباساحتجم وهو صائم محرم
   سنن أبي داود1836عبد الله بن عباساحتجم وهو محرم في رأسه من داء كان به
   سنن أبي داود3867عبد الله بن عباساستعط
   سنن النسائى الصغرى2849عبد الله بن عباساحتجم وهو محرم
   سنن النسائى الصغرى2848عبد الله بن عباساحتجم وهو محرم
   سنن النسائى الصغرى2850عبد الله بن عباساحتجم النبي وهو محرم
   سنن ابن ماجه3081عبد الله بن عباساحتجم وهو صائم محرم
   سنن ابن ماجه1682عبد الله بن عباساحتجم رسول الله وهو صائم محرم
   سنن ابن ماجه2162عبد الله بن عباساحتجم أعطاه أجره
   بلوغ المرام540عبد الله بن عباس ان النبي صلى الله عليه وآله وسلم احتجم وهو محرم واحتجم وهو صائم
   بلوغ المرام602عبد الله بن عباس احتجم وهو محرم
   بلوغ المرام770عبد الله بن عباساحتجم رسول الله واعطى الذي حجمه اجره ولو كان حراما لم يعطه
   مسندالحميدي508عبد الله بن عباساحتجم رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو محرم
   مسندالحميدي509عبد الله بن عباساحتجم رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو محرم

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 5694  
´ کس وقت پچھنا لگوایا جائے`
«. . . عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" احْتَجَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ صَائِمٌ . . .»
. . . ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (ایک مرتبہ) روزہ کی حالت میں پچھنا لگوایا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الطِّبِّ: 5694]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 5694کا باب: «بَابُ أَيَّ سَاعَةٍ يَحْتَجِمُ:»

باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب قائم فرمایا کہ کون سے وقت پچھنا لگوانا چاہے؟ اس مسئلے کو سوالیہ رکھا اور تحت الباب ایک اثر اور ایک مرفوع حدیث کا ذکر فرمایا ہے، اثر میں رات کے وقت پچھنے لگانے کا ذکر ہے جبکہ حدیث میں دن کا ذکر ہے اب یہاں پر وقت کا تعین کس طرح ہو گا؟ اور ترجمتہ الباب اور حدیث میں مناسبت کیسے ہو گی؟

علامہ عبدالحق الہاشمی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«ظاهر صنع الامام البخاري رحمه الله: أن الحجامة تصنع عند الاحتياج ولا تقييد بوقت دون وقت، لأنه ذكر الاحتجام ليلاً، وذكر حديث ابن عباس، وهو يقتضي كون ذالك وقع منه نهارا .»
یعنی حجامہ ضرورت کے وقت کبھی بھی لگائے جا سکتے ہیں اس کے لیے وقت کی کوئی قید نہیں کیوں کہ اثر میں ہے کہ رات کے وقت پچھنے لگائے اور حدیث جو ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے اس میں دن کا ذکر ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ احتجام پچھنے کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں۔۔۔ لہٰذا امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کے بعد سیدنا ابوموسٰی رضی اللہ عنہ کا تعلیق ذکر فرمائی کہ انہوں نے رات کے وقت پچھنے لگائے اور سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت نقل فرمائی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنے لگائے اس حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے تھے۔

محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
امام بخاری رحمہ اللہ کی ترجمۃ الباب کے ذریعے مطلق زمانے کا ذکر ہے، کسی مخصوص وقت کو متعارف کروانا نہیں ہے، جو احادیث اوقات لائقہ میں حجامہ کرنے پر دلالت کرتی ہیں وہ امام بخاری رحمہ اللہ کی شرط پر نہیں ہیں، گویا کہ آپ رحمہ اللہ نے یہ اشارہ فرمایا ہے کہ ضرورت کے وقت پچھنے لگوا لیے جائیں (یعنی وقت کی کوئی قید نہیں ہے۔)

بعض حضرات کا یہ بھی کہنا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ابوداؤد وغیرہ کی احادیث کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ جس میں پچھنے لگانے کے دنوں کی تفصیل ہے۔
چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«لعل البخاري يشير إلى حديث عند ابي داؤد، فيه تفصيل الأيام للاحتجام .»

ابن الملقن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«لم يصح فيه شيئي عند البخاري فذالك لم يتعرض لها وقد وردت فيها احاديث .»
یعنی دنوں اور وقتوں کے تعین کے بارے میں بھی روایات ہیں وہ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک درست نہیں جس کی وجہ سے آپ نے ان روایات کو پیش نہیں کیا۔

یعنی امام بخاری رحمہ اللہ کا پہلا رجحان تو یہی سمجھ میں آتا ہے کہ آپ مطلق حجامہ لگانے کو جائز قرار دیتے ہیں بغیر کسی وقت و دن کے قید کے لہٰذا ایک حدیث اور ایک اثر کو پیش کرنے کی غرض ہی یہی ہے کہ دن و رات پچھنے لگانے کی طرف اشارہ فرما رہے ہیں، یہیں سے باب اور حدیث میں مناسبت ہو گی۔

اور جہاں تک پچھنے لگانے والی دوسری روایات کا تعلق ہے جن میں دنوں کا تعین ہے تو اس کا ذکر ہم کر دیتے ہیں تاکہ مزید مسئلے کی وضاحت ہو جائے مثلاً:
«عن انس رضى الله عنه أنه عليه السلام كان يحتجم فى الأخدعين والكاهل، وكان يحتجم لسبع عشرة وتسع عشرة واحدىٰ وعشرين .»
اس حدیث سے سترہ، انیس اور اکیس تاریخ کو جامہ لگانا ثابت ہوتا ہے۔
«عن ابي هريرة رضى الله عنه مرفوعاً من احتج لسبع عشرة وتسع عشرة وإحدى وعشرين كان شفاء من كل داء .» [ابوداؤد رقم: 3861۔ وقال النووي في المجموع اسناده حسن على شرط مسلم]

ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:
«من احتجم يوم الأربعاء ويوم السبت فأصابه وضح فلا يلومن الا نفسه .» [رواه الحاكم: 409/4، البيهقي: 340/9 - وقال البيهقي: سليمان بن ارقم ضعيف۔ قال الذهبي رحمه الله فى التلخيص سليمان ضعيف: 409/4]
اس روایت میں بدھ اور ہفتہ کے روز حجامت کرنے کی ممانعت ہے مگر یہ سنداً ضعیف ہے۔

ایک اور روایت جسے امام عقیلی رحمہ اللہ نے الضعفاء میں ذکر فرمایا کہ:
«عن كبشة بنت ابي بكرة عن أبيها انه كان ينهٰى أهله عن الحجابة يوم الثلاثة، ويزعم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم بأن يوم الثلاثاء يوم الدم وفيه ساعة لا يرقا .» [الضعفاء للعقيلي: 150/1، والألباني فى الضعيفة: 2251] اس روایت سے منگل کے روز حجامہ لگانے کی ممانعت ہے لیکن یہ بھی ضعیف سند کے ساتھ ہے۔

ابن الجوزی رحمہ اللہ کی العلل المتناہیۃ میں ہے کہ:
«عليكم بالحجامة يوم الخميس فإنها تذير فى العقل .» [العلل المتناهية: 394/2]
اس روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ جمعرات کے روز حجامہ لگانا چاہیے مگر یہ روایت بھی صحیح نہیں ہے۔
«وقال لا يصح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم»

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں، اس روایت کے بارے میں جسے ابن ماجہ اور طبرانی نے نقل فرمایا کہ:
«نعم العبد الحجام يذهب الدم ويخفف الصلب ويجلو عن البصر وان خير ما تحتجمون فيه يوم سبع عشرة ويوم تسع عشرة وأحد وعشرين .
قال الحافظ فيإتحاف المهرة 619/7
قال على بن مديني: سمعت يحيىٰ بن سعيد القطان يقول: قلت لعباد بن منصور، سمعت هذا الحديث ممن؟ قال حدثني ابن ابي يحيىٰ عن داؤد بن الحصين عن عكرمة، فعلٰى هذا فالحديث معلول»
[وضعفه الألباني فى الضعيفة: 2036]
جامع الاصول میں سیدنا عمران رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:
«أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يحتجم يوم سبعة عشرة وتسعة عشرة وأحد وعشرين .» [جامع الأصول: 7/ 544]
یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجامہ لگایا سترہ تاریخ کو، انیس کو اور اکیس تاریخ کو۔

ایک اور روایت ابوداؤد کی ہے کہ:
«عن سلمٰى خادم رسول الله صلى الله عليه وسلم قالت: ما كان أحد يشتكي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وجعاً فى رأسه الا قال: احتجم ولا وجعاً فى رجليه الا قالاخضبهما [ابوداؤد، رقم: 3858 - الصحيحة للالباني: 2059]
یعنی جو کوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سر درد کی شکایت لے کر آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے فرماتے: حجامہ لگواؤ؟ اور جو کوئی پاؤں کے درد کی شکایت بتاتا تو آپ فرماتے: مہندی لگاؤ سند کے اعتبار سے یہ روایت ضعیف ہے۔

ابونعیم رحمہ اللہ کی الطب میں ہے کہ:
«عن ابن عباس مرفوعاً: الحجامة فى الرأس شفاء من سبع الجنون والجذام والبرص والنعاس ووجع الاضراس والظلمة يجدها فى عينيه .» [الطب النبوي: 359/1- الطبراني فى الكبير: 21/29 - المجروحين لابن حبان: 86/2]
ان احادیث میں دن، تاریخ، دونوں بتائے گئے ہیں کہ سترہ، انیس، اکیس، تاریخ کو پچھنے لگانا چاہے، اسی طرح جمعرات، جمعہ، ہفتہ، اتوار، پیر کے دن لگانا چاہیے، بدھ اور ایک روایت میں منگل کے دن کی ممانعت آئی ہے، یہ تمام روایات امام بخاری رحمہ اللہ کی شرائط پر نہیں تھیں، اسی لیے ذکر نہیں فرمایا، صرف خفیف سا اشارہ فرما دیا ہے،

چنانچہ علامہ قسطلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
«وعند الأطباء أن أنفع الحجامة ما يقع فى الساعة الثانية أو الثالثة، وأن لا يقع عقب استفراع من حمام أو جماع ولا عقب بشبع ولا جوع وإنها تعجل فى النصف الثاني من الشهر، ثم فى الربع الثالث من أرباعه أنفع من أوله واٰخره، لأن الأخلاط فى اول الشهر تهيج وفي اٰخره تسكن فأولي ما يكون الاستفراغ فى اثنانه .» [ارشاد الساري: 15/10]
یعنی دن کے دوسرے تیسرے حصے میں پچھنے لگانا اطباء کے نزدیک اچھا ہے، غسل، جماع کے بعد صحیح نہیں، اسی طرح سے زیادہ بھوک یا زیادہ شکم سیری کی حالت میں بھی ٹھیک نہیں، مہینہ کے آخری پندرہ دنوں میں لگائے جائیں، چودہ تاریخ سے لے کر تئیس (۲۳) تاریخ تک کے دن سب سے زیادہ مناسبت ہیں، کیوں کے جسم کے اخلاط میں مہینے کی ابتداء میں ہیجان ہوتا ہے، جب کہ مہینے کے آخر میں یہ ساکن ہوتے ہیں، اس لیے درمیان کا عرصہ بہتر ہے، کیوں کہ وہ اخلاط کے اعتزال کا زمانہ ہوتا ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث\صفحہ نمبر: 155   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1682  
´روزہ دار کے پچھنا لگوانے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنا لگوایا جب کہ آپ روزے سے تھے، اور احرام باندھے ہوئے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1682]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
یہ حدیث ان الفاظ سے صحیح ہے کہ روزے کی حالت میں سینگی لگوائی اور احرام کی حالت میں سینگی لگوائی۔ (یعنی حرام اور روزے کے واقعات الگ الگ ہیں۔
ایسا نہیں کہ بیک وقت احرام بھی ہو اور روزہ بھی اور اس حالت میں سینگی لگوائی ہو۔
دیکھئے: (الإرواء الغلیل، رقم: 932)

(2)
سینگی یا پچھنے لگانا ایک طریق علاج ہے۔
جس میں ایک خاص طریقے سے جسم سے خون نکالا جاتا ہے۔
مریض کےجسم پر کسی تیز دھار آلے سے زخم لگا کر ایک دوسری چیز کے ذریعے سے خون چوسا جاتا ہے۔
اگر کوئی شخص روزہ رکھ کر کسی کو سینگی لگائے۔
یا کوئی روزہ دار سینگی لگوائے تو کیا ان کا روزہ ٹوٹ جائے گا یا قائم رہے گا؟ اس بارے میں علمائے کرام میں دو مختلف آراء پائی جاتی ہیں۔
جو لوگ روزہ ٹوٹنے کے قائل ہیں ان کی دلیل یہی حدیث ہے۔
جو حضرت ثوبان، حضرت شداد بن اوس، حضرت رافع بن خدیج اور حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔
امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کا بھی یہی موقف ہے اس کے برعکس حضرت عبدا للہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور خود حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے روزہ رکھ کر سینگی لگوائی اور ان کے نزدیک سینگی لگوانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا گیا۔
کیا آپ لوگ (عہد نبوی میں)
روزہ دار کے لئے سینگی لگونا نا پسند کرتے تھے؟ انھوں نے فرمایا نہیں صرف کمزوری کی وجہ سے مکروہ سمجھا جاتا تھا (صحیح البخاري، الصوم، باب الحجامة والقئ للصائم، حدیث: 1940)
حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی روزے کی حالت میں سینگی لگوا لیا کرتے تھے۔ (موطأ إمام مالك، الصیام، باب ماجاء فی حجامة الصائم، حدیث: 276، 275)
 امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا روزے دار کو سینگی لگوانا صرف اس لئے مکروہ کہ کمزوری کا اندیشہ ہوتا ہے۔ (موطا امام مالک حوالہ مذکورہ بالا)
شیخ عبد القادر ارنا ؤوط جامع الاصول کے حاشہ میں لکھتے ہیں۔
سینگی سے روزہ ٹوٹنے کا حکم منسوخ ہے۔ (جامع الاصول: 295/6، حدیث: 4417، 4416)
 امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس مسئلہ پر بحث کرکے آخر میں فرمایا:
حدیثوں میں تطبیق اس طرح دی جا سکتی ہے۔
کہ سینگی لگوانا اس شخص کے لئے مکروہ ہے جسے کمزوری لاحق ہوتی ہو اور اگر کمزوری اس حد تک پہنچتی ہو کہ اس کی وجہ سے افطار کرنا پڑے تو اس صورت میں سینگی لگوانا زیادہ مکروہ ہے۔
اور جس شخص کو کمزوری نہیں ہوتی۔
اس کے حق میں (سینگی لگوانا)
مکروہ نہیں لہٰذا (أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُوم)
 سینگی لگانے اور لگوانے والے نے روزہ کھول دیا۔
کو مجازی معنی میں لینا پڑے گا۔
کیونکہ مذکورہ بالا دلائل اسے حقیقی معنی پر محمول کرنے سے مانع ہیں۔ (نیل الأوطار: 228/4، ابواب ما یبطل الصوم وما یکرہ وما یمستحب وباب ماجاء فی الحجامة: 228/4)
راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ اس قسم کے مسائل میں احتیاط کرنا مناسب ہے۔
جیسے حضرت عبد اللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کا عمل ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس کی بابت فرماتے ہیں۔
حضرت ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ روزے کی حالت میں سینگی لگوا لیا کرتے تھے۔
پھر انھوں نے یہ عمل ترک کردیا۔
چنانچہ وہ رات کو سینگی لگواتے تھے۔
اورحضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ر ات کو سینگی لگوائی (صحیح البخاري، الصوم، باب الحجامة والقئ للصائم، قبل حدیث: 1938)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1682   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 775  
´روزہ دار کے لیے پچھنا لگوانے کی رخصت کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنا لگوایا، آپ محرم تھے اور روزے سے تھے۔ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 775]
اردو حاشہ:
نوٹ:
((اِحْتَجَمَ وَھُوَ صَائِمٌ)) کے لفظ سے صحیح ہے جو بسند عبدالوارث صحیح بخاری میں موجود ہے،
اور ترمذی کا یہ سیاق سنن ابی داؤد میں بسند یزید عن مقسم عن ابن عباس موجود ہے،
جب کہ حکم اور حجاج نے مقسم سے روایت میں ((محرم)) کالفظ نہیں ذکر کیا ہے،
در اصل الگ الگ نبی اکرم ﷺ نے دونوں حالت میں حجامت کرائی،
جس کا ذکر صحیح بخاری میں بسند وہیب عن ایوب،
عن عکرمہ،
عن ابن عباس ہے کہ ((أنَّ النَّبيَّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ احتجَمَ وهو مُحْرِمٌ،
 واحتجَمَ أيضًا وهو صائمٌ)
)
: 1835، 1938) پتہ چلا کہ پچھنا لگوانے کا یہ کام حالت صوم واحرام میں ایک ساتھ نہیں ہوا ہے،
بلکہ دو الگ الگ واقعات ہیں)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 775   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2373  
´روزے کی حالت میں سینگی (پچھنا) لگوانے کی اجازت کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سینگی (پچھنا) لگوایا، آپ روزے سے تھے اور احرام باندھے ہوئے تھے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2373]
فوائد ومسائل:
الفاظ حدیث محل نظر ہیں۔
تفصیل کے لیے دیکھئے: (إرواء الغلیل، حدیث نمبر:932)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2373   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.