الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
Funerals (Kitab Al-Janaiz)
49. باب الْمَشْىِ أَمَامَ الْجَنَازَةِ
49. باب: جنازے کے آگے آگے چلنا۔
Chapter: Walking In Front Of The Janazah.
حدیث نمبر: 3180
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا وهب بن بقية، عن خالد، عن يونس، عن زياد بن جبير، عن ابيه، عن المغيرة بن شعبة، واحسب ان اهل زياد اخبروني، انه رفعه إلى النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" الراكب يسير خلف الجنازة، والماشي يمشي خلفها، وامامها، وعن يمينها، وعن يسارها، قريبا منها، والسقط يصلى عليه، ويدعى لوالديه بالمغفرة والرحمة".
(مرفوع) حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ يُونُسَ، عَنْ زِيَادِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، وَأَحْسَبُ أَنَّ أَهْلَ زِيَادٍ أَخْبَرُونِي، أَنَّهُ رَفَعَهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الرَّاكِبُ يَسِيرُ خَلْفَ الْجَنَازَةِ، وَالْمَاشِي يَمْشِي خَلْفَهَا، وَأَمَامَهَا، وَعَنْ يَمِينِهَا، وَعَنْ يَسَارِهَا، قَرِيبًا مِنْهَا، وَالسِّقْطُ يُصَلَّى عَلَيْهِ، وَيُدْعَى لِوَالِدَيْهِ بِالْمَغْفِرَةِ وَالرَّحْمَةِ".
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سوار جنازے کے پیچھے چلے، اور پیدل چلنے والا جنازے کے پیچھے، آگے دائیں بائیں کسی بھی جانب جنازے کے قریب ہو کر چل سکتا ہے، اور کچے بچوں ۱؎ کی نماز جنازہ پڑھی جائے اور ان کے والدین کے لیے رحمت و مغفرت کی دعا کی جائے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الجنائز 42 (1031)، سنن النسائی/الجنائز 55 (1944)، سنن ابن ماجہ/الجنائز 15 (1481)، 26 (1507)، (تحفة الأشراف: 11490)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/247، 248، 249، 252) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: ایسے ببچے جو مدت حمل پوری ہونے سے پہلے پیدا ہو جائیں اور زندہ رہ کر مر جائیں۔

Narrated Al-Mughirah ibn Shubah: (I think that the people of Ziyad informed me that he reported on the authority of the Prophet ﷺ: A rider should go behind the bier, and those on foot should walk behind it, in front of it, on its right and on its left keeping near it. Prayer should be offered over an abortion and forgiveness and mercy supplicated for its parents.
USC-MSA web (English) Reference: Book 20 , Number 3174


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
مشكوة المصابيح (1667)
أخرجه الترمذي (1031 وسنده صحيح) ورواه ابن ماجه (1507 وسنده صحيح)

   سنن النسائى الصغرى1944مغيرة بن شعبةالراكب خلف الجنازة والماشي حيث شاء منها والطفل يصلى عليه
   سنن النسائى الصغرى1945مغيرة بن شعبةالراكب خلف الجنازة والماشي حيث شاء منها والطفل يصلى عليه
   سنن النسائى الصغرى1950مغيرة بن شعبةالراكب خلف الجنازة والماشي حيث شاء منها والطفل يصلى عليه
   جامع الترمذي1031مغيرة بن شعبةالراكب خلف الجنازة والماشي حيث شاء منها والطفل يصلى عليه
   سنن أبي داود3180مغيرة بن شعبةالراكب يسير خلف الجنازة والماشي يمشي خلفها وأمامها وعن يمينها وعن يسارها قريبا منها والسقط يصلى عليه ويدعى لوالديه بالمغفرة والرحمة
   سنن ابن ماجه1481مغيرة بن شعبةالراكب خلف الجنازة والماشي منها حيث شاء

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ نديم ظهير حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ترمذي 1032  
´ناتمام بچے کی نماز جنازہ کا حکم`
«عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: الطِّفْلُ لَا يُصَلَّى عَلَيْهِ، وَلَا يَرِثُ وَلَا يُورَثُ حَتَّى يَسْتَهِلَّ»
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بچے کی نماز (جنازہ) نہیں پڑھی جائے گی نہ وہ کسی کا وارث ہو گا اور نہ کوئی اس کا وارث ہو گا جب تک کہ وہ پیدائش کے وقت روئے نہیں۔ [سنن ترمذي 1032]

فقہ الحدیث
↰ اس روایت کو امام ترمذی [1032] نے روایت کیا ہے، لیکن اس کی سند میں ابوالزبیر مشہور مدلس ہیں اور سماع کی صراحت بھی نہیں، لہٰذا یہ ابوالزبیر کے عنعنہ کی وجہ سے ضعیف ہے۔

اس روایت کے دیگر شواہد بھی ملاحظہ کیجئیے:
«اذا استهل الصبي صلى عليه و ورت» جب بچہ چیخ مارے تو اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی اور وہ وارث بھی بنے گا۔ [ابن ماجہ 1508]
↰ یہ روایت ربیع بن بدر متروک [التقریب: 1883] اور ابوالزبیر عنعنہ کی وجہ سے ضعیف ہے۔
➋ انہیں الفاظ کے ساتھ یہ روایت ابن حبان [6032] میں بھی موجود ہے اور اس میں سفیان ثوری اور ابوالزبیر دونوں کا عنعنہ ہے، لہذا یہ روایت بھی ضعیف ہے۔ یہ روایت المستدرک للحاکم [348/4] میں بھی اسی علت کے ساتھ موجود ہے۔
واضح رہے کہ اس روایت کے تمام طرق اور شواہد ضعف سے خالی نہیں، پس ان سے استدلال جائز نہیں ہے۔

تنبیہ: بعض اہل علم ایسی روایات کو بطور شاہد نقل کرتے ہیں جن میں سرے سے «لا يصلي عليه» ہے ہی نہیں، مثلاً صحیح ابن حبان کی مذکورہ روایت کی تحقیق کرتے ہوئے جناب شعیب ارناوط صاحب سنن ابن ماجہ [2751] کی ایک صحیح حدیث: «لا يرث الصبي حتي يستهل صارخا» (ولادت کے بعد) بچہ اگر آواز سے نہ روئے تو وہ وارث نہیں ہوتا۔ کو بطور شاہد نقل کر رہے ہیں۔ دیکھئے ابن حبان [394/13]
↰ حالانکہ اس میں سرے سے نماز جنازہ نہ پڑھنے کا ذکر ہی نہیں، لہٰذا «لا يصلي عليه» کا یہ حدیث قطعاً شاہد نہیں بن سکتی۔

قارئین کرام! مذکورہ بحث سے معلوم ہوا جو علمائے کرام بچے کی نماز جنازہ پڑھنے کے لیے رونے یا چیخ مارنے کی قید لگاتے ہیں ان کا استدلال ضعیف روایات سے ہے، اس کے برعکس صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ مردہ حالت میں پیدا ہونے والے بچے کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔
چنانچہ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نبی کریم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: سوار آدمی جنازے کے پیچھے چلے اور پیدل جانے والے اس ک آگے پیچھے اور دائیں بائیں اس کے قریب قریب چلیں، اور ناتمام پیدا ہونے والے بچے کی بھی نماز جنازہ پڑھی جائے اور اس کے ماں باپ کے لیے دعائے مغفرت و رحمت کی جائے۔ [سنن ابي داود 3180 وسنده صحيح]
↰ یہ حدیث دلیل ہے کہ پیدائش کے وقت بچہ روئے یا نہ روئے، یعنی مردہ حالت میں پیدا ہو تب بھی اس کی نمازِ جنازہ ادا کی جائے گی۔

◈ نافع رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ناتمام چھوٹے بچے کی نماز جنازہ ادا کی، میں نہیں جانتا کہ وہ رویا تھا یا نہیں، آپ نے اس کے گھر میں جنازہ پڑھا، پھر اسے تدفین کے لیے بھیج دیا۔ [مصنف عبدالرزاق 530/3 واللفظ له، مصنف ابن ابي شيبته 9/3 ح 11584 وسنده صحيح]

◈ امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ نے فرمایا: «يصلي على الصغير كما يصلي على الكبير»
جس طرح بڑے کی نماز جنازہ ادا کی جاتی ہے اسی طرح چھوٹے بچے کی بھی ادا کی جائے گی۔ [مصنف ابن أبي شيبة 10/3 ح 11591 وسنده صحيح]

◈ابن سیرین رحمہ اللہ کی دوسری روایت میں «السقط» کے الفاظ بھی ہیں۔ دیکھئے [ابن ابي شيبه 10/3، ح 11588 وسندہ حسن]

◈امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے ایسے بچے کی نماز جنازہ سے متعلق پوچھا گیا: «يصلي عليه وان لم يستهل، قال: نعم» بچے کی نمازِ جنازہ ادا کی جائے گی، اگرچہ وہ نہ روئے؟ آپ نے فرمایا: جی ہاں۔ [مسائل الامام احمد رواية ابنه عبدالله: 529]

راجح موقف: صحیح حدیث اور اثر صحابی کی رُو سے راجح یہی ہے کہ پیدائش کے وقت بچہ روئے یا نہ روئے، چیخ مارے یا نہ مارے بہرصورت اس کی نماز جنازہ ادا کرنا جائز ہے، اس کے برعکس موقف اس لیے قابل التفات نہیں کہ اس کی بنیاد ضعیف روایات پر ہے۔ «هذا ما عندي والله ا علم بالصواب»
   ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 133، حدیث\صفحہ نمبر: 9   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1481  
´جنازہ میں شرکت کا بیان۔`
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: سوار شخص جنازہ کے پیچھے چلے اور پیدل شخص (آگے پیچھے، دائیں، بائیں) جہاں چاہے چلے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1481]
اردو حاشہ:
فائدہ:
اس سے معلوم ہوا کہ جنازے کے ساتھ جاتے ہوئے بھی سوار ہو کر جانا جائز ہے اگرچہ افضل نہیں۔
البتہ سوار کو جنازے کے پیچھے رہنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1481   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1031  
´بچوں کی نماز جنازہ پڑھنے کا بیان۔`
مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سواری والے جنازے کے پیچھے رہے، پیدل چلنے والے جہاں چاہے رہے، اور بچوں کی بھی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1031]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اور یہی راجح قول ہے،
کیوں کہ ماں کے پیٹ کے اندر ہی بچے کے اندر روح پھونک دی جاتی ہے،
گویا نومولود ایک ذی روح مسلمان ہے۔
 
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1031   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3180  
´جنازے کے آگے آگے چلنا۔`
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سوار جنازے کے پیچھے چلے، اور پیدل چلنے والا جنازے کے پیچھے، آگے دائیں بائیں کسی بھی جانب جنازے کے قریب ہو کر چل سکتا ہے، اور کچے بچوں ۱؎ کی نماز جنازہ پڑھی جائے اور ان کے والدین کے لیے رحمت و مغفرت کی دعا کی جائے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3180]
فوائد ومسائل:

(السقط) (سین پر تینوں حرکات کے ساتھ) اس سے مراد نا تمام بچہ ہے۔


نا تمام پیدا ہونے والے بچے کی نماز جنازہ ادا کرنے کی بابت اختلاف ہے۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ بچہ اگر زندگی کی علامت کے ساتھ پیدا نہ ہو تو بھی اس کی نمازجنازہ پڑھی جائےگی۔
یہی قول ابن سیرین اور ابن مسنیب کا ہے۔
امام احمد بن حنبل اور اسحاق بن راہویہ کا قول ہے کہ اگر اس پر چار مہینے دس دن گزر چکے ہوں۔
اور اس میں روح پھونک دی گئی ہو۔
تو اس کی نماز جنازہ پڑھی جائےگی۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ جب پیدا ہو۔
اور علامت زندگی موجود ہوتو اس کی نماز جنازہ پڑھی جائےگی۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اتنا مذید کہا ہے کہ اگر زندگی کی علامت نہ ہوتو نماز جنازہ نہیں پرھی جائے گی۔
اس کے قائل امام ابو حنیفہ۔
امام مالک۔
اوزاعی۔
اور شافعی ہیں۔
واللہ أعلم با لصواب۔
 (عون المعبود) شیخ البانی نے امام احمد بن حنبل ؒ اور اسحاق بن راہویہ کے قول کو راحج قرار دیا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3180   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.