الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
Funerals (Kitab Al-Janaiz)
54. باب الصَّلاَةِ عَلَى الْجَنَازَةِ فِي الْمَسْجِدِ
54. باب: مسجد میں نماز جنازہ پڑھنا۔
Chapter: Offering The Funeral Prayer In The Masjid.
حدیث نمبر: 3189
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا سعيد بن منصور، حدثنا فليح بن سليمان، عن صالح بن عجلان، ومحمد بن عبد الله بن عباد، عن عباد بن عبد الله بن الزبير، عن عائشة، قالت: والله ما صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم على سهيل ابن البيضاء، إلا في المسجد.
(مرفوع) حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ صَالِحِ بْنِ عَجْلَانَ، وَمُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّادٍ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: وَاللَّهِ مَا صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى سُهَيْلِ ابْنِ الْبَيْضَاءِ، إِلَّا فِي الْمَسْجِدِ.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں قسم اللہ کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل بن بیضاء رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ مسجد ہی میں پڑھی تھی۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابن ماجہ/الجنائز 29 (1518)، (تحفة الأشراف: 16174)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الجنائز 34 (973)، سنن الترمذی/الجنائز 44 (1033)، سنن النسائی/الجنائز 70 (1969)، موطا امام مالک/الجنائز 8 (22)، مسند احمد (6/79، 133، 169) (صحیح)» ‏‏‏‏

Narrated Aishah: I swear by Allah, the Messenger of Allah ﷺ prayed over Suhail bin al-Baida' in the mosque.
USC-MSA web (English) Reference: Book 20 , Number 3183


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (973)

   سنن النسائى الصغرى1969عائشة بنت عبد اللهما صلى رسول الله على سهيل ابن بيضاء إلا في المسجد
   سنن النسائى الصغرى1970عائشة بنت عبد اللهما صلى رسول الله على سهيل ابن بيضاء إلا في جوف المسجد
   صحيح مسلم2253عائشة بنت عبد اللهما صلى رسول الله على سهيل بن بيضاء إلا في جوف المسجد
   صحيح مسلم2252عائشة بنت عبد اللهما صلى رسول الله على سهيل بن البيضاء إلا في المسجد
   جامع الترمذي1033عائشة بنت عبد اللهصلى رسول الله على سهيل ابن بيضاء في المسجد
   سنن أبي داود3189عائشة بنت عبد اللهما صلى رسول الله على سهيل ابن البيضاء إلا في المسجد
   سنن أبي داود3190عائشة بنت عبد اللهصلى رسول الله على ابني بيضاء في المسجد سهيل وأخيه
   سنن ابن ماجه1518عائشة بنت عبد اللهما صلى رسول الله على سهيل ابن بيضاء إلا في المسجد
   بلوغ المرام452عائشة بنت عبد اللهعلى ابني بيضاء في المسجد
   صحيح مسلم2254عائشة بنت عبد اللهسهيل بن دعد وهو ابن البيضاء امه بيضاء

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 452  
´مسجد میں نماز جنازہ پڑھنا`
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیضاء کے دونوں بیٹوں کی نماز جنازہ مسجد میں ادا فرمائی۔ [بلوغ المرام /كتاب الجنائز/حدیث: 452]
فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث میں ان لوگوں کا رد ہے جو مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے کو ممنوع قرار دیتے ہیں کیونکہ مسجد میں نماز جنازہ پڑھنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے۔ علاوہ ازیں طبقات ابن سعد میں ہے کہ خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا جنازہ عمر رضی اللہ عنہ نے مسجد ہی میں پڑھایا تھا۔ [الطبقات الكبريٰ لابن سعد: 206/3]
نیز مسند سعید بن منصور میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ راشد دوم کا جنازہ بھی حضرت صہیب رضی اللہ عنہ نے مسجد ہی میں پڑھایا تھا۔ [المصنف للعبدالرزاق: 526/3، والسنن الكبري للبيهقي: 52/4]
اور ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے سعد بھی ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا جنازہ مسجد ہی میں پڑھا تھا۔ (المصنف لعبدالرزاق: 527، 526/3) اگر ایسا کرنا ناجائز و مکروہ ہوتا تو خلفائے راشدین اس پر عمل نہ کرتے۔
➋ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے عمل سے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اس پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے بغیر کسی کراہت کے مسجد میں جنازہ پڑھا جا سکتا، البتہ مسجد سے باہر پڑھنا افضل اور بہتر ہے۔ واللہ اعلم

وضاحت:
«بيضاء» سہل اور سہیل رضی اللہ عنہ کی والدہ کا لقب ہے۔ ان کا نام دعا بنت جحدم فھریہ ہے۔ اور ان کے خاوند کا نام وہب بن ربیعہ قریشی فہری ہے۔ سہل اور سہیل کی اولاد تھے۔ حضرت سہل رضی اللہ عنہ تو ان لوگوں میں سے تھے جنھوں نے قریش کے اس صحیفے کو پاش پاش کیا تھا جس میں قریش نے بنو ہاشم اور مسلمانوں سے مقاطعہ کی قراردار پاس کی تھی۔ ایک قول کے مطابق انہوں نے اپنے اسلام کے قبول کا اظہار مکہ ہی میں کر دیا تھا۔ اور ایک قول کے مطابق انہوں نے اپنے اسلام لانے کو چھپائے رکھا۔ اسی حالت میں بدر میں زبردستی حاضر کیے گئے۔ مسلمانوں نے انہیں بھی قیدی بنا لیا مگر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے شہادت دی کہ میں نے انہیں مکہ میں نماز پڑھتے دیکھا ہے تو ان کہ شہادت پر آزادی دے دی گئی۔ انہوں نے مدینے میں وفات پائی۔ رہے حضرت سہیل رضی اللہ عنہ تو وہ قدیم الاسلام تھے۔ حبشہ کی ہجرت اور ہجرت مدینہ دونوں میں شریک رہے۔ بدر اور باقی تمام غزوات میں شامل ہوئے۔ غزوہ تبوک 9 ہجری کے بعد مدینہ میں وفات پائی۔ بیضاء کے تین بیٹے مشہور تھے۔ ان دو کے علاوہ تیسرے حضرت صفوان رضی اللہ عنہ تھے جنہوں نے غزوہ بدر میں جام شہادت نوش کیا۔ اور ایک قول یہ بھی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کافی عرصہ بعد وفات پائی ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 452   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1518  
´نماز جنازہ مسجد میں پڑھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل بن بیضاء رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ مسجد ہی میں پڑھی۔ ابن ماجہ کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث زیادہ قوی ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1518]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ کے فرمان کا مطلب یہ ہے کہ مسجد میں نماز جنازہ کا جواز زیادہ صحیح ہے۔
کیونکہ منع والی حدیث (1517)
کی نسبت جواز والی حدیث (1518)
زیادہ صحیح ہے۔

(2)
رسول اللہ ﷺنے اگرچہ بعض افراد کا جنازہ مسجد میں ادا کیا ہے۔
تا ہم عام طور پر نماز جنازہ باہر میدان میں ادا کیاجاتاتھا۔
جہاں عید وغیرہ بھی پڑھتے تھے۔
یہ جگہ مصلیٰ کہلاتی تھی۔
دیکھئے: (صحیح البخاري، الجنائز، باب الصلاۃ علی الجنائز بالمصلی والمسجد، حدیث: 1328)

(3)
اس حدیث میں ان لوگوں کا رد ہے۔
جو مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے کو ممنوع قرار دیتے ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1518   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1033  
´مسجد میں نماز جنازہ پڑھنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سہیل بن بیضاء ۱؎ کی نماز جنازہ مسجد میں پڑھی ۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1033]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
بیضاء کے تین بیٹے تھے جن کے نام:
سہل سہیل اورصفوان تھے اوران کی ماں کا نام رعدتھا،
بیضاء ان کا وصفی نام ہے،
اوران کے باپ کا نام وہب بن ربیعہ قرشی فہری تھا۔

2؎:
اس سے مسجد میں صلاۃِ جنازہ پڑھنے کا جواز ثابت ہوتاہے،
اگرچہ نبی اکرمﷺ کا معمول مسجد سے باہرپڑھنے کا تھا،
یہی جمہورکا مذہب ہے جولوگ عدام جواز کے قائل ہیں ان کی دلیل ابوہریرہ کی روایت (من صلى على جنازة في المسجد فلا شيء له) ہے جس کی تخریج ابوداؤد نے کی ہے،
جمہوراس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ یہ روایت ضعیف ہے قابل استدلال نہیں،
دوسرا جواب یہ ہے کہ مشہوراورمحقق نسخے میں (فلا شيء له) کی جگہ (فلا شيء عليه) ہے اس کے علاوہ اس کے اوربھی متعدد جوابات دیئے گئے ہیں دیکھئے: (تحفة الاحوذي:
ج 2 ص 146)

   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1033   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3190  
´مسجد میں نماز جنازہ پڑھنا۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیضاء کے دونوں بیٹوں سہیل اور اس کے بھائی کی نماز جنازہ مسجد میں پڑھی۔ [سنن ابي داود/كتاب الجنائز /حدیث: 3190]
فوائد ومسائل:
مسجد میں نماز جنازہ پڑھ لینے میں کوئی حرج کی بات نہیں۔
اور اس میں ان لوگوں کا رد ہے۔
جو میت کو ناپاک خیال کرتے ہیں۔
یا جو لا یعنی اوہام کا شکارہوتے ہیں۔
کہ کہیں اس سے کوئی آلائش نہ نکل آئے۔
تاہم عید گاہ میں پڑھنا افضل ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3190   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.