الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
Commercial Transactions (Kitab Al-Buyu)
21. باب فِي مِقْدَارِ الْعَرِيَّةِ
21. باب: بیع عریہ کس مقدار تک درست ہے؟
Chapter: Regarding Estimating For ’Araya.
حدیث نمبر: 3364
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن مسلمة، حدثنا مالك، عن داود بن الحصين، عن مولى ابن ابي احمد، قال ابو داود: وقال لنا القعنبي: فيما قرا على مالك، عن ابي سفيان واسمه قزمان مولى ابن ابي احمد، عن ابي هريرة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" رخص في بيع العرايا فيما دون خمسة اوسق" شك داود بن الحصين، قال ابو داود: حديث جابر، إلى اربعة اوسق.
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْحُصَيْنِ، عَنْ مَوْلَى ابْنِ أَبِي أَحْمَدَ، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَقَالَ لَنَا الْقَعْنَبِيُّ: فِيمَا قَرَأَ عَلَى مَالِكٍ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ وَاسْمُهُ قُزْمَانُ مَوْلَى ابْنِ أَبِي أَحْمَدَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" رَخَّصَ فِي بَيْعِ الْعَرَايَا فِيمَا دُونَ خَمْسَةِ أَوْسُقٍ" شَكَّ دَاوُدُ بْنُ الْحُصَيْنِ، قَالَ أَبُو دَاوُد: حَدِيثُ جَابِرٍ، إِلَى أَرْبَعَةِ أَوْسُقٍ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ وسق سے کم یا پانچ وسق تک عرایا کے بیچنے کی رخصت دی ہے (یہ شک داود بن حصین کو ہوا ہے)۔ ابوداؤد کہتے ہیں: جابر کی حدیث میں چار وسق تک ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/البیوع 83 (2190)، والمساقاة 17 (2382)، صحیح مسلم/البیوع 14 (1541)، سنن الترمذی/البیوع 63 (1301)، سنن النسائی/البیوع 33 (4545)، (تحفة الأشراف: 14943)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/237) (صحیح)» ‏‏‏‏

Narrated Abu Hurairah: The Messenger of Allah ﷺ gave license regarding the sale of Araya when the amount was less then five wasqs or five wasqs. Dawud bin al-Husain was doubtful. Abu Dawud said: The tradition by Jabir indicates up to four wasqs.
USC-MSA web (English) Reference: Book 22 , Number 3358


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (2382) صحيح مسلم (1541)

   صحيح البخاري2382عبد الرحمن بن صخررخص النبي في بيع العرايا بخرصها من التمر فيما دون خمسة أوسق
   صحيح البخاري2190عبد الرحمن بن صخررخص في بيع العرايا في خمسة أوسق
   صحيح مسلم3892عبد الرحمن بن صخررخص في بيع العرايا بخرصها فيما دون خمسة أوسق
   جامع الترمذي1301عبد الرحمن بن صخربيع العرايا فيما دون خمسة أوسق
   سنن أبي داود3364عبد الرحمن بن صخربيع العرايا فيما دون خمسة أوسق
   سنن النسائى الصغرى4545عبد الرحمن بن صخررخص في العرايا أن تباع بخرصها في خمسة أوسق
   موطا امام مالك رواية ابن القاسم492عبد الرحمن بن صخرارخص فى بيع العرايا بخرصها فيما دون خمسة اوسق؛ او فى خمسة اوسق شك داود فى خمسة او دون خمسة
   بلوغ المرام713عبد الرحمن بن صخررخص في بيع العرايا بخرصها فيما دون خمسة اوسق او في خمسة اوسق

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 492  
´بیع عرایا`
«. . .ان رسول الله صلى الله عليه وسلم ارخص فى بيع العرايا بخرصها فيما دون خمسة اوسق؛ او فى خمسة اوسق شك داود فى خمسة او دون خمسة. . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «عَريهّ» والے کو درختوں پر لگی ہوئی کھجوروں یا انگوروں کو اندازے سے (اُکّا) بیچنے کی اجازت دی بشرطیکہ یہ پانچ وسق یا پانچ وسق سے کم ہوں، پانچ وسق یا پانچ وسق سے کم میں داود (بن الحصین راوی)کو شک ہے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 492]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 2190، ومسلم 75/541، من حديث مالك به]

تفقه:
➊ کھجور کا درخت جس کا پھل مالک کسی دوسرے شخص کو بطور تحفہ یا بطور صدقہ عاریتاً کھانے کے لئے دے تو وہ عُریہ کہلاتا ہے جس کی جمع عرایا ہے۔ بعض علماء کہتے ہیں کہ یہ انگور وغیرہ پھلوں میں بھی ہو سکتا ہے۔
➋ محمد بن اسحاق بن یسار المدنی نے فرمایا: عریہ سے مراد یہ ہے کہ کوئی آدمی کسی کو کھجوروں کے درخت ہبہ کر دے پھر اس شخص پر ان کی دیکھ بھال مشکل ہو تو وہ اندازے سے کھجوریں لے کر انھیں بیچ دے۔ [سنن ابي داؤد: 3366 وسنده صحيح]
➌ بعض علماء کہتے ہیں کہ عُریہ صرف اسی کو بیچنے کی اجازت ہے جس نے کسی دوست یا غریب کو یہ درخت اس سال کے پھل کے لئے تحفتاً دیا ہے یعنی یہ سودا صرف مالک ہی کر سکتا ہے۔
➍ یہ حدیث آنے والی حدیث [158] کے عموم کی تخصیص ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث\صفحہ نمبر: 157   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 713  
´بیع عرایا، درختوں اور (ان کے) پھلوں کی بیع میں رخصت`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع عرایا میں اجازت و رخصت عنایت فرما دی۔ بایں صورت کہ تازہ کھجوروں کو خشک کے عوض اندازے سے فروخت کر لیا جائے، جبکہ یہ پانچ وسق کی مقدار سے کم ہوں، یا پھر پانچ وسق ہوں۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 713»
تخریج:
«أخرجه البخاري، البيوع، باب بيع الثمر علي رؤوس النخل بالذهب أو الفضة، حديث:2190، ومسلم، البيوع، باب تحريم بيع الرطب بالتمر إلا في العرايا، حديث:1541.»
تشریح:
1. اس حدیث میں پانچ وسق سے کم یا زیادہ سے زیادہ پانچ وسق تک فروخت کی اجازت ہے‘ مگر یہ راوی کا شک ہے۔
جس راوی کو شک ہے اس کا نام داود بن حصین ہے۔
اس شک کی وجہ سے پانچ وسق سے کم مقدار کی فروخت ہی درست ہوگی۔
ایک وسق میں تقریباً چار من ہوتے ہیں تو پانچ وسق کی مقدار تقریباً بیس من ہوئی۔
اس طرح گویا بیس من سے کم تک کی فروخت کی اجازت ہے۔
2. اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خرص‘ یعنی اندازہ و تخمینہ شرع میں جائز ہے بشرطیکہ تخمینہ لگانے والا اس فن سے بخوبی واقفیت رکھتا ہو اور کسی کی رو رعایت کیے بغیر ایمان داری سے اندازہ لگاتا ہو‘ ایسی صورت میں ایک آدمی کا تخمینہ بھی درست تسلیم کیا جائے گا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 713   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3364  
´بیع عریہ کس مقدار تک درست ہے؟`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ وسق سے کم یا پانچ وسق تک عرایا کے بیچنے کی رخصت دی ہے (یہ شک داود بن حصین کو ہوا ہے)۔ ابوداؤد کہتے ہیں: جابر کی حدیث میں چار وسق تک ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب البيوع /حدیث: 3364]
فوائد ومسائل:
ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے۔
اور ایک صاع تقریبا ڈھائی کلو کا اس حساب سے ایک وسق کا وزن تقریبا 150 کلو اور پانچ وسق کا وزن تقریبا 750 کلو تقریبا 19 من ہواس دور میں 5 وسق ایک اونٹ کا بوجھ سمجھا جاتا تھا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 3364   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.