الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
Establishing the Prayer and the Sunnah Regarding Them
176. . بَابٌ في حُسْنِ الصَّوْتِ بِالْقُرْآنِ
176. باب: قرآن مجید کو اچھی آواز سے پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1337
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن احمد بن بشير بن ذكوان الدمشقي ، حدثنا الوليد بن مسلم ، حدثنا ابو رافع ، عن ابن ابي مليكة ، عن عبد الرحمن بن السائب ، قال: قدم علينا سعد بن ابي وقاص وقد كف بصره، فسلمت عليه، فقال: من انت؟ فاخبرته، فقال: مرحبا بابن اخي، بلغني انك حسن الصوت بالقرآن، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" إن هذا القرآن نزل بحزن، فإذا قراتموه فابكوا، فإن لم تبكوا فتباكوا وتغنوا به، فمن لم يتغن به فليس منا".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ بَشِيرِ بْنِ ذَكْوَانَ الدِّمَشْقِيُّ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو رَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ السَّائِبِ ، قَالَ: قَدِمَ عَلَيْنَا سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ وَقَدْ كُفَّ بَصَرُهُ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: مَنْ أَنْتَ؟ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: مَرْحَبًا بِابْنِ أَخِي، بَلَغَنِي أَنَّكَ حَسَنُ الصَّوْتِ بِالْقُرْآنِ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ نَزَلَ بِحُزْنٍ، فَإِذَا قَرَأْتُمُوهُ فَابْكُوا، فَإِنْ لَمْ تَبْكُوا فَتَبَاكَوْا وَتَغَنَّوْا بِهِ، فَمَنْ لَمْ يَتَغَنَّ بِهِ فَلَيْسَ مِنَّا".
عبدالرحمٰن بن سائب کہتے ہیں کہ ہمارے پاس سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ آئے، وہ نابینا ہو گئے تھے، میں نے ان کو سلام کیا، تو انہوں نے کہا: تم کون ہو؟ میں نے انہیں (اپنے بارے میں) بتایا: تو انہوں نے کہا: بھتیجے! تمہیں مبارک ہو، مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم قرآن اچھی آواز سے پڑھتے ہو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: یہ قرآن غم کے ساتھ اترا ہے لہٰذا جب تم قرآن پڑھو، تو رؤو، اگر رو نہ سکو تو بہ تکلف رؤو، اور قرآن پڑھتے وقت اسے اچھی آواز کے ساتھ پڑھو ۱؎، جو قرآن کو اچھی آواز سے نہ پڑھے، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3900، ومصباح الزجاجة: 469) وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصلاة 355 (1469) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس میں راوی ابورافع، اسماعیل بن رافع ضعیف ومترو ک ہیں، لیکن آخری جملہ «وتغنوا به» صحیح ہے، کیونکہ صحیح بخاری میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے، (البخاری 13/ 50 و مسلم (1/545)

وضاحت:
۱؎: حدیث میں «تغنى» کا لفظ ہے، اور «تغنى» کا معنی گانا ہے، قرآن میں «تغنى» نہیں ہو سکتی، لہذا «تغنى» سے یہ مراد ہو گا کہ باریک آواز سے درد کے ساتھ اس کو پڑھنا بایں طور کہ پڑھنے والے پر اور سننے والے سب پر اثر ہو، اور دلوں میں اللہ کا خوف اور خشوع پیدا ہو، اور تجوید کے قواعد کی رعایت باقی رہے، کلمات اور حروف میں کمی اور بیشی نہ ہو، سفیان بن عیینہ نے کہا: «تغنی بالقرآن» کا یہ معنی ہے کہ قرآن کو دولت لازوال سمجھے، اور دنیا داروں سے غنی یعنی بے پرواہ رہے۔

It was narrated that ‘Abdur-Rahman bin Sa’ib said: “Sa’d bin Abu Waqqas came to us when he had become blind. I greeted him with Salam and he said: ‘Who are you?’ So I told him, and he said: ‘Welcome, O son of my brother. I have heard that you recite Qur’an in a beautiful voice. I heard the Messenger of Allah (ﷺ) say: “This Qur’an was revealed with sorrow, so when you recite it, then weep. If you cannot weep then pretend to weep, and make your voice melodious in reciting it. Whoever does not make his voice melodious, he is not one of us.”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
انظر الحديث الآتي (4196) مختصرًا
قال البو صيري: ”فيه أبو رافع واسمه: إسماعيل بن رافع،ضعيف متروك“
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 424

   سنن أبي داود1469سعد بن مالكليس منا من لم يتغن بالقرآن
   سنن ابن ماجه4196سعد بن مالكابكوا فإن لم تبكوا فتباكوا
   سنن ابن ماجه1337سعد بن مالكالقرآن نزل بحزن فإذا قرأتموه فابكوا فإن لم تبكوا فتباكوا تغنوا به فمن لم يتغن به فليس منا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1337  
´قرآن مجید کو اچھی آواز سے پڑھنے کا بیان۔`
عبدالرحمٰن بن سائب کہتے ہیں کہ ہمارے پاس سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ آئے، وہ نابینا ہو گئے تھے، میں نے ان کو سلام کیا، تو انہوں نے کہا: تم کون ہو؟ میں نے انہیں (اپنے بارے میں) بتایا: تو انہوں نے کہا: بھتیجے! تمہیں مبارک ہو، مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم قرآن اچھی آواز سے پڑھتے ہو، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: یہ قرآن غم کے ساتھ اترا ہے لہٰذا جب تم قرآن پڑھو، تو رؤو، اگر رو نہ سکو تو بہ تکلف رؤو، اور قرآن پڑھتے وقت اسے اچھی آواز کے ساتھ پڑھو ۱؎، جو قرآن کو اچھی آواز سے نہ پڑھے، وہ ہم میں سے نہیں ہے۔۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1337]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔
نیز دیگر محققین نے بھی اسے ضعیف قرار دیا ہے۔
تاہم دکتور بشار عواد سنن ابن ماجہ کی تحقیق میں لکھتے ہیں۔
کہ مذکورہ روایت سنداً تو ضعیف ہے۔
لیکن اس کا آخری جملہ (وَتَغَنَّوْا بِهِ فَمَنْ لَمْ يَتَغَنَّ بِهِ فَلَيْسَ مِنَّا)
 اور قرآن مجید کواچھی آواز سے پڑھو صحیح ہے کیونکہ یہی مسئلہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے صحیح بخاری میں مروی ہے۔
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ (لَيْسَ مِنَّا مَن لَّمْ يَتَغَنَّ بِالْقُرْآنِ)
 جوشخص قرآن کو خوش الحانی سے نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں لہٰذا اس جملے کے سوا باقی روایت سنداً ضعیف ہے۔
تفصیل کے لئے دیکھئے: (سنن ابن ماجة، للدکتور بشا رعواد، حدیث: 1337)

(2)
اس حدیث کے آخری جملے (وَتَغَنَّوْا بِهِ فَمَنْ لَمْ يَتَغَنَّ)
کا ایک دوسرا مفہوم بھی ہے۔
جسے علامہ خطابی نے ذکر کیا ہے۔
لم يتغن بمعنی لم يستغن ہے۔
یعنی جو شخص قرآن مجید پڑھ کر اس کا علم حاصل کرکے طلب دنیا اوردیگر لا یعنی علوم بالخصوص لغو قسم کے شعر وسخن سے بے پرواہ نہ ہوجائے۔
تو وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ (معالم السنن 138/2)
 مقصد یہ ہے کہ قاری قرآن اور عالم دین کو چاہیے کہ اس شرف کے حاصل ہو جانے پر دنیا کا مال ودولت جمع کرنے اور لغو مشاغل سے بالاتر رہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1337   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.