الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
The Chapters on Marriage
60. بَابٌ في الزَّوْجَيْنِ يُسْلِمُ أَحَدُهُمَا قَبْلَ الآخَرِ
60. باب: میاں بیوی میں سے کوئی دوسرے سے پہلے مسلمان ہو تو اس کے حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 2009
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن خلاد ، ويحيى بن حكيم ، قالا: حدثنا يزيد بن هارون ، انبانا محمد بن إسحاق ، عن داود بن الحصين ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ،" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم رد ابنته على ابي العاص بن الربيع بعد سنتين بنكاحها الاول".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ خَلَّادٍ ، وَيَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَنْبَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ الْحُصَيْنِ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ،" أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَدَّ ابْنَتَهُ عَلَى أَبِي الْعَاصِ بْنِ الرَّبِيعِ بَعْدَ سَنَتَيْنِ بِنِكَاحِهَا الْأَوَّلِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی زینب رضی اللہ عنہا کو ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ کے پاس دو سال کے بعد اسی پہلے نکاح پر بھیج دیا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الطلاق 24 (2240)، سنن الترمذی/النکاح 42 (1143)، (تحفة الأشراف: 6073)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/217، 261، 351) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: چونکہ ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ نے صلح حدیبیہ (سن ۶ ہجری) سے پہلے اسلام قبول کر لیا تھا اس لیے زینب رضی اللہ عنہا کی واپسی کے لیے نئے نکاح کی ضرورت نہیں پڑی، مشرکین پر مسلمان عورتوں کو حرام قرار دینے کا ذکر صلح حدیبیہ کے مکمل ہونے کے بعد نازل ہونے والی آیت میں کیا گیا ہے، لہذا اس مدت کے دوران نکاح فسخ نہیں ہوا کیونکہ اس بارے میں کوئی شرعی حکم تھا ہی نہیں، اور جب نکاح فسخ نہیں ہوا تو نئے نکاح کی ضرورت پڑے گی ہی نہیں، رہی «عمرو بن شعیب عن أبیہ عن جدہ» والی روایت جو آگے آ رہی ہے تو وہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کی اس حدیث کا معارضہ نہیں کر سکتی کیونکہ وہ حجاج بن أرطاۃ کی وجہ سے ضعیف ہے، یہاں یہ واضح رہے کہ زینب رضی اللہ عنہا نے ۲ ھ میں یا ۳ ھ کی ابتداء میں ہجرت کی، اور ان کی وفات ۸ ھ کے شروع میں ہوئی ہے، اس طرح ان کی ہجرت اور وفات کے درمیان کل پانچ برس چند ماہ کا وقفہ ہے، لہذا ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ کا قبول اسلام اور زینب رضی اللہ عنہا کی ان کو واپسی اسی مدت کے دوران عمل میں آئی، اور صحیح یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان کا قبول اسلام صلح حدیبیہ سے پہلے کا ہے، رہا یہ مسئلہ کہ زینب کی واپسی کتنے سال بعد ہوئی تو اس سلسلہ میں روایتیں مختلف ہیں، بعض میں دو سال، بعض میں تین سال اور بعض میں چھ سال کا ذکر ہے، لیکن صحیح ترین روایت یہ ہے کہ ان کی واپسی تین سال بعد ہوئی تھی، تین سال مکمل تھے اور کچھ مہینے مزید گزرے تھے۔

It was narrated from Ibn 'Abbas that: the Messenger of Allah returned his daughter to Abul-'As bin Rabi' after two years, on the basis of the first marriage contract.
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
سنن أبي داود (2240) ترمذي (1143)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 450

   جامع الترمذي1143عبد الله بن عباسرد النبي ابنته زينب على أبي العاصي بن الربيع بعد ست سنين بالنكاح الأول ولم يحدث نكاحا
   سنن أبي داود2240عبد الله بن عباسرد رسول الله ابنته زينب على أبي العاص بالنكاح الأول لم يحدث شيئا
   سنن ابن ماجه2009عبد الله بن عباسرد ابنته على أبي العاص بن الربيع بعد سنتين بنكاحها الأول
   بلوغ المرام861عبد الله بن عباسابنته زينب على ابي العاص بن الربيع بعد ست سنين بالنكاح الاول ولم يحدث نكاحا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2009  
´میاں بیوی میں سے کوئی دوسرے سے پہلے مسلمان ہو تو اس کے حکم کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی زینب رضی اللہ عنہا کو ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ کے پاس دو سال کے بعد اسی پہلے نکاح پر بھیج دیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 2009]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
  مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قراردیا ہے جبکہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔
بنا بریں اگر عورت اپنے خاوند سے پہلے اسلام قبول کرلے تو اس کا اپنے خاوند سے ازدواجی تعلق قائم رکھنا جائز نہیں رہتا۔
ایک دفعہ ماہواری آنے کے بعد عورت کے لیے جائز ہوتا ہے کہ کسی اور مرد سے نکاح کرلے۔ (صحیح البخاري، الطلاق، باب نکاح من اسلم من المشرکات وعدتهن، حدیث: 5286)

(2)
  اگر عورت دوسری جگہ نکاح نہ کرے، بلکہ خاوند کے مسلمان ہونے کا انتظار کرے تو جائز ہے۔
اگر خاوند طویل عرصے کے بعد بھی اسلام قبول کرے، تب بھی سابقہ نکا ح کے ساتھ وہ ازدواجی زندگی گزارسکتے ہیں، البتہ امام بخاری نے بعض صحابہ و تابعین کے فتوے ذکر کیے ہیں کہ اگر عورت پہلے مسلمان ہو جائے، پھر خاوند مسلمان ہو، خواہ عدت نہ گزری ہو، تب بھی نیا نکاح کرنا ضروری ہے۔ (صحیح البخاري، الطلاق، باب إذا أسلمت المشرکة أو النصرانیة تحت الذمي أو الحربي، حدیث: 5288)
جبکہ امام ابن قیم  اس کی بابت یوں لکھتے ہیں کہ ہمیں کسی شخص کے متعلق معلوم نہیں کہ قبول اسلام کے بعد نبئ اکرم ﷺ نے اس کے نکاح کی تجدید کی ہو۔
اس قسم کسی صورت میں دو کیفیتیں ہوتی تھیں۔
یا تو افتراق ہوجاتا تھا اور عورت کسی اور سے نکاح کرلیتی تھی یا سابقہ نکاح قائم رہتا حتی کہ شوہر مسلمان ہوجاتا۔
محض اسلام قبول کرلینے سے کامل تفریق ہونا یا عدت کا اعتبار کرنا کرانا، کسی کے متعلق معلوم نہیں کہ نبئ اکرم ﷺ نےایسے کیا ہو، حالانکہ آپ کے زمانے میں ایک کثیر تعداد میں لوگ مسلمان ہوئے تھے۔
دیکھئے: (زادالمعاد، جلد چہارم، حکمه ﷺ فی الزوجین یسلم أحدهما قبل الآخر)
علاوہ ازیں حضرت زینت اور ان کے خاوند کے بارے میں ذیل کی حدیث میں نکاح جدید سے لوٹانے کا ذکر آیا ہے تو اس کی بابت بعض علماء پہلی حدیث کو اور بعض نے دوسری حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اور بعض نے ان کے درمیان تطبیق دی ہے۔
تفصیل کےلیے دیکھئے: (فتح الباري، الطلاق، باب إذاأسلمت المشرکة.....، و إرواء الغلیل: 6؍339، 342، رقم: 1921، 1922، وصحیح سنن إبي داؤد (مفصل)
: 7؍10، 11 رقم: 1938)

   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2009   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 861  
´کفو (مثل، نظیر اور ہمسری) اور اختیار کا بیان`
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی زینب رضی اللہ عنہا کو ابوالعاص کی طرف چھ سال بعد پہلے نکاح کے ساتھ واپس فرما دیا تھا۔ نیا نکاح نہیں کیا تھا۔ اسے احمد اور چاروں نے سوائے نسائی کے روایت کیا ہے اور احمد اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 861»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الطلاق، باب إلي متي ترد عليه امرأته إذا أسلم بعدها، حديث:2240، والترمذي، النكاح، حديث:1143، وابن ماجه، النكاح، حديث:2009، وأحمد:1 /261، 351، 6 /366، والحاكم:2 /200 وصححه، ووافقه الذهبي.* داود بن الحصين ثقة ولكن قال ابن المديني: "ماروي عن عكرمة فمنكر" فالجرح مقدم ومفسر، وللحديث شواهد مرسلة.»
تشریح:
وضاحت: «حضرت زینب رضی اللہ عنہا» ‏‏‏‏ بنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔
یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں میں سب سے بڑی تھیں۔
ان کی والدہ ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا تھیں۔
ان سے ان کے خالہ زاد ابوالعاص بن ربیع نے نکاح کیا اور ایک بیٹا علی پیدا ہوا۔
وہ جب بلوغت کے قریب پہنچا تو فوت ہوگیا۔
فتح مکہ میں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی پر سوار تھا۔
حضرت زینب رضی اللہ عنہا کے بطن سے امامہ رضی اللہ عنہا بھی پیدا ہوئیں۔
حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے بدر کے بعد ہجرت کی اور ۸ ہجری کو فوت ہوئیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود انھیں قبر میں اتارا۔
«حضرت ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ» ‏‏‏‏ ان کا نام مقسم (میم کے نیچے کسرہ اور قاف ساکن) بن ربیع بن عبدالعزیٰ ہے۔
ایک قول یہ ہے کہ ان کا نام لقیط تھا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد تھے۔
حضرت زینب رضی اللہ عنہا ان کے نکاح میں تھیں۔
بدر کے روز حالت کفر میں قید کر لیے گئے‘ پھر فدیہ لیے بغیر انھیں رہا کر دیا گیا اور ان سے کہا گیا کہ زینب رضی اللہ عنہا کو ہمارے پاس بھیج دینا۔
انھوں نے ایسا ہی کیا اور اس کے بعد مدینہ کی طرف ہجرت کی۔
ابوالعاص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عزیز اور محبوب تھے۔
جنگ یمامہ میں شہید ہوئے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 861   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1143  
´اگر مشرک و کافر میاں بیوی میں سے کوئی اسلام لے آئے تو اس کا کیا حکم ہے؟`
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی زینب کو ابوالعاص بن ربیع رضی الله عنہ کے پاس چھ سال بعد ۱؎ پہلے نکاح ہی پر واپس بھیج دیا اور پھر سے نکاح نہیں کیا۔ [سنن ترمذي/كتاب النكاح/حدیث: 1143]
اردو حاشہ:
وضاخت:


1؎:
احمد،
ابوداوداورابن ماجہ کی ایک روایت میں ہے کہ آپﷺ نے دوسال بعد انہیں واپس کیا،
اور ایک روایت میں ہے تین سال کے بعد،
حافظ ابن حجر ؒ نے ان روایات میں تطبیق اس طرح سے دی ہے کہ چھ سال سے مراد زینب کی ہجرت اور ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے درمیان کا واقعہ ہے،
اور دو اورتین سے مراد آیت کریمہ ﴿لَاهُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ﴾ کے نازل ہونے اور ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے درمیان کی مدت ہے جودوسال اورچند مہینوں پرمشتمل۔

نوٹ:
(متابعات وشواہد کی بناپر یہ حدیث صحیح ہے،
ورنہ داؤد کی روایت عکرمہ سے متکلم فیہ ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1143   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2240  
´جب مرد عورت کے بعد اسلام قبول کرے تو کب تک عورت کو اسے لوٹایا جا سکتا ہے؟`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی زینب رضی اللہ عنہا کو ابوالعاص کے پاس پہلے نکاح پر واپس بھیج دیا اور نئے سرے سے کوئی نکاح نہیں پڑھایا۔ محمد بن عمرو کی روایت میں ہے چھ سال کے بعد ایسا کیا اور حسن بن علی نے کہا: دو سال کے بعد۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الطلاق /حدیث: 2240]
فوائد ومسائل:
یہ روایت شیخ البانی ؒ کے نزدیک سنین کے ذکر کے بغیرصحیح ہے اور حافظ ابن حجر نے چھ سال یا دو سال کے ذکر کو صحیح سمجھتے ہوئے ان کے درمیان یہ تطبیق لکھی ہےکہ حضرت زینب رضی اللہ عنہ کی ہجرت اور ابو العاص رضی اللہ عنہ کے اسلام اور ہجرت میں چھ سال کا وقفہ تھا مگر آیت کریمہ: (لا هُنَّ حِلٌّ لَّهُم) (الممتحنه:10) مسلمان عورتیں کافروں کے لیے حلال نہیں۔
کے نزول اور ابو العاص کے اسلام وہجرت کرکے آنے میں دو سال اور کچھ ماہ کا وقفہ تھا۔
(شرح حدیث:5288) صحیح یہ ہے کہ ابو العاص نے مذکورہ آیت کے نزول سے پہلے اسلام قبول کیا تھا اور ہجرت کی تھی۔
زادالمعاد میں حافظ ابن القیم ؒ رقم طراز ہیں کہ ہمیں کسی شخص کے متعلق معلوم نہیں کہ قبول اسلام کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اس کے نکاح کی تجدید کی ہو۔
اس قسم کی صورت میں دو کیفیتیں ہوتی تھیں۔
یا تو افتراق ہوجاتا تھا اور عورت کسی اور سے نکاح کر لیتی تھی یا سابقہ نکاح قائم رہتا حتی کہ شوہر مسلمان ہوجاتا۔
محض اسلام قبول کرلینے سے کامل تفریق ہونا یا عدت کا اعتبار کرنا کرانا کسی کے متعلق معلوم نہیں کہ نبیﷺنے ایسا کیا ہو حالانکہ آپ کے زمانے میں ایک کثیر تعداد میں لوگ مسلمان ہوئے تھے۔
(زاد المعاد جلد چہارم، حکمه في الزوجین یسلم أحدھما قبل الآخر) علاوہ ازیں حضرت زینب اور ان کے خاوند کے بارے میں ایک دوسری روایت نکاح جدید کے ساتھ لوٹانے کی بھی آتی ہے۔
بعض علماء نے ان میں پہلی حدیث کو اور دیگر بعض علماء نے دوسری حدیث کو صحیح قرار دیا ہے اور بعض نے ان کے درمیا ن تطبیق دی ہے۔
(تفصیل کے لیے فتح الباری کا محولہ مقام فرمایا جائے)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 2240   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.