الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: تطبیق کے احکام و مسائل
The Book of The At-Tatbiq (Clasping One\'s Hands Together)
25. بَابُ : مَا يَقُولُ فِي قِيَامِهِ ذَلِكَ
25. باب: رکوع سے کھڑے ہونے کے بعد قیام میں کیا پڑھے؟
Chapter: What is to be said when standing up (after bowing)
حدیث نمبر: 1069
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرني عمرو بن هشام ابو امية الحراني، قال: حدثنا مخلد، عن سعيد بن عبد العزيز، عن عطية بن قيس، عن قزعة بن يحيى، عن ابي سعيد، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم: كان يقول حين يقول:" سمع الله لمن حمده ربنا لك الحمد ملء السموات وملء الارض وملء ما شئت من شيء بعد اهل الثناء والمجد خير ما قال: العبد وكلنا لك عبد لا مانع لما اعطيت ولا ينفع ذا الجد منك الجد".
(مرفوع) أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ هِشَامٍ أَبُو أُمَيَّةَ الْحَرَّانِيُّ، قال: حَدَّثَنَا مَخْلَدٌ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ عَطِيَّةَ بْنِ قَيْسٍ، عَنْ قَزَعَةَ بْنِ يَحْيَى، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كَانَ يَقُولُ حِينَ يَقُولُ:" سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ مِلْءَ السَّمَوَاتِ وَمِلْءَ الْأَرْضِ وَمِلْءَ مَا شِئْتَ مِنْ شَيْءٍ بَعْدُ أَهْلَ الثَّنَاءِ وَالْمَجْدِ خَيْرُ مَا قَالَ: الْعَبْدُ وَكُلُّنَا لَكَ عَبْدٌ لَا مَانِعَ لَمَا أَعْطَيْتَ وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب «سمع اللہ لمن حمده» کہتے، تو «ربنا لك الحمد ملء السموات وملء الأرض وملء ما شئت من شىء بعد أهل الثناء والمجد خير ما قال العبد وكلنا لك عبد لا مانع لما أعطيت ولا ينفع ذا الجد منك الجد» اے اللہ، ہمارے رب! تیرا شکر ہے آسمان و زمین بھر، اور اس کے بعد تو جس چیز بھر چاہے، اے لائق تعریف و لائق مجد و شرف! بہتر ہے جو بندے نے کہا، اور ہم سب تیرے بندے ہیں، کوئی روکنے والا نہیں جسے تو دیدے، تیرے مقابلے میں مالداروں کی مالداری کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچائے گی کہتے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصلاة 40 (477)، سنن ابی داود/الصلاة 144 (847)، (تحفة الأشراف: 4281)، مسند احمد 3/87، 71 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

   سنن النسائى الصغرى1069سعد بن مالكسمع الله لمن حمده ربنا لك الحمد ملء السموات وملء الأرض وملء ما شئت من شيء بعد أهل الثناء والمجد خير ما قال العبد وكلنا لك عبد لا مانع لما أعطيت ولا ينفع ذا الجد منك الجد
   صحيح مسلم1071سعد بن مالكربنا لك الحمد ملء السماوات والأرض وملء ما شئت من شيء بعد أهل الثناء والمجد أحق ما قال العبد وكلنا لك عبد اللهم لا مانع لما أعطيت ولا معطي لما منعت ولا ينفع ذا الجد منك الجد
   سنن أبي داود847سعد بن مالكاللهم ربنا لك الحمد ملء السماء وملء الأرض وملء ما شئت من شيء بعد أهل الثناء والمجد أحق ما قال العبد وكلنا لك عبد لا مانع لما أعطيت
   بلوغ المرام233سعد بن مالك‏‏‏‏اللهم ربنا لك الحمد ملء السموات والارض وملء ما شئت من شيء ...

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 233  
´نماز کی صفت کا بیان`
«. . . وعن أبي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: كان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم إذا رفع رأسه من الركوع قال: «اللهم ربنا لك الحمد ملء السموات والأرض وملء ما شئت من شيء بعد أهل الثناء والمجد أحق ما قال العبد وكلنا لك عبد اللهم لا مانع لما أعطيت ولا معطي لما منعت ولا ينفع ذا الجد منك الجد» . رواه مسلم. . . .»
. . . سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رکوع سے اپنا سر اوپر اٹھاتے تو «اللهم ربنا لك الحمد ملء السموات والأرض وملء ما شئت من شيء بعد أهل الثناء والمجد أحق ما قال العبد وكلنا لك عبد اللهم لا مانع لما أعطيت ولا معطي لما منعت ولا ينفع ذا الجد منك الجد» کہتے تھے۔ (یعنی) اے اللہ! ہمارے آقا و پروردگار تعریف صرف تیرے ہی لئے ہے اتنی تعریف جس سے آسمان و زمین بھر جائے اور اس کے بعد ہر وہ چیز بھر جائے جسے تو چاہے۔ اے بزرگی اور تعریف کے مالک! تو اس کا زیادہ مستحق ہے جو کچھ بندہ کہے اور سبھی تیرے بندے ہیں۔ اے اللہ! جو کچھ تو عطا فرمائے اسے کوئی روکنے والا نہیں اور جسے تو ہی نہ دے اسے کوئی عطا کرنے والا نہیں اور کسی کو اس کی بزرگی اور بخت آپ (عذاب) کے مقابلے میں کوئی فائدہ نہیں دے سکتا۔ (مسلم) . . . [بلوغ المرام/كتاب الصلاة/باب صفة الصلاة: 233]

لغوی تشریح:
«مِلْءَ السَّمٰوَاتِ» «مِلْء» کا ہمزہ منصوب پڑھیں تو یہ مصدر، یعنی مفعول مطلق ہو گا اور مرفوع پڑھنے کی صورت میں یہ مبتدا محذوف کی خبر ہو گی۔
«مِنْ شَيْءٍ» «مَا شِئْتَ» کا بیان ہے، یعنی جو کچھ بھی تو چاہے۔
«بَعْدُ» مبنی علی الضم ہے کیونکہ اس کے بعد مضاف إلیہ محذوف ہے، البتہ نیت میں موجود ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آسمانوں اور زمین بھر کی حمد و ثنا کے بعد «اهل الثناء و الحمد» اگر «اهل» کے لام پر ضمہ پڑھیں تو اس صورت میں یہ «انت» مبتدا محذوف کی خبر بنے گا، یعنی تو بزرگی اور تعریف کا مالک ہے۔ اور حرف ندا کے محذوف ماننے کی صورت میں اسے منصوب بھی پڑھا گیا ہے۔ اور ثناء کے معنی زبان سے کسی کی تعریف کرنا ہیں جب کہ المجد عظمت و بزرگی کے معنی میں ہے۔
«أَحَقُّ مَا قَالَ الْعَبْدُ» «أَحَقُّ» رفعی حالت میں ہے اور ما موصولہ کی طرف مضاف ہے اور مبتدا محذوف کی خبر واقع ہو رہا ہے اور وہ ہے «رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ» کا قول۔ بندے کے اقوال و کلمات میں سے «رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ» والا قول سب سے زیادہ استحقاق رکھتا ہے کہ اسے کہا جائے۔ اور یہ بھی امکان ہے کہ یہ مبتدا ہو اور «اَللّٰهُمَّ! لَا مَانِعَ» خبر ہو۔ اور اس کا یہ قول کہ ہم سب تیرے بندے ہیں مبتدا اور خبر کے درمیان بطور جملہ معترضہ آیا ہو۔ لیکن پہلی تاویل زیادہ مناسب ہے۔
«ذَالجدِّ» صاحب بزرگی۔ جد کی جیم پر فتحہ ہے اور اس کے معنی ہیں: وافر حصہ، استغنا اور عظمت و غلبہ۔
«مِنْكَ» تیرے مؤاخذے اور گرفت سے، یا یہ معنی ہیں کہ تیرے ہاں جو پکڑ اور مؤاخذہ ہے۔ «اَلْجَدُّ» یہ مرفوع ہے اور «لَا يَنْفَعُ» کا فاعل ہے، یعنی کسی بڑے مالدار آدمی کو اس کی مالداری اور تونگری تیری پکڑ اور گرفت سے نہیں بچا سکتی۔ بس عمل صالح ہی وہاں نفع دے گا۔

فوائد و مسائل:
➊ یہ حدیث اس بات پر دلیل اور حجت ہے کہ قومہ کی حالت میں یہ دعا پڑھنا مسنون ومشروع ہے۔ جن حضرات نے اس دعا کو نفل نماز کے ساتھ مخصوص کیا ہے ان کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں۔ صرف اپنے ذہن کی بات ہے۔ صحیح مسلم میں براء بن عازب رضی اللہ عنہما کی روایت اس خیال کی تردید کے لیے کافی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ فرض نماز میں اس کا پڑھنا ثابت ہے۔ [صحيح مسلم، الصلاة، باب اعتدال أركان الصلاة۔۔۔، حديث: 471] اس دعا کے اس جملے «وَلَا يَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْكَ الْجَدُّ» سے واضح ہوتا ہے کہ کائنات کے مالک وخالق کے پاس محض دنیوی جاہ و جلال اور عظمت و بزرگی کچھ بھی کام نہ دے گی اور نہ کسی حسب ونسب کا امتیاز کچھ فائدہ مند ثابت ہو گا۔ وہاں تو عمل صالح کی قدر و قیمت ہو گی اور بس۔ کسی کا عالی نسب ہونا، بزرگوں کی اولاد ہونا اور کسی معروف و مشہور خاندان سے تعلق ہونا عذاب الٰہی سے نہیں چھڑا سکتا۔ اگر ایسا ہوتا تو سیدنا نوح علیہ السلام کا بیٹا، سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا باپ اور آخرالزمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی چچا ابوطالب، عتاب الٰہی اور عذاب الٰہی کا شکار نہ ہوتے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اپنے خاندان والوں کو بلا کر صاف طور پر کہہ دیا کہ عمل صالح کرو ورنہ اللہ کے عذاب سے بچنا مشکل ہے۔ اور اپنی لخت جگر سیدنا فاطمہ رضی اللہ عنہا سے صاف فرما دیا تھا کہ بیٹی! میں تجھے عذاب الٰہی سے ہرگز نہیں بچا سکتا، اس خوش فہمی میں نہ رہ جانا کہ میں نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کی لخت جگر ہوں۔ محض میری بیٹی ہونا تجھے اللہ تعالیٰ کے عذاب کی گرفت اور پکڑ سے نہیں بچا سکتا۔ اعمال صالحہ کر جو تجھے عذاب الٰہی سے بچا سکیں۔ [صحيح البخاري، الوصايا، باب هل يدخل النساء والولد فى الأقارب، حديث: 2753]
اولوالعزم پیغمبر اور خاص کر رسول آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنی اولاد سے یہ فرما دیں تو اور کون ہے جو غرور نسب میں مبتلا ہو کر بھی کامیاب و کامران ہو جائے؟
➋ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قومہ میں صرف سیدھا کھڑا ہونا ہی کافی نہیں ہے بلکہ مسنون دعاؤں میں سے کوئی دعا (مثلًا یہی دعا) پڑھنی چاہیے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 233   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 847  
´جب آدمی رکوع سے سر اٹھائے تو کیا کہے؟`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم «سمع الله لمن حمده» کہنے کے بعد یہ دعا پڑھتے تھے: «اللهم ربنا لك الحمد ملء السماء» اور مومل کے الفاظ «ملء السموات وملء الأرض وملء ما شئت من شىء بعد أهل الثناء والمجد أحق ما قال العبد وكلنا لك عبد لا مانع لما أعطيت»، محمود نے اپنی روایت میں: «ولا معطي لما منعت» کا اضافہ کیا ہے، پھر: «ولا ينفع ذا الجد منك الجد» میں سب متفق ہیں، بشر نے اپنی روایت میں: «ربنا لك الحمد» کہا «اللهم» نہیں کہا، اور محمود نے «اللهم» نہیں کہا، اور «ربنا لك الحمد» کہا۔ [سنن ابي داود/أبواب تفريع استفتاح الصلاة /حدیث: 847]
847۔ اردو حاشیہ:
➊ احادیث میں «ربنا لك الحمد»، «ربنا ولك الحمد»، «اللهم ربنا لك الحمد» اور «اللهم ربنا ولك الحمد» سب طرح سے آیا ہے اور سب جائز ہے۔
➋ امام اور مقتدی دونوں ہی یہ کلمات کہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 847   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.