الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: سفر میں قصر نماز کے احکام و مسائل
The Book of Shortening the Prayer When Traveling
حدیث نمبر: 1439
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا قتيبة، قال: حدثنا ابو عوانة، عن يحيى بن ابي إسحاق، عن انس، قال:" خرجت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم من المدينة إلى مكة، فلم يزل يقصر حتى رجع فاقام بها عشرا".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، قال: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ:" خَرَجْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْمَدِينَةِ إِلَى مَكَّةَ، فَلَمْ يَزَلْ يَقْصُرُ حَتَّى رَجَعَ فَأَقَامَ بِهَا عَشْرًا".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ سے مکہ جانے کے لیے نکلا تو آپ برابر قصر کرتے رہے یہاں تک کہ آپ واپس لوٹ آئے، آپ نے وہاں دس دن تک قیام کیا تھا۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تقصیر ال صلاة 1 (1081)، المغازي 52 (4297) مختصراً، صحیح مسلم/المسافرین 1 (693)، سنن ابی داود/الصلاة 279 (1233)، سنن الترمذی/الصلاة 275 (الجمعة 40) (548)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 76 (1077)، مسند احمد 3/187، 190، 282، سنن الدارمی/الصلاة 180 (1551)، ویأتی عند المؤلف فی باب 4 (برقم: 1453) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

   صحيح البخاري2951أنس بن مالكصلى بالمدينة الظهر أربعا والعصر بذي الحليفة ركعتين وسمعتهم يصرخون بهما جميعا
   صحيح البخاري4297أنس بن مالكأقمنا مع النبي عشرا نقصر الصلاة
   صحيح البخاري1089أنس بن مالكصليت الظهر مع النبي بالمدينة أربعا وبذي الحليفة ركعتين
   صحيح البخاري1546أنس بن مالكالمدينة أربعا وبذي الحليفة ركعتين ثم بات حتى أصبح بذي الحليفة فلما ركب راحلته واستوت به أهل
   صحيح البخاري1081أنس بن مالكخرجنا مع النبي من المدينة إلى مكة فكان يصلي ركعتين ركعتين حتى رجعنا إلى المدينة قلت أقمتم بمكة شيئا قال أقمنا بها عشرا
   صحيح البخاري1547أنس بن مالكصلى الظهر بالمدينة أربعا وصلى العصر بذي الحليفة ركعتين
   صحيح مسلم1583أنس بن مالكإذا خرج مسيرة ثلاثة فراسخ صلى ركعتين
   صحيح مسلم1581أنس بن مالكصلى الظهر بالمدينة أربعا وصلى العصر بذي الحليفة ركعتين
   صحيح مسلم1586أنس بن مالكخرجنا مع رسول الله من المدينة إلى مكة فصلى ركعتين ركعتين حتى رجع قلت كم أقام بمكة قال عشرا
   صحيح مسلم1582أنس بن مالكصليت مع رسول الله الظهر بالمدينة أربعا وصليت معه العصر بذي الحليفة ركعتين
   جامع الترمذي548أنس بن مالكخرجنا مع النبي من المدينة إلى مكة فصلى ركعتين
   جامع الترمذي546أنس بن مالكصلينا مع النبي الظهر بالمدينة أربعا وبذي الحليفة العصر ركعتين
   سنن أبي داود1201أنس بن مالكإذا خرج مسيرة ثلاثة فراسخ يصلي ركعتين
   سنن أبي داود1202أنس بن مالكصليت مع رسول الله الظهر بالمدينة أربعا والعصر بذي الحليفة ركعتين
   سنن أبي داود1233أنس بن مالكخرجنا مع رسول الله من المدينة إلى مكة فكان يصلي ركعتين حتى رجعنا إلى المدينة فقلنا هل أقمتم بها شيئا قال أقمنا بها عشرا
   سنن النسائى الصغرى1439أنس بن مالكخرجت مع رسول الله من المدينة إلى مكة فلم يزل يقصر حتى رجع فأقام بها عشرا
   سنن النسائى الصغرى1448أنس بن مالكصليت مع رسول الله بمنى ومع أبي بكر وعمر ركعتين ومع عثمان ركعتين صدرا من إمارته
   سنن النسائى الصغرى1453أنس بن مالكخرجنا مع رسول الله من المدينة إلى مكة فكان يصلي بنا ركعتين حتى رجعنا
   سنن النسائى الصغرى478أنس بن مالكصلى الظهر بالمدينة أربعا وصلى العصر بذي الحليفة ركعتين
   سنن النسائى الصغرى470أنس بن مالكصليت مع النبي الظهر بالمدينة أربعا وبذي الحليفة العصر ركعتين
   سنن ابن ماجه1077أنس بن مالكخرجنا مع رسول الله من المدينة إلى مكة فصلى ركعتين ركعتين حتى رجعنا قلت كم أقام بمكة قال عشرا
   بلوغ المرام345أنس بن مالكخرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم من المدينة إلى مكة،‏‏‏‏ فكان يصلي ركعتين ركعتين حتى رجعنا إلى المدينة
   المعجم الصغير للطبراني456أنس بن مالك يلبي بهما جميعا ، لبيك بعمرة وحجة
   مسندالحميدي1225أنس بن مالكصليت مع النبي صلى الله عليه وسلم الظهر بالمدينة أربعا، وصليت معه العصر بذي الحليفة ركعتين
   مسندالحميدي1249أنس بن مالكلبيك بحجة وعمرة معا

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 470  
´حضر میں ظہر کی نماز کی تعداد کا بیان۔`
ابن منکدر اور ابراہیم بن میسرہ سے روایت ہے کہ ان دونوں نے انس رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ میں ظہر کی نماز چار رکعت پڑھی، اور ذوالحلیفہ میں عصر کی نماز دو رکعت پڑھی ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 470]
470 ۔ اردو حاشیہ: مدینہ منورہ میں تو مکمل نماز پڑھی گئی، پھر سفر شروع ہو گیا، ذوالحلیفہ چونکہ شہر سے باہر ہے، سفر لمبا تھا، لہٰذا ذوالحلیفہ میں عصر کی نماز کا وقت آجانے پر قصر، یعنی دو رکعت پڑھی گئی۔ یاد رہے یہ حج کا سفر تھا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 470   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 478  
´سفر میں عصر کی نماز کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ظہر کی نماز چار رکعت، اور ذوالحلیفہ میں نماز عصر دو رکعت پڑھی۔ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 478]
478 ۔ اردو حاشیہ: وضاحت کے لیے دیکھیے سنن نسائی حدیث: 470 اور اس کا فائدہ۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 478   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1439  
´باب:`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ سے مکہ جانے کے لیے نکلا تو آپ برابر قصر کرتے رہے یہاں تک کہ آپ واپس لوٹ آئے، آپ نے وہاں دس دن تک قیام کیا تھا۔ [سنن نسائي/كتاب تقصير الصلاة فى السفر/حدیث: 1439]
1439۔ اردو حاشیہ:
➊ یہ حجۃ الوداع کی بات ہے اور یہ دس دن صرف مکے میں نہیں ٹھہرے تھے بلکہ مقامات حج منیٰ، مزدلفہ اور عرفات بھی اسی میں شامل ہیں۔ چار ذوالحجہ کو آپ مکہ مکرمہ پہنچے تھے۔ حج و عمرہ کے تمام ارکان ادا کرنے کے بعد چودہ ذوالحجہ کو آپ واپس مدینہ منورہ روانہ ہو گئے۔ کسی بھی جگہ آپ کا قیام چار دن سے زائد نہ تھا۔ اور چوتھا دن بھی دخول یا خروج کو شامل کر کے ہے، اسی لیے راجح بات یہ ہے کہ اگر قیام کی نیت تین (یا چار) دن کی ہے تو پھر وہ مسافر قصر نماز پڑھے، ورنہ شروع دن ہی سے پوری نماز پڑھنے، وہ اپنے آپ کو مسافر نہ سمجھے۔
➋ کم از کم وہ کتنی مسافت ہے جس کا ارادہ ہو تو انسان اس دوران میں نماز قصر کر سکتا ہے؟ اس بارے میں علمائے کرام کا اختلاف ہے۔ مختلف آراء ہیں۔ ایک رائے یہ ہے کہ اگر کسی کا اڑتالیس میل سفر کا قصد ہو تو وہ اپنے شہر یا بستی کی حدود سے نکلنے کے بعد قصر کر سکتا ہے۔ بطور دلیل ابن عباس رضی اللہ عنہا کی حدیث پیش کی جاتی ہے۔ آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: اے اہل مکہ! چار برید (اڑتالیس میل) سے کم سفر میں نماز قصر نہ کرو، جیسے مکہ سے عسفان تک۔ (سنن الدارقطني مع التعلیق المغني: 387/2، و السنن الکبریٰ للبیھقی: 137/3، 138) لیکن یہ روایت ضعیف اور ناقابل حجت ہے۔ اس کی سند میں ایک تو اسماعیل بن عیاش ہیں، غیر شامیوں سے ان کی روایت ضعیف ہوتی ہے۔ دوسرے عبدالوہاب بن مجاہد ہیں۔ یہ بھی ضعیف ہیں۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: «إرواء الغلیل، حدیث: 565» لہٰذا قصر کے لیے کم از کم اڑتالیس میل کی شرط درست نہیں، نیز کسی اور مستند دلیل سے بھی اس کی تائید نہیں ہوتی۔ اس کے متعلق صحیح اور صریح ترین جو حدیث منقول ہے وہ حضرت انس بن مالک کی حدیث ہے۔ یحییٰ بن یزید ہنائی کہتے ہیں: میں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے نماز قصر کرنے کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تین میل یا تین فرسخ کی مسافت پر جاتے تو دو رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔ یہ شک شعبہ کو ہوا ہے۔ تین میل کی مسافت کو فرسخ (فارسی میں فرسنگ) کہتے ہیں۔ اس طرح قصر کے لیے کم از کم مسافت نو میل ہوئی۔ تین میل کی بات چونکہ مشکوک ہے، اس لیے حجت نہیں اور تین فرسخ کی مسافت احتیاط و یقین پر مبنی ہے، اس لیے سفر کی مسافت (اپنے شہر کی حد چھوڑ کر) کم از کم نو میل، یعنی تقریباً 22 کلومیٹر ہو گی کیونکہ عربی میل کی مسافت انگریزی میل کی بہ نسبت زیادہ ہے۔ اور یہی موقف راحج ہے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 1439   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1077  
´جب مسافر کسی مقام پر ٹھہرے تو کتنے دنوں تک قصر کر سکتا ہے؟`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ سے مکہ کے لیے نکلے اور واپسی تک دو دو رکعت نماز پڑھتے رہے۔ یحییٰ کہتے ہیں: میں نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ کتنے دنوں تک مکہ میں رہے؟ کہا: دس دن تک۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1077]
اردو حاشہ:
فائده:
تردد کی صورت میں مدت کا تعین نہیں جتنا عرصہ بھی ٹھہریں نمازقصر اداکرسکتے ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1077   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 345  
´مسافر اور مریض کی نماز کا بیان`
سیدنا انس رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکل کر مدینہ سے مکہ تک کا سفر کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ واپسی تک دو، دو رکعتیں ہی ادا فرماتے رہے۔ (بخاری و مسلم) البتہ متن حدیث کے الفاظ بخاری کے ہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 345»
تخریج:
«أخرجه البخاري، تقصير الصلاة، باب ما جاء في التقصير، حديث:1081، ومسلم، صلاة المسافرين، باب صلاة المسافرين، حديث:693.»
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب آدمی اپنے گھر سے سفر کی نیت سے نکل پڑے تو وہ مسافر کی تعریف میں آجاتا ہے۔
حدود شہر‘ یعنی موجودہ اصطلاح میں میونسپلٹی کی حدود سے نکلنے کے بعد‘ خواہ ایک میل کا سفر طے کیا ہو‘ نماز قصر ادا کرنا شروع کر سکتا ہے اور واپسی تک دوگانہ نماز پڑھ سکتا ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 345   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 546  
´سفر میں قصر نماز پڑھنے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ میں چار رکعتیں پڑھیں ۱؎ اور ذی الحلیفہ ۲؎ میں دو رکعتیں پڑھیں۔ [سنن ترمذي/أبواب السفر/حدیث: 546]
اردو حاشہ:
1؎:
جب حج کے لیے مدینہ سے نکلے تو مسجد نبوی میں چار پڑھی،
جب مدینہ سے نکل کر ذوالحلیفہ میقات پر پہنچے تو وہاں دو قصر کر کے پڑھی۔

2؎:
ذوالحلیفہ:
مدینہ سے جنوب میں مکہ کے راستہ میں لگ بھگ دس کیلو میٹر پر واقع ہے،
یہ اہل مدینہ کی میقات ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 546   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1201  
´مسافر قصر کب کرے؟`
یحییٰ بن یزید ہنائی کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے نماز قصر کرنے کے متعلق پوچھا تو آپ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تین میل یا تین فرسخ (یہ شک شعبہ کو ہوا ہے) کی مسافت پر نکلتے تو دو رکعت پڑھتے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة السفر /حدیث: 1201]
1201۔ اردو حاشیہ:
تین میل کی مسافت کو فرسخ (فارسی میں فرسنگ) کہتے ہیں۔ اس طرح قصر کے لئے کم از کم مسافت نو میل ہوئی۔ تین میل کی بات چونکہ مشکوک ہے، اس لئے حجت نہیں اور تین فرسخ کی مسافت احتیاط و یقین پر مبنی ہے اس لئے سفر کی مسافت (اپنے شہر کی حد چھوڑ کر) کم از کم نو میل یعنی 22، 23 کلو میٹر ہو گی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1201   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.