الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
کتاب: عیدین (عیدالفطر اور عیدالاضحی) کی نماز کے احکام و مسائل
The Book of the Prayer for the Two 'Eids
18. بَابُ : قِيَامِ الإِمَامِ فِي الْخُطْبَةِ
18. باب: امام کے کھڑے ہو کر خطبہ دینے کا بیان۔
Chapter: Imam standing during the Khutbah
حدیث نمبر: 1575
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا إسماعيل بن مسعود، قال: حدثنا خالد، قال: حدثنا شعبة، عن سماك، قال: سالت جابرا اكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يخطب قائما؟ قال:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يخطب قائما ثم يقعد قعدة ثم يقوم".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ، قال: حَدَّثَنَا خَالِدٌ، قال: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ سِمَاكٍ، قال: سَأَلْتُ جَابِرًا أَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ قَائِمًا؟ قَالَ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ قَائِمًا ثُمَّ يَقْعُدُ قَعْدَةً ثُمَّ يَقُومُ".
سماک کہتے ہیں کہ میں نے جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر خطبہ دیتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر خطبہ دیتے تھے، پھر آپ کچھ دیر بیٹھتے تھے پھر کھڑے ہو جاتے تھے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/الإقامة 85 (1105)، (تحفة الأشراف: 2184)، مسند احمد 5/87، 101 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

   سنن النسائى الصغرى1418جابر بن سمرةيخطب يوم الجمعة قائما ثم يقعد قعدة لا يتكلم ثم يقوم فيخطب خطبة أخرى
   سنن النسائى الصغرى1419جابر بن سمرةيخطب قائما ثم يجلس ثم يقوم ويقرأ آيات ويذكر الله وكانت خطبته قصدا وصلاته قصدا
   سنن النسائى الصغرى1575جابر بن سمرةيخطب قائما ثم يقعد قعدة ثم يقوم
   سنن النسائى الصغرى1583جابر بن سمرةصلاته قصدا وخطبته قصدا
   سنن النسائى الصغرى1584جابر بن سمرةيخطب قائما ثم يقعد قعدة لا يتكلم فيها ثم قام فخطب خطبة أخرى
   سنن النسائى الصغرى1585جابر بن سمرةيخطب قائما ثم يجلس ثم يقوم ويقرأ آيات ويذكر الله وكانت خطبته قصدا وصلاته قصدا
   صحيح مسلم1995جابر بن سمرةكانت للنبي خطبتان يجلس بينهما يقرأ القرآن ويذكر الناس
   صحيح مسلم1996جابر بن سمرةكان يخطب قائما ثم يجلس ثم يقوم فيخطب قائما فمن نبأك أنه كان يخطب جالسا فقد كذب فقد والله صليت معه أكثر من ألفي صلاة
   صحيح مسلم2003جابر بن سمرةكنت أصلي مع رسول الله فكانت صلاته قصدا وخطبته قصدا
   صحيح مسلم2004جابر بن سمرةكنت أصلي مع النبي الصلوات فكانت صلاته قصدا وخطبته قصدا
   جامع الترمذي507جابر بن سمرةصلاته قصدا وخطبته قصدا
   سنن أبي داود1094جابر بن سمرةكان لرسول الله خطبتان كان يجلس بينهما يقرأ القرآن ويذكر الناس
   سنن أبي داود1101جابر بن سمرةكانت صلاة رسول الله قصدا وخطبته قصدا
   سنن أبي داود1093جابر بن سمرةيخطب قائما ثم يجلس ثم يقوم فيخطب قائما فمن حدثك أنه كان يخطب جالسا فقد كذب فقال فقد والله صليت معه أكثر من ألفي صلاة
   سنن ابن ماجه1106جابر بن سمرةيخطب قائما ثم يجلس ثم يقوم فيقرأ آيات ويذكر الله وكانت خطبته قصدا وصلاته قصدا
   سنن ابن ماجه1105جابر بن سمرةيخطب قائما غير أنه كان يقعد قعدة ثم يقوم
   بلوغ المرام374جابر بن سمرةكان في الخطبة يقرا آيات من القرآن ويذكر الناس

تخریج الحدیث کے تحت حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1575  
´نماز امام کے کھڑے ہو کر خطبہ دینے کا بیان۔`
سماک کہتے ہیں کہ میں نے جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر خطبہ دیتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر خطبہ دیتے تھے، پھر آپ کچھ دیر بیٹھتے تھے پھر کھڑے ہو جاتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب صلاة العيدين/حدیث: 1575]
1575۔ اردو حاشیہ: اس روایت میں بھی عید کا ذکر نہیں ہے مگر معلوم ہوتا ہے کہ مصنف رحمہ اللہ عید کے خطبے کو جمعے کے خطبے کی طرح سمجھتے ہیں، یعنی اس کے بھی دو خطبے ہوں گے۔ درمیان میں امام بیٹھے گا۔ جمہور اہل علم اسی بات کے قائل ہیں، البتہ اس بات میں اختلاف ہے کہ درمیان میں بیٹھنا خطبے کی طوالت اور امام کی سہولت اور آرام کے لیے ہے یا اختتام خطبہ کا قرب ظاہر کرنے کے لیے؟ دوسری وجہ ہو تو دوسرا خطبہ مختصر ہونا چاہیے اور یہی درست ہے۔ پہلی وجہ ہو تو دونوں خطبے برابر ہونے چاہییں مگر یہ معمول نہیں۔ بعض محققین علماء نے عید میں ایک خطبہ ہی درست سمجھا ہے کیونکہ کسی صحیح روایت میں صراحتاً عید کے دو خطبوں کا ذکر نہیں۔ سنن ابن ماجہ کی جس روایت میں دو خطبوں کا ذکر ہے، وہ روایت ابوبحر عبدالرحمن بن عثمان بن امیہ اور اس کے شیخ اسماعیل بن مسلم الخولانی کی وجہ سے ضعیف اور ناقابل حجت ہے کیونکہ یہ دونوں راوی ضعیف ہیں۔ واللہ اعلم۔ (سنن ابن ماجہ، اقامۃ الصلوات، حدیث: 1289) بنابریں یہ کیفیت، یعنی درمیان میں بیٹھنا، صرف خطبۂ جمعہ میں ثابت ہے۔ راجح اور درست موقف یہی معلوم ہوتا ہے کہ عید میں ایک ہی خطبہ ہے۔ واللہ اعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 1575   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1093  
´کھڑے ہو کر خطبہ دینے کا بیان۔`
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (جمعہ کے دن) کھڑے ہو کر خطبہ دیتے تھے، پھر (تھوڑی دیر) بیٹھ جاتے، پھر کھڑے ہو کر خطبہ دیتے، لہٰذا جو تم سے یہ بیان کرے کہ آپ بیٹھ کر خطبہ دیتے تھے تو وہ غلط گو ہے، پھر انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! میں آپ کے ساتھ دو ہزار سے زیادہ نمازیں پڑھ چکا ہوں ۱؎۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1093]
1093۔ اردو حاشیہ:
بغیر عذر شرعی کے بیٹھ کے خطبہ دینا جائز نہیں ہے، جو لوگ مسنون خطبوں سے پہلے منبر پر بیٹھ کر بیان یا تقریر کرتے ہیں انہیں اپنے اس خلاف سنت عمل پر غور کرنا چاہیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1093   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1101  
´کمان پر ٹیک لگا کر خطبہ دینے کا بیان۔`
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز درمیانی ہوتی تھی اور آپ کا خطبہ بھی درمیانی ہوتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کی چند آیتیں پڑھتے اور لوگوں کو نصیحت کرتے تھے۔ [سنن ابي داود/تفرح أبواب الجمعة /حدیث: 1101]
1101۔ اردو حاشیہ:
➊ خطبہ جمعہ کو بہت زیادہ طویل کر دینا اور اس کے بالمقابل نماز کو مختصر رکھنا خلاف سنت ہے۔
➋ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خطبہ جمعہ صرف عربی زبان میں دینا ضروری نہیں بلکہ اس سے اصل مقصد تو یہ ہے کہ لوگوں کی اصلاح ہو اس لئے خطبہ اس زبان میں ہونا چاہیے جو لوگوں کی سمجھ میں آ سکے۔ اور وہ خطبہ سن کر اس سے نصیحت حاصل کر سکیں۔ اور ان کی زندگی میں انقلاب آئے۔
➌ اگر یہ پابندی لگا دی جائے کہ خطبہ جمعہ صرف عربی زبان میں ہو اور بس، تو عربی نہ جاننے والوں کی سمجھ میں اس سے کیا آئے گا؟ اور کیسے ان کی اصلاح ہو گی؟ اس طرح تو وعظ و نصیحت کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1101   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1106  
´جمعہ کے خطبہ کا بیان۔`
جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر خطبہ دیتے پھر بیٹھ جاتے، پھر کھڑے ہوتے اور قرآن کریم کی چند آیات تلاوت فرماتے اور اللہ کا ذکر کرتے، آپ کا خطبہ اور نماز دونوں ہی درمیانی ہوتے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1106]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
خطبے میں قرآن مجید کی آیات پڑھ کر ان کی روشنی میں مسائل بیان کرنے چاہیں۔

(2)
خطبہ بہت طویل ہو نہ بہت مختصر بلکہ درمیانہ انداز اختیار کرنا چاہیے۔

(3)
نماز بہت مختصر نہیں ہونی چاہیے۔
بعض خطباء انتہائی مختصر سورتوں کی تلاوت کرتے ہیں۔
یا لمبی سورت کی تین چار آیتیں پڑھنے پر اکتفا کرتے ہیں۔
یہ طریقہ خلاف سنت ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1106   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 374  
´نماز جمعہ کا بیان`
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن حمید کی چند آیات خطبہ جمعہ میں تلاوت فرما کر لوگوں کو نصیحت فرماتے تھے۔ (ابوداؤد) اس کی اصل مسلم میں ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 374»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الصلاة، باب الرجل يخطب علي قوس، حديث:1101، وأصله في مسلم، الجمعة، حديث:872.»
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خطبۂجمعہ میں قرآن مجید کی آیات پڑھنا مسنون ہیں۔
خطیب کو ان آیات کے ذریعے سے دنیا سے بے رغبتی‘ آخرت کی ترغیب اور اخلاق و کردار کی درستی کی طرف توجہ دلانی چاہیے۔
جتنی اصلاح آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ سے ہو سکتی ہے اور کسی ذریعے سے نہیں ہو سکتی۔
اس سلسلے میں موضوع احادیث اور من گھڑت قصے کہانیوں سے اجتناب کرنا ازحد ضروری ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث\صفحہ نمبر: 374   

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.